میر شعیب

محفلین
محمد احسن سمیع : راحل :سر،
الف عین سر، @محترم محمّد خلیل الرحمٰن ،
سید عاطف علی سر اور
آپ سبھی احباب سے اصلاح کی گزارش۔

وہ محفل میں آتے ہیں ہر بار بن کر۔
کہ ہر آنکھ لوٹے خطا کار بن کر۔

زمینِ چمن کو نہ جانے ہوا کیا
کہ آتی قاتل کی سرکار بن کر

یہ ہم کو مٹانے کی سازش ہے شاید
سبھی لوگ آئیں ہیں غمخوار بن کر
ستم گر نے آخر ہمیں مار ڈالا
کبھی پھول بن کر کبھی خار بن کر

مری قوم اتنی کیوں منتشر ہے
ذرا مل کے رہ لو وفا دار بن کر

نگاہوں کو تیری طلب تھی مگر تو
جو آیا تو آیا ہے تلوار بن کر

مرے قتل پر اب سیاست کریں گے
لہو چوس لیں گے یہ خونخوار بن کر

از قلم خود

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عزیزم یہ جو ٹیگ تم نے دئے ہیں، یہ تلاش کی آسانی کے لیے ہیں، توجہ مبذول کرنے والے ٹیگ صرف ناموں پر@ لگانے سے بنتے ہیں جس طرح تم نے ٹیگس لگائے ہیں!
فرصت میں بعد میں آتا ہوں ان شاء اللہ
 
وہ محفل میں آتے ہیں ہر بار بن کر۔
کہ ہر آنکھ لوٹے خطا کار بن کر۔
غالباً یہاں بن سنور کر آنا مراد ہے ۔۔۔ تاہم محض ’’بن کر آتے ہیں‘‘ کہنے سے کچھ ابہام رہ جاتا ہے کہ ’’بننا‘‘ تو جان بوجھ کر انجان رہنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے، جس کا یہاں محل نہیں
لُوٹے یا لَوٹے؟؟؟ ۔۔۔ مطلع دوبارہ کہیں، یہ والا کچھ خاص نہیں لگا۔

زمینِ چمن کو نہ جانے ہوا کیا
کہ آتی قاتل کی سرکار بن کر
مفہوم واضح نہیں ہو سکا۔

یہ ہم کو مٹانے کی سازش ہے شاید
سبھی لوگ آئیں ہیں غمخوار بن کر
آئیں ہیں کو آتے ہیں کرنا زیادہ مناسب رہے گا۔ مگر یہاں بھی بات نامکمل سی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی کہنا لوگوں کے بظاہر غم خواری کے پردے میں نقصان پہنچانے کی خو کو سازش سے تعبیر کیا گیا ہے، مگر اس بیانیے کے لیے الفاظ پورے نہیں شعر میں۔

مری قوم اتنی کیوں منتشر ہے
ذرا مل کے رہ لو وفا دار بن کر
پہلا مصرع بحر میں نہیں۔
دونوں مصرعوں میں ربط کی بھی کمی ہے۔ ایک تو انتشار کا وفاداری سے تعلق مجہول ہے۔ دوسرے یہ کس کے وفادار بن کر رہنے کی بات ہو رہی ہے، یہ بھی واضح نہیں۔

نگاہوں کو تیری طلب تھی مگر تو
جو آیا تو آیا ہے تلوار بن کر
یہ بھی واضح نہیں۔ آپ کی نگاہوں کو اس کی طلب تھی، یا اس کی نگاہوں کو کسی اور چیز کی ۔۔۔ پہلے مصرعے کے الجھاؤ کے سبب یہ بات صاف نہیں تھی۔
پھر محبوب کا تلوار بن کر آنا بھی کوئی خاص معنویت پیدا نہیں کر رہا۔

مرے قتل پر اب سیاست کریں گے
لہو چوس لیں گے یہ خونخوار بن کر
کون لہو چوس لے گا؟؟ یہ واضح نہیں۔
 

میر شعیب

محفلین
غالباً یہاں بن سنور کر آنا مراد ہے ۔۔۔ تاہم محض ’’بن کر آتے ہیں‘‘ کہنے سے کچھ ابہام رہ جاتا ہے کہ ’’بننا‘‘ تو جان بوجھ کر انجان رہنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے، جس کا یہاں محل نہیں
لُوٹے یا لَوٹے؟؟؟ ۔۔۔ مطلع دوبارہ کہیں، یہ والا کچھ خاص نہیں لگا
جیسے میری مراد اس مصرعے میں بن سنور کر آنا ہی ہے۔ جان بوجھ کر بننا یہاں مراد نہیں ہے۔
دوسرے مصرعے میں لُوٹے نہیں لَوٹے استعمال کیا ہے
 
