ع پ ک ا (216 - 245)

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

216​


مکانات سبز پیراہن پہن لیتے اور چوبارے یوں دکھائی دیتے جیسے تنکوں سے بنے ہوئے جنگلی جھونپڑے ہوں اور پھر دور سے بانسری کی سریں بلند ہوتیں اور کرشن کنہیا گوکل لے بن میں ٹہلتے اور ان کے چہرے کے ریشمیں سانولے پن میں اشیرباد کی مدھم روشنی شمکتی اور چوگان میں کوئی راکشش ارجمند کے رُوپ میں چلا جاتا ۔ “ نند گاؤں والے ابے او گوکل کے پجاری۔ لو بھئی یہ حضرت ہاتھ سے گئے۔ نہ جانے کیا زمانہ آیا ہے چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ نہیں رہا۔ اب بتاؤ اقربا میرے کریں خون کا دعوٰی کس پر۔“

گلِ حکمت کا متوالا

پھر بیٹھے رفیق کو سوجھی۔ رفیق کو ہمیشہ ہی سُوجھا کرتی تھیں اگر چہ بظاہر وہ ایک خاموش لڑکا تھا۔ رفیق کی تمام تر قوت اس کی آنکھوں اور گالوں میں سمٹ کر آ گئی تھی۔ جہاں تک زبان کا تعلق تھا وہ گونگا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی بھی بات کر دو تو وہ مسکرا دیتا اس کی مسکراہٹ میں تلخی نہیں ہوتی تھی۔ ایسی بات کرو جو اسے ناپسند ہو تو اس کے ہونٹ ہلکے سے کھل جاتے اور اس کی آنکھوں میں ہلکی سی بُوندا باندی شروع ہوجاتی۔ ایسی بات چھیڑ دو جو اس کے لئے تکلیف دہ ہو تو وہ گھبرا جاتا۔ اُس کے ہونٹوں سے اُف اُف کی آواز نکلتی جیسے اُس نے کوئی گرم چیز منہ میں ڈال لی ہو اور اُس کی حرکات اضطرابی رنگ اختیار کر لیتیں۔

بے زبان ہونے کے باوجود رفیق بے حد حساس تھا۔ اس کی طبیعت میں دبی دبی رنگینی تھی۔ صبح سویرے ہی وہ شریف کے یہاں جا پہنچتا، ” چچی کوئی چیز تو نہیں منگانی؟“ اور پھر جب چچی رنگین اشتہار کی طرح اس کے سامنے آتی تو وہ گھبرا کے پیچھے ہٹ جاتا اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں اور کوئی رنگین سر گلے میں پھنس جاتا۔ شدتِ تاثُر سے وہ اُف اُف سی کرتا آمکھوں کی بُوندا باندی اور تیز ہو جاتی۔ رفیق دبی دبی آنچ کو پسند کرتا تھا۔ وہ گُلِ حکمت کا متوالا تھا۔ اُسے بھڑک کر جلنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُس کے کردار میں دو پہلو نمایاں تھے رنگینی اور جھجک۔


آن ملا تھا

اس کے باوجود رفیق کو اکثر سوجھتی تھیں۔ اب کی بار اُسے لاجواب بات سُوجھی اور محلے کے لڑکے بات سن کر متفقہ طور پر جھومنے لگے۔

” میں کہتا ہوں“ وہ بولا --------- ” اگر ہم ایک ڈرامہ کھیلیں تو؟“

”ڈرامہ !“ ایلی کے دل میں گویا ایک رنگین ہوائی چل گئی۔

” ڈرامہ، آہا کیا بات ہے!“ ارجمند چلایا۔ ” کرشن کنیا ٹھیک رہے گا۔ آہاہا ادھر گائیاں ادھر گوپیاں اور بیچ میں بندرابن کا گوکل۔“

” ڈرامہ“ صفدر نے ایک لمبی آہ بھری اور سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر شانے پھیلا کر گنگنانے لگا۔ ”حافظ خدا تمہارا۔“

یوسف سپاہیانہ ہنسی ہنسا ”یہ بھی کر دیکھو۔“ وہ بولا

رضا نے اپنی لنگڑی ٹانگ جھلا کر کہا، ”میاں کوئی بادشاہ کا پارٹ ہو تو ہمیں دے دینا۔ باقی سب خیریت ہے۔“

صفدر کے دالان میں پردوں کی جگہ کھیس اور چادریں لٹکائی گئیں۔ کیونکہ اس کے سامنے صحن کے اُوپر کی چھت گیلری کا کام دے سکتی تھی۔ جہاں سے محلے کی عورتیں ڈرامہ دیکھ سکتی تھیں۔ آغا حشر کے کھیل ”خوبصورت بلا“ کا ایک رنگین ٹکڑا کھیلنے کے لئے چُنا گیا۔ رفیق نے گُلخیرو کا پارٹ سنبھال لیا۔ ارجمند کو زٹیک کا کام ملا اور اسی طرح سب ہی پارٹ محلے کے بڑے لڑکوں نے سنبھال لئےاور وہ سب شدت سے ریہرسل میں مصروف ہو گئے۔

اس رات صحن کھچا کھچ لڑکوں سے بھرا تھا۔ اُوپر گیلری میں بیس تیس عورتیں بیٹھی تھیں۔ بستر کے لٹکے ہوئے کھیسوں اور چادروں کے پیچھے گلخیرو کی آنکھوں میں گلابی رنگ کی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ارجند زٹیک کے بھیس میں پریم پتر اور پریم ٹوٹا سنبھالے کھڑا تھا۔ صفدر ہدایت کار کی حیثیت سے شانے پھیلائے ”اے دلرُبا میں ہُوں فدا“ گُنگنا رہا تھا۔

کھیل شروع ہوا۔ ایکٹر یوں منہ اُٹھا کر باتیں کر رہے تھے، جیسے اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوں۔ گلخیرو کبوتر کی طرح سینے کو دیرا کئے کھڑا تھا۔ زٹیک چھت سے باتیں کر رہا تھا۔ پرامٹ کرنے والوں کے لئے کتاب پر نظریں جمائے رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ پٹاخہ بجا بھی دیتے تو پردہ کھینچنے والے کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ اُسے پردہ کھینچنا چاہیے۔

ادھر زٹیک سامنے منظر کی وجہ سے اس حد تک مست ہوگیا تھا کہ ان جانے میں اس نے ڈنڈے کو یوں تھام لیا تھا جیسے وہ ایک بانسری ہو۔ صرف ایلی کی نگاہیں جُھکی جُھکی تھیں۔ اُسے زنانہ پارٹ کرنے میں شرم محسوس ہو رہی تھی۔

تماشائی بار بار تالیاں بجا رہے تھے۔ گیلری کے دھندلکے میں سفید سفید دانت چمک رہے تھے۔ ہلکی ہلکی روپہلی گھنٹیاں بج رہی تھیں جنہیں سن کر اداکار اور بھی چمکتےاور ان کے لئے اپنے پارٹ پر محدود رہنا مشکل ہو جاتا اور وہ اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر مکالمے بولتے۔ آخری گانے پر زبردست تالیاں پیٹی گئیں۔ گیلری سے دبا دبا واہ واہ کا شور بلند ہوا۔ اس پر گانے والے اور بھی چمکے اور وہ جوش میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے لگے اور وہ اپنے بازو جھلاتے ہوئے چلایا، ” آن ملا تھا اک پردیسی پیاری بھول نہ جانا۔“ جیسے گیلری میں کسی سے مخاطب ہو۔ اس پر تالیوں کا طوفان اور بھی تیز ہوگیا۔ گیلری سے با آوازِ بلند نعرے سنائی دیئے اور آخری ڈراپ گرا دیا گیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


کون خوش نصیب


اگلے روز جب ایلی چائے پینے کے لئے شریف کے گھر بیٹھا تھا اور شریف دو ایک منٹ کے لئے اُسے اکیلا چھوڑ کر خود کوٹھے پر گیا ہوا تھا تو دفعتا قریب ہی سے ایک سُریلی آواز اس کے کان میں پڑی، اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ کوئی گا رہی تھی۔

” آن ملا تھا اک پردیسی پیارے بھول نہ جانا جی۔“ اس نے لپک کر ملحقہ کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ سانوری کھڑی مُسکرا رہی تھی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس کی آنکھیں جُھکی ہوئی تھیں۔ جن پر لمبی لمبی پلکیں سایہ کئے ہوئے تھیں۔ اس کے سانورے رنگ میں مخملی چمک تھی اور کھڑے ہونے کے انداز میں واضح سپردگی۔ ایلی کا دل اُچھل کر اس کے گلے آ اٹکا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا وہ مُسکرائے جا رہی تھی۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ اس سے بات کرے اس سے پوچھے، ”تم سانوری ہو، کیا واقعی؟“ مگر اُس میں اتنی جُرات نہ تھی۔

شام کو ایلی جب دولت پور جانے کی تیاری میں مصروف تھا تو دفعتا وہ چونکا، ”ارے“ وہ چلایا، ”اُس نے تو کہا۔ پیارے بھول نہ جانا جی۔ پیارے ہاں ہاں یقینا اس نے پیارے کہا تھا۔ لیکن گیت میں تو پیاری تھا۔ پیاری بھول نہ جانا جی۔ پھر سانوری نے پیارے کیوں کہا تھا۔ پیارے سے اس کا مطلب کیا تھا؟ کس سے مخاطب تھی وہ؟۔ اس وقت کمرے میں تو کوئی بھی نہ تھا اور وہ کھڑکی میں تو نہ تھی۔ کھڑکی سے دُور اس دروازے کے قریب جو گھر میں کُھلتا تھا۔“ ایک ساعت کے لئے اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی، ”شاید“ اس کے ذہن میں ایک خیال آیا، ”نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، کیسے ہو سکتا ہے یہ۔ مجھ میں ہے ہی کیا، لا حول ولا قوۃ مجھ سے یہ جملہ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ پھر سانوری کہے۔“

