غالب و بیدل میں فکری و فنی قربتیں اور فاصلے از ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی

نبیل

تکنیکی معاون
ذیل کا مضمون غالب ٹرسٹ کی جانب سے خصوصی طور پر محفل فورم میں اشاعت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ممتاز ترین پروفیسر شعبہ فارسی جی سی یونیورسٹی لاہور



غالب و بیدل میں فکری و فنی قربتیں اور فاصلے

غالب اردو کے علاوہ فارسی زبان کے بھی بہت بڑے شاعر ہیں۔ خود ان کادعویٰ ہے کہ ان کا فارسی کلام ’’نقشھای رنگ رنگ‘‘ پر مشتمل ہے وہ اپنے اردو کلام کو بے رنگ کہتے ہیں جیسا کہ ان کے اس شعر میں ہے:
فارسی بین تا بہ بینی نقشھائ رنگ رنگ
بگذر از سرمایۂ اردو کہ بی رنگِ من است
غالب اپنے فارسی کلام کے بارے میں احساس افتخار رکھتے تھے جبکہ اردو کلام کو وہ وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے___ ان کے ہم عصر بھی انہیں اردو کے مقابلے میں فارسی ہی کا بہت بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ حالی نے مرزا کا بڑا زوردار مرثیہ لکھا تھا اور اس میں غالب کا مقابلہ فارسی شعرا ہی سے کیا تھا‘ قدسی و صائب وغیرہ سے غالب کا مقابلہ کرتے ہوئے حالی کہتے ہیں:
قدسی و صائب و اسیر و کلیم
لوگ جو چاہیں ان کو ٹھہرائیں
ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے
ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں
غالبِ نکتہ دان سے کیا نسبت
خاک کو آسمان سے کیا نسبت
محمد حسین آزاد نے بھی مرزا کی وفات پر جو تاریخ کہی تھی اس میں غالب کو فارسی کے بڑے بڑے شعرا پر فوقیت دی تھی اور یوں کہا تھا:
عنصری پیش اوست بی جوھر
عسجدی بردہ بردرش سجدہ
(یعنی عنصری جیسا ملک الشعرا غالب کے سامنے ھیچ ہے اور عسجدی تو اس کے در پر سجدہ ریز ہے)
اور خود غالب بھی اپنے فارسی دیوان کو صحیفۂ آسمانی کے برابر اور خود کو فارسی کا عظیم شاعر سمجھتے تھے:
گر ذوقِ سخن بہ دھر آئین بودی
دیوانِ مرا شھرتِ پروین بودی
غالب اگر این فنِ سخن دین بودی
آن دین را ایزدی کتاب این بودی
(یعنی اگر اہلِ دنیا صاحب ذوق ہوتے تو میرے دیوان کو پروین ستارے کی طرح شہرت ملتی اور اگر شعرگوئی دین ہوتا تو اس دین کی الہامی کتاب میرا دیوان ہوتا)
غالب بہ شعر کم ز ظھوری نیم ولی
عادل شہ سخن رسِ دریا نوال کو؟
ناظم ھروی نے ایک نظم میں عنصری سے جامی تک فارسی کے سربرآوردہ شعرا کے نام گنوائے ہیں اور جامی پر فارسی شاعری کو تمام کر دیا تھا:
ز خسرو چو نوبت بہ جامی رسید
ز جامی سخن را تمامی رسید
(یعنی امیرخسرو سے جامی تک جب شاعری کی نوبت پہنچی تو فارسی شاعری جامی پر ختم ہو گئی)
غالب نے اس فہرست میں اپنا نام یوں شامل کر دیا:
ز جامی بہ عرفی و طالب رسید
ز عرفی و طالب بہ غالب رسید
(یعنی جامی سے شاعری عرفی و طالب تک پہنچی اور پھر غالب تک آئی)
غالب نے خود کو عندلیبِ گلستانِ عجم کہا ہے:
بود غالب عندلیبی از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ھندوستان نامیدمش

(کلیات غالب ص ۲۳۸)
غالب ایسا عظیم شاعر بیدل عظیم آبادی (وفات ۱۱۳۳ھ )کے کلام کی عظمت کا معترف ہے۔۔۔۔ بیدل فارسی زبان کے مسلم الثبوت استاد تھے تقریباً تمام تذکرہ نگاروں اور نقادان سخن نے بحیثیت شاعرِ فارسی ان کے فکروفن کی عظمتوں کو تسلیم کیا ہے اور انہیں استادِ فن مانا ہے___ محمد افضل سرخوش نے ’’کلمات الشعرا‘‘ میں بیدل کو استاد فن اور آزاد بلگرامی نے ’’خزان�ۂعامرہ‘‘ میں بیدل کو ’’پیر میکدۂ سخن دانی و افلاطونِ خُم نشینِ یونانِ معانی‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔(خزانۂ عامرہ ص ۱۵۲) میرعبدالرزاق خوافی نے بیدل کے شعری مقام کو بڑے پُرشکوہ انداز میں یوں پیش کیا ہے:
’’بر سریرِ سخن گستری فرِّ دارائی و شکوہِ جمشیدی داشتہ‘‘
یعنی بیدل شاعری کے تخت (شاہی) پر جمشید و دارا کی سی شان و شکوہ رکھتے تھے۔ (صفا‘ تاریخ ادبیات در ایران‘ جلد پنجم‘ ص۱۳۷۸)
علامہ اقبال، مجنون گورکھپوری، ڈاکٹر عبدالغنی اور دوسرے مفکرین اور نقادانِ سخن نے اپنی نگارشات میں مرزا بیدل کو ایک عظیم شاعر اورمفکر مانا ہے، خود مرزا غالب نے بھی اپنے بہت سے اشعار میں مرزا بیدل کے فکروفن اور ان کی شخصیت کوخراج تحسین پیش کیا ہے۔
