عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے ؟ ایک بہترین آرٹیکل

dxbgraphics

محفلین
فاروق سرور خان صاحب
لقد کان لکم فی رسول اسوۃ حسنۃ
آپ حدیث سے انکار کے جتنے بھی جواز پیش کریں ان کے در یہ ایک آیت کافی ہے
 

فرخ

محفلین
وعلیکم السلام فاروق صاحب
آپ نے اتنے سارے الفاظ لکھے لیکن کام کی بات ایک بھی نہیں ہے۔ جی ۔ ایک بھی کام کی بات نہیں۔ جہاں‌جہاں آپ نے میری ہی بات دہرا کر وقت کا ضیاع کیا ہے
سب سے پہلے میری ایک درخواست ہے آپ سے ۔ اگر آپکومیری باتیں کام کی نہیں لگتیں اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ ان سے آپکا وقت ضائع ہو رہا ہے تو پھر آپکو جواب دینے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ۔ میں‌نہیں‌چاہتا کہ آپ کا قیمتی وقت ضائع کروں۔گو کہ مجھے آپ کی باتیں پڑھتے ہوئے ایسی کوئی تکلیف نہیں ہوئی، حالانکہ میرے پاس بھی اور بہت اہم کام ہوتے ہیں۔

اب بجائے اسکے کہ آپ کی ہر بات کا الگ الگ جواب و سوال دیا جائے، میں تھوڑا سا اپنے پوائینٹ کی طرف مرکوز ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاکہ بحث غیر ضروری طور پر نہ پھیلے۔

میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ عورت کی گواہی والا معاملہ ہر جگہ پر نافذ نہیں کیا جاتا، بلکہ یہ صرف لین دین والے معاملات میں ہے۔
آپ نے (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282) کی تشریح میں کچھ یوں لکھا تھا:
یہاں آپ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں
معاملہ: جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو،
کتنے گواہ: پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو
مقصد دو عورتوں کا: تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں،
دست بدست کی صورت میں : سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں،

اور اسکے جواب میں میرا سوال یہ تھا:
اب اپ میرے ایک سوال کا جواب دیں:
دو خواتین کی گواہی کی صورت میں اس چیز کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ ایک مرد گواہ بھول نہیں سکتا یا غلطی نہیں کرسکتا؟ کہ اگر وہ بھول گیا تو پھر اُسے کون یاد کروائے گایا اگر وہ غلطی کر گیا تو اُس کی تصحیح کون کروائے گا؟ ظاہر ہے اس صورت میں ان عورتوں میں سے ہی کوئی ایک یا دونوں اسکی تصحیح کروا سکیں گی نا؟ یہ بات شائیدقرآن نے زیر بحث نہیں کی یہاں۔
حالانکہ مالی معاملات میں قرآن میں (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282) ایسے معاملات کو لکھ لینے کا اور گواہ کر لینے کا حکم موجود ہے اور اگر معاملے کے اصول و ضوابط (شرائط وغیرہ) لکھی گئیں ہوں، تو پھر خواتین کے بھولنے سے شائید کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئیے تھا نا؟ مگر پھر بھی مرد نہ ملنے کی صورت میں دو خواتین کا حُکم؟ ایک کیوں نہیں؟بھول تو مرد بھی سکتا ہے؟


جسکا آپ نے یہ جواب دیا:
جی مرد بھی بھول سکتا ہے اور عورت بھی بھول سکتی ہے۔ اسی طرح مرد بھی مر سکتا ہے اور عورت بھی مر سکتی ہے۔ یا پھر ان کا دماغ کا کچھ حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اس نکتہ کی کسی بھی قانون مین اور قرآنی قانون میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس لئے کے ---- مستقبل کے سودے کی دستاویز موجود ہے --- گواہوں کی عدم موجودگی میں جج اس بات کا تصفیہ کرتا ہے کہ معاہدے کے کن نکات پر آپس میں ڈسپیوٹ یعنی اختلاف ہے۔ اس کا فیصلہ پھر جج کرتا ہے۔ گواہان کی عدم موجودگی۔ یہ ایک بالکل مختلف صورتحال ہے ۔ یہاں صرف اس نکتہ کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اگر ایک گواہ عورت جو بھولی نہیں ہے (‌جو کہ عموماً لالچ اور دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے) اس کو دوسری عورت یاد دلادے کہ ارے تم اس بات کی گواہ تھیں۔
یہاں بھی آُپ نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ صرف وقت ضائع کیا ہے
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے بھائی۔ یہ تو میں بھی پہلے کہا تھا کہ جب سودے یا معاھدے کی دستاویز موجود ہے تو پھر وہ بھی ایک ثبوت ہوتا ہے۔

