غزل براے اصلاح؛ ہاے اس بار الگ ہے یہ فسانہ دیکھو؛

شاید گرد ہی صحیح ہو مگر جب ریت آنکھوں میں جاتی ہے تب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ گرد ریگستان میں نہیں ہوتی اگر صحرا سے وہ مراد لیا جائے۔
 

من

محفلین
تختہء دار سے خائف نہ بقا کہ خواہش
مجھکو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو


یہ کیسا ہے ؟
 
ٹھیک نہ لگنے کی کوئی وجہ؟

فسانہ میں ہ بطور الف صوتی روی ہے اور سمیٹا بھی مشتق حالت میں ہے اور اس میں روی الف ہے ۔
واضح کرنے کا شکریہ جناب کیا ہم ناصر کاظمی کی طرح قوافی کا استعمال کر سکتے ہین جیسے کہ انھوں نے اس غزل میں کیا
ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول

اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول

وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں ایسے پھول

اس دھرتی کی رونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول

کسیے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول

اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول

ایک ہری کونپل کے لیے
میں نےچھوڑے کتنے پھول

اونچے اونچے لمبے پیڑ
سادے پتے پیلے پھول

مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول

مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اترے پھول

چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھوں ملتے پھول

شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول

سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول

کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول

آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول

گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول

جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی ویسے پھول

مہک اٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول

شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول

کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول

دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول
 

ابن رضا

لائبریرین
واضح کرنے کا شکریہ جناب کیا ہم ناصر کاظمی کی طرح قوافی کا استعمال کر سکتے ہین جیسے کہ انھوں نے اس غزل میں کیا
ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول


اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول


وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں ایسے پھول


اس دھرتی کی رونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول


کسیے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول


اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول


ایک ہری کونپل کے لیے
میں نےچھوڑے کتنے پھول


اونچے اونچے لمبے پیڑ
سادے پتے پیلے پھول


مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول


مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اترے پھول


چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھوں ملتے پھول


شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول


سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول


کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول


آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول


گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول


جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی ویسے پھول


مہک اٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول


شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول


کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول


دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول

ناصر کاظمی ہوں یا کوئی بھی شاعر جو رعایت ایک کے لیے وہی سب کے لیے ہے۔

ایسا مطلع جس کے پہلے مصرع کے قوافی میں اصلی روی لائیں اور دوسرے میں غیر اصلی تو دیگر اشعار میں پھر اجازت ہے کہ چاہے اصلی روی لائیں یا غیر اصلی۔ جیسے کہ

ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول


روتا میں اصل لفظ رو ہے لیکن تا کا الف بطور روی اختیار کیا گیا ہے جو کہ غیر اصلی ہے
تاہم دوسرے مصرع میں کیسے کی ے کہ مقابل لایا گیا ہے جس کی ے اصلی روی شمار کی گئی ہے۔ اب اگلے ابیات میں تیرے اچھے کرتے جھڑتے درست قوافی ہیں یہ الگ بات ہے کہ کرتے ، پھرتے ، ملتے وغیرہ میں ایطا کا عیب ہے۔ اب ہے تو ہے کیا کِیا جاسکتا ہے
 
آخری تدوین:

من

محفلین
ناصر کاظمی ہوں یا کوئی بھی شاعر جو رعایت ایک کے لیے وہی سب کے لیے ہے۔

ایسا مطلع جس کے پہلے مصرع کے قوافی میں اصلی روی لائیں اور دوسرے میں غیر اصلی تو دیگر اشعار میں پھر اجازت ہے کہ چاہے اصلی روی لائیں یا غیر اصلی۔ جیسے کہ

ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول


روتا میں اصل لفظ رو ہے لیکن تا کا الف بطور روی اختیار کیا گیا ہے جو کہ غیر اصلی ہے
تاہم دوسرے مصرع میں کیسے کی ے کہ مقابل لایا گیا ہے جس کی ے اصلی روی شمار کی گئی ہے۔ اب اگلے ابیات میں تیرے اچھے کرتے جھڑتے درست قوافی ہیں یہ الگ بات ہے کہ کرتے ، پھرتے ، ملتے وغیرہ میں ایطا کا عیب ہے۔ اب ہے تو ہے کیا کِیا جاسکتا ہے
ایطا کا کیا مطلب ہے؟ سانو تلیم دی بہت کمی
 