مرزا بیدل تخیلِ بلند ،فکر عمیق،تناسبِ الفاظ اور تقابلِ معانی سے اشعار کا جو طلسم خانہ تخلیق کرتے ہیں وہ بظاہر طاؤسِ سخن کی تمثیل اوربہ معنی عنقائے فکر کی تِمثال ہوتا ہے ۔صاحب خزانۂ عامرہ آزادبلگرامی نے مندرجہ ذیل شعر میں بیدل کے کلام پر بہت خوبصورت اور صحیح تبصرہ کیا ہے:
رساندپاےۂ معنی بہ آسمانِ نہم
بلند طبع شناسد کلامِ بیدل را

(خزانۂ عامرہ‘ ص۱۵۲)
یعنی بیدل نے معانی کا مرتبہ نویں آسمان تک پہنچا دیا صرف بلند طبع شخص ہی بیدل کے کلام کی معنوی بلندی کو پاسکتا ہے۔
البتہ ڈاکٹر ذبیح اﷲ صفا نے تاریخ ادبیات در ایران میں بیدل کے کلام پر تنقید کی ہے اور بطور مثال ان کے مندرجہ ذیل شعر کو بے معنی خیال کیا ہے:
نزاکت ھاست در آغوشِ مینا خانۂ حیرت
مُژہ برھم مزن تانشکنی رنگِ تماشا را
اور خاص طور پریہ کہا ہے کہ :
رنگ تماشا چگونہ رنگ است وآن را چگونہ می شکنند؟ ‘‘ یعنی رنگ تماشا کیسا رنگ ہے اور اسے کیسے توڑتے یا ختم کرتے ہیں۔ (ذبیح اﷲ صفا‘ تاریخ ادبیات در ایران‘جلد پنجم ص ۴۳۹)
حالانکہ بیدل کا یہ شعر بہت بلند معانی کا حامل ہے۔ اس شعر کا اردو میں ترجمہ تو یوں ہے کہ (جلوہ ہائے محبوب کے) میناخانۂ حیرت کی آغوش میں نزاکتیں ہی نزاکتیں ہیں، پلک بھی مت جھپکئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ رنگ تماشا ٹوٹ جائے اور سارا منظر درہم برہم ہو جائے۔یہا ں رنگ کے معانی رونق کے ہیں جیسا کہ فردوسی نے بھی اس شعر میں رنگ کے یہی معانی لیے ہیں:
بخانہ درآی ار جہان تنگ شد
ہمہ کار بی برگ وبی رنگ شد
ویسے بھی لفطِ رنگ کے معانی علاوہ کسی چیز کی ظاہری صور ت جیسے سبزوسرخ صورت کے اور بھی ہیں ، رنگ کے معانی رونق ،رواج ،فائدہ ،حصہ ،مکروحیلہ اور فریب بھی ہیں۔ (بحوالہ فرہنگ عمید) بیدل کے شعر میں مژہ برہم مزن یا ’’پلک مت جھپکئے‘‘ سے مراد ہے غفلت یا بے توجہی سے بچئے یعنی محبوب کے حضور ہمہ تن متوجہ رہنا چاہیے کیونکہ اس کی بارگاہ میں غفلت بہت بڑا جرم ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ بارگاہ حسن میں جہاں حیرت انگیز جلووں کا میناخانہ ہے وہاں عاشق کو تمامتر جلوہ ہائے محبوب کی جانب متوجہ اوراس کے دیدار میں محو رہنا چاہئے کیونکہ اگر ذرا سی بھی غفلت برتی گئی تو محبوب جو بہت ہی نازک طبع ہے اس کا مزاج برہم ہو جائے گا اوراس نظارۂ جمال کا رنگ جاتا رہے گا یعنی یہ منظرِ حسن ختم ہوجائے گی۔ اس شعر میں مناسباتِ بھی ہیں جنہوں نے اس شعر کو دلکش اور زیادہ بامعنی بنا دیا ہے‘ میناخانہ کی نسبت سے نزاکت‘ حیرت اور آغوش کے الفاظ شعر کی معنویت کو اجاگر کر رہے ہیں‘ تماشا کی نسبت سے لفظ مژہ لایا گیا ہے لیکن ان مناسبات لفظی میں تکلف نہیں بلکہ یہ مناسبات لفظی تو ابلاغِ کامل کی ضرورت ہیں۔’’ میناخانۂ حیرت‘‘ مختلف معانی کی دلالتیں لئے ہوئے ہے۔ یہ ’’میناخانۂ حیرت‘‘ محبوبِ مجازی کی جلوہ گاہ بھی ہو سکتا ہے اور محبوبِ حقیقی کی بارگاہ بھی‘ میخانہ بھی اور مسجد بھی‘ حضورِ حسن بھی اور حضورِ حق بھی اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ جہانِ رنگ و بو، یہ دنیائے معاملات بھی تو میناخانۂ حیرت ہے جہاں انسان کو ہر قدم بہت پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ذرا سی غفلت سے کسی کے آبگینۂ دل کو ٹھیس نہ لگ جائے‘ یہ آبگینے تو اتنے نازک ہیں کہ صرف ایک پلک کے جھپکنے سے ٹوٹ سکتے ہیں یا یوں کہیے کہ انسان کی توجہ میں ذرا سی کمی سے کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ سو اس شعر کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ نازک مزاج محبوب اپنے حضور میں ذرا سی غفلت یا بے توجہی کو برداشت نہیں کرتا اور فوراً اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور سارا بنا بنایا منظر یا تماشا بکھر جاتا ہے اس لئے ہمیں چا ہیے کہ ہم غفلتِ نظر سے دور رہیں‘ نیز معاشرتی مسائل کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنا بھی اس شعر کے مفہوم کا ایک پہلو ہے اور صوفیہ کے مسلک میں مقام حضوری میں خواطر (خیالات) پر بھی پوری طرح نظر رکھنی پڑتی ہے‘ یہ مفہوم بھی اس شعر میں موجود ہے۔ میر نے اردو میں کہا تھا:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
