غربت و افلاس کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟

arifkarim

معطل
مجھے یاد پڑتا ہے کہ کالج کے زمانہ میں ہمنے ایک بار یہ سوال کلاس میں اٹھایا تھا۔ ٹیچر سمیت کوئی بھی طالب علم اسکا جواب نہ دے سکا۔ شاید محفل کے دانش ور اسکا کوئی تسلی بخش جواب دےسکیں، شکریہ ۔۔۔:rolleyes:
 

ساجد

محفلین
عارف کریم ِ آپ نے بہت اچھا سوال اٹھایا ۔ اس پر کافی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس کا حل عوام اور ریاست کی باہمی کوششوں ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ تفصیل میں گئے بغیر یہ کہوں گا کہ عوام کی سطح پر فرائض کی ایمانداری سے ادائیگی اور حقوق کے حصول کی کوشش اور ریاست کے لئیے عوام کو انصاف کی فوری فراہمی اس کے خاتمے کے لئیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
دیگر بہت سارے اقدامات بھی اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے مثال کے طور پہ تعلیم کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنا اور انفرادی طور پہ ہر شخص سے اس کے بہتر صلاحیتوں کے مطابق موزوں کام لینا۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انصاف فراہم کر کے معاشرتی تفاوت ختم کیا جائے۔ معاشرتی تفاوت ختم ہو جائے تو معاشی تفاوت "غربت" کا خاتمہ خود بخود ہونے لگتا ہے۔
دوستوں کی آراء کا انتظار ہے۔
 

طالوت

محفلین
غربت و افلاس کا خاتمہ ، میرے خیال میں دو کاموں سے کیا جا سکتا ہے ۔۔ ایک انصاف اور دوسرا زکوۃ و صدقات کا حصول و درست استعمال !
بنیاد تو اس سلسلے میں انصاف ہی رہے گی ۔۔ مگر جب زکوۃ اور صدقات (ضرورت سے زائد جو کچھ ہے دے دو، حکومت لے لے) ۔۔ اب اس کو جس قدر وسیع کرنا چاہیں کر لیں ۔۔
وسلام
 

ساجد

محفلین
طالوت َ آپ نے درست فرمایا ، پہلی بات تو میں نے بھی یہی کی کہ اپنے فرائض کو مکمل ایمانداری سے ادا کرنا تو زکوہ ایک دینی فریضہ ہے اس لئیے اس کو ضرور ادا کرنا چاہئیے اور یہ ضروری نہیں کہ حکومت کے کھاتے میں ہی جمع کروائی جائے خاص طور پہ آج کل کی کرپٹ حکومتیں اس کے ساتھ جو کچھ کرتی ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں۔
زکوہ کے بارے میں نبی پاک کے ارشادات عالیہ بہت واضح ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ صدقات بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں اور فرامین نبوی کی روشنی میں حسنِ اخلاق سب سے بہترین صدقہ ہے۔
اگر ہم اس فرمان کی گہرائی میں جائیں تو یہ آشکار ہو گا کہ رشوت ، کام چوری اور جھوٹ جو کہ برے اخلاق کی نشانیاں ہیں وہ معاشرے میں سرایت کر چکی ہوں تو امن و انصاف ختم ہو جاتا ہے اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے معاشرے کی تنزلی شروع ہوتی ہے۔ میں اس میں یہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ غربت صرف اس حالت کا نام نہین کہ لوگوں کے پاس وافر پیسہ نہ ہو یا روزگار کی کمی ہو۔ اس کو اگر وسیع معانی میں لیا جائے تو ذہنی مفلسی سب سے بڑی غربت ہے۔ جب تک ریاست کے ارباب بست و کشاد عوام کی عزتِ نفس کا احترام نہیں کریں گے اس وقت تک اذہان میں مثبت خیالات کی بجائے منفی جذبات ہی پرورش پائیں گے ، معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا ہو گا کہ جو ذہنی پسماندگی کی طرف لے جاتا ہے اور نتیجہ معاشی پسماندگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ذہنی مفلسی! بہت خوب بات کی آپنے ساجد بھائی۔ میں یہی انتظار کر رہا تھا کہ کوئی رکن غربت کی اس جڑ تک پہنچے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تمام عوام کے ذہنوں میں شعور بیدار ہوگا تو اسکو اپنا حق لینا بھی آئے گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ماشااللہ ہماری حکومتی پالیسیاں کا سب سے پہلا فوکس ہی غربت کا خاتمہ کرنے کا ہوتا ہے۔ تمام پالیسیاں اس بات کو مدّنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں کہ ملک کو جلد از جلد غربت سے پاک کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جس سے غریب آدمی جلد سے جلد خود کشی کر سکے یا خود ہی کسی بیماری کا شکار ہوکر بغیر دوا دارو بلکہ بغیر غذا کے مر سکے۔ امید ہے بہت جلد پاکستان کے غریب اس ملک میں نہیں رہیں گے اور یوں غربت کا مکمل خاتمہ ہو سکے گا۔
 

arifkarim

معطل
سخنور بھائی، اسی "رویہ" کی وجہ سے ہم ہر بار ایک صحت مندانہ سوچ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس دھاگے کا مقصد سیاسیات یا اقتصادیات پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے ان عوامل کا جائزہ لینا ہے، جنکی مدد سے غربت کے خاتمہ میں مدد مل سکے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
سخنور بھائی، اسی "رویہ" کی وجہ سے ہم ہر بار ایک صحت مندانہ سوچ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس دھاگے کا مقصد سیاسیات یا اقتصادیات پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے ان عوامل کا جائزہ لینا ہے، جنکی مدد سے غربت کے خاتمہ میں مدد مل سکے۔