سر معذرت کے ساتھ، شاید یہ زبان درازی ہے
لیکن اس شعر کا مفہوم میری کم ضرفی کے مطابق
یوں ہے کہ ہمارے ملک کی عوام اتنی غافل ہو
چکی ہے کہ اقتدار قاتلوں کے ہاتھ میں آیا ہے
معذرت کی کوئی بات نہیں بھائی ۔۔۔ میں بھی ایک مبتدی ہوں، سو میری بات غلط ہونا کچھ ایسا بعید از قیاس بھی نہیں۔
دیکھو بھئی ۔۔۔ شاعر کے ذہن میں تو اپنے ہر ہی شعر کا مفہوم واضح ہوتا ہے ۔۔۔ تاہم اگر شعر کے الفاظ شاعر کے مافی الضمیر کا درست ابلاغ نہ کر پائیں تو ایسی صورت حال کو ’’معنی در بطنِ شاعر‘‘ کہا جاتا ہے، جو کوئی اچھی بات نہیں۔
آپ اپنے شعر کو دیکھیں۔ پہلے مصرعے میں زمین چمن کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ ابہام پیدا ہو رہا ہے کہ شاید دوسرے مصرعے میں بھی زمینِ چمن کے لیے ہی کہا جا رہا ہے کہ وہ قاتل کی سرکار بن کر آتی ہے ۔۔۔ جو کہ ظاہر ہے کہ بے معنی بات ہے۔ تاہم جو مفہوم آپ نے بیان کیا، اس کے مطابق تو شعر دولخت ہو جاتا ہے، اور دنوں مصرعوں میں ربط کی کمی معلوم ہوتی ہے۔
امید ہے میں اپنی بات سمجھا پایا ہوں گا۔
 

میر شعیب

محفلین
آئیں ہیں کو آتے ہیں کرنا زیادہ مناسب رہے گا۔ مگر یہاں بھی بات نامکمل سی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی کہنا لوگوں کے بظاہر غم خواری کے پردے میں نقصان پہنچانے کی خو کو سازش سے تعبیر کیا گیا ہے، مگر اس بیانیے کے لیے الفاظ پورے نہیں شعر میں۔
جی سر آئیں کو آتے ہی کروں گا۔ بلکل سر اس شعر میں میں نے لوگوں کی غمخواری کو سازش سے تعبیر کیا ہے
 

میر شعیب

محفلین
معذرت کی کوئی بات نہیں بھائی ۔۔۔ میں بھی ایک مبتدی ہوں، سو میری بات غلط ہونا کچھ ایسا بعید از قیاس بھی نہیں۔
دیکھو بھئی ۔۔۔ شاعر کے ذہن میں تو اپنے ہر ہی شعر کا مفہوم واضح ہوتا ہے ۔۔۔ تاہم اگر شعر کے الفاظ شاعر کے مافی الضمیر کا درست ابلاغ نہ کر پائیں تو ایسی صورت حال کو ’’معنی در بطنِ شاعر‘‘ کہا جاتا ہے، جو کوئی اچھی بات نہیں۔
آپ اپنے شعر کو دیکھیں۔ پہلے مصرعے میں زمین چمن کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ ابہام پیدا ہو رہا ہے کہ شاید دوسرے مصرعے میں بھی زمینِ چمن کے لیے ہی کہا جا رہا ہے کہ وہ قاتل کی سرکار بن کر آتی ہے ۔۔۔ جو کہ ظاہر ہے کہ بے معنی بات ہے۔ تاہم جو مفہوم آپ نے بیان کیا، اس کے مطابق تو شعر دولخت ہو جاتا ہے، اور دنوں مصرعوں میں ربط کی کمی معلوم ہوتی ہے۔
امید ہے میں اپنی بات سمجھا پایا ہوں گا۔
جی سر سمجھ گیا ہوں۔ باقی اشعار میں بھی اسی طرح وضاحت کر یں مہربانی ہو گی
 

الف عین

لائبریرین
عزیزی راحل کہہ ہی چکے ہیں جو کچھ میں کہنا چاہ رہا تھا۔ کیونکہ ہر شعر میں کچھ نہ کچھ مسائل تھے، اس لئے طویل بات کرنی پڑتی جس کے لئے وقت کم تھا میرے پاس۔ اب راحل کی بات پر غور کر کے دوبارہ کہو غزل اور مفہوم کو اپنے بطن میں مت رکھو!
 

میر شعیب

محفلین
عزیزی راحل کہہ ہی چکے ہیں جو کچھ میں کہنا چاہ رہا تھا۔ کیونکہ ہر شعر میں کچھ نہ کچھ مسائل تھے، اس لئے طویل بات کرنی پڑتی جس کے لئے وقت کم تھا میرے پاس۔ اب راحل کی بات پر غور کر کے دوبارہ کہو غزل اور مفہوم کو اپنے بطن میں مت رکھو
شکریہ سر آپکا
 
Top