”لیکن پھر وہ کون تھا، کون تھا وہ؟“ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ”نجانے کون تھا۔ کوئی خوش نصیب ہوگا۔“

اس کی چھٹیاں کیسے نازک وقت پر ختم ہوئی تھیں۔ اگر وہاں کچھ دیر اور رہتا کاش ---------- کم از کم اُسے یہی معلوم ہو جاتا کہ وہ خوش نصیب کون ہے۔

پھر جب وہ شریف کو خدا حافظ کہنے کے لئے شہزاد کے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ سانوری کھڑکی میں کھڑی تھی۔ خاموش ، اُداس ، ایک ساعت کے لئے اُس کی پلکیں اُٹھیں ۔ اُس نے ایک ساعت کے لئے نگاہ بھر کر ایلی کی طرف دیکھا۔ ایک واضح آہ بھری پھر اُس کی آنکھیں جُھک گئیں۔ سانورے رنگ کی لمبوتری اُنگلی نے یوں رُخسار کو چھوا جیسے آنسو پونچھ رہی ہو پھر اُس نے منہ موڑ لیا۔

”تم جا رہے ہو ایلی۔“ شریف مُسکرایا، ”جاؤ چلے جاؤ۔ اس اندھے کنویں سے بھاگ جاؤ۔ جاؤ وہاں جہاں لوگ محبت کرنے کو گناہ نہیں سمجھتے۔ جاؤ محبت کرو ایلی۔“

ڈیوڑھی میں رفیق سر جُھکائے کھڑا تھا۔ اُس نے ایک لمبی آہ بھری۔ سی سی کی مدھم آواز سنائی دی۔ ”میں بھی جارہا ہوں ایلی“ وہ بولا، ”نوکری مل گئی ہے مجھے اب جانا ہی ہوگا۔“ وہ یوں آہیں بھر رہا تھا جیسے نوکری کا مل جانا بد قسمتی ہو۔

لالٹین کے قریب ارجمند کھڑا اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔ ”یہ تم نہیں جارہے ایلی۔“ وہ بولا ”تمہیں کون خاطر میں لاتا ہے ------“ وہ رک گیا۔

”لیکن کیا؟“ ایلی نے مسکرانے کی کوشش کی۔

”پچکاری سے رنگ جا رہا ہے۔ بانسری سے نغمہ جارہا ہے“ ارجمند نے آہ بھر کر کہا۔

”پاگل ہو گئے ہو۔“ ایلی نے اُسے گھورا۔

”ہاں۔“ اس نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی، ”سچ کہتا ہوں۔“ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

”سانوری کنہیا نے پاگل کر دیا ہے کیا؟“ ایلی نے پوچھا۔

”گوپیوں کے بغیر کنہیا کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں اتنا بھی نہیں جانتے تم۔“ ارجمند نے پینترا بدلا ”چلے جاؤ۔ دفع ہو جاؤ۔ جاؤ ہم حکم دیتے ہیں جاؤ۔ ما بدولت کا فرمان بجا لاؤ۔ جاؤ۔------------“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


تیم اور نیم

قرب کی آرزُو

اب کی بار دولت پور میں پہنچ کر ایلی کے خیالات اور حسیات بدل رہے تھے۔ اس کے احساسات میں نئی بیداریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ خیالات میں تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ جسم میں نئے تقاضے اُبھر رہے تھے۔ اُس کے دل میں عورت کے قرب کا شوق پیدا ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ عورت کے قریب جائے۔ اُسے قریب سے دیکھے اُسے پیار کرے مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ آصفی سماج میں کسی عورت کے قریب جانے کا امکان نہ تھا۔ اور اگر ہوتا بھی تو ایلی میں اتنی جُرات کہاں؟ بہرحال اُس کی خواہش تھی کہ کسی کی بانہہ پکڑ لے اور پھر رو دے۔ پھر اُسے اس کوچے کا خیال آتا جہاں سے سارنگی کی سُریں گونجا کرتی تھیں، لیکن------- اگر بفرضِ محال وہاں چلا بھی جاتا تو ان عورتوں کو دیکھ کر عجیب سی کراہت محسوس ہوتی جو لالٹین جلائے ہوئی بیٹھی مردوں کا انتظار کیا کرتی تھیں۔ درحقیقت وہ انھیں عورتیں ہی نہیں سمجھتا تھا۔

اس کوچے میں پہنچے بغیر کسی عورت سے قرب ممکن نہ تھا۔ کسی کو بلوریں پاؤں سکھاتے ہوئے دیکھتا یا کسی کو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ایک نظر دیکھ لیتا تو اسے اور بھی مضطرب کر دیتا تھا پھر عورت سے قرب کی آرزو کیسے پوری ہو سکتی تھی۔

پھر دفعتا اسے ایک خیال آیا۔ ایک مکروہ بھاینک خیال-------- اور وہ لرز گیا مگر لرزنا بیکار تھا اس کا مسلسل طور پر اس خیال پر لا حول پڑھنا بیکار تھا کیونکہ ابتداء ہی سے یہ خیال اس کے دل کی گہرائیوں میں بیٹھ چکا تھا جب وہ ابھر کر ایلی کے شعوری ذہن کی طرف یورش کرتا تو ایلی اسے پھر دبا دیتا اور اس طرح اپنی دنیا کو محفوظ کر لیا کرتا مگر وہ دبایا ہوا خیال اندر ہی اندر دل کو متعفن کئے جا رہا تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جنسیاتی محور


ایلی کی تمام تر جنسیاتی زندگی علی احمد کے محور کے گرد کھو گئی تھی۔ جب کوئی جونک ان کے گھر آکر علی احمد کا خون چوسنے کے شغل میں مصروف کار ہو جاتی تو وہ غصے سے بھوت بن جاتا۔ علی آھمد کو ایسی زندگی بسر کرنے کا حق نہیں۔ اسے ٹین کے سپاہی کا کردار ادا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسے اپنے آپ کو لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل کرنے کا کیا حق ہے۔ کیا اسے ایسی سستی قسم کی عورتوں کے علاوہ کوئی باعزت عورت نہیں ملتی--------- وہ اس بات پر پیچ و تاب کھاتا۔ اور اگر سارہ صبورہ سی باعزت لڑکیاں علی احمد کے رنگین جال میں پھنس جاتیں تو بھی اسے غصہ آتا۔ کیا اسے اپنے عُمر کی عورتیں نہیں ملتیں۔ کیا اسے اس قسم کی سستی عورتیں نہیں مل سکتیں جو روپے کے عوض خریدی جا سکتی ہوں۔ ہر صورت میں اسے علی احمد پر غصہ آتا اور غسے کے بہانے اس کے جنسی پہلو میں اُبال آجاتا اور پھر وہ چوری چوری سوچتا کہ عورت سے قرب حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے ایک واحد امید اور پھر ایک عمر رسیدہ عورت بادلوں سے جھانکتی اور اس کی طرف دیکھ کر مسکراتی۔ اسے اپنی طرف بلاتی اور اس کا جی چاہتا کہ اس کی گود میں سر رکھ کر رو دے۔ روتا رہے حتیٰ کہ جسم کا درد دُور ہو جائےہڈیوں میں جو چیونٹیاں سی چلتی تھیں چٹکیاں لیتی تھیں ان سے نجات حاصل ہو۔ نسوں میں جو تناؤ سا اسے پریشان رکھتا تھا وہ ختم ہو جائے لیکن دفعتا وہ گود میں پڑے ہوئے محسوس کرتا کہ وہ اس بھر پور عورت کو جانتا ہے اس کی شکل و صورت مانوس سی دکاھئی دیتی اس کے منہ سے ایک چیخ نکل جاتی۔ اور وہ آنکھیں بند کر لیتا اور پھر معدوم ہونے کی کوشش میں کھو جاتا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

ہائے ایلی !

اب کی بار جب وہ دولت پور میں آیا تو اس کے خیالات کی دنیا میں نئی تفصیلات کا اضافہ ہو گیا تھا۔ بیٹھے بٹھائے ایک رنگین سی آواز اس کے کان میں پڑتی پیارے بھول نہ جانا جی۔ ایک ملیح تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے جھلملاتی۔ پھر ایک بامعنی ہنسی۔ واضح اور رنگین اور بالآخر مژگاں کے دو گھنے چھتر جھک جاتے اور ایک لمبی سی مخروطی پُرنم انگلی فضا میں ابھرتی۔ پھر دفعتا چھم سے کوئی آجاتا اور منظر یوں بدل جاتا جیسے پتھر گرنے سے جھیل کے ساکت پانی میں ساحل کے ایوانوں کے دھندلے مگر ھسین نقوش دفعتا پاش پاش ہو جاتے اور چاروں طرف لہریں اُٹھنے لگتیں۔ پھر فضا میں چاروں طرف مرکری دیوتا کے ٹخنوں پر لگے ہوئے ننھے بازو پھڑپھڑاتے۔ بلوریں پاؤں رقص کرتے اور بال دوپٹہ اور مژگاں ایک زناٹے سے اس کے قریب سے نکل جاتے اور دور------- دور ایک مدہم حسین آواز گنگناتی ہوئی سنائی دیتی ”ہائے ایلی وہ چائے پر انتظار کر رہے ہیں۔“ اس وقت ایلی چونکتا اور شرم سے سر جھکا لیتا۔ ایک مبہم سا احساسِ جُرم اس کے دل و دماغ پر چھا جاتا۔ دُور ایک ننھی سی حسین عورت سفید آنچل پھیلائے اڑے جاتی۔ اور اس کا جی چاہتا کہ کہیں سر رکھ کر رو دے اتنا روئے کہ کوئی ہاتھ لپک کر اسے تھپکنے پر مجبور ہو جائے۔ قریب ہی سے شریف کا مدہم قہقہہ گونجتا۔ ایلی محبت کرو۔ محبت کرو چاہے کسی چیز سے کرو محبت کرو۔ محبت کے بغیر تم کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنا سر لحاف میں گاڑ دیتا آنکھیں بند کر لیتا۔ نہیں نہیں میں مجرم نہیں ہوں، میں جُرم نہیں کروں گا۔ اور پھر نجانے کہاں سے دو بلوریں ہاتھ اس کی طرف بڑھتے اور ہمدردی بھرے لمس اسے تھپکنے لگتے اور وہ یوں روتے روتے سو جاتا جیسے کوئی بچہ کسی کھلونے کو حاصل نہ کرنے پر روتے روتے تھک کر سو جاتا ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