چلئیے میں اپنا سوال ذرا اور پوائینٹ کے قریب کرتا ہوں مگر اسکا جواب اوپر دئیے ہوئے اپنے جواب کو پڑھ کر دیجئے گا۔

سوال:(سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282)میں خاص طور پر دو عورتوں کی بات کیوں کی گئی ہے،یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور ایک عورت گواہ کر لو۔ جبکہ بھول چُوک وغیرہ مرد سے بھی ہوسکتی ہے۔؟؟؟


یہ یاد رہے کہ ہم ابھی صرف لین دین اور سودے کے طے کرنے والے معاملے پر بات کررہے ہیں، برائے مہربانی باقی معاملات کو اس سے الگ رکھیئے گا۔

میں چاہوں گا کہ ہم اپنی بحث ابھی اسی پوائینٹ پر رکھیں۔ باقی آپکے اور میرے نظریات اور روایات پر یقین کرنے والی باتیں ہم الگ سے بھی زیرِ گفتگو لا سکتے ہیں۔
 
فرخ سلام،

آپ گواہی اور خاص طور پر عورتوں کی گواہی کو لین دین کے معاملے تک رکھنا چاہتے ہیں۔ اس محدود محدب عدساتی رحجان کی ہم حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے ۔ اس لئے کہ قرآن حکیم گواہی کے تعزیراتی، دیوانی اور معاہداتی اصول فراہم کرتا ہے۔

اگر آپ اپنی آسانی کے لئے صرف اور صرف لین دین کے معاہداتی معاملہ کو ہی دیکھن ااچاہتے ہیں‌ تو پھر اس آیت کی قانونی زبان دیکھئے۔ اگر مستقبل کے معاہداتی سودے کے کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اس صورت میں یہ آیت ایک عورت کی گواہی کو قبول کرنے کا واضح حکم دیتی ہے جب تک کہ اس ایک عورت کو درست یاد ہو کہ معاملہ کیا تھا۔ اگر وہ مصر ہے کہ وہ بھول گئی ہے تو پھر دوسری کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ یاد دلا دے۔

اس گواہی کو ہم کسی بھی طور دیکھیں، معاشرہ میں عورت کا مقام کمتر یا آدھا نہیں ہوتا۔۔ یا پھر تعزیراتی اور دیوانی معاملات میں دو عورت برابر ایک مرد کا فارمولا کہیں بھی نظر نہیں‌آتا۔

والسلام

آپ کا اس پر کوئی اعتراض ہو تو بتائیے۔
 

فرخ

محفلین
وعلیکم السلام
فرخ سلام،
آپ گواہی اور خاص طور پر عورتوں کی گواہی کو لین دین کے معاملے تک رکھنا چاہتے ہیں۔ اس محدود محدب عدساتی رحجان کی ہم حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے ۔ اس لئے کہ قرآن حکیم گواہی کے تعزیراتی، دیوانی اور معاہداتی اصول فراہم کرتا ہے۔
اس سے میری مراد عورت کی آدھی گواہی ہے جو اسی ایک آئیت میں نظر آرہی ہے۔

اگر آپ اپنی آسانی کے لئے صرف اور صرف لین دین کے معاہداتی معاملہ کو ہی دیکھن ااچاہتے ہیں‌ تو پھر اس آیت کی قانونی زبان دیکھئے۔ اگر مستقبل کے معاہداتی سودے کے کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اس صورت میں یہ آیت ایک عورت کی گواہی کو قبول کرنے کا واضح حکم دیتی ہے جب تک کہ اس ایک عورت کو درست یاد ہو کہ معاملہ کیا تھا۔ اگر وہ مصر ہے کہ وہ بھول گئی ہے تو پھر دوسری کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ یاد دلا دے۔
اپنی اس بات کو واضح کریں۔ اس آئیت میں واضح طور پر جوالفاظ ہیں، وہ ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو گواہ کرنے کی بات ہے۔ اگر ایک ہی عورت کی گواہی قبول کرنی ہوتی، تو پھر ایک ہی عورت کا کہا جاتا۔ جبکہ پہلے آپ بھی تسلیم کر چُکے ہیں کہ بھول چوک تو مرد سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس پر اصرار نہ کریں۔ اور میرا سوال اب بھی وہیں ہے۔۔۔۔

