غزل برائے اصلاح - تنہائیوں میں ساتھ جو جلتا تھا اک دیا

آدم

محفلین
لسلام علیکم!
اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
الف عین
یاسر شاہ
فلسفی
سید عاطف علی

تنہائیوں میں ساتھ جو جلتا تھا اک دیا
دنیا نے اس کا ساتھ گوارا نہیں کیا

اس نے تری خوشی پہ سبھی کچھ لٹا دیا
اک دردِ لا دوا کے سوا تو نے کیا دیا؟

جب بھی مجھے لگا کہ کنارہ قریب ہے
موجِ بلا نے پھر مجھے چپکے سے آ لیا

وہ چاندنی ابھی بھی نچھاور کرے مگر
میں نے ہی اپنی کھڑکی پہ پردہ گرا لیا

کی آبیاری اس نے بہت چاہ سے مگر
کیکر کا میں درخت تھا کچھ بھی نہ پھل دیا

جس نے مجھے بھنور سے نکالا تھا اس سے میں
ساحل پہ پہنچتے ہی کنارے پہ ہو لیا

جس نے سمجھ لیا تھا مجھے اپنا کل جہاں
میں نے اسے جہان کی خاطر بھلا دیا

تنہا تھا مضطرب تھا پریشان تھا بہت
ہنس کے، ہنسا کے اس نے سبھی غم مٹا دیا

جس نے بھی چاہ کی تجھے پانے کی، تو نے پھر
سوزِ نہاں کو اس کا مقدر بنا دیا

ٹھکرا دیا تھا دنیا نے جس وقت، اس سمع
اس نے خوشی خوشی مجھے دل میں بسا لیا

باغ وبہار میں بھی یہ آدمؔ اداس تھا
حوا نے آ کہ باغ کو جنت بنا دیا​
 

فلسفی

محفلین

آدم

محفلین
ٹھکرا دیا تھا دنیا نے جس وقت، اس سمع
اس نے خوشی خوشی مجھے دل میں بسا لیا

اس میں صرف اتنا کہا ہے کہ جس وقت سب لوگوں نے مجھے تنہا چھوڑ دیا تھا، یا جس وقت باقیوں نے میری محبت کو ٹھکرا دیا تھا، اس وقت اِس نے مجھے محبت دی، یا اپنے دل میں بسا لیا۔ یہ بہت سادہ سا شعر ہے، مطلب کہ کوئی گہری بات یا مشاہدہ نہیں۔
 
ٹھکرا دیا تھا دنیا نے جس وقت، اس سمع
اس نے خوشی خوشی مجھے دل میں بسا لیا

شاید آپ نے سمےَ ( ہندی بمعنی وقت) لکھنا چاہا ہے؟

جس نے مجھے بھنور سے نکالا تھا اس سے میں
ساحل پہ پہنچتے ہی کنارے پہ ہو لیا

دوسرا مصرع بحر میں نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شاید آپ نے سمےَ ( ہندی بمعنی وقت) لکھنا چاہا ہے؟
یہاں ہندی سمے نہ جانے کیوں لائے ہیں ؟
دوسرا مصرع بحر میں نہیں
وزن میں تو ہے لیکن وزن میں لانے کے لیے آدم صاحب نے "پہنچتے" کو بحر کی بھینٹ چڑھا دیا ۔
انہوں نے پہنچتے کا کو فاعلن کر دیا جب کہ یہ فعولن ہوتا ہے ۔
 

آدم

محفلین
شاید آپ نے سمےَ ( ہندی بمعنی وقت) لکھنا چاہا ہے؟
اوہ، جی ہاں، وہی۔ :quiet:

دوسرا مصرع بحر میں نہیں
میں پہنچ میں سے "ہ" کو گرا رہا تھا۔ شاید یہ غلط ہے۔
یہ والا کیسا ہے؟
ساحل سے لگتے ہی میں کنارے پہ ہو لیا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اوہ، جی ہاں، وہی۔ :quiet:


میں پہنچ میں سے "ہ" کو گرا رہا تھا۔ شاید یہ غلط ہے۔
یہ والا کیسا ہے؟
ساحل سے لگتے ہی میں کنارے پہ ہو لیا
ساحل سے لگنا اور کنارے ہونا ایک ہی بات ہے اسے کسی مناسب تر شعری اسلوب میں ڈھالنا چاہیے ۔
 

فلسفی

محفلین
فلسفی بھائی کہاں غائب ہو گئے۔ آلکل خود نہیں لکھ رہے
جی بھائی آج کل خیالات بہت منتشر ہیں۔ دفتر میں کام زیادہ ہے اس لیے کوئی باقاعدہ ترتیب نہیں بن رہی۔ یاد رکھنے کے لیے شکریہ۔ آپ کی تقریبا تمام کاوشیں پڑھتا ہوں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم آدم!