چھجو کا چوبارہ


خوش قسمتی سے انھی دنوں ایلی کا بہنوئی اجمل دولت پور میں آگیا۔ اسے دولت پور کی کچہری میں ایک نوکری مل گئی تھی۔

ایلی کو اجمل سے بہت ہمدردی تھی کیونکہ کئی ایک پہلوؤں سے اس کی اپنی زندگی اجمل سے ملتی جُلتی تھی۔ اس کے علاوہ اجمل نے اوائلِ عُمر میں ہی بصرہ اور کابل سے دُور دراز مقامات کے سفر کئے تھے جن کی وجہ سے اس کے دل میں اجمل کی عزت پیدا ہو گئی تھی۔

اجمل اُونچے لمبے قد کا لڑکا تھا جس کی قابلیت پر ایلی فخر محسوس کیا کرتا تھا اور سب سے بڑھ کر اسے اجمل کی رنگین طبیعت بہت پسند تھی۔ ہاجرہ کی نکتہ چینی کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے اسے اجمل بہت پسند تھا اور وہ محسوس کرتا تھا کہ اجمل اس کا دوست ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اجمل کے دولت پور آجانے سے ایلی کو ایک سہارا مل گیا کیونکہ اجمل نے وہاں پہنچتے ہی اپنے اثر و رسوخ سے علی احمد کے گھر سے ملحقہ چھجو کا چوبارہ کرائے پر لے لیا اور ایلی کے لئے اجمل کا گھر ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہو گیا۔

ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اجمل کے آجانے سے ایلی نے شمیم کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے سے نجات پالی اب اسے پہلوان کی دوکان پر جا کر دودھ اور بن کھانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی تھی۔

ادھر علی احمد نے ایک بار پھر--------- پرانے انداز کو اعلانیہ اپنا لیا تھا شاید اس لئے کہ کشمیر کا سیب اپنی تمام تر رنگینی کھو چکا تھا۔ اب علی احمد کو ان بل کھاتی ہوئی گلیوں سے گذر کراتنی دُور راجو کے گھر جانا نہیں پڑتا تھا بلکہ راجو خود ان کے یہاں آزادی سے آتی جاتی تھی اور علی احمد کا کمرہ ایک مرتبہ پھر وہی بام آباد کا کمرہ بن گیا تھا جہاں ربڑ کی گڑیا چیختی اور ٹین کا بکتر بند سپاہی جنگ کے نعرے لگاتا اور پھر رنگین ہنسی کی آواز سنائی دیتی جسے سن کر شمیم غصے سے بل کھاتی اور پھر انتقاما عقبی کھڑکی میں جا کھڑی ہوتی اور آنسو پونچھ کر مسکرانے کی کوشش کرتی۔

اگر چہ اب بھی ایلی علی احمد سے ڈرتا تھا گھبراتا تھا لیکن اب وہ علی احمد کے کمرے سے خائف نہ تھا۔ اب نہ تو اسے بوتل اُٹھا کر کنوئیں پر جانا پڑتا تھا اور نہ ہی چیختی ہوئی ربڑ کی گڑیا یا ٹین کے سپاہی کی آوازیں سننا پڑتی تھیں اس لئے کہ جب علی احمد کے کمرے میں میدانِ کارِ زار گرم ہوتا تو ایلی چُپکے سے اجمل کے چوبارے میں جا بیٹھتا اور وہاں پہنچ کر گہری سوچ میں کھو جاتا۔


نہ جانے کیوں

نہ جانے کیوں عورتیں ربڑ کی گڑیوں کی طرح چیں چیں کرتی ہیں اور مرد ٹین کے سپاہی کیوں بن جاتے ہیں کیا سبھی عورتیں ربڑ کی گڑیوں کی طرح چیں چیں کرتی ہیں۔ ان کے منہ سے بچوں کی طرح لاڈ بھری توتلی باتیں کیوں نکلتی ہیں۔ ویسے عام بات کریں تو ان کا لہجہ بالکل صاف ہوتا ہے۔ ذرا توتلا پن نہیں ہوتا، آواز میں لوچ نہیں ہوتا۔ ان امور کے علاوہ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ علی احمد کس معیار کے مطابق عورتوں کو چنتے تھے، مثلا وہ کور تھی ، یہ راجو تھی۔ ان میں کوئی کشش بھی تو نہ تھی۔ کوئی بات بھی تو نہ تھی جسے قابلِ ستائش یا دلکش سمجھا جاسکتا۔ کیا حسن و خوبصورتی کی خصوصیات کے وسیلے کے بغیر عورت ذات بذاتِ خود قابلِ حصول ہوتی ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ کچھ عورتوں کو دیکھ کر تو ایلی کو گھن آتی تھی۔

ایلی محسوس کرتا جیسے عورت ایک معمہ ہو ایک ایسا معمہ جو بند کمرے کے بغیر حل نہ ہو سکتا ہو۔ اس خیال پر اسے شدید خواہش محسوس ہوتی کہ ایک بار اسے بھی کسی عورت کے ساتھ کمرے میں بند ہونے کا اتفاق ہو اور اس کے رُوبرو بھی وہ اسرار کُھل جائیں صرف ایک بار۔ ایک بار۔

وہ راجو یہ راجو

ایک روز رات گئے جب ایلی گھر پہنچا تو علی احمد کے کمرے کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹھکا۔ کمرے سے ٹین کے سپاہی کے نعروں اور ربڑ کی گڑیا کی چیں چیں کی بجائے عجیب سی آوازیں آرہی تھیں۔ کوئی کراہ رہی تھی کوئی مدہم آواز میں ہمدردی جتا رہا تھا۔

ابھی وہ اپنے کمرے میں داخل نہ ہوا تھا کہ دفعتا علی احمد کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اندر سے ہنستی کھیلتی راجو کی جگہ نحیف و نزار راجو برآمد ہوئی۔ اس نے اپنا ہاتھ علی احمد کے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور بصد مشکل سہارا لے کر چل رہی تھی۔

”ایلی“ انھوں نے باہر نکلتے ہی ایلی کو آواز دی۔ ”ادھر آؤ ذرا۔ ہمارے ساتھ چلو۔“

”اِس وقت ، اتنی رات گئے!“ شمیم زیرِ لب بولی۔

”ضروری کام ہے ابھی لوٹ آئیں گے۔“ انھوں نے بے رُخی سے جواب دیا۔ ”چلو ایلی۔“

”اِس بچارے کو کیوں ساتھ خراب کرتے ہو!“ شمیم نے کہا۔

”چلو ایلی“ علی احمد نے شمیم کی بات نہ سنی۔ قافلہ چل پڑا۔ برقعے میں لپٹی ہوئی راجو علی احمد کے ساتھ گھسٹ گھسٹ کر چل رہی تھی۔ اور علی احمد نے اسے یوں سہارا دے رکھا تھا جیسے وہ بیمار ہو۔ پیچھے پیچھے ایلی سوچتا ہوا چلا جا رہا تھا نہ جانے کیا بات ہے۔ نہ جانے کمرے سے یہ کون سی راجو نکلی ہے ۔ راجو ایسی تو نہ تھی۔ وہ تو کتر کتر باتیں کیا کرتی۔ آنکھیں مٹکاتی نخرے کرتی۔ یہ راجو تو روئی روئی سی تھی۔ نہ جانے وہ کدھر جا رہے تھے اور چلتے ہوئے راجو گھسٹ کیوں رہی تھی۔ راجو اپنے گھر پہنچ کر دھڑام سے چارپائی پر گر پڑی اور علی احمد دوڑ کر دوسری چارپائی کے قریب کھڑے ہو کر چلانے لگے۔ ”رحیمن دوڑو دوڑو۔ دیکھو راجو کو کیا ہو گیا ہے؟“

کیا ہے کیا ہے؟ چاروں طرف سے عورتیں راجو کی طرف لپکیں اور یک آن میں بھیڑ لگ گئی۔

صرف وہ بڑھیا دُور کھڑی چلاتی رہی۔ ”کیا پاکھنڈ مچا رکھا ہے تم دونوں نے۔ میں مرتا ہوں۔ میں مرتی ہوں اور مرتا کوئی بھی نہیں نخرے دکھانے شروع کر رکھے ہیں۔ میں کہتی ہوں یہ شخص کیوں آتا ہے اِس گھر میں اور یہ مرنے جوگی اس سے کیوں ملتی ہے اس سے تو یہی بہتر ہے کہ مر جائے خس کم جہاں پاک۔“

”پاگل ہو گئی ہو ماں!“ راجو چلائی ”لڑکی بے ہوش ہے ہاتھ سے جا رہی ہے اور تو کھڑی وعظ کر رہی ہے جیسے مکے سے آئی ہو۔“

”تُو مجھے ماں نہ کہا کر ڈائن“ رحیمن چیخی۔

راجو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ چھاتی پر پڑے تھے منہ خوف سے اور بھی بدنما ہو گیا تھا۔

راجو کے رُخسار پھول رہے تھے جیسے باسی ڈبل روٹی میں اُبال آگیا ہو۔

سیلز مین نے بڑھ کر راجو کو اُٹھا کر بٹھا دیا۔ ساجو نے اس کی مدد کی علی احمد نے سرسری طور پر سہارا دیا لیکن بیٹھنے کی بجائے وہ ڈھیر ہو کر گر پڑی۔

