غزل بھی میری طرح ناتمام ہے شاید

کس کو تری دزدیدہ نظر دیکھ رہی ہے
کیا جرم کیا ہے جو ادھر دیکھ رہی ہے

اس دشمنِ فن عہد میں با ذوقِ نظر، چشم
خاموشیِ اربابِ ہنر دیکھ رہی ہے

قائم روش اپنی پہ ہے مظلوم کی فریاد
ہنگامۂ ظالم کا اثر دیکھ رہی ہے

میں بے خبر اخبار کی سطروں میں ہی گم ہوں
اور مجھ کو تواتر سے خبر دیکھ رہی ہے

وہ خواب کہ تعبیر بھی جس کی ہے بس اک خواب
وہ آنکھ جو پلکوں کا سفر دیکھ رہی ہے
 
آخری تدوین:
یہ شعر بہت اچھا ہے
ایک سوال جاننے کی غرض سے کہ آپ روش کی تقطیع کے بارے میں بتادیں کہ ش کس اصول کے تحت گرائی ہے
بہت نوازش.
ش جو کہ حرفِ صحیح ہے، ساقط نہیں کیا جا سکتا اور کیا بھی نہیں گیا. اپنی کے الف کو الفِ وصل بنا دیا گیا ہے تا کہ اسے تقطیع میں شمار نہ کیا جائے.
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت نوازش.
ش جو کہ حرفِ صحیح ہے، ساقط نہیں کیا جا سکتا اور کیا بھی نہیں گیا. اپنی کے الف کو الفِ وصل بنا دیا گیا ہے تا کہ اسے تقطیع میں شمار نہ کیا جائے.
بہت شکریہ محترم ریحان صاحب ...دوسرے.افاعیل پر تقطیع سمجھ نہیں آرہی ہے. ہوسکے تو الف کے وصال کے ساتھ تقطیع کردیں کیونکہ ش کا الف کے ساتھ وصال تو شاید مفاعیل نہیں بنا پائے گا. میں اپنے علم کے لیے پوچھ رہی ہوں.
 
بہت شکریہ محترم ریحان صاحب ...دوسرے.افاعیل پر تقطیع سمجھ نہیں آرہی ہے. ہوسکے تو الف کے وصال کے ساتھ تقطیع کردیں کیونکہ ش کا الف کے ساتھ وصال تو شاید مفاعیل نہیں بنا پائے گا. میں اپنے علم کے لیے پوچھ رہی ہوں.
قائم رَ: مفعول
وِشَ پْ نی پِ: مفاعیل
ہِ مظلوم: مفاعیل
کِ فریاد: مفاعیل
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب !

میں بے خبر اخبار کی سطروں میں ہی گم ہوں
اور مجھ کو تواتر سے خبر دیکھ رہی ہے

کیا اچھا کہا ہے ! کیا بات ہے ریحان بھائی ! بہت خوب !
 
Top