غزل برائے اصلاح: عجب سی اک کشش پائی شبِ عزلت کے افسوں میں

محمد ریحان قریشی صاحب اگر یوں شروع کروں غزل تو باقی اشعار درست قرار پائیں گے؟ ردیف ’وں میں‘ کے حوالے سے

اچانک نام تیرا آگیا باتوں ہی باتوں میں
کسے ہے شوق ورنہ جاگنے کا سرد راتوں میں
عجب سی اک کشش پائی شبِ عزلت کے افسوں میں
جو خلوت میں مزہ پایا کہاں محفل کی رنگوں میں​
میں ہی کوڑھ مغز ہوں حرف روی والی بات بھول گیا ہوں اس میں کچھ اور سوچتا ہوں۔ معذرت۔
 
محمد ریحان قریشی بھائی مطلع اگر یہ رکھ لوں تو باقی پوری غزل درست قرار پائے گی؟
کبھی انکار تھا لیکن ہے اب اقرار آنکھوں میں
نہیں ہے لطف ایسا جو ملا محبوب کی ہاں میں
یعنی قافیہ ’ں‘ اور ردیف صرف ’میں‘۔ کیا کہتے ہیں؟
 
محمد ریحان قریشی بھائی مطلع اگر یہ رکھ لوں تو باقی پوری غزل درست قرار پائے گی؟
کبھی انکار تھا لیکن ہے اب اقرار آنکھوں میں
نہیں ہے لطف ایسا جو ملا محبوب کی ہاں میں
یعنی قافیہ ’ں‘ اور ردیف صرف ’میں‘۔ کیا کہتے ہیں؟
ان قوافی کو درست کرنے کی کوئی صورت میری ناقص سمجھ کے مطابق تو وجود نہیں رکھتی۔
 
ان قوافی کو درست کرنے کی کوئی صورت میری ناقص سمجھ کے مطابق تو وجود نہیں رکھتی۔
جیسے آپ کہیں، لیکن اس کی ذرا وضاحت کردیجیے آئندہ کے لیے کہ جو مطلع میں نے اب پیش کیا ہے اس میں ’ں‘ قافیہ قرار پانے سے باقی اشعار میں کیا خامی رہ جاتی ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
ایک مشورہ! کوئی بھی مصرع ہو اس کے ہم قافیہ الفاظ کے لئے نیٹ پر اس قافیہ کی اساتذہ کی دو چاز غزلیں پڑھ لیا کریں اس طرح قافیہ میں آسانی پیدا ہو جائے گی
 
ایک مشورہ! کوئی بھی مصرع ہو اس کے ہم قافیہ الفاظ کے لئے نیٹ پر اس قافیہ کی اساتذہ کی دو چاز غزلیں پڑھ لیا کریں اس طرح قافیہ میں آسانی پیدا ہو جائے گی
بہت شکریہ امان اللہ بھائی، انشاءاللہ آپ کے مشورے پر عمل کروں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
باتوں اور آنکھوں کو میں قافیہ مان لیتا ہوں، کہ بہت لوگوغ نے اس قسم کے قوافی استعمال کیے ہیں، اگرچہ روی کی اصطلاح میں یہ قوافی نہیں ہیں۔ قوافی میں ضروری مشترک حروف (آسانی کے لیے، اپنی بھی اور دوسرے محفلینس کی بھی، میں لفظ روی یا ردیف استعمال کرنے سے روک رہا ہوں خود کو)
افسوں
دے دوں
لے لوں
گردوں
یہ قوافی درست ہوں گے۔کیونکہ مشترک حروف ’وں‘ کے ساتھ، ان سے ما قبل حروف کی حرکت یا اعراب بھی یکساں ہیں۔ یعنی الٹا پیش۔ لیکن بالوں ، آمکھوں، ہونٹوں میں حرکت مختلف ہے، یہ سیدھا سادا پیش ہے۔(اس کی بھی کچھ اصطلاح ہے جو مجھے یاد نہیں آ رہی، لیکن اصطلاھات سے بچنا بھی چاہ رہا ہوں)۔ یہ دونوں گروپس کے قوافی ایک ہی غزل میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ ان کی گروہ بندی الگ ہے ا س لیے۔ لیکن دو غزلیں کہی جا سکتی ہے۔
بہت سے لوگ گاؤں پاؤں کو بھی فضاؤں ہواؤں کے ساتھ قافیہ باندھتے ہیں۔ میرے حساب سے وہ بھی غلط ہے۔
 
باتوں اور آنکھوں کو میں قافیہ مان لیتا ہوں، کہ بہت لوگوغ نے اس قسم کے قوافی استعمال کیے ہیں، اگرچہ روی کی اصطلاح میں یہ قوافی نہیں ہیں۔ قوافی میں ضروری مشترک حروف (آسانی کے لیے، اپنی بھی اور دوسرے محفلینس کی بھی، میں لفظ روی یا ردیف استعمال کرنے سے روک رہا ہوں خود کو)
افسوں
دے دوں
لے لوں
گردوں
یہ قوافی درست ہوں گے۔کیونکہ مشترک حروف ’وں‘ کے ساتھ، ان سے ما قبل حروف کی حرکت یا اعراب بھی یکساں ہیں۔ یعنی الٹا پیش۔ لیکن بالوں ، آمکھوں، ہونٹوں میں حرکت مختلف ہے، یہ سیدھا سادا پیش ہے۔(اس کی بھی کچھ اصطلاح ہے جو مجھے یاد نہیں آ رہی، لیکن اصطلاھات سے بچنا بھی چاہ رہا ہوں)۔ یہ دونوں گروپس کے قوافی ایک ہی غزل میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ ان کی گروہ بندی الگ ہے ا س لیے۔ لیکن دو غزلیں کہی جا سکتی ہے۔
بہت سے لوگ گاؤں پاؤں کو بھی فضاؤں ہواؤں کے ساتھ قافیہ باندھتے ہیں۔ میرے حساب سے وہ بھی غلط ہے۔
بہت شکریہ جناب وضاحت کے لیے، میں نے بھی دو علیحدہ غزلیں کہنے کا سوچا ہے۔ ابھی طبیعت آمادہ نہیں ہورہی انشاءاللہ بعد میں اس پر طبع آزمائی کروں گا۔
 
Top