الف عین

لائبریرین
قوافی تو درست ہیں۔ کہیں کہیں شتر گربہ ہے۔ دیکھو ردیف سے پتہ چلتا ہے کہ صیغہ ’تم‘ کا ہے، لیکن ’تیرا رستہ‘ میں تو کا۔ یہ غلط ہے۔
یہ مصرع بحر سے خارج ہے۔
مجھ سے نالاں ہی رہے دوست احباب سبھی
زندان بھی معلنہ نون کے ساتھ مستعمل نہیں، محض زنداں استعمال کیا جاتا ہے۔ ویسے اس کے بدلے جو ترمیم کی گئی ہے، وہ مصرع درست ہے۔
دھول جھونکی‘ کے بارے میں شکیب سے متفق ہوں۔
 

من

محفلین
3تختہء دار سے خائف نہ بقا کہ خواہش
مجھکو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو
قوافی تو درست ہیں۔ کہیں کہیں شتر گربہ ہے۔ دیکھو ردیف سے پتہ چلتا ہے کہ صیغہ ’تم‘ کا ہے، لیکن ’تیرا رستہ‘ میں تو کا۔ یہ غلط ہے۔
یہ مصرع بحر سے خارج ہے۔
مجھ سے نالاں ہی رہے دوست احباب سبھی
زندان بھی معلنہ نون کے ساتھ مستعمل نہیں، محض زنداں استعمال کیا جاتا ہے۔ ویسے اس کے بدلے جو ترمیم کی گئی ہے، وہ مصرع درست ہے۔
دھول جھونکی‘ کے بارے میں شکیب سے متفق ہوں۔
 

شکیب

محفلین
مجھ تو بہتر نہیں ہو سکا یہ شعر اپ ہی کچھ بتاییں
معافی چاہتا ہوں۔ اس پر نظر نہیں پڑی۔
تختہء دار سے خائف نہ بقا کہ خواہش
مجھکو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو


یہ کیسا ہے ؟
اب ٹھیک ہے۔
وقت کے صحرا نے بھی گرد اڑای لیکن
ہم کہ پھر بھی نہیں بھولے ترا رستہ دیکھو
وقت کے صحرا نے بھی = وقت کے صحرَ نِ بھی[دورانِ تقطیع]
اسے یوں کرلیں!
نقشِ پا وقت کے آندھی سے پسِ خاک ہوئے /تہِ خاک ہوئے/آندھی نے مٹا ڈالے مگر
ہم کہ پھر بھی نہیں بھولے ترا رستہ دیکھو
 

من

محفلین
وقت کے صحرا نے بھی = وقت کے صحرَ نِ بھی[دورانِ تقطیع]
اسے یوں کرلیں!
نقشِ پا وقت کے آندھی سے پسِ خاک ہوئے /تہِ خاک ہوئے/آندھی نے مٹا ڈالے مگر
ہم کہ پھر بھی نہیں بھولے ترا رستہ دیکھو[/QUOTE]
واہ بہت خوب ہو گیا میں یوں کرنے کی کوشش کی تھی وقت کے صحرا نے بھی ریت اڑای
معافی چاہتا ہوں۔ اس پر نظر نہیں پڑی۔
واہ خوب ہو گیا میں کچھ اس طرح ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی
وقت کے صحرا نے بھی ریت اڑائی لیکن
دشت میں بھی نہیں بھولے ترا رستہ دیکھو

اب ٹھیک ہے۔

وقت کے صحرا نے بھی = وقت کے صحرَ نِ بھی[دورانِ تقطیع]
اسے یوں کرلیں!
نقشِ پا وقت کے آندھی سے پسِ خاک ہوئے /تہِ خاک ہوئے/آندھی نے مٹا ڈالے مگر
ہم کہ پھر بھی نہیں بھولے ترا رستہ دیکھو
 
Top