غزل برائے تنقید

زرقا مفتی

محفلین
اہل بزم
تسلیمات
اپنی معمولی سی غزل تنقید کے لئے پیش کر رہی ہوں۔ امید ہے احباب توجہ فرمائیں گے
والسلام
زرقا



غزل
پھولوں بھری بہار خزاں میں بدل گئی
چاہت کی چاندنی بھی اماوس میں ڈھل گئی
تتلی بنی میں اُڑتی رہی تیز دھوپ میں
خواہش کے پر جلے تو میں بھی ساتھ جل گئی
سہمی ہوئی ہیں خوف سے کلیاں چمن میں کیوں
کیا پھر کسی گلاب کو لے کر اجل گئی
اب دشتِ آرزو میں ہے بے برگ ہر شجر
اس موسمِ فراق میں ہر شاخ جل گئی
لا کر میرے قریب تجھے دور کر دیا
تقدیر میرے ساتھ کوئی چال چل گئی
انجان اس قدر تو مرے حال سے ہوا
جو رہ گئی تھی دل میں محبت نکل گئی
تیری جفا کو ہر اک خطا کو بھلا دیا
تیرے نئے بہانے سے پل میں بہل گئی
دل میں دبی ہوئی تھی جو حسرت بھڑک اُٹھی
جذبات کے دھوئیں میں انا پھر پگھل گئی
شرطیں تری اصول ترے مان کر سبھی
میں موم کی طرح ترے سانچے میں ڈھل گئی
﴿زرقاؔمفتی﴾


 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جی آپ کی غزل بہت اچھی ہے شعراء حضرات کا انتظار ہے
لیکن بہتر ہوتا آپ اپنی غزل شاکر صاحب کی غزل پر تنقید مکمل ہونے کے بعد ارسال کرتی
 

نوید صادق

محفلین
زرقا!
سب سے پہلا گلہ تو مجھے یہ کرنا ہے کہ آپ نے اپنی غزل کو معمولی کیوں کہا۔
یہ ایک تخلیق ہے اور تخلیق کبھی معمولی یا بدصورت نہیں ہوتی۔
تخلیق تو تخلیق ہوا کرتی ہے۔اور تخلیق کار کوئی چھوٹا انسان نہیں ہوتا۔

اب آتے ہیں آپ کی غزل کی طرف:

پھولوں بھری بہار خزاں میں بدل گئی
چاہت کی چاندنی بھی اماوس میں ڈھل گئی

دیکھئے بہار تو بہار ہوتی ہے، بہار کے ساتھ پھول پتے مشروط ہوتے ہیں۔ پھر ہمیں بہار کے لئے "پھولوں بھری بہار" استعمال کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ جب آپ بہار کہیں گی تو ذہن میں جو تصویر بنے گی اس میں پھول تو ہونگے ہی۔
چاندنی-چاہت کی چاندنی کا اماوس میں ڈھل جانا اچھا ہے، دیکھئے ایک دم چاندنی رات میں چاند چھپ جائے تو دل پر کیا گزرتی ہے، اور وہ بھی ایک تخلیق کار کے دل پر۔
لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ
بہار خزاں میں کیوں بدل گئی؟
چاہت کی چاندنی اماوس میں کیوں ڈھل گئی؟
آپ نے ایک منظر تو بنا لیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا پس منظر کیا ہے؟
یہ منظر یونہی تو نہیں بنا، کچھ توجیہ بھی دینا ہو گی۔


تتلی بنی میں اُڑتی رہی تیز دھوپ میں
خواہش کے پر جلے تو میں بھی ساتھ جل گئی

دوسرےمصرعہ میں "میں بھی ساتھ" بہت عجیب لگ رہا ہے۔نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ پہلا مصرعہ خوب ہے۔


سہمی ہوئی ہیں خوف سے کلیاں چمن میں کیوں
کیا پھر کسی گلاب کو لے کر اجل گئی

دوسرا مصرعہ عمدہ ہے، لیکن پہلے مصرعہ میں اگر سوال کو تھوڑا دبا کر پیش کیا جاتا تو لطف آ جاتا۔ خیال بھی عمدہ ہے۔

اب دشتِ آرزو میں ہے بے برگ ہر شجر
اس موسمِ فراق میں ہر شاخ جل گئی

اچھا شعر ہے۔

لا کر مرے قریب تجھے دور کر دیا
تقدیر میرے ساتھ کوئی چال چل گئی

ایک اچھا شعر ہے، اگر دوسرے مصرعہ میں "نئی چال" آ جائے تو شعر کی خوبصورتی میں مزید نکھار آ جائے۔