بیدل کا یہ شعر میر کے شعر کا مفہوم بھی لئے ہوئے ہے۔
بیدل کے اشعار میں افکار کی رعنائی ،معانی کی رنگارنگی‘اور رمزیت کی گہرائی عام ہے اور خاص طور پر رمزیت کا انداز بیدل کے اشعار میں جو بظاہر مبہم نظر آتے ہیں اس لئے ہے کہ وہ اپنے احساس یا فکر کے مختلف دقیق پہلوؤں کو ایک شعر کی تنگنائے میں پیش کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کی کامل تصویر سامنے آجائے‘ یہ بیدل کا کمالِ فن ہے‘ ابلاغِ کامل ہے یہ تعقیدِ معنوی یا شعر کا معنوی عیب نہیں۔
مرزا غالب نے شاعری میں مرزا بیدل کو اپنا استادِ معنوی مانا ہے اور ’’ریختہ‘‘ میں یعنی اردو شعرگوئی میں طرزِبیدل کی پیروی کرنے کی کوشش بھی کی ہے، اگرچہ طرزِبیدل کی پیروی کے سلسلہ میں خود مرزا بیدل کا دعویٰ تو یہ ہے کہ طرزِ بیدل کی پیروی نہیں کی جا سکتی، بھلا جادو بھی کہیں معجزے کی برابری کر سکتا ہے؟:
مدعی درگذر از دعویٰ طرزِ بیدل
سحر مشکل کہ بہ کیفیتِ اعجاز رسد
یہی وجہ ہے کہ غالب نے اردو میں جواشعار طرزِ بیدل میں کہے ہیں وہ اس قسم کے ہیں:
عرضِ نازِ شوخی دندان برائے خندہ ہے
دعویٰ جمعیتِ احباب جائے خندہ ہے
ایسے اشعار کے متعلق مرزا غالب کے ہمعصراُن پر تنقید کرتے تھے جیسا کہ حکیم آغا خان عیش نے برسرِ مجلس مرزا غالب کو مخاطب کر کے کہا تھا:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اوردوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زُبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
غالب کو بالآخر خود بھی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ بیدل کی تقلید یا طرزِ بیدل میں شعر کہنا بہت مشکل ہے، اس لیے غالب کو کہنا پڑا:
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسداللہ خان قیامت ہے
بیدل کا ایک اسلوب شعرگوئی ہے ان کے کلام میں ایک مخصوص آہنگ ہے یا یوں کہیے کہ ان کے کلام میں ایک نغمگی کی فضا ہے، جو تخیل، فکر‘ جذبے‘ رمزیت‘ صوفیانہ وجدان اور خوبصورت تراکیب کی ہم آہنگی سے وجود میں آتی ہے اور شعر کو معجزۂ فن بنا دیتی ہے۔
غالب کے کلام میں جو ایک نغمگی سی کیفیت ہے وہ بیدل کے طرز ہی کی عکاس ہے ، غالب کا یہ شعر:
قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے
اسی نغمگی یا دلکش آہنگ کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ اگرچہ شعر میں بے حد ابہام ہے پھر بھی یہ شعر پڑھنے والا بغیر مطلب سمجھے ہی اس کے دلکش آہنگ سے لطف اندوز ہوتا ہے‘ خود علامہ اقبال نے جاویدنامہ میں فلک مشتری پر غالب سے ملاقات کے دوران غالب سے ان کے اس مذکورہ شعر کے معنی پوچھے تھے‘ غالب نے بتائے بھی پھر بھی بات نہ بنی اور علامہ کو یہی کہتے بنی:
من ندیدم چہرۂ معنی ہنوز
(کلیات اقبال ۷۱۴-۷۱۲)
یوں غالب بیدل کی طرز کو کلی طور پر نہ اپنا سکے پھر بھی فکروفن کے حوالے سے غالب نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میں میرزابیدل کا بہت زیادہ اثر قبول کیا ہے۔ بیدل نے کہا تھا:
زندگی گر عشرتی دارد امیدِ مردن است
اور غالب نے کہا تھا:
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
بیدل نے کہا تھا:
منزلِ عیش تو وحشت کدۂ امکان نیست
چمن از سایۂ گل پشت پلنگِ است اینجا
(تیری منزل عیش یہ دنیا‘ جو وحشت کدۂ امکان ہے‘ نہیں ہے‘ یہاں تو چمن بھی سایۂ گل سے چیتے کی پیٹھ بنا ہوا ہے (چیتا خطرناک جانور ہوتا ہے))
غالب اردو میں کہتے ہیں:
نہ کی سامانِ عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی
ھوا داغ زمرّد بھی مجھے داغِ پلنگ آخر
بیدل نے کہا تھا:
دل آسودۂ ما شور امکان در نفس دارد
گہر دزدیدہ است اینجاعنانِ ضبطِ دریا را
(ہمارا آسودہ دل ہر سانس میں امکان کا شور رکھتا ہے (گویا) موتی نے ضبط دریا کی باگ چرالی ہے یعنی سب کچھ عارضی ہے‘ وقتی ہے‘ سانس سے زندگی ہے اور سانس گویا شور امکان ہے کہ سانس چلتا رہے گا تو زندگی قائم رہے گی)