یہ دیکھ کر علی احمد گھبرا گئے۔ ”کاغذ کہاں ہے دوات دوات۔“ وہ چلانے لگے۔ کچھ دیر تلاش کرنے کے بعد انھوں نے کاغذ اور دوات علی احمد کو دے دی۔ علی احمد نے کاغذ پر کچھ لکھا اور چادر میں لپٹا ہوا سیلزمین اُسے لے کر بھاگا۔

چھوٹے کمرے میں رحیمن کھڑی چلا رہی تھی قریب ہی ساجو غصے سے گُھور رہی تھی۔ باہر دالان کے ایک کمرے میں آجو سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس سے پرے ایک ٹوٹی ہوئی کھاٹ پر ایلی بیٹھا سوچ رہا تھا نہ جانے کیا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ راجو کیوں چارپائی پر ڈھیر ہوئی پڑی ہے؟ اس کی ماں بھی بیٹی سے ہمدردی کرنے کی بجائے ان سب کو صلواتیں کیوں سنا رہی ہے اور علی احمد اس قدر گھبرائے کیوں ہیں ؟

پھر دروازہ کُھلا اور چادر میں لپٹے ہوئے سیلز مین کی آواز سنائی دی، ”ڈاکٹر صاحب آگئے۔“ ”ڈاکٹر!“ ایلی نے دیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔ کہیں ڈکٹر پہچان نہ لے۔ اس مکان میں دیکھ نہ لے۔ لیکن علی احمد؟ علی احمد بھی تو اسی گھر میں تھے اور علی احمد کا کیا ہوگا اگر علی احمد کو ڈاکٹر نے پہچان لیا تو؟

علی احمد کھسیانی ہنسی ہنس رہے تھے، ”ہی ہی ہی ڈاکٹر صاحب مریضہ بے ہوش ہے۔ آدھ گھنٹے سے یونہی پڑی ہے۔“ ”اِسے اندر لے چلو۔“ ڈاکٹر نے کہا اور وہ سب راجو کو اُٹھانے کے لئے دوڑے۔

بُو کا ریلا

اِس دوران ساجو آگئی اور ایلی کے قریب بیٹھ کر پان لگانے لگی۔ اندھیرے میں اس کے سفید دانت چمک رہے تھے۔

”گڈی گڈے کا کھیل بنا رکھا ہے انھوں نے۔“ اس نے کسی کو مخاطب کئے بغیر کہا، ”بس اپنا ہی ہوش ہے دوسرے جائیں جھنم میں اب تم ہی بتاؤ انہیں ایسا کرنا چاہئے تھا کیا؟“ وہ رُک گئی پھر آپ ہی آپ بولی، ”راجو کے خصم کو پتا چلا تو کیا ہوگا۔ اسی بات کا خیال ہونا چاہئے تھا انہیں۔ دولت پور میں وہ کون سا چوک ہے جہاں ان کی باتیں نہیں ہو رہی ہیں۔ کیوں نہ ہوں، ڈھنگ سے بات کریں تو ہے۔ نا وہ ایک رات بھی اس کے بغیر نہیں رہتی اور اگر رہ بھی سکے تو یہ بڈھا بچون کی طرح بلکنے لگتا ہے۔ اور رہی سہی بات اس بڑھیا نے ڈبو رکھی ہے۔ کولہوں پر ہاتھ رکھ کر چیختی ہت جو کسی نے نہیں سنی بات اُسے سنا کر رہے گی۔ پان کھاؤ گے“ وہ ایلی کے قریب سرک آئی۔

قریب ہی بہت قریب ساجو کے میلے دانت چمکے، بُو کا ایک ریلا آیا۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے اسے کسی گندے نالے میں دھکیل دیا گیا ہو جہاں گلے سڑے گوشت کا ڈھیر لگا ہو۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ ”پان تو کھا لے“ ایک سیاہ بازو اس کی طرف لپکا۔

”نہیں نہیں۔“ ایلی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔

”کاٹتا ہے کیا۔“ وہ عجیب انداز سے بولی، ”اچھا بیٹھ تو جا۔“ اور وہ اس سے دُور ہٹ کے چارپائی کے ایک کونے پر بیٹھ گیا۔

نیا عقدہ

چھوٹے کمرے کا دروزہ کُھلا۔ ڈاکٹر باہر نکلتے ہوئے بولا، ”اسے اکیلا پڑا رہنے دو۔ شاید ٹھیک ہو جائے۔ کل صبح مجھے اطلاع دینا۔“

یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ ایک بار پھر سب نے چھوٹے کمرے کی طرف یورش کر دی اور وہاں لڑنے جھگڑنے لگے۔ نہ جانے کیا بات تھی جس پر وہ جھگڑ رہے تھے۔ بڑھیا چلا چلا کر رو رہی تھی جیسے غصے سے بھرا ہوا بلیڈر پھٹ گیا ہو۔ ساجو طعنے دے رہی تھی۔ سیلز مین شاید اپنے ذریعہ تجارت کو تباہ ہوتے دیکھ کر بوکھلا گیا تھا اس کے منہ سے بات نہ نکلتی تھیاور علی احمد اضطراب میں ٹہل رہے تھے جیسے وہ کمرہ ایک صحرا ہو۔ ہاتھ کولہون پر رکھے ہوئے تھے۔ ٹوپی ماتھے پر اُلٹی ہوئی تھی۔

آہستہ آہستہ شور کم ہوتا گیا۔ بڑھیا کی ہچکیاں مدہم پڑ گئیں۔ ساجو کے طعنے نفرت بھرہ نگاہ تک محدود ہو گئے۔ آجو دروازے کے باہر چوکھٹ کے قریب سہمی ہوئی کھڑی تھی اس کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔

دیر تک خاموشی طاری رہی۔ رحیمن راجو کی کوٹھڑی میں جا کر لیٹ گئی۔ آجو باہر کھاٹ پر ڈھیر ہو گئی۔ ساجو پاندان سامنے رکھے بکری کی طرح جگالی کرتی رہی۔ علی احمد ویسے ہی گھبراہٹ بھرے انداز میں ٹہلتے رہے۔ پھر راجو کراہنے لگی۔ علی احمد اور ساجو دور کر اندر چلے گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہ دونوں باہر نکلے۔ ساجو کولہے مٹکاتی باہر نکلی۔ پُھولے ہوئے جسم میں سفید سفید دانت اور آنکھیں چمکیں۔ پیچھے پیچھے علی احمد تھے ایلی کو دیکھ کر وہ چونکے۔

”تم۔ تم یہاں تم۔“ جیسے وہ ایلی کو ساتھ لانے کی تفصیل بُھول چکے ہوں۔ ”اچھا اچھا خیر۔“ دفعتا وہ گھبرا گئے۔ ”اب اِس وقت تو گھر جانا ٹھیک نہیں۔“ انہوں نے ایلی سے کہا، ”رات بہت گذر چکی ہے۔ یہیں لیٹ کر سو رہو۔ صبح سویرے چلے جائیں گے۔“

زہر

علی احمد کے انداز میں غیر معمولی ملائمت پیدا ہو گئی تھی نہ جانے کیوں؟ ”اور دیکھنا“ علی احمد اس کے قریب بیٹھ کر رازدارانہ انداز میں کہنے کہنے لگے، ”گھر جا کر یہ نہ کہنا کہ راجو بیمار تھی۔ کہ اس نے زہر کھا لیا تھا۔“

زہر-------- ایلی سکتے میں رہ گیا۔ کیا واقعی راجو نے زہر کھا لیا تھا؟ مگر کیوں کیا اُسے علی احمد سے محبت تھی؟ کیا راجو بھی محبت کی اہل تھی لیکن۔ وہ سیلز مین اور وہ دس کا نوٹ جو اس روز وہ راجو کے لئے لایا تھا۔ اس کی وہ نگاہیں جو اس نے غلام محمد پر ڈالی تھیں۔ نہیں اُسے محبت نہیں ہو سکتی۔ پھر اس نے زہر کیوں کھایا تھا۔ ایلی کے لئے یہ ایک نیا عقدہ تھا۔


”ساجو“ علی احمد نے منت سے کہا، ”بھئی ایلی کا کچھ انتظام کر دو۔ دن چڑھنے میں اب دو ایک گھنٹے ہی ہوں گے، پڑ رہے گا کہیں۔“ یہ کہہ کر وہ راجو کے کمرے میں داخل ہو گئے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔

محبت ---------- نہ جانے محبت کیا ہوتی ہے۔ مگر نہیں محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ ہے ، ایلی سوچنے لگا۔ نہ جانے لوگ عورت کے پیچھے اس قدر اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔ عورت میں وہ کون سی کشش ہے؟ راجو جیسی سیدھی سادھی گنوار لڑکی نے علی احمد کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ ایلی کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ عورت کو قریب سے دیکھے۔ اُسے عورت کا قرب حاصل ہو۔ مگر کیسے حاصل ہو۔ کوئی صورت بھی ہو، اُس نے چوری چوری اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ ایک طرف ٹوٹی ہوئی کھٹولی پر وہ پتلی دُبلی لڑکی آجو پڑی تھی جس کی آنکھون میں زرد زرد میل لگا رہتا تھا اور جس کے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ اُس نے جھرجھری محسوس کی۔ آجو میں کوئی بھی ایسی بات نہ تھی کہ اسے عورت سمجھا جا سکے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

بدلاؤ

“ آؤ ایلی۔“ ------ ساجو چارپائی بچھاتے ہوئے بولی۔ “ یہاں آ جاؤ۔“ ایلی اٹھ کر اس چارپائی پر جا پڑا۔ ایلی نے ساجو کی طرف دیکھا۔ نہیں نہیں وہ عورت نہیں۔ ایلی کے لیے تو عورت ایک لطیف اور پاکیزہ چیز کا نام تھا۔ وہ سوچنے لگا نہیں نہیں یہ عورتیں نہیں یہ تو جونکیں ہیں اور وہ چپ چاپ پڑ گیا۔

