غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔۔۔۔۔محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ۔۔۔۔ممنون رہوں گا ۔۔۔۔
جب سے چمکا ہے مقدر مرا جگنو کی طرح
دیکھتے ہیں مجھے کچھ لوگ اب الّو کی طرح
مری غربت نے اسے دور کیا ہے ورنہ
مرا بھی پہلو تھا اس غیر کے پہلو کی طرح
اپنی دولت جو لٹانے لگا ہے سڑکو پر
ارے یہ نیتا ہے پھر لوٹے گا ڈاکو کی طرح
آپ نے دل تو بنایا ہے حسیں کاغذ پر
نوک آتی ہے نظر اس کی بھی چاقو کی طرح
ہوش میں آنے کا اب دل بھی نہیں کرتا ہے
چڑھی ہے سر پہ تری یاد تو دارو کی طرح
بات سچی ہے کہ دنیا نے ترقی کر لی
اب تو شیطان نظر آتا ہے سادھو کی طرح
یہ بلندی مجھے اب راس نہیں آ سکتی
اپنی نظروں سے میں کب کا گرا آنسو کی طرح
سنا ہے آپ کو ہندی سے بڑی الفت ہے
ایک محبوب ہمارا بھی ہے اردو کی طرح
آج سے ٹوٹ گیا خون کا رشتہ اپنا
ڈنک جو مار دیا آپ نے بچّھو کی طرح
کچھ برے کام تو ہم نے بھی کیے ہیں لوگو
صرف صورت سے نظر آتے ہیں بابو کی طرح
کرے تو نور مگر کس پہ بھروسہ کر لے
یہاں تو لوگ بدل جاتے ہیں جادو کی طرح
 

الف عین

لائبریرین
جب سے چمکا ہے مقدر مرا جگنو کی طرح
دیکھتے ہیں مجھے کچھ لوگ اب الّو کی طرح
۔۔درست۔ اگرچہ یہ واضح نہلیںً ہوا کہ لوگوں کو تم الو کی طرح نظر آ رہے ہو یا وہ لوگ ہی الوؤں کی طرح دیکھ رہے ہیں؟

مری غربت نے اسے دور کیا ہے ورنہ
مرا بھی پہلو تھا اس غیر کے پہلو کی طرح
÷÷پوری غزل میں اکثر جگہ پہلا رکن فاعلاتن میں کچھ حروف گرا کر وزن پورا کیا گیا ہے جو اکثر جگہ درست نہیں۔ یہاں ’میر بی پہلَ تَ‘ (میرا کا محل ہے، ’مرا‘ کا نہیں) سخت نا گوار ہے

اپنی دولت جو لٹانے لگا ہے سڑکو پر
ارے یہ نیتا ہے پھر لوٹے گا ڈاکو کی طرح
÷÷’لگَ ہے‘ ’نیتَ ہے‘، لوٹِ گَ‘ میں وہی مسئلہ ہے۔

آپ نے دل تو بنایا ہے حسیں کاغذ پر
نوک آتی ہے نظر اس کی بھی چاقو کی طرح
۔۔درست

ہوش میں آنے کا اب دل بھی نہیں کرتا ہے
چڑھی ہے سر پہ تری یاد تو دارو کی طرح
۔۔چڑ۔ ھِ تقطیع ہوتاہے۔ ’چڑھی‘ فعو کی طرح ہونا چاہیے۔ ’چڑھ گئی‘ کیا جا سکتا ہے۔

بات سچی ہے کہ دنیا نے ترقی کر لی
اب تو شیطان نظر آتا ہے سادھو کی طرح
÷÷درست

یہ بلندی مجھے اب راس نہیں آ سکتی
اپنی نظروں سے میں کب کا گرا آنسو کی طرح
÷÷گرا آنسو‘ میں گرا کا الف کا اسقاط اچھا نہیں۔
گر گیا اپنی ہی نظروں سے میں آنسو کی طرح
کر دو