غالب اردو میں کہتے ہیں:
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
بیدل نے کہا تھا:
دیدہ ای را کہ بہ نظارۂ دل محرم نیست
مُژہ برھم زدن از دست ندامت کم نیست
(وہ آنکھ جو نظارۂ دل کی محرم نہیں ہے اس کا پلک جھپکانا گویا شرم سے ہاتھ مارنا ہے یعنی اپنی ناکامی پر شرمندہ ہونا ہے)
اردو میں غالب کہتے ہیں:
ز بسکہ عشق تماشا، جنون علامت ہے
کشاد و بستُِ مژہ، سیلیِ ندامت ہے
بیدل نے کہا تھا:
ھیچ پرواز ز خاکسترِ خود بالا نیست
بیدل این ھفت فلک بیضۂ یک فاختہ است
(کوئی پرواز اپنی مٹی سے بلندتر نہیں‘ بیدل یہ سات آسمان ایک فاختہ کے انڈے کی طرح ہیں)
اردو میں غالب کہتے ہیں:
نالہ سرمایۂ یک عالم وعالم کفِ خاک
آسمان بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے
بیدل نے کہا تھا:
چشم وا کردن کفیلِ فرصتِ نظارہ نیست
پر توِ این شمع آغوشِ وداعِ محفل است
یعنی آنکھ کو کھولنا نظارہ کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتا ،بلکہ یہ تو محفل کو الوداع کہنے کی ایک صورت ہے۔
اردو میں غالب کہتے ہیں:
تا کجا ای آگہی رنگ تماشا باختن
چشم وا گردیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے
بیدل نے کہا تھا:
تاکی ز خلق پردہ بہ رو افگنی چو خضر
مردن بہ از خجالتِ بسیار زیستن
(کب تک مخلوق خدا سے چُھپنے کے لیے خضر کی طرح منہ پر نقاب ڈالو گے یعنی خلق خدا سے چھپتے پھرو گے ‘ خجالت کے ساتھ لمبی زندگی سے تو مرنا بہتر ہے)
اردو میں غالب کہتے ہیں:
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لیے
بیدل نے کہا تھا:
روشن دلان چو آئینہ بر ھر چہ رو کنند
ھم در طلسمِ خویش تماشای او کنند
(یعنی روشن دل لوگ آئینہ کی طرح جس طرف بھی منہ کرتے ہیں اپنی ذات کے طلسم ہی میں اس کی یعنی خدا کی تجلیات دیکھتے ہیں)
غالب کہتے ہیں:
از بس بشوقِ روی تو مست است نو بھار
بوی می آید ار دھنِ غنچہ بو کنند
(تیرے چہرے کے دیدار کے شوق میں بہار یوں مست ہے کہ غنچہ کے منہ کو سونگھیں تو خوشبو آئے)
تحقیق و جستجو اور حقائق اشیا کے جاننے کی لگن دونوں شاعروں میں مشترک ہے بیدل نے کہا تھا:
حیرتی روی داد دل اندیشۂ آیینہ کرد
عقدہ ای در رشتہ ظاھر گشت و گوھر ریختند
یاسِ مطلب آتشی افروخت دوزخ برق زد
شوخیِ جھدی عرق آورد و کوثر ریختند
(حیرت ظاہر ہوئی تو دل میں آئینہ کا خیال آیا‘ دھاگے میں گرہ رونما ہوئی تو موتی بنایا گیا۔ مقصد میں ناکامی نے ایک آگ جلائی جس سے دوزخ بھڑک اٹھی‘ جدوجہد کی شوخی کو پسینہ آیا تو حوض کوثر بنادی گئی)
غالب کہتے ہیں:
قطرۂ خونی گرہ گر دید دل دانستمش
موج زھرابی بطوفان زد زبان نامیدمش
وھم خاکی ریخت در چشمم بیابان دیدمش
قطرۂ بگداخت بحر بیکران نامیدمش
(خون کا قطرہ گرہ بن گیا میں نے اسے دل سمجھا‘ زہر اب کی موج طوفان میں آئی تو اسے زبان کا نام دیا گیا‘ وہم نے میری آنکھ میں خاک جھونکی میں نے اسے بیابان کے طور پر دیکھا‘ قطرہ پگھلا تو اس کا نام میں نے بحرِبیکراں رکھ دیا)
بیدل نے کہا تھا:
نیست نقش پا بہ گلزار خرامت جلوہ گر
دفتر برگ گل از دست بھار افتادہ است
(تیرے خراماں خراماں چلنے سے چمن میں تیرے پاؤں کا نقش جلوہ گر نہیں ہوا بلکہ پھولوں کی پتیوں سے بھری سینی بہار کے ہاتھ سے گر گئی ہے)
غالب اردو میں کہتے ہیں:
دیکھو تو دلفریبی اندازِ نقش پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
بیدل ایک صوفی صاف دل اور ایک صاحب حال شاعر تھے جبکہ غالب اس کوچے سے نابلد تھے‘ اس لیے غالب کی نظر میں وہ بلندی اور فکر میں وہ درد مندی نہیں‘ جو بیدل کے فکرو نظر میں ہے اور جس کا اظہار بیدل کے کلام میں عام ہے۔ غالب نے تو یہ اشعار عرفی کے جواب میں روایتی طور پر کہے تھے:
بی تکلف در بلا بودن بہ از بیمِ بلا است
قعرِ دریا سلسبیل و روی دریا آتش است
گشتہ ام غالب طرف با مشربِ عرفی کہ گفت
روی دریا سلسبیل و قعرِ دریا آتش است
(مصیبت کے خوف کے ساتھ جینے سے مصیبت میں بلا تکلف جینا بہتر ہے‘ سمندر کی گہرائی (سمندر میں ڈوبنا) سلسبیل کی طرح خوش آئند ہے اور سمندر کی اوپر والی سطح (سمندر کی سطح پر تیرنا) آگ کی طرح خوفناک ہے‘ میں نے غالب یہ بات عرفی کے مشرب کے برخلاف کہی ہے کہ اس نے کہا تھا کہ سمندر کی اوپر کی سطح سلسبیل ہے (بے خطر ہے) اور سمندر کی گہرائی آگ کی طرح خطرناک ہے)