ساجو نے ایک عجیب سی دن گنگنانی شروع کر دی۔ عجیب سی دھن تھی وہ جیسے کوئی کسی ویرانے میں تنہا بیٹھی کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ اس دھن سے جسم کی بُو آتی تھی۔ وہ دھن جو لالٹین جلا کر بیٹھنے والی عورتیں ہی گنگنا سکتی ہیں۔

نفرت سے ایلی نے منہ موڑ لیا آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن وہ گنگناہٹ لحظہ بہ لحظہ ننگی ہوتی گئی جیسے کوئی آہستہ ایک ایک کر کے کپڑے اتار رہا ہو۔ پھر چارپائی کھینچنے کی آواز سنائی دی لیکن وہ اپنے خیال میں کھویا ہوا تھا۔ اسے کسی ربڑ کی گڑیا کی چیں چیں سنائی دے رہی تھی۔ اس کی نگاہوں تلے ٹین کا سپاہی ابھر رہا تھا ------ بڑھ رہا تھا۔

“بابو جی۔“ کور کی مکروہ آواز سنائی دی۔ سفید دانت اندھیرے میں چمکے وہ سہم گیا۔ لیکن عین اس وقت خانم کے ہاتھ نے بڑھ کر کور کو پرے دھکیل دیا اور پھر وہ حسین بازو ایلی کی طرف بڑھا۔ اس لمس کی وجہ سے اندھیرے میں ایک الاؤ روشن ہو گیا۔ سرخ سرخ چھینٹے اڑے۔ چاروں طرف چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔ اس نے گھبرا کر پہلو بدلا۔ بو کا ریلا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ ساجو کی چارپائی اس کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور ایک حریص تھوتنی اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی بجائے اس نے اپنے آپ کو بدرو میں پھینک دیا اور گرم غلیظ جسم کے ایک بھبکے نے اسے آغوش میں لے لیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھے اور اس نائٹ مئیر سے اپنے آپ کو محفوظ کر لے لیکن اس کے برعکس نہ جانے کیوں اس دیوانگی کے تحت جو اس پر مسلط ہو چکی تھی اس نے اس غلاظت بھرے جوہڑ میں چھلانگ لگا دی۔ ایک لمس۔ ایک ڈبکی۔ آتش فشاں سے لاوے کا ایک ریلا نکلا جس نے ایلی کو تنکے کی طرح بہا کر نہ جانے کہاں پھینک دیا۔

قریب ہی سے تمسخر بھری مدہم آواز سنائی دی بس ------ اور ایلی نے محسوس کیا جیسے اس پر گھڑوں پانی پڑ گیا ہو۔ وہ ایک کیڑے کی طرح رینگ رہا تھا۔ رینگ رہا تھا پھر سیاہ ہمدردانہ اندھیرے نے اپنا دامن پھیلا کر اسے چھپا لیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

نائیٹ میئر

“ ایلی۔ ایلی۔“ آواز سن کر ایلی نے آنکھیں کھول دیں۔ ارے میں کہاں ہوں۔ پھر علی احمد کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا۔ اس نے حیرانی سے چاروں طرف دیکھا اور اس غیر مانوس جگہ کو دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ساتھ والی چارپائی پر ایک مبہم سی حرکت ہوئی۔ اس نے ادھر دیکھا ساجو ------ دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ وہ ننگا ہے اور کوئی ڈائن اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس کا مضحکہ اڑا رہی ہے۔ اور وہ بھاگ رہا ہے۔

سامنے افق پر لمبی مژگاں سے ڈھکی ہوئی دو پرنم آنکھیں تھیں۔ سانولی انگلی گرا ہوا آنسو پونچھ رہی تھی۔ نہیں ایلی۔ شریف مسکرا رہا تھا نہیں نہیں۔ محبت کرو چاہے کس سے کرو۔ کوئی بھی ہو لیکن محبت کرو ------ اور ایلی کا جی چاہتا تھا کہ شریف کے گلے لگ کر روئے۔

ایلی کے لیے وہ رات بھیانک خواب یا نائیٹ مئیر کی حیثیت رکھتی تھی جس کی یاد سے وہ لرز جاتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا جیسے اس نے بہت بڑا جرم کیا ہو جیسے اس نے ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو قصر ذلت میں دھکیل دیا ہو اور وہ تمسخر اور تحقیر سے بھرا ہوا قہقہہ۔ کیا یہی عورت کا قرب تھا؟ کیا علی احمد کو اسی قرب کا شوق تھا۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا؟ عورت کے قرب کا مطلب غلاظت کے جوہڑ میں ڈبکیاں کھانا نہیں ہو سکتا ------ نہیں نہیں۔

کئی ایک دن وہ اس نائٹ مئیر کے تاثرات میں کھویا رہا۔ اس کے دل میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ وہ عورت کے قرب کے قابل نہیں۔ اس میں وہ اہلیت ہی نہیں ورنہ وہ تمسخر بھرا قہقہہ جس کی وجہ سے وہ ایک کیڑے کی طرح رینگنے پر مجبور ہو گیا تھا۔

نہیں نہیں۔ شریف کی آواز سنائی دیتی۔ یہ نہیں محبت کرو محبت پھر وہ دیوانہ وار ادھر ادھر گھومتا۔ کس سے محبت کروں۔ کیسے محبت کروں اور اس کے دل میں جستجو کی ایک لہر رواں ہو جاتی۔

وہ بلوریں پاؤں واقعی اس قابل تھے کہ ان سے محبت کی جائے لیکن اسے اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ وہ پاؤں کس کے ہیں۔ وہ کون ہے جو ان پاکیزہ پاؤں کی مالکہ ہے۔ اس نے کئی بار اسے دیکھنے کی کوشش کی تھی مگر تنگ پاجامہ ایک سیاہ آنکھ اور دو بلوریں پاؤں کے علاوہ اسے کچھ دکھائی نہ دیا تھا۔

ان حالات میں محبت کرنا کیسے ممکن تھا اس بھیانک خواب کا اتنا اثر ضرور تھا کہ اس کے دل میں عورت کے قرب کا خوف جاگزیں ہو گیا اور اپنی نااہلیت کا خیال یقین کی حد تک مستحکم۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

بے زاری

دولت پور میں اب ایلی کی زندگی نے ایک مخصوص رنگ اختیار کر لیا تھا۔ اس کے صبح و شام ایک مخصوس ڈگر پر چلنے لگے تھے۔ کالج اس کے لیے دلچسپی سے خالی تھا۔ اگرچہ اب وہ کالج جانے سے بالکل نہ گھبراتا۔ لیکن اس کی توجہ تعلیم کی طرف مبذول نہ ہوئی تھی۔ اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ تحصیل علم کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ ایلی کے لیے کالج محض ایک تفریح گاہ تھی۔

کالج سے واپس آتے ہی وہ کتابیں گھر میں پھینک کر اجمل کی طرف چلا جاتا اور وہاں کسی نہ کسی شغل میں مصروف ہو جاتا۔ گھر میں تو کوئی ایسی بات نہ ہوتی تھی جو اس کے لیے جاذب توجہ ہوتی۔

علی احمد حساب کا رجسٹر پر کرنے میں مصروف رہتے یا کسی نہ کسی بات پر شمیم سے جھگڑا شروع کر دیتے۔ شمیم دو ایک منٹ چیختی چلاتی اور پھر تھک کر رونا شروع کر دیتی۔ اسے روتا دیکھ کر اس کی دونوں بچیاں چیخنے لگتیں اور گھر میں کہرام مچ جاتا۔

راجو آ جاتی تو علی احمد کی حساب کتاب سے دلچسپی ختم ہو جاتی۔ رجسٹر بند کر کے وہ راجو کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ بات بات پر ہنستے چہچہاتے۔ نہ جانے کیوں راجو کے آنے پر وہ بہانے بہانے شمیم کو بلاتے اس سے کچھ پوچھتے یا اس کی تعریف کرتے۔ شاید شمیم کو تنگ کرنے میں مزا آتا ہو یا شاید اس کی وجہ ان کی ازلی تماش بینی ہو۔ راجو کو دیکھ کر غصے کی وجہ سے شمیم کی آنکھوں کا فرق بے حد نمایاں ہو جاتا اور اس کی شکل و صورت بالکل ہی مضحکہ خیز ہو جاتی۔

بالآخر ٹین کا سپاہی قلعہ بند ہو جاتا اور کشمیر کا سیب انتقاماً ملحقہ کمرے کی عقبی کھڑکی میں لٹک جاتا۔ بند کمرے میں ربڑ کی گڑیا چیختی اور مٹی کا پہلوان گرتا اور پھر ایستادہ ہو جاتا پھر گرتا اور ایستادہ ہو جاتا۔ گڑیا تالیاں پیٹتی قہقہے لگاتی۔ نیچے سڑک سے گزرتے ہوئے لوگ ان بامعنی قہقہوں کو سن کر رک جاتے پھر پنواڑی کی دکان پر بات چل نکلتی۔

“ ہاں میاں روج آوے ہے اس چوبارے والے بابو کے پاس۔“

“ ٹھیک کہے ہے یہ، میں آپ دیکھے ہوں روج یہاں سے گجرتے ہوئے۔ یہاں آ کر آنکھیں جھکا لے ہے میں نے کبھی نہیں جتایا۔“

“ کیا کہا یہاں اس چوبارے ماں۔ ارے نہیں بھائی عقل کی بات کرو۔“

“ ارے ماں کھوب جانوں یہ چوبارے والا بابو بڑا گھاگ ہے یہ بابو۔ چار روج ماں نچوڑ لیا اس نے۔ اب وہ چلاوا پٹاخہ ہے۔ چلاوا۔“