اس گواہی کو ہم کسی بھی طور دیکھیں، معاشرہ میں عورت کا مقام کمتر یا آدھا نہیں ہوتا۔۔ یا پھر تعزیراتی اور دیوانی معاملات میں دو عورت برابر ایک مرد کا فارمولا کہیں بھی نظر نہیں‌آتا۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپ عورت کے مقام اور عورت کی گواہی والے معاملے کو ملا رہے ہیں، جبکہ یہ دونوں بالکل الگ الگ موضوعات ہیں۔ ہم یہاں‌عورت کی آدھی گواہی والے معاملے پر بات کر رہے ہیں۔



ناظمین: مجھے ان تھریڈز پر دئے گئے جوابات کی ای میل موصول نہیں‌ہو رہی حالانکہ میں نے سبسکرائب بھی کیا ہوا ہے۔ براہ مہربانی ذرا چیک کریں۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
یہ عجیب بات نہیں کہ قرآنی قانون انتہائی اہم ایسے معاملات جو انسانوں کی سماجی زندگیوں میں ایک بھونچال لاسکتے ہیں ان میں تو ایک عورت کی گواہی قبول کرتا ہے اور غیر اہم معاہداتی معاملات یعنی لین دین وغیرہ میں دو عورتوں‌کی شرط لگا رہا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہوہے؟؟
 
اس سے میری مراد عورت کی آدھی گواہی ہے جو اسی ایک آئیت میں نظر آرہی ہے۔
اپنی اس بات کو واضح کریں۔ اس آئیت میں واضح طور پر جوالفاظ ہیں، وہ ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو گواہ کرنے کی بات ہے۔ اگر ایک ہی عورت کی گواہی قبول کرنی ہوتی، تو پھر ایک ہی عورت کا کہا جاتا۔ جبکہ پہلے آپ بھی تسلیم کر چُکے ہیں کہ بھول چوک تو مرد سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس پر اصرار نہ کریں۔ اور میرا سوال اب بھی وہیں ہے۔۔۔۔
۔

فرخ سلام،
آپ وہ آیت واضح کرکے پوری لکھئے، جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے اور صرف آیت کے مندرجات اور متن سے واضح کیجئے کہ آپ کا نکتہ نظر کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جس آیت کی طرف آپ ممکنہ اشارہ کررہے ہیں وہ آیت دوسری خاتون‌کی ضرورت کی وجہ دوسری عورت کا بھول جانا ہی قرار دیتی ہے۔

میں آپ کے ذہن میں موجود آیت اور اس سے نکلنے والی دلیل کا منتظر رہوں گا،

والسلام
 

فرخ

محفلین
یہ عجیب بات نہیں کہ قرآنی قانون انتہائی اہم ایسے معاملات جو انسانوں کی سماجی زندگیوں میں ایک بھونچال لاسکتے ہیں ان میں تو ایک عورت کی گواہی قبول کرتا ہے اور غیر اہم معاہداتی معاملات یعنی لین دین وغیرہ میں دو عورتوں‌کی شرط لگا رہا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہوہے؟؟

یہ انتہائی اہم اور غیر اہم معاملات کا فیصلہ آپ نے کن بنیادوں پر کیا ہے؟
 

فرخ

محفلین
جناب فاروق صاحب ، وعلیکم السلام
یہ آپ ہی کا فراہم کردہ لنک ہے: (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282)

اور دوسری خاتون کی ضرورت کی وجہ اگر ایک عورت کا بھول جانا ہی ہوتا، تو یہ بات بھی تو طے ہے کہ مرد بھی بھول سکتا ہے اور آپ بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ورنہ تو پھر آپ یہ بات تسلیم کرتےنظر آرہے ہیں کہ عورت میں بھول جانے کا مسئلہ ہے اسی لئے ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی بات کی گئی، اور اسی وجہ سے اس معاملے میں ایک مرد کے برابر دو عورتوں کی گواہی ہوگی۔اور یہی ہم بات کر رہے ہیں۔