بیدل صوفی تھے اور دریائے معرفت کے غواص تھے‘ مندرجہ ذیل شعر ان کی اسی تصوف مشربی کی عکاسی کرتا ہے‘ ان کے دل کی آواز بھی ہے اور حقیقت کے قریب بھی:
غرق وحدت باش اگر آسودہ خواھی زیستن
ماھیان را ھر چہ باشد غیر دریا آتش است
(یعنی وحدت کے سمندر میں ڈوب جاؤ اگر زندگی میں آسودگی چاہتے ہو‘ کیونکہ مچھلیوں کے لیے سمندر کے علاوہ وہ جو کچھ بھی دنیا میں ہے آگ کی طرح خطرناک ہے)
غالب نے اپنے شعر کا یہ مضمون:
بی تکلف در بلا بودن بہ ازبیم بلااست
بیدل کے مندرجہ ذیل شعروں سے غالباً لیا ہوگا:
حوادث عین آسایش بود آزادہ مشرب را
کہ موجِ بحر دارد از شکست خویش جوھر ھا
(ایک آزاد مشرب کے لیے حادثے تمامتر آسایش ہوتے ہیں کہ سمندر کی موج اپنے ٹوٹنے ہی سے موتی رکھتی ہے)
امیدِ سلامت بجز آفات ندارد
کشتی شکن و ایمن از امواجِ خطر شو
(زندگی میں سلامتی کی امید سوائے آفات و مصائب کے کہیں نہیں ہے‘ کشتی توڑ دیجیے اور پرخطر موجوں سے محفوظ ہو جائیے)
بیدل کی زمین میں غالب نے فارسی میں بہت سی غزلیں کہی ہیں اور اپنے رنگ میں خوب کہی ہیں، فکروفن کے سلسلے میں بیدل اور غالب میں چند قدریں مشترک بھی ہیں۔ غالب کے کلام میں معنی آفرینی اور حقایق حیات کے بارے میں سوالیہ انداز بیان اور فکر عمیق کا جوعنصر موجود ہے بہت حد تک بیدل کے زیراثر ہی آیا ہے، غالب کے ہاں تشبیہ اور استعارہ کا خوبصورت استعمال اور تراکیب تراشی بھی بیدل ہی کے تتبع کا نتیجہ ہے۔ بقول جناب عابد علی عابد غالب کے دل میں جو حددرجہ خودداری کا جذبہ ہے وہ بیدل کی شخصیت ہی کا اثر ہے۔ غالب کو بیدل میں وہ معیاری فنکار‘ شاعر اور مفکر نظر آیا جسے غالب نے اپنے دل میں مثالی تصور کی طرح بسا لیا۔
بیدل نے کہا تھا:
بلبل بہ نالہ حرفِ چمن را مفسّر است
یارب زبانِ نکھَتِ گل ترجمانِ کیست؟
(بلبل اپنے نالوں سے چمن کی باتوں کی تفسیر بیان کرتی ہے اے اللہ پھول کی خوشبو کی زبان کس کی ترجمانی کر رہی ہے)
اسی مضمون کو ایک اور شعر میں بیدل نے یوں خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
ھر سو نظر کنی گلِ رنگین شکستہ است
آفاق سایہ پرورِ طرفِ کلاہِ کیست؟
(جس طرف بھی نظر ڈالئے رنگین پھول بکھرے ہوئے ہیں‘ یہ کائنات کس کی ٹوپی کے بانکپن کی سایہ پروری کر رہی ہے)
غالب کہتے ہیں:
زین سان کہ سر بسر گل و ریحان و سنبل است
طرف چمن نمونۂ طرفِ کلاہِ کیست؟
(یہ جو اس طور چمن میں ہر طرف گل و ریحان و سنبل بکھرے ہوئے ہیں یہ کسی کی ٹوپی کے بانکپن کا نمونہ پیش کر رہے ہیں)
بیدل نے کہا تھا:
ز اوج افلاک اگر نداری حضورِ اقبالِ بی نیازی
نفس بہ جیبت غبار دارد بہ بین سپاھی کہ می خرامد؟
(یعنی اگر تم آسمان کی بلندیوں سے خدا کی بے نیازی کی موجودگی کا شعور نہیں رکھتے تو تمہارا سانس تمہارے گریبان میں اپنی رفتار کا غبار رکھتا ہے تو یہ کس کی فوج ہے جو ہر دم رواں دواں ہے)
غالب کہتے ہیں:
در گردِ نالہ وادیِ دل رزمگاہِ کیست؟
خونی کہ می دود بہ شرائین سپاہِ کیست؟
(یعنی میرے نالوں کی گَرد میں دل کی وادی کس کی جنگ کا میدان بنی ہوئی ہے‘ وہ خون جو رگوں میں دوڑ رہا ہے وہ کس کی فوج ہے؟)
غالب تماشائے عالم ایک اہل دانش کی حیثیت سے کرتے ہیں لیکن بیدل ایک اہل دل اور ایک عارف کی حیثیت سے اس تماشا گاہ عالم پر نظر ڈالتے ہیں، غالب کی نظر میں ’’عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے‘‘___ جبکہ بیدل کی نظر میں:
عالم تمام معبدِ تسلیمِ بیخودی است
ھر سو روی بہ سجدۂ اشک چکیدہ رو
(یعنی ساری دنیا بیخودی کو تسلیم کرنے (ماننے) کی عبادت گاہ ہے جس طرف بھی جاؤ اشک چکیدہ (گرے ہوئے آنسو) کے سجدہ کے طور پر جاؤ)
غالب کی نظر میں یہ دنیا بازیچۂ اطفال ہے‘ انہوں نے عالم مادی کے بارے میں اپنا فلسفیانہ اورکچھ صوفیانہ رنگ اس غزل میں پیش کیا ہے:
دیدہ در آنکہ تانھد دل بشمارِ دلبری
در دلِ سنگ بنگرد رقصِ بتان آزری