شام پڑتی تو راجو رخصت ہو جاتی اور علی احمد پھر سے رجسٹر کھول کر مصروف ہو جاتے۔ پھر جب رات کے آٹھ بجتے تو وہ آپ ہی آپ گنگنانے لگتے۔ “ افوہ مجھے تو آج انسپکٹر صاحب نے بلایا تھا۔ یاد ہی نہیں رہا۔“ حافظہ کس قدر کمزور ہو گیا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے وہ باہر جانے کے لیے کپڑے پہننے لگتے۔

چار ایک منٹ بل کھانے کے بعد شمیم گویا اپنے آپ سے کہتی، “ جیسے میں جانتی ہی نہیں ان کے انسپکٹر صاحب کو۔“

علی احمد ہنس پڑتے “ تو تو بالکل پگلی ہے۔ راجو کی طرف جانا ہوتا تو چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔“

“ توبہ اتنا نڈر بھی نہ ہو کوئی۔ چوری اور پھر سینہ زوری شرم نہیں آتی۔“ شمیم جواب دیتی۔

“ بے وقوف شرم عورتوں کے لیے ہے۔“ وہ ہنسنے لگتے۔ “ مردوں کے لیے نہیں۔“

اس پر شمیم خاموش ہو جاتی اور چھوٹے کمرے میں سے سسکیوں کی آواز آنے لگتی۔ “ بس میں ابھی آیا۔“ کہہ کر علی احمد باہر نکل جاتے اور پھر آدھی رات تک راجو کے یہاں پڑے رہتے۔ ان کی واپسی پر گھڑی دو گھڑی تو میاں بیوی کی لڑائی ہوتی۔ شمیم بات بڑھانے کی کوشش کرتی لیکن علی احمد اسے چٹکیوں میں اڑا کے لیٹ جاتے۔

“ ٹھیک ہے“ وہ کہتے “ تو لڑنا چاہتی ہے تو میں ضرور تیری خواہش پوری کروں گا لیکن حقے کی چلم پیئے بغیر لڑنا۔ نہ بھئی یہ مشکل ہے۔ تو ذرا چلم بھر دے پھر لڑیں گے۔ کیوں نہیں لڑیں گے، تو چاہے اور ہم نہ لڑیں۔ بھئی واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔“ اس پر شمیم روتے ہوئے چلم بھرنے لگتی اور علی احمد کپڑے بدلتے ہوئے گنگنانے لگتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گزشتہ خفت

جب بھی علی احمد باہر جانے لگتے تو ایلی گھبرا جاتا کہ کہیں علی احمد کو اسے ساتھ لے جانے کا خیال نہ آ جائے۔ ان کے ساتھ باہر جانے سے وہ ڈرتا تھا۔ اس مکان سے ڈرتا تھا جہاں اس نے وہ رات بسر کی تھی۔ اس سیاہ فام عورت سے ڈرتا تھا جس کا تحقیر بھرا قہقہہ اب تک اس کے کانوں میں گونجتا تھا۔ وہ اس قرب سے ڈرتا تھا جس کا وہ ایک بار سزاوار ہو چکا تھا۔

علی احمد باہر جانے لگتے تو وہ گھبرا جاتا۔ راجو ان کے گھر آتی تو وہ چپ چاپ دبے پاؤں باہر نکل جاتا۔ راجو کی زیر لب مسکراہٹ سے اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ ایلی کی گزشتہ خفت سے کماحقہ واقف ہو۔جیسے وہ جانتی ہو۔ جانے بغیر سمجھتی ہو۔ جیسے ساجو نے اسے اس تمسخر بھرے قہقہے سمیت ساری بات بتا دی ہو۔ اس کی مسکراہٹ ایلی کے سینے میں دھار بن کر اتر جاتی اور وہ محسوس کرتا جیسے وہ کہہ رہی ہو۔

“ اچھا تو جناب بھی اس میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ واہ واہ بڑی خوشی ہوئی جان کر۔“ اس پر وہ گزشہ خفت از سرِ نو اس پر طاری ہو جاتی۔

کبھی تو راجو کو دیکھ کر ایلی کے دل میں ایک عجیب سی وحشت بیدار ہو جاتی اور اس کا دل چاہتا کہ بڑھ کر اس کی قمیض تار تار کر دے اور پھر چلا چلا کر کہے، “ میں تمہیں جانتا ہوں۔ تم جونک ہو جونک۔“ پھر وہ لاحول پڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش میں کھو جاتا اور بالآخر چپکے سے گھر سے باہر نکل جاتا۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے اسے شریف کی ہنسی کی آواز سنائی دیتی۔ “ نہیں نہیں ایلی محبت کرو محبت۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

تین راہگیر

ایک روز راجو کے آنے پر جب وہ دبے پاؤں سیڑھیاں اتر رہا تھا تو علی احمد نے آواز دی۔

“ ایلی۔ جانا نہیں۔“

وہ رک گیا۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ “ نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گا۔ میں ابا کے پاس نہیں جاؤنگا۔“

“ ایلی ادھر آؤ۔“ علی احمد نے پھر آواز دی۔

راجو اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ “ اب تو نظر ہی نہیں آتا ایلی۔“ اس نے لاڈ بھرے انداز سے کہا۔ “ جی نہیں چاہتا تیرا ملنے کو۔“ ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ بات طنزاً کہی گئی ہو۔

“ایلی ذرا ہمارے ساتھ چلنا ہے تمہیں۔ ابھی چلتے ہیں ذرا ٹھہرو۔“ علی احمد بولے۔

“ میں نہیں جاؤں گا۔“ ایلی نے باآوازِ بلند کہنے کی ناکام کوشش کی۔ اور پھر اپنی بے بسی پر بل کھا کر خاموش ہو گیا۔

کچھ دیر کے بعد علی احمد تیار ہو گئے۔ “ چلو ایلی۔“ وہ بولے اور پھر علی احمد، راجو اور ایلی سیڑھیاں اترنے لگے۔

علی احمد اور راجو کے ساتھ دولت پور کے بازار سے گزرنا ایلی کے لیے بہت بڑی مشکل تھی۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ پنواڑیوں کی دوکانوں پر کھڑے لوگ ان کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتے تھے۔ ان کے متعلق زیر لب باتیں کرتے تھے۔ اس وقت ایلی کی حیثیت سیلز مین کی سی ہو جاتی تھی۔ اسے یہ بات بے حد ناگوار گزرتی لیکن وہ کر ہی کیا سکتا تھا۔

وہ تینوں راہگیر عجیب انداز سے چلے جا رہے تھے۔

علی احمد کو تو لوگوں کی موجودگی کا اھساس ہی نہ ہوتا تھا۔ راہ چلتے ہوئے انہوں نے کبھی راہگیروں یا پنواڑیوں کی طرف نگا اٹھا کر نہ دیکھا تھا۔ انہیں ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ہوتی تھی۔ وہ تو گردن اٹھا کر چلنے کے عادی تھے اور ان کی گردن کا زاویہ ایسا ہوتا تھا کہ سڑک نگاہ سے اوجھل رہتی بلکہ مکانات کی نچلی منزل کی طرف دیکھتا۔

ان کے لیے ممکن نہ رہتا اور دو رویہ بنے ہوئے چوباروں یا کوٹھوں کو منڈیروں کی طرف دیکھتے ہوئے وہ آگے بڑھے جاتے۔ ان کے عقب میں راجو برقعہ پہنے ہوئے گرگابی بجاتی ہوئی یوں چلتی جیسے وہ دولت پور کی راجو نہیں بلکہ کوئی اور ہی ہو جیسے اسے کوئی جانتا ہی نہ ہو۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی اس کا سینہ تن جاتا۔ قدموں میں شوخی لہراتی اور جالی کے پیچھے سے آنکھ لپکتی جیسے اس کا جی چاہتا ہو کہ ان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے والے لوگوں سے کہے “ میں ہی ہوں دولت پور کا پٹاخہ میں ہی ہوں۔ کیا سمجھا ہے تم نے جہاں میرا جی چاہے جاؤں گی، جس کے ساتھ جی چاہے رہوں گی، کر لو میرا جو کرنا ہے۔“ اور دور پیچھے ایلی یوں چلا آتا جیسے بازار سے کوئی سودا خریدانے کے لیے جا رہا ہو اور اسے اس میلے برقعے میں ملبوس ٹھک ٹھک کرتی ہوئی عورت اور چوبارہ نگاہوں والے مرد سے کوئی تعلق نہ ہو۔

اس روز ان کے پیچھے چلتے ہوئے وہ دعائیں مانگ رہا تھا یا اللہ کہیں وہ اس گھر میں نہ جا رہے ہوں جہاں میلے پنڈے کی بو کے ریلے آتے ہیں اور وہ سیاہ گوشت میں میلے دانت۔ وہ اس کے روبرو کیسے جائے گا۔ نہیں نہیں۔

موڑ پر جا کر علی احمد رک گئے۔ “ اچھا راجو تو چل گھر۔ لیکن جلد اس جگہ پہنچ جائیو۔ سمجھی ہم انتظار کریں گے۔“

اچھا کہہ کر راجو چلی گئی اور علی احمد اور ایلی مڑ کر دوسری سڑک پر ہو لیے۔ کئی ایک راستوں سے ہوتے ہوئے بالآخر وہ ٹاؤن ہال میں داخل ہوئے جہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

بےبی شو

“ آؤ ایلی آؤ۔ یہاں آج بےبی شو ہے۔“ علی احمد نے ایلی کی طرف دیکھا، “ ارے بےبی شو نہیں جانتے اور کہنے کو کالج میں پڑھتے ہو۔“ وہ ہنسنے لگے۔ “ واہ یہ بھی لاجواب بات ہے۔ دیکھو بےبی کا مطلب ہے بچہ یعنی دودھ پیتا بچہ یعنی وہ بچہ جو ماں کا دودھ پیتا ہے۔ آج یہاں ان بچوں کا شو ہو گا میونسپل ہال میں۔ جو بچہ سب سے زیادہ تندرست ہو گا اسے انعام ملے گا۔ یعنی یعنی۔“ وہ ادھر ادھر تاکتے ہوئے کہنے لگے۔ “ یہ بچوں کی نمائش ہے سمجھے اور سرکار یہ نمائشیں اس لیے مروج کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو توجہ بچوں کی صحت کی طرف مبذول ہو۔ ہی ہی ہی۔“ وہ نہ جانے کس کی طرف دیکھ کر ہنسے۔ اور پھر اپنا لیکچر شروع کر دیا۔