انجان اس قدر تو مرے حال سے ہوا
جو رہ گئی تھی دل میں محبت نکل گئی

پہلا امصرعہ اچھا ہے۔ مجموعی طور پر شعر مناسب ہے۔

تیری جفا کو ہر اک خطا کو بھلا دیا
تیرے نئے بہانے سے پل میں بہل گئی

پہلا مصرعہ بے وزن ہے۔ یوں وزن میں آ سکتا ہے " تیری جفا کو، تیری خطا کو بھلا دیا" (یہ محض مثال دی گئی ہے)


دل میں دبی ہوئی تھی جو حسرت بھڑک اُٹھی
جذبات کے دھوئیں میں انا پھر پگھل گئی

یہ شعر محض بھرتی کا لگ رہا ہے۔

شرطیں تری اصول ترے مان کر سبھی
میں موم کی طرح ترے سانچے میں ڈھل گئی

بہت خوب! ہو سکتا ہے بعض احباب "طرح " کے استعمال پر اعتراض کریں لیکن اس میں ایسی کوئی خاص قباحت نہیں ہے۔

زرقا!
آپ کے ہاں پوٹینشل ہے، محض اسے نکھارنے کی ضرورت ہے۔ ایک آدھ مصرعہ میں روانی متاثر ہوتی نظر آتی ہے لیکن مجموعی طور پر آپ کی کوشش قابلِ تحسین ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
وارث بھائی!

خالی شکریہ سے تو کام نہیں چلنے کا۔ آپ کی تفصیلی رائے بھی درکار ہے۔ تنقیدی محفل میں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اور ہاں جہاں میں غلط ہوں تو ضرور بتا دیجے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بس نوید بھائی کیا بتاؤں، میں اس کام کے قابل نہیں ہوں، یہ بہت بھاری کام ہے میرے لئے۔ میں تو صرف داد دے سکتا ہوں سو وہ دیتا ہوں مقدور بھر۔ دوسرے 'بحر خفیف' کے ساتھ مگن تھا، کام ختم ہوا تو اب ادھر ادھر دیکھوں گا۔

اور رہی آپ کی رائے تو بھائی یہ عرض کرتا چلوں کہ آپ نہ صرف شاعر بہت اچھے ہیں بلکہ نقاد بھی اور اس غزل پر آپ کی تمام باتیں بالکل بجا اور خوب ہیں۔

محترمہ زرقا مفتی صاحبہ بہت ٹیلینٹڈ ہیں ماشاءاللہ، اور ٹیلنٹ اپنا جوہر دکھا کر ہی رہتا ہے، اللہ تعالٰی ان کو اس فن میں ترقی دے۔
 

نوید صادق

محفلین
وارث بھائی!
بحر خفیف پر آپ کا کام لائقِ تحسین ہے۔ کسی زمانہ میں میں عروض میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ دور ہوتا چلا گیا۔ اب ارکان تو یاد رہتے ہیں، لیکن اکثر اوقات بحروں کے نام ذہن میں نہیں رہتے۔
لیکن بحرِ خفیف بھولنے والی چیز نہیں۔
خیز محترمہ زرقا بھی کیا کہیں گی کہ ہم دونوں اپنی کہانی لے بیٹھے، تو بات غزل کی طرف رہے تو اچھا ہے۔
تو دوستو!!!
آپ کی رائے کا انتظار ہے!!!
 

زرقا مفتی

محفلین
وارث صاحب
شاکر صاحب کی غزل پر آپ کا تبصرہ پڑھنے کا اتفاق ہوا
اس کے بعد آپ کا یہ کہنا کہ آپ اس کام کے قابل نہیں ۔۔۔۔۔
آپ کی دعا کے لئے شکریہ
والسلام
زرقا
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب
شاکر صاحب کی غزل پر آپ کا تبصرہ پڑھنے کا اتفاق ہوا
اس کے بعد آپ کا یہ کہنا کہ آپ اس کام کے قابل نہیں ۔۔۔۔۔
آپ کی دعا کے لئے شکریہ
والسلام
زرقا

بہت شکریہ زرقا مفتی صاحبہ کے آپ نے ایسا سمجھا حالانکہ میں کسرِ نفسی سے نہیں حقیقتِ حال سے کام لے رہا ہوں۔ :)