آپ کا نام بہت خوبصورت ہے -غزل بھی خوب ہے ما شاء اللہ -دو چار مقامات پر تجاویز دوں گا :


وہ چاندنی ابھی بھی نچھاور کرے مگر
میں نے ہی اپنی کھڑکی پہ پردہ گرا لیا

پہلے مصرع میں "ابھی بھی "پسند نہیں آیا-مصرع کو یوں کیا جا سکتا ہے :

گو چاندنی وہ چاند نچھاور کرے مگر
میں نے ہی اپنی کھڑکی پہ پردہ گرا دیا

جس نے مجھے بھنور سے نکالا تھا اس سے میں
ساحل پہ پہنچتے ہی کنارے پہ ہو لیا

ایک شکل یوں بھی ممکن ہے :

جس نے ہمیں بھنور سے نکالا تھا ،ہم نے تو
پا کر کنارا اس سے کنارا ہی کر لیا


تنہا تھا مضطرب تھا پریشان تھا بہت
ہنس کے، ہنسا کے اس نے سبھی غم مٹا دیا

یہاں بھی دوسرے مصرع کی بندش چست کر لیں اس طرح سے :

تنہا تھا مضطرب تھا پریشان تھا بہت
اس نے ہنسی ہنسی میں ہر اک غم مٹا دیا

جس نے بھی چاہ کی تجھے پانے کی، تو نے پھر
سوزِ نہاں کو اس کا مقدر بنا دیا

اس کو بھی بدل دیجیے :

میں نے تو تجھ سے عشق کیا تو نے کیا کیا
سوزِ نہاں کو میرا مقدر بنا دیا


ٹھکرا دیا تھا دنیا نے جس وقت، اس سمع
اس نے خوشی خوشی مجھے دل میں بسا لیا

"دنیا" کا دبنا بھلا نہیں لگ رہا -"جس" ،"اس" بھی مزہ نہیں دے رہا -یوں ایک شکل ہے :


ٹھکرا دیا جہان نے جس وقت اس گھڑی
تم نے خوشی خوشی ہمیں دل میں بسا لیا

باغ وبہار میں بھی یہ آدمؔ اداس تھا
حوا نے آ کہ باغ کو جنت بنا دیا

کہ =کے
 

آدم

محفلین
آپ کا نام بہت خوبصورت ہے -غزل بھی خوب ہے ما شاء اللہ
شکریہ سر، حوصلہ افزائی کیلئے :) اور اتنی قیمتی تجاویز کیلئے

وہ چاندنی ابھی بھی نچھاور کرے مگر
میں نے ہی اپنی کھڑکی پہ پردہ گرا لیا

پہلے مصرع میں "ابھی بھی "پسند نہیں آیا-مصرع کو یوں کیا جا سکتا ہے :

گو چاندنی وہ چاند نچھاور کرے مگر
میں نے ہی اپنی کھڑکی پہ پردہ گرا دیا
اس میں "ابھی بھی" تب استعمال کیا تھا کہ وہ پہلے کی طرح اب بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتا ہے، لیکن میں نے ہی اپنا دل اس سے پھیر لیا ہے۔

جس نے ہمیں بھنور سے نکالا تھا ،ہم نے تو
پا کر کنارا اس سے کنارا ہی کر لیا
بہت خوب۔

جس نے بھی چاہ کی تجھے پانے کی، تو نے پھر
سوزِ نہاں کو اس کا مقدر بنا دیا

اس کو بھی بدل دیجیے :

میں نے تو تجھ سے عشق کیا تو نے کیا کیا
سوزِ نہاں کو میرا مقدر بنا دیا
اس میں ایک سوال ہے کہ "جس نے بھی چاہ کی تجھے پانے کی" میں "تجھے" سے مراد میں نے خود کو لیا تھا۔ تو اگر میں آپکی تجویز کو اس طرح سے استعمال کر لوں تو اس کے حسن پہ کوئی خاطر خواہ فرق پڑے گا یا نہیں؟
تو نے تو مجھ سے عشق کیا، میں نے کیا کیا
سوزِ نہاں کو تیرا مقدر بنا دیا


ایک اور چیز کہ پہلے والے شعر میں ۔ "جس نے بھی چاہ کی تجھے پانے کی، تو نے پھر" ۔ اس میں دو مفہوم لیے جا سکتے ہیں، ایک تو "تجھ" سے مراد "میں یا تم" لیا جا سکتا ہے اور دوسرا "اللہ"۔ اس میں تھوڑی سی رہنمائی فرما دیں کہ کون سا ورژن زیادہ موزوں رہے گا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
برادرم آپ درست فرما رہے ہیں میری تجاویز سے کہیں کہیں آپ کے خیالات بھی بدل گئے ہیں جو کہ مناسب نہیں تھا لیکن تجویز بہر حال تجویز ہوتی ہے کوئی اٹل چیز تو ہوتی نہیں-ایک مختلف زاویۂ نگاہ ہی ہوتی ہے -آپ کو اختیار حاصل ہے قبول کرنے یا نہ کرنے کا -
تو نے تو مجھ سے عشق کیا، میں نے کیا کیا
سوزِ نہاں کو تیرا مقدر بنا دیا
آپ کی یہ مجوزہ شکل شاعری کی روایت کے خلاف لگی کہ شاعر خود کو ظالم ٹھہرا رہا ہے اور محبوب کو مظلوم -
 
آخری تدوین:
Top