طارق شاہ
محفلین
غزلِ
نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ
اُس جنبشِ ابروکا گلہ ہو نہیں سکتا
دل گوشت ہے ناخُن سے جُدا ہو نہیں سکتا
کچھ تو ہی اثر کر، تِرے قربان! خموشی
نالوں سے تو کچھ کام مِرا ہو نہیں سکتا
گرغیر بھی ہو وقفِ سِتم تو ہے مُسلّم
کچھ تم سے بجزجوروجفا، ہونہیں سکتا
کھولے گرۂ دل کو تِرا ناخنِ شمشیر
یہ کام اجل سے بھی روا ہو نہیں سکتا
سبقت ہو تجھے راہ میں اُس کوچے کی مجھ پر
زنہار، یہ اے راہنما! ہو نہیں سکتا
میں نے جو کہا! ہمدمِ اغیارنہ ہوجی
تو چیں بہ جبیں ہو کے کہا ہو نہیں سکتا
یہ رازِ محبت ہے نہ افسانہٴ بُلبُل
محرم ہومِری بادِ صبا، ہو نہیں سکتا
کب طالعِ خفتہ نے دِیا خواب میں آنے
وعدہ بھی کِیا وہ، کہ وفا ہو نہیں سکتا
وہ مجھ سے خفا ہے تو اُسے یہ بھی ہے زیبا
پر شیفتہ میں اُس سے خفا ہو نہیں سکتا