آپ کی غزل پر بھر پور رائے جناب نوید صادق دے چکے ہیں اور ان کی کئی باتوں سے مجھے اتفاق ہے مثلاً مطلع الفاظ کا زائد استعمال وغیرہ۔

مجموعی طور پر غزل کا تاثر بہت اچھا ہے اور ایک کسک، ایک لگن، ایک درد، ایک امنگ کا احساس نمایاں ہے اور یہی احساس ہے جو کسی بھی تخلیق کار کو کسی بھی تخلیق پر مجبور کرتا ہے اور شاید اس جذبے اور احساس کے بغیر کوئی تخلیق ممکن ہی نہ ہو۔

بیت الغزل میری نظر میں یہ شعر ہے

سہمی ہوئی ہیں خوف سے کلیاں چمن میں کیوں
کیا پھر کسی گلاب کو لے کر اجل گئی

کلی، گلاب اور اجل کی تثلیث ایک ایسا خیال، ایک ایسا سوال ہے جس نے ابتدائے آفرینش سے انسان کو مضطر رکھا ہے۔ مذہب، فلسفہ، ادب، شاعری میں یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے۔ اس شعر میں یہ خیال آپ کے اپنے رنگ سے مجھے بہت پسند آیا ہے۔ آپ نے اس شعر کے مصرع اولٰی میں جو بات بیان کی ہے وہ بھی تصویر کا ایک رخ ہی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ خاطر غزنوی کے الفاظ میں

پھر بھی چٹکی، پھر بھی ہنسی
دیکھ کے سب حالات کلی

اور کلی سہم جانے کی بجائے 'ہنسے' گی تو پھول بنے گئی۔

اور اب کچھ بات نوید صادق صاحب کی اس رائے پر جو انہوں نے آپ کے اس شعر پر دی ہے۔



تیری جفا کو ہر اک خطا کو بھلا دیا
تیرے نئے بہانے سے پل میں بہل گئی

پہلا مصرعہ بے وزن ہے۔ یوں وزن میں آ سکتا ہے " تیری جفا کو، تیری خطا کو بھلا دیا" (یہ محض مثال دی گئی ہے)


اس بحر (مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف) کے رکن کچھ اسطرح سے ہیں (جیسے کہ اہلِ علم جانتے ہیں)

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

پہلے مصرع میں شاعرہ نے 'الف وصل' سے کام لیا ہے یعنی اسکی اگر تقطیع کریں تو

تیری جَ - مفعول
فا کُ ہر ک ۔ فاعلات
خطا کو بُ ۔ مفاعیل
لا دیا ۔ فاعلن

اسلئے میرے نزدیک یہ مصرع بے وزن نہیں بلکہ موزوں ہے۔ 'الف وصل' کا استعمال پروفیسر فرانسس پرچیٹ کی اردو عروض پر کتاب میں دیکھئے

http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00ghalib/meterbk/03_special.html?urdu

الف وصل کا ذکر انہوں نے الفاظ کی پیوند کاری Word-graftin کے تحت کیا ہے۔

دراصل الف وصل استعمال کرکے وزن کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ مثالوں میں غالب اور میر کے اشعار دیکھیئے۔

غالب
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و ماہ تماشائی

یہ غزل بحر خفیف میں ہے اور پہلے مصرعہ بے وزن ہو جائے اگر ہم اس کو اس انداز سے نہ تقطیع کریں

پھر س اندا - فاعلاتن
ز سے بہا - مفاعلن
رائی ۔ فعلن

صرف اس پہلے مصرعے میں غالب نے الف وصل دو دفع گرایا ہے، پہلے 'اس' کا الف اور پھر 'آئی' کے الف مد کا ایک الف۔ ان دونوں الفوں کو گرائے بغیر یہ شعر موزوں نہیں ہو سکتا۔

میر کا شعر

قصد اگر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے

اس شعر کے پہلے مصرعے میں بھی اگر 'اگر' کا الف نہ گرائیں تو شعر بے وزن ہوگا یعنی

قصد گر ام - فاعلاتن
تحان ہے - مفاعلن
پارے - فعلن

اب یہ تو میر ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ جب یہ مصرع اس طرح بھی موزوں تھا 'قصد گر امتحان ہے پیارے' تو انہوں نے 'گر' کی بجائے 'اگر' کیوں استعمال کیا کہ تقطیع میں 'اگر' کا الف وصل گرانا پڑا، شاید روانی مصرعے کی روانی بہتر ہوتی ہے 'اگر' کے ساتھ۔

