غزل:: از :: محمد خلیل الرحمٰن

غزل
محمد خلیل الرحمٰن

لوڈ شیڈنگ اس قدر ہے اس نگر میں دوستو!
اب چراغاں کرلیا ہے اپنے گھر میں دوستو!

ھائے گھی مہنگا ہوا ہے، اب پراٹھے چھوڑ کر
گھی چراغوں میں جلا ہے میرے گھر میں دوستو!

’’گو ذراسی بات پر برسوں کے یارانے گئے‘‘
لوگ پہچانے گئے ہیں اس سفر میں دوستو!

شوق منزل کا تھا لیکن رہنما کوئی نہ تھا
کِس قدر بھٹکے ہیں اس راہِ خضر میں دوستو!

قدر اُس گندُم کی روٹی کی نہ پوچھے اب کوئی
جِس نے ڈالا گردشِ شام و سحر میں دوستو!

منزلِ مقصود ہر پتھر کو سمجھے ہم خلیلؔ
سنگِ میل آتے گئے جب رہ گزر میں دوستو!
 

الف عین

لائبریرین
گھی بچائیں اور نقلی تیل کے چراغ جلائیں!! اچھی غزل ہے۔ ’خضر‘ کا تلفظ دونوں طرح دیکھا گیا ہے، ض پر جزم کے ساتھ شاید بہتر ہو
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب غزل ہے۔
میری رائے میں یہ سنجیدہ شاعری ہے اسے بلا وجہ ہی مزاحیہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ محمد خلیل الرحمٰن انکل! نظر ثانی کی خواہش کے ساتھ داد قبول کریں
 
اچھا تو پھر کوشش کریں گے کہ چند سنجیدہ اشعار اور لکھ ماریں اور ساتھ ساتھ غیر سنجیدہ مردودوں کو کان پکڑ کر غزل نکالا دے دیں۔ اب خوش؟
بہت خوب غزل ہے۔
میری رائے میں یہ سنجیدہ شاعری ہے اسے بلا وجہ ہی مزاحیہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ محمد خلیل الرحمٰن انکل! نظر ثانی کی خواہش کے ساتھ داد قبول کریں
 
دیکھا جیہ بٹیا!

استادِ محترم جو اکثر اس بات پر ہمارے کان پکڑتے ہیں کہ ہم خواہی نخواہی ایک ہی غزل میں سنجیدہ اور غیر سنجیدہ مضامین کو خلط ملط کردیتے ہیں ، آج آپ کے توجہ دلانے پر چپکے سے متفق کا ٹیگ لگا کر چلتے بنے ہیں۔ اب ہم کیا کریں:atwitsend:
 
Top