غزل براے اصلاح؛ ہاے اس بار الگ ہے یہ فسانہ دیکھو؛

من

محفلین
حسن کی مات ہے اور عشق کا دعوٰی دیکھو
ہاے! اس بار الگ ہے یہ فسانہ دیکھو

سر پہ باندھا ہے کفن جان ہتھیلی پہ لیے
آؤ نا عشق میں جینے کا تماشا دیکھو

تختہء دار سے خائف ہوں نہ زندان سے ہوں
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو

کس کے جانے کی خبر ہے کہ یہ انکھیں ہی نہیں
آسماں بھی ہے بہت ٹوٹ کہ رویا دیکھو

مجھ سے نالاں ہی رہے دوست احباب سبھی
اپنے زرّوں کو بھی میں نے ہی سمیٹا دیکھو

آنکھ میں دھول بہت جھونکی مگر جانِ جاں
ہم کہ پھر بھی نہیں بھولے ترا رستہ دیکھو​
 
مدیر کی آخری تدوین:
بہت خوب اچھی غزل ہے (رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع) وزن ہے
بہت ساری داد ہماری طرف سے اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے آمین
اسی بحر میں کلام۔۔۔۔۔۔
شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا (غزل) - مرزا اسد اللہ خان غالب
حسرتِ جلوہِ دیدار لئے پھرتی ہے (غزل) - خواجہ حیدر علی آتش
آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی (نظم) - پروین شاکر
حسن کوزہ گر نمبر 2 (آزاد نظم) - ن م راشد
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھ سے نالاں ہی رہے دوست احباب سبھی
بہت اچھی غزل ہے ۔
اس مصرع میں دوست احباب درست نہیں ۔دوست و احباب یا دوست اور احباب ہو ناچاہیئے ۔ یا اس طرح کوئی اور الفاظ کی اچھی نشست ہو نی چاہیئے ۔
اچھی غزل کی داد بہر حال اپنی جگہ۔
آخری شعر میں پہلا مصرع ذرا اور بہتر ہو سکتا ہے ۔ دھول جھونکی کے بارے میں کچھ واضح نہیں کہ کس نے جھونکی ۔
اسے مجہول کر کے جھونکی گئی کہا جاسکتا ہے ۔یا اس طرح کچھ بہتر نشست کی گنجائش ہے۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
سر پہ باندھا ہے کفن جان ہتھیلی پہ لیے
آؤ نا عشق میں جینے کا تماشا دیکھو
سر پر کفن اور جان ہتھیلی پر لینے کا لہجہ 'بے باکی اور للکار' والا ہے۔ اس لہجے کے درمیان "آؤ نا"کا پیار بھرا انداز بے محل ہے۔ اور ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ اس کا استعمال ضروری ہو۔ بہتر ہوگا کہ بدل دیںِ
اسے "آؤ اب عشق میں جینے کا تماشا دیکھو" یا "اب مرے عشق میں جینے کا تماشا دیکھو" کر سکتی ہیں، یا جو پسند آئے۔
تختہء دار سے خائف ہوں نہ زندان سے ہوں
بلکل نہیں۔ مجھے یقین ہے آپ اسی بات کو اس سے بہتر انداز میں بیان کر سکتی ہیں۔ فوری طور پر دو نشست ذہن میں آئی ہیں، لیکن میرے خیال میں شعر خالص آپ ہی کا ہو جائے تو آپ کو بھی خوشی ہوگی اور مجھے بھی۔
کس کے جانے کی خبر ہے کہ یہ انکھیں ہی نہیں
آسماں بھی ہے بہت ٹوٹ کہ رویا دیکھو
اس شعر پر یقینا زبردست کی ریٹنگ بنتی ہے۔ بہت عمدہ۔ بہت دعائیں۔
 

من

محفلین
سر پر کفن اور جان ہتھیلی پر لینے کا لہجہ 'بے باکی اور للکار' والا ہے۔ اس لہجے کے درمیان "آؤ نا"کا پیار بھرا انداز بے محل ہے۔ اور ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ اس کا استعمال ضروری ہو۔ بہتر ہوگا کہ بدل دیںِ
اسے "آؤ اب عشق میں جینے کا تماشا دیکھو" یا "اب مرے عشق میں جینے کا تماشا دیکھو" کر سکتی ہیں، یا جو پسند آئے۔

بلکل نہیں۔ مجھے یقین ہے آپ اسی بات کو اس سے بہتر انداز میں بیان کر سکتی ہیں۔ فوری طور پر دو نشست ذہن میں آئی ہیں، لیکن میرے خیال میں شعر خالص آپ ہی کا ہو جائے تو آپ کو بھی خوشی ہوگی اور مجھے بھی۔

اس شعر پر یقینا زبردست کی ریٹنگ بنتی ہے۔ بہت عمدہ۔ بہت دعائیں۔
اب مرے عشق مین زیادہ بہتر لگ رہا ہے
 

شکیب

محفلین
اب مرے عشق مین زیادہ بہتر لگ رہا ہے
تختہء دار سے خائف ہوں نہ زندان سے ہوں
بلکل نہیں۔ مجھے یقین ہے آپ اسی بات کو اس سے بہتر انداز میں بیان کر سکتی ہیں۔ فوری طور پر دو نشست ذہن میں آئی ہیں، لیکن میرے خیال میں شعر خالص آپ ہی کا ہو جائے تو آپ کو بھی خوشی ہوگی اور مجھے بھی۔
 

من

محفلین
وقت کے صحرا نے بھی گرد اڑای لیکن
ہم کہ پھر بھی نہیں بھولے ترا رستہ دیکھو

یہ مرا ظرف تھا کہ حشر بپا ہونے پر
کرچی کرچی بھی ہوا پھر بھی نہ بکھرا دیکھو
ایک شعر کو درست کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک شعر اور لکھا ہے اسے بھی دیکھ لیں پلیز
 
"فسانہ اور سمیٹا" قوافی کچھ صحیح نہیں لگ رہے۔ اور تختہء دار تو ٹھیک ہے لیکن زندان موت کا پیغام نہیں دیتا۔ مضمون تھوڑا تبدیل کریں۔ ویسے مرنے کی تمنا فورا پوری کی جا سکتی ہے بہتر ہے غالب کے مضمون سے جوڑیں کہ مرنے کی تمنا بھی زمانہ پوری نہیں ہونے دیتا

ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ کیوں جیتے ہیں غالب
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

شعر درست ایسے ہو سکتا ہے
دشت نے دور(وقت بھی آ سکتا ہے) کے بھی ریت اڑائی لیکن
ہم نہیں پھر بھی ہیں بھولے ترا رستا دیکھو



ویسے تیرا رستہ کی بھی سمجھ نہیں آئی تیرے در کا رستہ یا وہ رستہ جو تیری ملکیت میں ہے وغیرہ وغیرہ۔
 
Top