اسی طرح دوسرے شعرائے کرام (بلکہ سبھی شعرا) کے کلام سے ایسے شعر ملیں گے جن میں الف وصل کا استعمال ہوا ہے۔ طوالت سے بچنے کیلیے بات ختم کرتا ہوں۔

امید ہے اس موضوع پر محفل کے اساتذہ اعجاز عبید اور شاکر القادری صاحب بھی اپنی رائے دیں گے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سب کی باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہے نوید بھائی بہت اچھی تنقید کرتے ہیں اور تنقید کم اصلاح زیادہ ہوتی ہے شاکر صاحب اور وارث صاحب بھی کمال کے ہیں ان کی تحریر بھی دل میں اتر جاتی ہے اور اختر صاحب تو سب کے استاد ہے ہم جیسے تو صرف پڑھ ہی سکتے ہیں بہت خوب آپ سب کی رائے پڑھ کر بہت اچھا لگا ہے شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
وارث کی بات کے سلسلے میں بعد میں۔ فی الحال جو میں لکھ کر لایا ہوں، وہ کاپی پیسٹ کر دوں:

پھولوں بھری بہار خزاں میں بدل گئی
چاہت کی چاندنی بھی اماوس میں ڈھل گئی
کیوں بھلا؟ یہ قاری خود ہی ’ٖFill in the Blanks کر لے۔ اچھا شعر ہے، کچھ ابہام تو شعر کی خوبی ہوتی ہے۔

تتلی بنی میں اُڑتی رہی تیز دھوپ میں
خواہش کے پر جلے تو میں بھی ساتھ جل گئی

پہلا مصرعہ بے پناہ ہے، لیکن دوسرے مصرعے کا "مِبھی‘ رکن عروضی ہی نہیں غنائیت کے حساب سے بھی برا تاثر چھوڑتا ہے۔ پھرخواہش کے پر بھی تو اسی تتلی کے ہوں گے جو آپ بنی ہوئی تھیں! پھر پروں کے ساتھ جلنا چہ معنی دارد؟ کہنا تو یہ چاہئے کہ میرے پر جل گئے، پروں کے ساتھ میں کس طرح جل گئی؟؟ اس سے تو یہ لگتا ہے کہ آپ نے پر لگا رکھے تھے، آپ کے اپنے نہیں تھے!! میرا مشورہ ہے کہ پہلے مصرعے پر نئی گرہ لگائیں۔

سہمی ہوئی ہیں خوف سے کلیاں چمن میں کیوں
کیا پھر کسی گلاب کو لے کر اجل گئی

کلاسیکی انداز کا سیدھا سادہ شعر ہے، کوئی بہت نئی بات تو نہیں لیکن تاثر اچھا دیتا ہے (ایک مذاق کی بات۔ یوں نہیں لگتا جیسے اجل گلاب کو لے کر نہیں گئی بلکہ بلّی جھپٹّا مار کر کبوتر لے گئی!!)

اب دشتِ آرزو میں ہے بے برگ ہر شجر
اس موسمِ فراق میں ہر شاخ جل گئی

بہت اچھے زرقا۔ اچھا شعر ہے۔ بس سراج کی یاد دلاتا ہے۔ کیا کہا ہے ظالم نے کہ
مگر ایک شاخِ نہالِ غم کہ ہری رہی سو ہری رہی

لا کر میرے قریب تجھے دور کر دیا
تقدیر میرے ساتھ کوئی چال چل گئی

پہلی بات۔ پہلے مصرعے میں ’میرے‘ نہیں ’مرے‘ بحر میں آئے گا۔ لیکن کہنا کیا چاہ رہی ہو بھئ؟ کس کو قریب لا کر؟ یہ ابہام معنی خیز نہیں لگتا۔

انجان اس قدر تو مرے حال سے ہوا
جو رہ گئی تھی دل میں محبت نکل گئی

یہ بھی اچھا شعر ہے، لیکن ’تو‘ کی بجائے ’وہ‘ کر دیا جائے تو زیادہ موزوں بھی ہو جاتا ہے اور متاثر کن بھی۔

