غالب کی انسان دوستی (ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ نئی دہلی، بھارت)

نبیل

تکنیکی معاون
ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی
شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ نئی دہلی(بھارت)


غالب کی انسان دوستی

سماجی سروکار ادب کا آفاقی موضوع ہے اور بشمول اردو بر صغیر ہند و پاک کا ادب اس تعمیم سے مستثنیٰ نہیں۔ کسی ادیب یا شاعر اور اس کے معاشرے کے درمیان تعلق دنیا سے اس کے سروکاروں کی مختلف سطحوں کا عکاس ہوتا ہے اور اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کا غالب رجحان دنیا کو مسترد کرنے کا ہے یا اس کی قبولیت و پذیرائی کا۔ اس میں شک نہیں کہ معاشرے کے فرد کی حیثیت سے شاعر و ادیب کے افکار و اعمال معاشرے سے دامن کش نہیں ہو سکتے کیونکہ سماجی عوامل کی جھلک کسی نہ کسی طور پر ان میں آ ہی جائے گی۔ تاہم ا پنے سماجی سروکاروں کے اظہار میں کوئی فنکار دو تدابیر اختیار کر سکتا ہے ۔ ان میں سے ایک تو براہ راست شمولیت کی ہے جس میں وہ دوٹوک انداز میں اپنے موضوعی خیالات کا اظہار اور معاشرے کی حقیقتوں پر رائے زنی کرتا ہے، اور دوسری تدبیر اشاروں اور کنایوں کی ہے جس میں وہ اپنی لسانی چابکدستی اور نظام علائم کو بروئے کار لاتا ہے 150 ادبی اور شعری شہ پاروں کو دوام بخشنے میں غالبا یہی حقیقت کار فرما ہوتی ہے کہ وہ سماجی معنویت اور فنکارانہ کمال کا امتزاج پیش کرتے ہیں۔ ادب لسانی اظہار کے شانہ بشانہ لازمی طور پر تخلیقی اظہار کا فن ہے ۔ اسی لیے ممتاز ادبی شہ پارے اپنی تخلیقی قوت سے حقیمت کی عکاسی کی سماجی معنویت سے افضل تر قرار پاتے اور زمان و مکاں کے منطقون اور ان کی سرحدوں سے ماورا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ کئی قرنوں اور کئی نسلوں کو اپنا پیغام پہنچا کر اور انسانی زندگی کے تجربوں کو منتقل کرکے قبول دوام حاصل کرتے ہیں 150 فنکار کا یہ رویہ یا طریقہ کار انسانوں کے دلوں کی دھڑکن محسوس کرانے، آتی جاتی رونقوں ، اقدار کی شکست و ریخت اور روایات کی کشمکش کی تصویر کشی کا شعور بخشتا ہے۔
کسی ادیب یا شاعر کی انسان دوستی کا پیمانہ یہ ہے کہ انسانی سروکار اور مسائل اس کے تخلیقی عمل کا حصہ کس طرح بنتے ہیں 150 ایک حساس وجود ہی اس کسوٹی پر پورا اتر سکتا ہے اوراس اعتبار سے غالب کا حساس ذہن انفس و آفاق سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔
انسان اور انسانی زندگی سے مرزا اسداللہ خاں غالب کے سروکار کو ان کی شعری فکر کا محور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک آرزومندی جوہر حیات ہے جس کی حقیقت کو مختلف پیرایوں میں سمجہنے اور سمجہانے کی طرف ان کا ذہن بار بار مائل ہوتا ہے۔ زندکی میں تحرک ، شوق سفر ، تھکن اور گرد راہ سب اسی جوہر کی زائیدہ ہیں 150 یعنی ایک ایسا بے پایاں جذبہ جو ہجوم نا امیدی میں بھی شاعر کو آخر کار مژدۂ حیات دیتا ہے :
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
وہ جواک حسرت ہماری سعی لاحاصل میں ہے
پروفیسر محمد حسن نے بجا طور پر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ کلام غالب میں درد و الم اور آرزومندی باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں 150 ایک طرف آرزومندی راز حیات ہے تو یہی آرزومندی شکست آرزو کا پیش خیمہ بھی ہے( 1) غالب کا تصور حیات از پروفیسر محمد حسن ، مشمولہ تنقیدات ، غالب انسٹیٹیوٹ، دہلی 1997 :
دیر و حرم آئینہ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا

بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
شاعر ، ادیب اور فنکار کی انسان دوستی یا انسانی سروکار کا محاکمہ ہم ان حوالوں سے نہیں کر سکتے کہ اس نے کن انسالی مسائل کا حل پیش کیا ہے ، مصیبت کے لمحات میں خود کو کیسے سنبھالا جائے ، لاکھوں کے مجمع کو خطاب کرنے کی کیا تدابیر ہیں یا مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے یادداشت تیز کرنے کا کیاطریقہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے صحیفے انسانوں کی ہدایت کے لیے اترے 150 ان میں استغنا کی دولت حاصل کرنے کی تلقین تو ضرور ہے لیکن " نسخہ کیمیا " کی سطحی تفہیم پر قناعت کرتے ہوئے ان سے رفع افلاس کے نسخے کی توقع عبث ہے۔
یہ جوہر آرزو ایک ایسا طیف ہے جس سے فکر غالب کی مختلف جہات پھوٹتی ہیں خواہ وہ غم روزگار ہو یا شکوہ نا قدری زمانہ ، اپنی حرماں نصیبی کا اظہار ہو یا حسب و نسب پر فخر و مباہات۔
افراسیاب سے نسبت اور سلجوقی النسل ہونے پر نازاں اور دامان خیال یار کے چھوٹنے کے اندیشے کے باعث نا امیدی کو توقف کرنے کا اشارہ دینے والے غالب سے ہم یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ لاچاری اور بے بسی کے لہجے میں یہ اعتراف کر لے کہ' نہ ہم میں کوئی دانائی تھی اور نہ ہم کسی ہنر میں بے مثال تھے 150 پھر بھی آسمان بلا وجہ ہمارا دشمن ہو گیا۔' (1)
مضمون 'غالب کا حسن فکر اور حقیقت آگہی ' اوز سید وحیدالدین مشمولہ "نذر منظور ، اسلوب احمد انصاری (مرتب)
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
مفت میں ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
بلکہ ہم اس کے حقیقی جذبے کی تہ میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ یہاں استفہام و استعجاب کے پیچھے اعتراف و خود سپردگی کے بجائے اصرار و خود فروزی کار فرما ہے ، یعنی ہم میں کوئی دانائی تھی ، کوئی ہنر تھا جسے دیکھ کر آسمان ہمارا دشمن ہوا 150 اور کلام غالب میں ایسے اشعار کی کمی نہیں جن سے اس جذبے کی تائید ہوتی ہے
شمس الرحمان فاروقی نے غالب کے یہاں سوالات کی دو بنیادی نوعیتیں قرار دی ہیں۔ ایک کا تعلق کائنات کی اصل سے ہے اور دوسری کا تعلق انسان اورکائنات میں اس کے وجود سے(2) مضمون' انداز گفتگو کیا ہے' از شمس الرحمان فاروقی مشمولہ نذر" منظور " ، اسلوب احمد انصاری (مرتب)
غالب کی نگاہ تفکر اس حقیقت کی بھی جستجو کرتی ہے کہ خود زندگی کیا ہے ، اس زندگی میں انسان کی کیا حیثیت ہے 150 اور پھر وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ زندگی بے ثبات ہے اور انسان کی حیثیت اس نظام حیات میں ایک مجبور محض کی ہے اور اس کا وجود زبان حال سے اس بات کا شکوہ سنج ہے 150 زندکی میں غم کی حیثیت مستقل اور مسلسل ہے 150 یہ کبھی ختم نہیں ہوتا:
مری تعمیر میں مضمر ہے صورت اک خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ازل سے انسان انہیں حالات کا شکار ہے 150 زندگی کے سفر میں ایسے مرحلے آتے ہیں جب انسان کو اپنی ہستی کی بے ثباتی کا احساس ہوتا ہے 150 ہر خوشی پر غم کا سایہ منڈلا رہا ہے 150 تغیر کا خیال اور فنا کا احساس اس کے دل و جگر کو کچوکے لگاتا رہتا ہے150
ہر انسان کو زندگی کے ہر دور میں ان حقائق کا احساس رہا ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا 150 غالب نے ان حقائق کی ترجمانی اپنے مخصوص مفکرانہ پیرائے میں کی ہے۔ انھوں نے اپنے دور میں بہت کچھ دیکھا اور زندگی کے بہت سے مظاہر کا مشاہدہ کیا لیکن وہ صرف اس دور کے تفاضوں تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کی وسعت نگاہ ان دیکھے نگار خانوں کے مناظر کو بھی قید کرتی رہی 150 اس ہمہ گیری کا سبب یہ ہے کہ غالب نے اپنے زمانے میں زمانہ مستقبل کی شاعری کی ہے ۔
شعری اظہار کی سطح پر جذبہ و خیال کے وفور کی طرح وفور آرزو کا پہلو بھی ان کے یہاں نمایاں ہے۔ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ انسان کی عظمت کا راز اس میں ہے کہ وہ اس جبر و ضبط اور غم مسلسل کے باوجود پوری ہمہ ہمی اور ہنگامہ خیزی کے ساتھ نہ صرف زندہ رہے بلکہ اپنے ہم نفسوں کو بھی زندہ رہنے کا حوصلہ بخشے۔ اور ان کے نزدیک اس طرح کے انسان کا وجود میں آنا آسان نہیں ہوتا 150 اس خیال کی گونج ان کے کئی اشعار میں سنائی دیتی ہے:
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