ہاں تو کیا کہہ رہا تھا میں۔ ہاں بےبی شو۔ شو کا مطلب ہے۔ مظاہرہ مطلب ہے دکھانا۔ سی یعنی ایس ڈبل ای۔ مطلب دیکھنا اور سی سے شو۔ یہ ٹاؤن ہے۔ سمجھے ------“ پھر خاموش ہو گئے۔

“ ہاں تو کیا کہہ رہا تھا میں۔ “ وہ پھر کسی طرف دیکھنے لگے۔

حفظانِ صحت اور زچہ و بچہ کا لیکچر تو محض جملہ معترضہ تھا۔ مطلب تو یہ تھا کہ اس احاطے میں کھڑے ہو کر باتیں کرنے کے بہانے اردگرد کے مجمع میں کسی کو تاکا جائے۔ ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے بچوں کے بہانے وہ عورتوں کی نمائش ہو اور پھر دولت پور کی عورتیں بھی تو ایسی اچھی نہ تھیں۔ ان میں وہ امرتسر اور لاہور والی بات ہی نہ تھی۔ سیاہ رنگ کی دبلی پتلی عورتیں جن کی بانس نما ٹانگوں پر میلے تنگ پاجاموں کے غلاف چڑھے تھے اور جن کی گودیوں میں انسانی ڈھانچے لٹک رہے تھے۔

ہر جملے کے بعد علی احمد چاروں طرف دیکھتے اور ہر برقعہ پوش کو نگاہوں سے ٹٹولتے جیسے اسے تول رہے ہوں اور پھر ہنسنے لگتے۔

“ہی ہی ہی۔ تم انفینٹ مارٹیلٹی کو بھی نہیں جانتے۔ تمہیں کالج میں پڑھاتے کیا ہیں وہ۔ دیکھو ہم تمہیں سمجھاتے ہیں۔“ ------ “ ائیے خان صاحب آئیے۔ کہیے مزاج کیسے ہیں۔“ وہ ایک اجنبی سے کہنے لگے۔ “ ہاں ہاں میں ایلی کو سمجھا رہا تھا انفینٹ مارٹیلٹی کسے کہتے ہیں۔ بچے کو باتیں سمجھانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے ایسے تہوار دکھائے جائیں۔ ہی ہی ہی۔“ اور خان صاحب کے جانے کے بعد وہ مسکراتے ہوئے چاروں طرف دیکھنے لگے۔ “ ہاں تو کیا کہہ رہا تھا۔ میں یعنی مطلب ہے۔ ------- “

ایلی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مطلب کیا ہے اور وہ چاہتا تھا کہ چلا چلا کر لوگوں پر واضح کر دے کہ مطلب کیا ہے بلکہ خود انہیں بتا دے کہ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ مطلب کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

سفید دھبہ، بھوری لٹ

“ ہائیں تم ہو تسلیم۔ تم۔“ علی احمد ایک اجلے برقعے کی طرف بڑھے تم یہاں۔“ برقعہ پوش گھبرا کر رک گئی۔“ “ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ ہی ہی ہی۔ وہ ہنسنے لگے “ بھئی میں علی احمد ہوں۔ علی احمد اپنے آغا صاحب اور میں دونوں ایک ہی دفتر میں تو تھے۔ آج کل کہاں ہیں آغا صاحب۔“

“ امرتسر گئے ہوئے ہیں۔“ ایک باریک سی سہمی سی آواز سنائی دی۔ “ ہاں ہاں امرتسر ہی گئے ہوں گے۔ انہوں نے خود مجھ سے کہا تھا ہی ہی ہی۔“

“ پرانے دفتر سے چھٹی لی ہے کیا۔“

“ استغفے دے دیا ہے۔“

“ ہی ہی ہی۔ “ وہ ہنسے۔ “ ہاں ہاں استغفے دینے ہی کو تو کہتے تھے---------“

“ اور۔ اور تم یہیں ہو ابھی۔“

“ ہم بھی جا رہے ہیں۔“ وہ بولی

“ اوہ تو تم بھی جا رہی ہو۔ اس سلسلے میں میری مدد کی ضرورت ہو تو بلا روک ٹوک کہدو۔ آغا صاحب اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارے پرانے دوست ہیں اور پھر خاندانی تعلقات ہیں۔ ہی ہی ہی۔“

جھوٹ جھوٹ۔ ایلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی مکڑا اپنے پنجے پھیلا رہا ہو، ہی ہی ہی کے تار سے جال بن رہا ہو اور مکھی قریب ہوئی جا رہی ہو اور قریب ------۔

ایلی کو اس بات پر غصہ آ رہا تھا کہ علی احمد چھوٹی سی لڑکی سے بھی ہی ہی ہی کیئے بغیر نہ رہتے۔ کتنی چھوٹی عمر تھی اس کی جب کہ وہاں علی احمد کے برابر کی عورتیں موجود تھیں پھر ------ِ

شاید وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ لڑکی کسی نوجوان کی توجہ کے لائق تھی۔ پھر دفعتاً اسے سارہ صبورہ یاد آ گئیں اور اسے علی احمد کی آواز سنائی دی۔ سارہ سو گئی کیا۔ ہی ہی ۔

“ شرماؤ نہیں تسلیم۔“ علی احمد اسے بھر مار رہے تھے “ ہاں ہاں برقعہ اٹھا لو کیا حرج ہے۔ ڈرو نہیں۔ ہم جو تمہارے ساتھ ہیں۔“

دفعتاً سفید رنگ کا ایک دھبہ ایلی کی آنکھوں تلے ابھرا اور گھنگھریالے بالوں کی ایک لٹ لہرائی اور اس نے گھبرا کر نگاہیں نیچی کر لیں۔

علی احمد کو تسلیم کی کلائی پر گھڑی باندھتے ہوئے دیکھ کر نہ جانے کیوں اسے شدید صدمہ محسوس ہوا جیسے کوئی اس کا دل مسل رہا ہو۔ ایلی کی نگاہوں میں وہ نمائش دھندلی پڑ گئی۔ بے بس غصے سے اس نے علی احمد کی طرف دیکھا اور پھر مٹھیاں بھینچ کر چل پڑا جیسے اس کے دل میں ایک عزم قائم ہو چکا ہو۔ جیسے اس نے ایک فیصلہ کر لیا ہو۔

“ نہیں نہیں میں اسے سارہ نہیں بننے دوں گا۔ اس کی زندگی تباہ نہیں ہو گی۔ اسے اپنی عمر راہب خانے میں بسر نہیں کرنی پڑے گی۔ نہیں نہیں۔“ وہ چلا رہا تھا۔ اس کے گرد لوگ شور مچا رہے تھے۔ تانگے والے چلا رہے تھے۔ عورتیں سینے سے بچے چمٹائے بھاگی جا رہی تھیں لیکن اس کے ذہن میں صرف ایک خیال تھا۔ ایک ارادہ تھا۔ سامنے شریف مسکرا رہا تھا۔ ہاں ایلی ہاں۔ محبت کرو۔ چاہے کسی سے کرو لیکن محبت کرو۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

اچھا تو

گھر پہنچ کر وہ دھڑام سے چارپائی پر گر پڑا۔ غصے اور بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ان آنسوؤں کے دھندلکے میں شریف تحسن بھر نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا “ محبت کے بغیر تم کچھ بھی نہیں ایلی ------ کچھ بھی نہیں۔“

اجمل دفتر سے آیا تو ایلی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ “ ایلی تم رو رہے ہو۔ علی احمد سے لڑائی ہو گئی کیا۔“

“ نہیں تو۔“ وہ بولا۔

“ تو کیا شمیم نے کچھ کہا۔“

“ نہیں تو“ ایلی کی ہچکی نکل گئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیوں رہ رہا ہے۔ اس کی ہچکیاں کیوں نکل رہی ہیں۔ اس کی کوئی وجہ بھی تو نہ تھی، مگر اس کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ کسی کے کندھے پر سر رکھ کر رو دے۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ راز دارانہ انداز میں اجمل کو ایک طرف لے جائے اور اس سے کہے “ مجھے محبت ہو گئی ہے۔ اب میں کیا کروں۔“

ایلی بار بار کوشش کرتا کہ اپنی محبوبہ کے تصور میں کھو جائے لیکن ایک سفید سا دھبہ اور بھورے بالوں کی گھنگھریالی لٹ کے سوا کوئی اور تفصیل اس کے تصور میں نہ آتی بلکہ یہ تفاصیل بھی دھندلی پڑتی جا رہی تھیں۔ کتنا پیارا نام تھا اس کا تسلیم۔ اور آواز۔ کتنی میٹھی کتنی رسیلی۔

ایلی کی باتیں سن کر اجمل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی “ ہوں “ اس نے ایک آہ بھر کر کہا۔ “ اچھا تو ایلی کو محبت ہو گئی ہے۔“ اتنا کہنے کے بعد وہ کسی خیال میں کھو گیا اور اس کی آنکھوں تلے نجو کا بلوریں جسم منور ہو گیا۔ نجو الڑ رقاصہ جو اس کے باپ کی داشتہ جانکی کی عزیزہ تھی اور جسے اس نے کئی ایک سال آنکھوں کا تارا بنائے رکھا تھا۔ وہ نجو جس کو بھلانے کے لیے اس نے بصرے کی خاک چھانی تھی اور کابل کی پہاڑیوں میں پناہ لی تھی اور جسے بھولنے کی شدید کوشش میں وہ اب تک ملحقہ چوباروں میں نہ جانے کس کی تلاش کیا کرتا تھا۔