قبلہ اس میں اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارے پالیسیاں بنانے والے دیرپا پالیسیاں بنائیں اور یہ دیرپا پالیسیاں تعطل، جمود اور بے جا تبدیلیوں کا شکار نہ ہوں تو دیکھیے غربت کا خاتمہ کیسے ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل

قبلہ اس میں اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارے پالیسیاں بنانے والے دیرپا پالیسیاں بنائیں اور یہ دیرپا پالیسیاں تعطل، جمود اور بے جا تبدیلیوں کا شکار نہ ہوں تو دیکھیے غربت کا خاتمہ کیسے ہوتا ہے۔

دیرپا کیسے بنائیں۔ ہر دو سال بعد تو حکومت کا تختہ الٹا ہوتا ہے!
 

ساجد

محفلین
میرا خیال ہے کہ موضوع پر سنجیدگی سے اظہار خیال بہتر ہو گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہم سے کہیں کم وسائل رکھنے والی اقوام ترقی کی دوڑ میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
حکومتیں بھلے روز ٹوٹیں اگر ہمارے ملک میں ادارے مضبوط ہوں تو افراد کے آنے جانے سے ترقی کا عمل نہیں رکتا۔ اٹلی کو دیکھیں کہ وہاں کی سیاسی صورت حال ہمیشہ اتھل پتھل کا شکار رہتی ہے لیکن مضبوط اداروں کی موجودگی میں ترقی کا پہیہ رکنے نہیں پاتا۔ خیر یہ ایک الگ بات ہے اس پہ بحث کبھی پھر سہی۔
میں سر سید کی بات کرنا چاہوں گا کہ کس طرح سے انہوں نے مسلم قوم کی پسماندگی دور کرنے کے لئیے ان کو تعلیم کا راستہ دکھایا۔ اور پاکستان بن جانے کے بعد انہی کے ادارے کے تعلیم یافتہ بہت سے لوگوں نے اس ملک کو بخوبی چلا کر دکھایا۔اور اپنے ابتدائی ایام میں پاکستان نے مثالی ترقی کی۔
سر سید نہ تو صنعت کار تھے اور نہ ہی پالیسی ساز لیکن انہوں نے وہ کام کیا کہ جو آج ہمارے ادارے بے پناہ وسائل رکھنے کے باوجود نہیں کر پا رہے۔
اصل بات ہورہی تھی کہ غربت و افلاس کا سبب کیا ہے تو اسی پر بات آگے چلنی چاہئیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ساجد بھائی اٹلی کی بات ہو یا کسی اور ملک کی، مضبوط ادارے تب ہی وجود میں آئیں گے اور برقرار بھی رہیں گے جب حکومت ان اداروں میں دخل اندازی نہ کرے۔

ہمارے ہاں پاکستان سٹیل مل میں حکومت نے دخل اندازی کر کے اس کا بیڑہ غرق کر دیا۔ جب عدالت نے ازخود نوٹس لیا تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔

راولپنڈی کے قریب سیمنٹ فیکٹری کئی سالوں سے چل رہی تھی اور اچھی چل رہی تھی۔ بی بی کے دور میں ایک وزیر ماحولیات آئے، انہوں نے کہا کہ فضا خراب ہو رہی ہے، پولوشن پھیلا رہے ہو، اتنا بھتہ دو نہیں تو فیکٹری بند کر دوں گا۔

اور ایسا ایک فیکٹری یا کارخانے کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ بہت سارے کاروباری اداروں کے ساتھ ہوا۔ رہی سہی کسر حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے پوری کر دی ہے کہ لوگوں کے کاروبار تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب جو بھی کاروبار مضبوط بنیادوں پر کام کر رہے ہیں وہ بغیر بھتہ دیئے نہیں چل رہے۔ اب یہ بھتہ چاہے لندن جا رہا ہے یا سویٹزر لینڈ کے بنکوں میں جا رہا ہے، پِس پاکستان کی غریب عوام رہی ہے۔
 

محمدصابر

محفلین
اپنی لاعلمی کی وجہ سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا کوئی ایسا معاشرہ موجود ہے جہاں غربت و افلاس نہیں‌ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
غربت و افلاس ہر معاشرے میں ضرور ہو گی لیکن تناسب دیکھیں کہ کس معاشرے میں کتنا ہے؟
 

ساجد

محفلین
محمد صابر ، تناسب اتنا ہی ہونا چاہئیے کہ لوگ غربت سے تنگ آ کر خود کشیاں نہ کریں ، اپنے گردے نہ بیچیں ، اپنے جگر گوشوں کو فروخت کرنے پہ مجبور نہ ہوں ، عزتوں کے سودے نہ کریں ، بیماریوں کے ہاتھوں لاچار نہ ہو جائیں اور سب سے اہم یہ کہ دنیا بھر میں سب کی "بھابھی" نہ بن کے رہ جائیں۔
 
Top