اور اگرایسا نہیں ہے، تو پھر خود ہی فرما دیجئے کہ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو پھر ایک مرد اور ایک عورت گواہ کر لو؟
(یاد رہے، بھولنے والی بات مرد پر بھی لاگو ہوتی ہے؟





فرخ سلام،
آپ وہ آیت واضح کرکے پوری لکھئے، جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے اور صرف آیت کے مندرجات اور متن سے واضح کیجئے کہ آپ کا نکتہ نظر کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جس آیت کی طرف آپ ممکنہ اشارہ کررہے ہیں وہ آیت دوسری خاتون‌کی ضرورت کی وجہ دوسری عورت کا بھول جانا ہی قرار دیتی ہے۔

میں آپ کے ذہن میں موجود آیت اور اس سے نکلنے والی دلیل کا منتظر رہوں گا،

والسلام
 
فاروق سرور خان صاحب
لقد کان لکم فی رسول اسوۃ حسنۃ
آپ حدیث سے انکار کے جتنے بھی جواز پیش کریں ان کے در یہ ایک آیت کافی ہے

اگر آپ کسی روایت کو یہ ثابت کردیجئے کہ وہ خلاف قرآن نہیں اور اس کے بعد وہ صحیح روایت ہے تو پھر اس کے ماننے میں کس کو انکار ہوسکتا ہے؟

کیا آپ حدیث اور روایت کے بنیادی فرق کو جانتے ہیں؟
رسول اللہ صلعم سے منسوب ہر روایت ، رسول اللہ صلعم کا قول و فعل جب ہی ہوسکتا ہے جب خود رسول اللہ صلعم کے الفاظ میں وہ روایت ، قول و فعل رسول اللہ صلعم قرآن کے عین مطابق و موافق ہوں۔

ورنہ پھر وہ صرف ایک روایت ہے۔ اگر خلاف قرآن ہے تو پھر رسول اللہ صلعم کے الفاظ میں رد کئے جانے کے قابل ہے۔


والسلام
 
جناب فاروق صاحب ، وعلیکم السلام
یہ آپ ہی کا فراہم کردہ لنک ہے: (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282)

اور دوسری خاتون کی ضرورت کی وجہ اگر ایک عورت کا بھول جانا ہی ہوتا، تو یہ بات بھی تو طے ہے کہ مرد بھی بھول سکتا ہے اور آپ بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ورنہ تو پھر آپ یہ بات تسلیم کرتےنظر آرہے ہیں کہ عورت میں بھول جانے کا مسئلہ ہے اسی لئے ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی بات کی گئی، اور اسی وجہ سے اس معاملے میں ایک مرد کے برابر دو عورتوں کی گواہی ہوگی۔اور یہی ہم بات کر رہے ہیں۔

اور اگرایسا نہیں ہے، تو پھر خود ہی فرما دیجئے کہ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو پھر ایک مرد اور ایک عورت گواہ کر لو؟
(یاد رہے، بھولنے والی بات مرد پر بھی لاگو ہوتی ہے؟






آپ چاہتے ہیں کہ ہم قرآن میں تھوڑی سی تحریف کردیں :) جی؟

جہاں‌یہ بات درست ہے کہ بھول کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ مرد سے یا عورت سے۔ جہاں‌یہ بات درست ہے وہاں یہ بات بھی درست ہے کہ
ایک عورت کی گواہی کو بھول جانے کی صورت میں مظبوط بنانے کے دوسری عورت کی ضرورت کو واضح اسی آیت میں کیا گیا ہے۔ ہم اس بھلادینے والے حصہ کو مکمل طور پر ہٹا کر ایک طرف نہیں‌رکھ سکتے۔


[ayah]2:282 [/ayah][arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ وَاللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [/arabic]
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے

تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،

اگر آپ کی تجویز مان لی جائے تو پھر یہ آیت کچھ ایسی ہوجائے گی۔

[ayah]2:282 [/ayah][arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ ---- وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ وَاللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [/arabic]
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔



اب آپ سے ایک بہت ہی اہم سوال۔۔
اگر میں --- آپ کی خواہش کی پیروی کرتے ہوئے ----- اس آیت سے یہ حصہ نکال کر آپ کو پیش کروں تو کیا آپ اور باقی سب اس آیت کو قبول کرلیں گے؟


اگر آپ کا جواب نا میں ہے تو مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اللہ تعالی کا حکم ہے اس کو مانئے۔

اگر آپ کا جواب -- ہاں‌ -- میں ہے تو صاحب ایسی تحریف کا میں متحمل نہیں ہوسکتا ، مجھے معاف رکھئے۔

اور اگر آپ کا جواب کوئی بہت بڑی منطقی تاویل ہے تو اس کا پیشگی جواب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی تاویل بھی قرآں حکیم میں تحریف کو درست قرآر نہیں دیتی ہے۔

لہذا آپ اب درج ذیل حصہ پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالی نے اس حصے کو نازل کیوں‌کیا تھا۔
تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،

دعا ہے کہ اللہ تعالی اس آیت سے عورت کی پوری گواہی ہونے کے بارے میں ہدایت عطا فرمائیں۔

والسلام
 

فرخ

محفلین
براہ مہربانی ذرا میری باتوں کو تحمل اورآرام سے پڑھئیے گا اور پھر غور و فکر کر کے سوالوں کے جواب دیجئے گا
میں نے یہ جو بات لکھی ہے:
جناب فاروق صاحب ، وعلیکم السلام
یہ آپ ہی کا فراہم کردہ لنک ہے: (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282)

اور دوسری خاتون کی ضرورت کی وجہ اگر ایک عورت کا بھول جانا ہی ہوتا، تو یہ بات بھی تو طے ہے کہ مرد بھی بھول سکتا ہے اور آپ بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ورنہ تو پھر آپ یہ بات تسلیم کرتےنظر آرہے ہیں کہ عورت میں بھول جانے کا مسئلہ ہے اسی لئے ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی بات کی گئی، اور اسی وجہ سے اس معاملے میں ایک مرد کے برابر دو عورتوں کی گواہی ہوگی۔اور یہی ہم بات کر رہے ہیں۔

اور اگرایسا نہیں ہے، تو پھر خود ہی فرما دیجئے کہ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو پھر ایک مرد اور ایک عورت گواہ کر لو؟
(یاد رہے، بھولنے والی بات مرد پر بھی لاگو ہوتی ہے؟

اس میں‌آپ کو یہ غلط فہمی کسطرح ہوئی؟:
آپ چاہتے ہیں کہ ہم قرآن میں تھوڑی سی تحریف کردیں :) جی؟

برائے مہربانی، بات کا بتنگڑ مت بنائیے۔ ہر ذی شعور قاری میرا سوال پڑھ کر سمجھ سکتا ہے کہ میں نے غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔

میں نے آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھا ہے (اوپر میرے اقتباس میں سرخ رنگ میں دیکھیں) آپ کو تحریف کرنے کو نہیں کہا۔

اب آپ کا یہ فرمانا ہے کہ:
ہاں‌یہ بات درست ہے کہ بھول کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ مرد سے یا عورت سے۔ جہاں‌یہ بات درست ہے وہاں یہ بات بھی درست ہے کہ
ایک عورت کی گواہی کو بھول جانے کی صورت میں مظبوط بنانے کے دوسری عورت کی ضرورت کو واضح اسی آیت میں کیا گیا ہے۔ ہم اس بھلادینے والے حصہ کو مکمل طور پر ہٹا کر ایک طرف نہیں‌رکھ سکتے۔

اور

لہذا آپ اب درج ذیل حصہ پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالی نے اس حصے کو نازل کیوں‌کیا تھا۔
تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،

تو گویا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں عورت کے بھولنے کی طرف خصوصی اشارہ کیا گیا ہے، مرد کی طرف نہیں۔ اب مُکر مت جائیے گا۔۔۔۔

تو بھائی میرے، یہی تو وہ وجہ ہے کہ اس معاملے میں ایک مرد کی بجائے دو عورتوں کی گواہی رکھی گئی ہے۔ اور یہی توہم کہہ رہے ہیں کہ اس آئیت میں اللہ جل شانہُ نے خصوصی طور پر عورتوں کے بھول جانے والے معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے، مردوں کی طرف نہیں کیا
حالانکہ بھولنا مردوں میں‌بھی ہوتا ہے، مگر اس آئیت میں، لین دین کے معاملے میں‌خصوصی طور پر خواتین کے بھولنے کی طرف اشارہ کیوں کیا گیا؟