تیری جفا کو ہر اک خطا کو بھلا دیا
تیرے نئے بہانے سے پل میں بہل گئی

نوید نے شاید بتا دیا ہے کہ وزن میں نہیں ہے پہلا مصرعہ کہ بحر میں "ہرک خطا‘ آتا ہے جو درست نہیں۔ یہاں بھی ’تیرے‘ حذف کیا جا سکتا ہے۔ ہر اک جفا ہر ایک خطا کو بھلا دیا۔ اور دوسرے مصرعے کو یوں کر دیں تو کیسا رہے؟
اس نےنیا بہانہ کیا، پھر بہل گئی
لیکن اس صورت میں پہلا مصرعہ یوں ہوگا
پھر اس کی ہر خطا کو فراموش کر دیا
یا پھر
پل بھر میں اس کی ساری جفا/خطا کو بھلا دیا
اس نےنیا بہانہ کیا، پھر بہل گئی
لو یہ تو میں تنقید کی جگہ اصلاح کر گیا۔۔

دل میں دبی ہوئی تھی جو حسرت بھڑک اُٹھی
جذبات کے دھوئیں میں انا پھر پگھل گئی

دھوئیں میں کچھ پگھل سکتا ہے کیا؟ پگھلنے کے لئے شعلہ یا کم از کم حرارت چاہئے۔ اس سائنسی مسئلے کے باوجود شعر ٹھیک ہی ہے اگرچہ اتنا خاص بھی نہیں۔

شرطیں تری اصول ترے مان کر سبھی
میں موم کی طرح ترے سانچے میں ڈھل گئی

طرح کے استعمال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، لیکن میں خود بھی اس قسم کے استعمال کو جائز سمجھتا ہوں۔ مجھے یہ شعر بھی اچھا لگا۔
مجموعی طور پر غزل بہت اچھی ہے۔ کسی بھی غزل میں اگر دو شعر بھی واقعی اچھے ہوں تو اسے کامیاب غزل کہا جا سکتا ہے، اور اس میں تو مجھے شاید تین اشعار پسند آئے۔ ولیکن یہ میں ایسے لکھ رہا ہوں جیسے مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ (صدارت کا زعم سر چڑھ کر بول رہا ہے شاید)
 

الف عین

لائبریرین
وارث کی بات پر مختصراً لکھ رہا ہوں کہ بحرِ خفیف میں الف کا گرنا اور یہاں کا زرقا کا استعمال کچھ مختلف لگ رہا ہے۔ فاعلاتن میں ع میں حرکت ہے نا، لیکن یہاں
تیری جفا کو ہر اک خطا کو بھلا دیا
تیری ج۔۔ مفعول
فاک ہرک۔ فاعِلات

یہاں ر پر سکون ہے۔
اب یہ مثالیں دیکھو
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
اور
ہر اک بار وہ یوں ہی چپ چپ رہا ہے
(فعولن فعولن فعولن فعولن فعول)
پہلے مصرعے میں ’ایک‘ مکمل ہے۔ اور تقطیع ’ہریک‘ ہو گی۔ یہاں بھی ر متحرک ہے
دوسری مثال میں ’اک‘ ہی ہے۔ لیکن یہاں تقطیع ’ہرِک‘ ہوگی۔ اور ’ر‘ پھر متحرک ہے۔
تم نے جو مثالیں دی ہیں، ان سب میں ’ر‘ متحرک ہے، اس لئے جائز ہے۔
لیکن زرقا کے مصرعے میں ’ہرک‘ آتا ہے، ہ بالفتح، ر باسلکون اور کاف دوبارہ بالسکون۔ اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔ اس طرح نوید صادق کی بات درست ہے کہ وزن درست نہیں ہے اس مصرعے میں۔
میں عروض کا ایسا ماہر تو نہیں، لیکن والد کی صحبت میں جو کچھ سیکھا ہے، اس کو کامن سینس کے ساتھ استعمال کر لیتا ہوں۔ بحور کے نام وغیرہ مجھے قطعی یاد نہیں رہتے، اگرچہ تقطیع کر لیتا ہوں۔ اس وقت محض یہ غور کرنا پڑا کہ مجھ کو یہ غلط کیوں اور وارث کی مثالیں درست کیوں لگ رہی ہیں۔
 

اچانک

محفلین
محترمہ زرقا جی
میں نے آپ کی غزل پڑھی کما ل کر دیا آپ نے اور اتنے لوگوں نے اس پر اصلاح کی ہے میں تو طٍفل مکتب ہوں ان ساتزہ لرام کے سامنے لیکن آپ کی غزل لائق تحسین ہے
اچانک
 
Top