(یعنی دیدہ در وہ ہے جو اپنے دل کو دل بری کے (انداز) شمار کرنے میں لگا دے اور پتھر کے دل میں بتانِ آزری کا رقص دیکھ سکے)
بیدل ایک دردمند دل کے ساتھ اس تماشاگاہِ عالم کی سیر کرتے ہیں‘ ان کی نظر میں تماشاگاہِ عالم آنکھ کی طرح نازک ہے:
تمام خانۂ چشمی است این تماشاگاہ
بہ ھر کجا کہ نشینی نگاہ وار نشین
بیدل کہتے ہیں کہ جو پھول بھی دیکھا مجھے آئینۂ خون چکیدہ نظر آیا ،نجانے گلشن کے دل میں کیسا خون چکاں کانٹا چبھا ہوا ہے:
ھر گل کہ دیدم آئینۂ خون چکیدہ بود
یا رب چہ خار در دلِ گلشن خلیدہ اند
(بیدل ایک شعر میں کہتے ہیں کہ دوست تو اس باغ کی سیر کر کے تغافل کے ساتھ چلے گئے اور میں ہوں کہ تماشائے گل و خار پر آنسو بہا رہا ہوں)
زین باغ گذشتند حریفان بہ تغافل
تا من بہ تماشای گل و خار بگریم
طلسم ہستی کی سیر گداز کرنے کا فن بیدل کو ایک دن میں حاصل نہیں ہوا تھا اس کے لیے بقول ان کے انہوں نے ایک مدت دراز تک شمع کی طرح شعلوں سے نباہ کیا تھا:
چون شمع روزگاری با شعلہ ساز کردم
تا در طلسمِ ھستی سیرِ گداز کردم
غالب اور بیدل میں فکرونظر اور شخصیت کا فرق ہے جو ان دونوں عظیم شاعروں کے کلام میں نمایاں ہے‘ غالب کہتے ہیں:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
بیدل نے کہا تھا کہ سب اپنی خوشیوں بھری زندگی کی آرزو کرتے ہیں میری یہ تمنا ہے کہ سارا زمانہ خوش اور خوشحال ہو جائے:
ھمہ راست زین چمن آرزو کہ بکامِ دل ثمری رسد
من و پر فشانیِ حسرتی کہ زمانہ گل بسری رسد
غالب کہتے ہیں:
بُرد گوئی خرمی از ھر دو عالم ھر کہ یافت
در بیابان مردن و در قصر و ایوان زیستن
(دو عالم میں اس نے شادمانی کی بازی جیت لی جس نے شاہی محل میں جینا اور بیابان میں مرنا پالیا)
بیدل نے کہا تھا:
بیدل من از وجود و عدم کردم اختیار
بی اختیار مردن و ناچار زیستن
(اے بیدل میں نے زندگی اور موت سے بے اختیار مرنا اور ناچار جینا منتخب کیا ہے)
غالب می نوشی اور وصل و عشق کے مضامین شوخی اور بے باکی سے بیان کرتے ہیں جبکہ بیدل کے ہاں ان مضامین کے بیان میں ایک خاص رکھ رکھاؤ‘ پروقار اور معتبر انداز ہے۔ ان کی نظر میں حسن و عشق ہی سے زندگی زیب و زینت حاصل کرتی ہے کہ انہی سے انسانیت یا انسان دوستی کے جذبے جلا پاتے ہیں:
فریب ھستی چیست؟ غیر از شورِ عشق و سازِ حسن
نکھَتِ گل گر نہ ای دودِ دماغ عودباش
(زندگی شور عشق و ساز حسن کے سوا کچھ نہیں اگر تم پھول کی خوشبو نہیں بن سکتے تو عود کے دماغ کا دھواں بن جاؤ (عود جلا کر بھی خوشبو پیدا کی جاتی ہے۔ عود کی لکڑی جل کر خوشبو دیتی ہے جبکہ گلاب کے پھول کی خوشبو خودبخود پھیلتی رہتی ہے یعنی اگر زمانہ سازگارنہیں ہے تو اسے سازگار بنانے کے لیے محنت و کوشش کرو))
مضامین عشق و وصل کے حوالے سے غالب کہتے ہیں:
دانش بمی در باختہ خود را زمن نشناختہ
رخ درکنارم ساختہ از شرم پنھاں در بغل
(وہ شراب پی کر بے خودی کے عالم میں میری آغوش میں آکر میری بغل میں چھپ گیا)
با غالبِ خلوت نشین بیمی چنان عیشی چنین
جاسوس سلطان در کمین مطلوب سلطان در بغل
(خلوت نشین غالب کے ساتھ خوف بھی ہے اور عیش بھی کہ بادشاہ کے جاسوس تاک میں بیٹھے ہیں اور بادشاہ کا مطلوب و محبوب میری آغوش میں ہے)
وصل و عشق کے حوالے سے بیدل نے کہا تھا:
ای از خرامت نقش پا خورشید تابان در بغل
از شوخیِ گردِ رھت عالم گلستان در بغل
(اے محبوب تیری رفتار سے تیرا نقشِ پا چمکتے سورج کو بغل میں لئے ہوئے ہے یعنی تیرا نقشِ پا سورج کی طرح منور ہے اور تیرے راستے کی گرد کی شوخی سے ساری دنیا اپنی آغوش میں چمن لئے ہوئے ہے یعنی تیری گرد راہ سے سارا عالم چمن بنا ہوا ہے)
آنچہ نتوان داد جز در دستِ محبوبان دل است
و آنچہ نتوان ریخت جز در پای محبوبان آبرو است
(محبوبوں کو صرف دل ہی پیش کیا جاسکتا ہے اور ان کے پاؤں میں صرف آبرو ہی ڈالی جا سکتی ہے)
نتوان کشید دامن ز غبار مستمندان
بخرام و ناز ھا کن سِرما و خاکِ پایت
(ہم خاکساروں کے غبار خاک سے دامن نہیں بچایا جا سکتا‘ تشریف لائیے‘ نازو ادا دکھائیے ہمارا سر ہے اور آپ کے پاؤں کی خاک ہے)
غالب کہتے ہیں:
تو طفلِ سادہ دل و ھم نشین بد آموز است
جنازہ گر نتوان دید بر مزارِ ما بیا!