ہر قدم دوری منزل ہے گریزاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
غالب حسن و عشق کے معاملات کو بھی حیات و کائنات کے مسائل سے الگ کر کے نہیں دیکھتے بلکہ یہ عنصر ان کی فکر کے تار و پود میں پیوست ہے۔غالب کی شاعری سے عشق کی سماوی رفعت کا مطالبہ کرنا خود اپنے اندر کسی بنیادی انسانی جبلت کے فقدان کا اعتراف کرنا ہے۔ وہ بے ریا ہو کر اور کسی مصلحت کو خاطر میں لائے بغیر اپنے آدم زادہ ہونے اور خوئے آدم رکھنے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسی لئے شاید بعض حضرات کو غالب کے اس قبیل کے اشعار پڑھ کر شدید مایوسی ہو:
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
جس کے شانے پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں

غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں

سادگی و پرکاری بیخودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

عاشق ہوں، پہ معشوق فریبی ہے، مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے! لیلیٰ مرے آگے
دوستی و نا اتفاقی، حمایت و نا انصافی ، حق تلفی و قانونی چارہ جوئی وغیرہ انسانی زندگی کے عام حقیقی تجربات ہیں جن سے غالب کو بھی گذرنا پڑا 150 کبھی پنشن کی بحالی تو کبھی معاصرانہ چشمک کی بنا پر دائر کردہ مقدمے کی اپیل کے عنوان سے دہلی سے کلکتہ تک عدالتوں کی خاک چھانی 150 اس تجربے کو بھی غالب نے جس طرح سمویا وہ انہی کا کمال ہے 150 ایسے اشعار بھی ان کے یہاں ہیں جن کی فضا ملک کے عدالتی نظام کی گہما گہمی کی عکاسی بڑے لطیف پیرائے میں کرتی ہے۔
جاں در ہوائے یک نگہ گرم ہے اسد
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا

دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسد
جانتے ہیں سینہ پر خوں کو زنداں خانہ ہم

دل مدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ
نظارے کا مقدمہ پھر روبکار ہے
کلام غالب میں رجائیت یا امید پرستی کے عنصر کا سرچشمہ یہی آرزومندی ہے جس کی تفصیل اوپر بیان کی گئی۔ وہ تاریکی کی تہوں میں سے بھی زندگی کا روشن پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ اس جقیقت کو پا گئے تھے کہ اگر زندگی سے امید سلب کر لی جائے تو انسان کی اولوالعزمی ، صبرو تحمل اور سچائی جیسے اوصاف کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا 150 نتیجہ یہ ہے کہ مظاہر کائنات کے حوادث سے منتج ہونے والے بعض تلخ ترین اور حوصلہ شکن احساسات سے بھی غالب کسب نشاط کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے یہاں تک کہ حسرت تعمیر اور وصال یار تو کجا خیال یار اور مستی وادا ہی انھیں سامان حیات فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں :
ہوں گرمی نشاظ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں

دل میں کیا تھا کہ ترا غم جسے غارت کرتا
وہ جو ہم رکھتے تھے اک حسرت تعمیر سو ہے

سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

نہیں نگار کو فرصت، نہ ہو، نگار تو ہے
روانی روش و مستی ادا کہیے
تا ریکی سے کسب نور ، غم سے کسب نشاط اور صحراء بے گیاہ میں لالہ زار کا نظارہ غالب کی اس نقطہ سنجی کا غماز ہے جسے نقد شعر کی اصطلاح میں منفی جوہر یا " نگیٹو کیپیبلٹی " اور مابعد الطبیعاتی دور ازکار تشبیہ سے تعبیر کیا گیا ہے:
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

