216
مکانات سبز پیراہن پہن لیتے اور چوبارے یوں دکھائی دیتے جیسے تنکوں سے بنے ہوئے جنگلی جھونپڑے ہوں اور پھر دور سے بانسری کی سریں بلند ہوتیں اور کرشن کنہیا گوکل لے بن میں ٹہلتے اور ان کے چہرے کے ریشمیں سانولے پن میں اشیرباد کی مدھم روشنی شمکتی اور چوگان میں کوئی راکشش ارجمند کے رُوپ میں چلا جاتا ۔ “ نند گاؤں والے ابے او گوکل کے پجاری۔ لو بھئی یہ حضرت ہاتھ سے گئے۔ نہ جانے کیا زمانہ آیا ہے چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ نہیں رہا۔ اب بتاؤ اقربا میرے کریں خون کا دعوٰی کس پر۔“
گلِ حکمت کا متوالا
پھر بیٹھے رفیق کو سوجھی۔ رفیق کو ہمیشہ ہی سُوجھا کرتی تھیں اگر چہ بظاہر وہ ایک خاموش لڑکا تھا۔ رفیق کی تمام تر قوت اس کی آنکھوں اور گالوں میں سمٹ کر آ گئی تھی۔ جہاں تک زبان کا تعلق تھا وہ گونگا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی بھی بات کر دو تو وہ مسکرا دیتا اس کی مسکراہٹ میں تلخی نہیں ہوتی تھی۔ ایسی بات کرو جو اسے ناپسند ہو تو اس کے ہونٹ ہلکے سے کھل جاتے اور اس کی آنکھوں میں ہلکی سی بُوندا باندی شروع ہوجاتی۔ ایسی بات چھیڑ دو جو اس کے لئے تکلیف دہ ہو تو وہ گھبرا جاتا۔ اُس کے ہونٹوں سے اُف اُف کی آواز نکلتی جیسے اُس نے کوئی گرم چیز منہ میں ڈال لی ہو اور اُس کی حرکات اضطرابی رنگ اختیار کر لیتیں۔
بے زبان ہونے کے باوجود رفیق بے حد حساس تھا۔ اس کی طبیعت میں دبی دبی رنگینی تھی۔ صبح سویرے ہی وہ شریف کے یہاں جا پہنچتا، ” چچی کوئی چیز تو نہیں منگانی؟“ اور پھر جب چچی رنگین اشتہار کی طرح اس کے سامنے آتی تو وہ گھبرا کے پیچھے ہٹ جاتا اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں اور کوئی رنگین سر گلے میں پھنس جاتا۔ شدتِ تاثُر سے وہ اُف اُف سی کرتا آمکھوں کی بُوندا باندی اور تیز ہو جاتی۔ رفیق دبی دبی آنچ کو پسند کرتا تھا۔ وہ گُلِ حکمت کا متوالا تھا۔ اُسے بھڑک کر جلنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُس کے کردار میں دو پہلو نمایاں تھے رنگینی اور جھجک۔
آن ملا تھا
اس کے باوجود رفیق کو اکثر سوجھتی تھیں۔ اب کی بار اُسے لاجواب بات سُوجھی اور محلے کے لڑکے بات سن کر متفقہ طور پر جھومنے لگے۔
” میں کہتا ہوں“ وہ بولا --------- ” اگر ہم ایک ڈرامہ کھیلیں تو؟“
”ڈرامہ !“ ایلی کے دل میں گویا ایک رنگین ہوائی چل گئی۔
” ڈرامہ، آہا کیا بات ہے!“ ارجمند چلایا۔ ” کرشن کنیا ٹھیک رہے گا۔ آہاہا ادھر گائیاں ادھر گوپیاں اور بیچ میں بندرابن کا گوکل۔“
” ڈرامہ“ صفدر نے ایک لمبی آہ بھری اور سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر شانے پھیلا کر گنگنانے لگا۔ ”حافظ خدا تمہارا۔“