(تم سادہ دل ہو تمہارا ہم نشین تمہیں ہمارے خلاف بھڑکاتا ہے‘ جنازہ میں شریک نہیں ہو سکے تو ہمارے مزار پر ہی آجاؤ)
بیدل نے کہا تھا:
رمیدی از دیدہ بی تامل گذشتی آخر بصد تغافل
اگر ندیدی تپیدن دل شنیدنی داشت نالۂ ما
(تم آنکھوں سے دور چلے گئے اور ہمارے پاس سے نہایت تغافل سے گذر گئے‘ اگر ہمارے دل کی دھڑکن تم نے نہیں سنی، ہمارے نالے تو سنے جا سکتے تھے)
غالب کہتے ہیں:
چہ عیش از وعدہ چون باور زعنوانم نمی آید
بنوعی گفت می آیم کہ میدانم نمی آید
(یعنی اس وعدہ پر کیا خوش ہونا جو اس عنوان سے کیا گیا کہ اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا تھا‘ اس نے ’’میں آؤں گا‘‘ اس طور سے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ وہ نہیں آئے گا)
بیدل نے کہا تھا:
این حریفان وصل می خواھند و بیدل انتظار
در محبت آرزو را اعتبار دیگر است
(یہ حریف وصل کے خواہاں ہیں اور میں بیدل انتظار چاہتا ہوں‘ محبت میں آرزو کا اعتبار ہی اور ہے (آرزو کا انداز یا رنگ ہی اور ہے))
غالب نے اپنی اس اردو غزل:
جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ھنگامہ، اے خدا، کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟
میں سوالیہ انداز کے ساتھ حقائق کے اظہار کا طریقہ اپنایا تھا، بیدل کے ہاں یہ انداز موجود ہے لیکن بیدل کا انداز گہری معنویت کا حامل ہے :
بیدل:
بحر بیتاب کہ آن گوھرِ نایاب کجا است
چرخ سرگشتہ کہ خورشیدِ جھان تاب کجا است؟
(بحر بے چین ہے کہ وہ گوھرِ نایاب(یعنی ذاتِ حق) کہاں ہے؟ آسمان پریشان ہے کہ خورشید جہاں تاب (یعنی ذاتِ حق) کہاں ہے؟)
دیر ازین غصہ در آتش کہ چہ رنگ است صنم
کعبہ ازین درد سیہ پوش کہ محراب کجا است؟
(دیر اس غم سے جل رہا ہے‘ کہ صنم کس رنگ کا ہے کعبہ اس درد سے سیاہ پوش ہے کہ محراب کہاں ہے؟)
صبح از چہ خرابات جنون کرد بھارش؟
آفاق گرفتہ است بہ خمیازہ خمارش
(صبح کس خراباتِ جنوں سے بہار بن کر نکلی ہے کہ ساری کائنات اس خمارکے خمیازے میں مبتلا ہے)
چنین کشتۂ حیرتِ کیستم من؟
کہ چون آتش از سوختن زیستم من
(میں کس کی حیرت کا ایسا مارا ہوا ہوں کہ آگ کی طرح جلنے ہی میں میری زندگی ہے کہ سانس کی گرمی سے انسان زندہ ہے)
اگر فانیم چیست این شور ھستی؟
دگر باقیم از چہ فانیستم من؟
(اگر میں فانی ہوں تو یہ زندگی کا شور کیا ہے؟ اور اگر میں باقی ہوں تو کس لئے میں فانی ہوں‘ مجھے موت کیوں آتی ہے؟)۔۔۔ پھرخودہی فرماتے ہیں :
اے کہ ازفہم حقایق دم زنی خاموش باش
عمر ہا باید کہ دریابی زبان خویش را
(یعنی تم جو حقایق کو سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہو چپ رہوایک عمر چاہیے تاکہ تم اپنی زبان کو پا سکویعنی کسی حقیقت کوبیان کرنے کے لیے صحیح اندازِ بیان مدت کے بعد حاصل ہوتا ہے)
غالب اردو میں کہتے ہیں:
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے تو مرا جام سفال اچھا ہے
بیدل نے کہا تھا:
مباش ھمچو گھر مردہ ریگِ این دریا
نظر بلند کن و ھمتِ حباب طلب
(موتی کی طرح اس سمندر (دنیا) کی میراث مت بنو‘ بلند نظر بن کر بلبلہ کی سی ہمت پیدا کرو)
غالب نے تخیل کے بل بوتے پر جامِ سفال یعنی مٹی کے پیالے کو جام جم سے بہتر ثابت کر دیا‘ جبکہ بیدل نے تخیل کے زور پر گوھر کی مٹی پلید کردی اور حباب کی قدر گوھر سے بڑھا دی۔ ویسے بھی گوھر پانی میں چُھپا رہتا ہے جبکہ حباب (بلبلہ) اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے سطح آب پر سربلند کرتا ہے، اس طور بلبلہ گوہر سے برتر ہے کہ اس نے اپنی شخصیت کا اظہار کیا ہے گوہر کی طرح سیپی میں چھپ کر نہیں بیٹھا:۔۔۔۔ غالب کے شعر میں رندانہ پن ہے اور بیدل کے شعر میں ایک حقیقت کا نیا رخ ہے جو خودی اور خودداری کے شعور کو لیے ہوئے ہے ۔