کچھ نہیں سے ۔۔۔۔۔۔ بہت کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حادثے کے بعد ایلی کا دولت پور میں رہنا قطعی طور پا ناممکن ہو گیا اس نے وہ آخری مہینہ بڑی مشکل سے گزارا۔ اب اس کی نگاہ میں علی احمد کی حیثیت ایک راکھشش کی رہ گئی تھی جس کا کام صرف یہ تھا کہ سیتاؤں کو اپنی لنکا کی بھینٹ چڑھاوے اور راجو ساجو تو غلیظ ڈھیروں کے سوا کچھ نہ تھیں۔ اس سے بات کرتے ہوئے ایلی کو گھن آنے لگی تھی۔

البتہ اب جب شمیم عقبی کھڑکی کا سہارا لیتی تو ایلی کو غصہ نہ آتا بلکہ اس کے دل میں ہمدردی کی ایک لہر دوڑ جاتی۔ بیچاری جو اس خوفناک لنکا میں بیکار بے مصرف مقید تھی۔ جو جھوٹے سہاروں پر اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی تھی۔ جس کے لیے زندگی صبح و شام کے تواتر کے سوا کچھ نہ تھی۔

ایک ماہ کے لیے کالج میں امتحان کی تیاری کے لیے چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ ایلی کتابیں لے کر اجمل کے پلنگ پر پڑ جاتا۔ ایک گھنگھریالی لٹ اس کی آنکھوں ‌تلے لٹکتی۔ ایک سفید سا دھبہ چاند کی طرح چمکتا اور وہ چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ جاتا اور نگاہوں کو مست بنانے کی شدید کوشش کرتا۔ چھت سے شریف کی متبسم آواز آتی۔ تم محبت کے بغیر کچھ بھی نہیں ایلی۔ کچھ بھی نہیں۔“ اور وہ محسوس کرتا کہ وہ بہت کچھ ہے بہت کچھ ------ پھر اسے امتحان دینے کے لیے اجلا ریاست میں جانا پڑا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ریاست اجلا

اجلا ایک ویران شہر تھا۔ جس میں یہاں وہاں آبادی کے ٹکڑے تھے۔ اور کہیں کہیں خوبصورت محل اور باغات تھے۔ اجلے کا بڑا بازار کا ایک وسیع اور غلیظ کوچہ تھا جس میں سیاہ فام چست و چالاک قسم کے لوگ ادھر ادھر گھومتے پھرتے تھے۔ جن کی زبان کچرکچر چلتی اور جن کی آواز میں نہ تو دلی کی سی رنگینی تھی اور نہ لاہور کی سی مٹھاس۔ باتوں میں عجیب کرختگی تھی۔ انداز میں عمومیت سی تھی جن کی باتیں گویا ننگی تھیں۔ بھونڈی اور ننگی۔

اس بازار کے ادھر ادھر پرانی وضع کی بڑی بڑی عمارتیں تھیں۔ جن پر ویرانی اور اداسی چھائی رہتی تھی۔ اور جن کی اندھیری لمبی ڈیوڑھیوں میں اونچے لمبے سپاہی بندوقیں اٹھائے پہرہ دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ان پرانے محلوں میں مہاراج کی وہ رانیاں مقیم تھیں جو مہاراجہ کا چاؤ ختم ہو جانے پر اس محلات میں منتقل کر دی گئی تھیں اور زندگی کے باقی دن نوکروں اور اہل کاروں کی نگاہِ التفات کے سہارے بسر کر رہی تھیں۔

ایلی محلات کے نوکروں کو مسرت کی نظر سے دیکھتا۔ دفعتاً اسے مہاراج پر غصہ آنے لگتا، پھر علی احمد کی آواز سنائی دیتی۔ “ شرمانے کی کیا بات ہے تسلیم۔ ہم کوئی بیگانے تو نہیں۔“ ایلی کی نگاہوں تلے ایک سفید دھبہ جھلملاتا، ایک بھوری لٹ لہراتی اور وہ آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھنے لگتا اور محسوس کرتا جیسے وہ سبھی کچھ ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

مہاراج

مہاراج کا موتی محل دیکھ کر ایلی سہم گیا۔ کتنے حسین کمرے تھے۔ کتنا خوبصورت ساز و سامان تھا۔ ایلی کے لیے اتنی خوبصورتی اور فراوانی قابلِ حصول نہ تھی۔ زیادہ عالی شان چیزوں کو دیکھ کر اس کے دل میں ڈر سا پیدا ہو جاتا تھا ایک بوجھ سا پڑ جاتا تھا۔

شاہی حمام دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ یہاں رانیاں اور مہاراج نہاتے تھے۔ تالاب میں خوشبو دار پانی بھر دیا جاتا تھا پھر غلام گردش پر وہ ایک دوسرے کو پکڑتے تھے۔ پھر جب اسے معلوم ہوا کہ سیڑھیاں چڑھتے وقت مہاراج سہارا لیتے ہیں تو اس کے دل میں مہاراجوں کے خلاف بغض پیدا ہو گیا اور اس نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ دنیا غریبوں کی شرافت اور محبت کی وجہ سے قائم تھی۔

واپسی پر سمندر محل کر دروازے کے قریب وہ رک گئے۔ ان کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ دروازے پر سنتری سے بات کریں۔

ظالم یا مظلوم ۔۔۔۔۔

“ کیوں بھئی یہاں کیوں کھڑے ہو۔“ سنتری نے للکارا۔

“ جی جی۔ ایلی بولا، “ یہ محل دیکھنا چاہتے ہیں ہم۔“

“ یہ محل نہیں دیکھا جا سکتا۔“ وہ بولا۔ “ مہاراج آ رہے ہیں یہاں۔ اب بھاگ لو یہاں سے۔“

مجید جو ان سب میں شوخ طبیعت کا لڑکا تھا، چلا کر کہنے لگا، “ وہ جو بوڑھا اور نوجوان لڑکی وہاں بٹھا رکھے ہیں۔“

تو اس نے اندر باغیچے کی طرف اشارہ کیا، “ وہ کیوں بیٹھے ہیں جی۔“

باغیچہ کے اندر ایک کونے میں ایک بوڑھا اور اس کی نوجوان بیٹی چپ چاپ گھاس پر بیٹھے تھے۔

سنتری مسکرایا “ تم کون ہو بھئی۔“ وہ بولا، “ ہندو ہو یا مسلمان“ “ الحمد للہ“ مجید نے شوخی سے کہا۔

سنتری قریب آ گیا۔ “ تم نہیں جان سکتے یہ بات۔“ اس نے مسکرا کر راز دارانہ انداز سے کہا، “ یہ کام نہ تم کر سکتے ہو نہ جان سکتے ہو۔ یہ بڈھا بڑی امید لے کر مہاراج کے دربار میں آیا ہے۔“

“ تو کیا یہ جو اس کے ساتھ لمڈیا ہے اس کی امیدیں ہیں۔“ الطاف نے اس گوری نوجوان لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا جس کی نگاہ خمار آلود تھی۔

“ ہاں۔“ سپاہی ہنسا۔ “ اس لڑکی کو اس نے 12 سال تک گائے کا دودھ پلا پلا کر جوان کیا ہے۔ کہتا ہے میں نے لڑکی کے پنڈے پر حلوہ باندھ باندھ کر اسے پالا ہے اس امید پر کہ مہاراج یہ نذرانہ منظور کر لیں۔“

“ اوہ۔“ ------ مجید ہنسا۔ “ تو یہ نذر نیاز کا معاملہ ہے۔“ ایلی نے غور سے اس لڑکی کی طرف دیکھا جو نو عمر ہونے کے باوجود جوانی سے بھرپور تھی۔ ایلی سوچنے لگا کیا ہر مرد ایسا ہی ہوتا ہے۔ کیا عورت کے معاملہ میں ہر مرد ہی مہاراج ہوتا ہے۔ وہ۔ وہ کور تھی۔ وہ بھی تو بھائی کو ملازمت دلوانے کے لیے آئی تھی اور پھر وہ خانم تھی جسے وہ باداموں کی گٹھڑیاں دینے جایا کرتا تھا اور بالآخر راجو۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ مہاراج ظالم تھا یا وہ بوڑھا باپ۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ویرانہ

امتحان سے فارغ ہو کر وہ پھر علی پور آ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ علی پور وہی علی پور ہو گا جہاں سے وہ چند ماہ پہلے گیا تھا۔ جہاں بندرابن کی رنگینی چھائی رہتی۔ کرشن کنہیا بانسری بجاتے اور سانوری کوٹھے پر ٹہلتی تھی۔ جہاں کپ چھلکتے تھے کیپ بڑے طمطراق سے اپنی نمائش کرتی تھی اور کچی حویلی کی کبڑی لالٹین کے نیچے علی پور کا جادوگر اپنا سامان لے کر اینکر اینڈی کا اسم اعظم پڑھتا تھا مگر اب کی دفعہ وہ علی پور پہنچا تو وہ ایک ویرانہ تھا۔ لق و دق ویرانہ۔

رنگ محل کی عمارت ویران پڑی تھی۔ شریف اور بیگم اپنے کنبے سمیت واپس نورپور جا چکے تھے۔ رنگ محل کے جنوبی حصے میں صرف رابعہ اور اس کا ننھا بیٹا ساحر مقیم تھے۔ مغربی حصے میں فرحت اور ہاجرہ رہتی تھیں۔ شمال میں اس کے ماموں حشمت علی اور ان کا بڑا بیٹا صفدر رہتے تھے۔ حشمت علی پانچ وقت کی نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں مشغول رہتے تھے۔ ان کا بیٹا پرانی یادوں کو بار بار دل میں دہرانے اور “ حافظ خدا تمہارا“ کی دھن الاپنے میں مصروف رہتا اور کبھی کبھی اپنے نانا سے روپے ہتھیا کر چوری چوری شراب پینے کے شغل میں وقت بسر کرتا تھا۔
 
Top