سنا ہے آپ کو ہندی سے بڑی الفت ہے
ایک محبوب ہمارا بھی ہے اردو کی طرح
۔۔’سُن اَہے‘ غلط ہے۔

آج سے ٹوٹ گیا خون کا رشتہ اپنا
ڈنک جو مار دیا آپ نے بچّھو کی طرح
۔۔درست

کچھ برے کام تو ہم نے بھی کیے ہیں لوگو
صرف صورت سے نظر آتے ہیں بابو کی طرح
۔۔درست

کرے تو نور مگر کس پہ بھروسہ کر لے
یہاں تو لوگ بدل جاتے ہیں جادو کی طرح
۔۔کرِ تو‘ اور ’یہَ تو‘ تقطیع ہو رہا ہے÷۔ یہ بھی بے جا اسقاط ہے
 

شہنواز نور

محفلین
جب سے چمکا ہے مقدر مرا جگنو کی طرح
میں زمانے میں بکھرنے لگا خوشبو کی طرح
میری غربت نے اسے دور کیا ہے ورنہ
میرا پہلو تھا اسی غیر کے پہلو کی طرح
پہلے دولت ہی لٹاتے ہیں سیاست والے
بعد میں لوٹ لیا کرتے ہیں ڈاکو کی طرح
دوستو آپ کو ہندی سے بڑی الفت ہے
ایک محبوب ہمارا بھی ہے اردو کی طرح
ایسی دنیا کا نہیں نور بھروسہ کوئ
آدمی پل میں بدل جاتے ہیں جادو کی طرح

الف عین سر اسے دیکھ لیں برائے مہربانی ۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اب تکنیکی طور پر درست ہے غزل تو دوسرے پہلو یعنی معنوی اعتبار سے دیکھ رہا ہوں۔
مطلع۔۔ کوئی قرینہ نظر نہیں آتا کہ جگنو کی طرح چمکنے کی وجہ سے خوشبو کی طرح کوئی بکھر سکتا ہے۔ بکھرنا فعل سے بھی دو مطلب لئے جا سکتے ہیں۔ ایک ساری فضا کو معطر کر دینا، مثبت۔ اور دوسرے، بکھر کر مٹ جانا ۔ منفی۔
دوسرے شعر میں بھی اسی طرح غربت اور پہلو کے مقابلے کا کوئی تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔
آخری تینون شعر درست ہیں۔ البتہ آخری شعر میں ’ایسی‘ دنیا کی کوئی توجیہ نہیں ہے۔ اب تو، اپنی، کیا جا سکتا ہے یا دنیا کی بجائے ’اس زمانے‘ استعمال کیا جا سکتا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شہنواز نور صاحب! اچھی کاوش ہے اور اس کے لئے بہت داد!
اچھی بات یہ ہے کہ استاد محترم آپ کی رہنمائی فرما رہے ہیں ۔ بس میں یہ عرض کروں گا کہ غزل ایک خاص زبان اور لب و لہجے کی متقاضی ہے ۔ اور غزل کی زبان اساتذہ کو پڑھنے سے آتی ہے ۔مطلع کے دوسرے مصرع میں الو کی طرح دیکھنے والی بات پسند نہیں آئی ۔ اس طرح کی غیر شاعرانہ بات پڑھنے کے بعد کوئی بھی قاری بقیہ غزل نہین پڑھے گا ۔ منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے ایسے شعر کے بعد۔ مزاحیہ شاعری کی بات اور ہے لیکن سنجیدہ غزل میں یہ اچھی بات نہیں ۔ امید ہے آپ اس مثبت تبصرے کا برا نہیں مانیں گے ۔
 

شہنواز نور

محفلین
محترم ظہیر احمد ظہیر صاحب بہت شکریہ آپ کی قیمتی رائے کا ۔۔۔اس میں برا ماننے کی بات ہی نہیں البتہ میں سپاس گزار ہوں آپ کی رہنمائی کے لئے ۔۔۔
 
Top