بیدل نے کہا تھا:
طالبِ صحبت معنی نظران باید بود
خاک در صحنِ بھشتی کہ ندارد آدم
(اہل معنی کی صحبت کے طالب بنو‘ اُس جنت پر مٹی ڈالو جس میں انسان نہ ہو)
غالب کہتے ہیں:
بہ خلد از سردیِ ھنگامہ خواھم
بر افروزم بگردِ کوثر آتش
(جنت میں گرمی ہنگامہ نہ ہونے کی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ کوثر یعنی حوض کوثر کے گرد آگ جلادوں)
بیدل نے کہا تھا:
در فکر خودم معنی او چھرہ کشاشد
خورشید برون ریختم از ذرہ شگافی
(میں اپنی ذات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس (ذاتِ برحق) کا جلوہ نظر آگیا‘ یوں ذرہ شگافی کے عمل سے خورشید کو پالیا یعنی ذرے (اپنی ذات) کا دل چیرا تو وہاں سورج یعنی خدا مل گیا)
غالب کہتے ہیں:
آفتابِ عالمِ سر گشتگی ہای خودیم
می رسد بوی تو از ھر گل کہ می بوئیم ما
(یعنی ہم اپنی سرگشتگی کی دنیا کے سورج ہیں‘ جس پھول کو بھی سونگھتے ہیں اس سے تیری ہی خوشبو آتی ہے)
دونوں نے تصوف کے حوالے سے ذات حق کے بارے میں بات کی ہے‘ غالب کہتے ہیں کہ ہم اپنی سرگشتی کی دنیا کے سورج ہیں‘ جس پھول کو بھی سونگھتے ہیں اس میں تیری ہی خوشبو پاتے ہیں‘ بیدل کہتے ہیں کہ اپنی ذات پر غوروفکر کے دوران مجھے ذات حق کا پتا مل گیا‘ یوں میں نے ذرے کا دل چیرا تو خورشید کو پالیا___ غالب نے جس پھول کو بھی سونگھا اُس میں اُس نے ذاتِ حق کی خوشبو پائی اور بیدل نے اپنی ذات کے بارے میں جو ذرے سے بھی کمتر ہے جب غوروفکرکیا تو اُس نے سورج (ذاتِ حق) کو پالیا___ ذات حق کی خوشبو پانا اور خود ذات حق کو پانے میں جو فرق ہے وہ صاف ظاہر___ بیدل اور غالب کے فکروفن میں جو فرق ہے وہ بھی صاف ظاہر ہے۔
انسان، زندگی‘ ذات حق‘ کفر و دین، عشق و محبت اور حق و حقیقت کی جستجوکے بارے میں غالب اور بیدل نے جو کچھ کہا وہ ان کی شخصیت اور فکروفن کی عکاسی کرتا ہے۔ دانشورِ دنیا دوست اور دانشورِ خدا دوست ،زندہ دل اور اہل دل‘ بادہ پرست اور خدامست میں جو فرق ہے وہ غالب اور بیدل میں ہے۔ غالب کا کلام ایک رندِبادہ پرست کی دانشورانہ شوخی کا مظہر ہے جس نے ان کے کلام کو دلکش اور مقبول بنا دیا ہے‘ جبکہ بیدل کا کلام ایک خدامست اہل نظر اور اہل دل کی گہری اور وسیع سوچ لئے ہوئے ہے جس کے معانی کے مختلف پہلوؤں اور ان کی گہرائی تک رسائی پاکیزگی ذوق اور دقیق کاوشِ ذہن کی طالب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع ومآخذ
۱۔ آزاد بلگرامی، خزان�ۂ عامرہ ، مطبع نولکشور،کانپور۱۸۷۱عیسوی
۲۔ اقبال ،کلیات فارسی،شیخ غلام علی اینڈ سنز ،لاہور ۱۹۷۰ء
۳۔ برہم ناتھ دت ،غالب کی فارسی شاعری(مقالہ)نگارپاکستان جنوری ۱۹۶۹ء
۴۔ بیدل ،کلیات،طبع افغانستان
۵۔ ذبیح اﷲ صفا ،تاریخ ادبیات درایران،تہران ۱۳۷۱
۶۔ سید اطہر شیر، میرزا عبدالقادر ،ادار�ۂ تحقیقات عربی وفارسی ،پٹنہ بہار، بھارت،
۷۔ عابد علی عابد ،اسلوب ،طبع لاہور
۸۔ عباداﷲ اختر ،بیدل ،طبع لاہور
۹۔ عبدالغنی(ڈاکٹر )،روح بیدل ،طبع لاہور
۱۰۔ مجنون گورکھ پوری ،نکات مجنون،طبع لاہور،
۱۱۔ محمد افضل سرخوش ،کلمات الشعرا‘ شیخ مبارک علی اینڈ سنز‘ لاہور‘ ۱۹۴۲ء
۱۲۔ مرزا اسداﷲ خان غالب،کلیاتِ غالب(فارسی) جلد سوم، مرتبہ سید مرتضیٰ حسین ،فاضل لکھنوی،مجلس ترقی ادب لاہور
۱۳۔ مرزا اسداﷲ خان غالب،دیوان فارسی مرتبہ سیدوزیر الحسن عابدی ،میری لائبریری لاہور، ۱۹۶۹عیسوی
۱۴۔ سید مہدی مجروح ’،فخرعرفی ورشک طالب مرد‘(مقالہ)اکمل الاخبار ،دہلی ،بھارت
 
Top