یوسف سپاہیانہ ہنسی ہنسا ”یہ بھی کر دیکھو۔“ وہ بولا
رضا نے اپنی لنگڑی ٹانگ جھلا کر کہا، ”میاں کوئی بادشاہ کا پارٹ ہو تو ہمیں دے دینا۔ باقی سب خیریت ہے۔“
صفدر کے دالان میں پردوں کی جگہ کھیس اور چادریں لٹکائی گئیں۔ کیونکہ اس کے سامنے صحن کے اُوپر کی چھت گیلری کا کام دے سکتی تھی۔ جہاں سے محلے کی عورتیں ڈرامہ دیکھ سکتی تھیں۔ آغا حشر کے کھیل ”خوبصورت بلا“ کا ایک رنگین ٹکڑا کھیلنے کے لئے چُنا گیا۔ رفیق نے گُلخیرو کا پارٹ سنبھال لیا۔ ارجمند کو زٹیک کا کام ملا اور اسی طرح سب ہی پارٹ محلے کے بڑے لڑکوں نے سنبھال لئےاور وہ سب شدت سے ریہرسل میں مصروف ہو گئے۔
اس رات صحن کھچا کھچ لڑکوں سے بھرا تھا۔ اُوپر گیلری میں بیس تیس عورتیں بیٹھی تھیں۔ بستر کے لٹکے ہوئے کھیسوں اور چادروں کے پیچھے گلخیرو کی آنکھوں میں گلابی رنگ کی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ارجند زٹیک کے بھیس میں پریم پتر اور پریم ٹوٹا سنبھالے کھڑا تھا۔ صفدر ہدایت کار کی حیثیت سے شانے پھیلائے ”اے دلرُبا میں ہُوں فدا“ گُنگنا رہا تھا۔
کھیل شروع ہوا۔ ایکٹر یوں منہ اُٹھا کر باتیں کر رہے تھے، جیسے اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوں۔ گلخیرو کبوتر کی طرح سینے کو دیرا کئے کھڑا تھا۔ زٹیک چھت سے باتیں کر رہا تھا۔ پرامٹ کرنے والوں کے لئے کتاب پر نظریں جمائے رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ پٹاخہ بجا بھی دیتے تو پردہ کھینچنے والے کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ اُسے پردہ کھینچنا چاہیے۔
ادھر زٹیک سامنے منظر کی وجہ سے اس حد تک مست ہوگیا تھا کہ ان جانے میں اس نے ڈنڈے کو یوں تھام لیا تھا جیسے وہ ایک بانسری ہو۔ صرف ایلی کی نگاہیں جُھکی جُھکی تھیں۔ اُسے زنانہ پارٹ کرنے میں شرم محسوس ہو رہی تھی۔
تماشائی بار بار تالیاں بجا رہے تھے۔ گیلری کے دھندلکے میں سفید سفید دانت چمک رہے تھے۔ ہلکی ہلکی روپہلی گھنٹیاں بج رہی تھیں جنہیں سن کر اداکار اور بھی چمکتےاور ان کے لئے اپنے پارٹ پر محدود رہنا مشکل ہو جاتا اور وہ اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر مکالمے بولتے۔ آخری گانے پر زبردست تالیاں پیٹی گئیں۔ گیلری سے دبا دبا واہ واہ کا شور بلند ہوا۔ اس پر گانے والے اور بھی چمکے اور وہ جوش میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے لگے اور وہ اپنے بازو جھلاتے ہوئے چلایا، ” آن ملا تھا اک پردیسی پیاری بھول نہ جانا۔“ جیسے گیلری میں کسی سے مخاطب ہو۔ اس پر تالیوں کا طوفان اور بھی تیز ہوگیا۔ گیلری سے با آوازِ بلند نعرے سنائی دیئے اور آخری ڈراپ گرا دیا گیا۔