حس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یارب اسے قسمت میں عدو کی

قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
غالب کے یہاں جوش زندگی اور نشاط آرزو ایک ایسی شخصیت کے چشمہ ہائے باطن سے نمودار ہوا ہے جس کے نزدیک زندگی کی تڑپ اور زندگی کی آگ ہی وہ متاع گراں مایہ ہے جو ادراک اور لذت ادراک دونوں کی بیک وقت امین ہے 150 اس کے علاوہ مسائل دہر سے آنکھیں چار کرنے کا جو عزم اور شعور ان کے یہاں ملتا ہے وہ اوروں کے یہاں ناپید تو نہیں لیکن خال خال ہی نظر آئے گا۔ ان کی خود بینی و خود آرائی انہیں اپنی ذات میں محصور نہیں کرتی بلکہ پاس وضع کو مستحکم اور برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے 150 یہی وجہ ہے کہ غالب ہمیں ہر کہیں اپنی طرز روش اور لب و لہجے سے ایک زمانہ شناس فنکار اور ایک دور کے مدبر نظر آتے ہیں 150ان کا عملی رجحان ، غم دوراں کی طرف اعتنا اور ذاتی و اجتماغی تجربے کا ہجوم ، یہ سب ہمیں ایک حد درجہ واقعیت پسند روح کی خبر دیتے ہیں:
پہن گشتن ہائے دل بزم نشاط گردبار
لذت عرض کشاد عقدہ مشکل نہ پوچھ

آبلہ پیمانہ اندازہ تشویش تھا
اے دماغ نارسا خمخانہ منزل نہ پوچھ
 

الف عین

لائبریرین
تین مضامین یہاں نبیل نے پوسٹ کئے ہیں۔ ایک عدد ای بک کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں مطالعہ غالب کے عنوان سے، ان تین کے علاوہ بھی کچھ ہوں تو بتا دیں اور درست سورس بھی کہ کہاں سے تم کو حاصل ہوئے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اعجاز اختر صاحب، یہ مضمون بھی غالب ٹرسٹ کا ارسال کردہ۔ تسلیم تصور صاحب نے مجھے ان پیج فائلیں بھیجی تھیں جنہیں میں نے urdu.ca پر جا کر یونیکوڈ میں کنورٹ کرکے یہاں پوسٹ کر دیا۔ 150 کے بارے میں آپ غالباً درست کہہ رہے ہیں۔ اصل مضمون دیکھ کر اس کی تصحیح کر دوں گا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تین مضامین یہاں نبیل نے پوسٹ کئے ہیں۔ ایک عدد ای بک کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں مطالعہ غالب کے عنوان سے، ان تین کے علاوہ بھی کچھ ہوں تو بتا دیں اور درست سورس بھی کہ کہاں سے تم کو حاصل ہوئے۔

اعجاز اختر صاحب، میں ایک مرتبہ پہلے بھی لاہور سے شائع ہونے والے ادبی جریدے سورج کا ذکر کر چکا ہوں جو کہ تسلیم تصور صاحب کے زیر ادارت شائع ہوتا ہے۔ میرے والد جلیل نقوی صاحب کی تحاریر بھی اس میں اکثر شائع ہوتی ہیں۔ یہاں دیکھیں۔ جن مضامین کا آپ نے ذکر کیا ہے یہ جریدہ سورج کے خصوصی شمارے اکیسویں صدی میں مطالعہ غالب میں شائع ہوئے تھے۔
 
مشہور کتاب تذکرہ غوثیہ میں بھی غالب کی انسان دوستی کی شہادت ایک صوفی بزرگ نے دی ہے کہ کسطرح انکی موجودگی میں جب رجب علی بیگ سرور کے فسانہِ عجائب کا ذکر ہوا اور کسی شخص نے اسکی زبان کی تعریف کی تو غالب نے فسانہِ عجائب کی زبان کا کافی مضحکہ اڑایا لیکن اسی محفل میں رجب علی بیگ درور صاحب بھی موجود تھے لیکن غالب کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ بعد میں جب وہ محفل برخاست ہوئی تو ان صوفی بزرگ نے غالب کو آگاہ کیا کہ محفل میں جو شخص آپکی بات سن کر سب سے پہلے اٹھ کر گیا ہے وہ فسانہِ عجائب کا مصنف تھا۔ غالب کافی دیر تک افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے رہے کہ یہ کیا ہوگیا۔ بعد میں انہوں نے اسی صوفی صاحب کی مدد سے اس بات کا اہتمام کیا کہ اگلی محفل میں جب رجب علی بیگ صاحب موجود تھے تو غالب نے محفل کے شرکاء پر یوں ظاہر کیا کہ گویا کل ہی انہوں نے فسانہِ عجائب کا مطالعہ کیا ہے اور کافی دیر تک اس کتاب اور صاحبِ کتاب کی تعریف کرتے رہے یونہی انجان بن کر۔۔مقصد یہ کہ جو تکلیف انجانے میں ان سے کسی انسان کو پہنچی ہے اسکا مداوا اسکو خوش کرکے کردیا جائے :)
 
Top