یہی تو وہ خاص وجہ ہے کہ کم از کم لین دین کے معاملے میں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا حُکم دیا گیا ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی اس آیت سے عورت کی پوری گواہی ہونے کے بارے میں ہدایت عطا فرمائیں۔
ویسے یہ بات پڑھ کر اب تو قارئین بھی ہنسنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آپ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ایک عورت بھول جائے تو دوسری یاد کروا دے اور دوسری طرف ایک مرد؟ اس بچارے کو کون یاد کروائے گا اگر وہ بھول گیا؟

اچھا میرا سوال پھر وہیں ہے:
ذرا غور کر کے بتائیے کہ قرآن کی اس آئیت میں اللہ جل شانہ نے مرد کے بھولنے کی بات نہیں کی، بلکہ عورتوں کے بھولنے کی وجہ سے ایک مرد کی بجائے دو عورتوں کا حُکم دیا ہے؟
کیا یہ عورتوں کی کسی کمزوری کی طرف اشارہ ہے؟ جبکہ کہیں مردوں کے بارے میں ایسی بات نہیں کی گئی؟


اب یہ مت کہنا کہ میں نے تحریف کرنے کو کہاںہے؟ صرف غور کرنے کو کہہ رہا ہوں۔ قرآن تو خود غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

اللہ تعالٰی آپ کو توفیق دے کہ کھُلے دل سے قرآن و سنت پر غور کر سکیں اور آپ کے ذھن کو وہ وسعت دے کہ آپ گہرائی میں سوچ سکیں اور صحیح بات کو تسلیم کر سکیں۔ آمین

مجھے اُمید ہے کہ آپ ایک ہی بات کو بار بار دہرانے کی بجائے تحقیق اور غور کرنے کے بعد جواب دیں گے۔

والسلام
 

فرخ

محفلین
نبیل بھائی
ایک تو مجھے اس تھریڈ پر ہونے والے جوابات کا نوٹیفیکیشن ای میل پر نہیں‌مل رہا
اور دوسرے اگر آپ کسی بات کو حذ ف کرتے ہیں، تو وہ بھی مجھے پتا نہیں چل رہا، مجھے یہاں‌آ کر خود دیکھنا پڑتا ہے۔

برائے مہربانی اس بات کا بھی نوٹس لیں
 
فرخ، گواہی ایک ہی عورت کی شمار ہوگی۔ دوسری عورت اگر پہلی بھول جائے گی تو یاد دلائے گی۔ اس سے زیادہ مزیدکچھ نہیں لکھا۔

قیاسات کے گھوڑے دوڑانے ہیں تو ایسا قیاس کیجئے کہ چونکہ مرد دگنا بے ایمان اور لالچی ہے لہذا اس پر دو عروتوں کو نگراں و گواہ بنایا گیا ہے :)

والسلام
 
یہ وہ کم از کم احکامات ہیں‌جو نماز میں ادا کئے جاتے ہیں۔ نماز کے وہ احکام جو اس تفصیل میں شامل نہیں ہیں وہ رسول اکرم کی ہدایت کے مطابق کیس سنت جاریہ ہیں اور کسی بھی نماز میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

والسلام
 

فرخ

محفلین
اپنے مطلب کے فتوے دینے کی بجائے اگر آپ میرے 1 یا 2 سوالات کا جواب عنایت کردینے کی ہمت گوارا کر لیں، تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

میں کوئی قیاس آرائیاں نہیں کر رہا، بلکہ سادگی سے آپ کو صرف اور صرف قرآن کی آئیت پر تحقیق کی دعوت دے رہا ہوں، جو آپ کو کسی صورت ہضم نہیں ہوگی۔اور اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ آپ قرآن کو اپنے مطلب کی آنکھ سے دکھانا چاہتے ہیں‌

تو میرے اوپر دئے گئےسوالات کا جواب کہاں‌ہے؟ اگر جواب نہیں دے سکتے تو میں پھر یہی سمجھوں گا کہ " نیم ملا، خطرہْ ایمان" والی بات کر رہے ہیں آپ
اسلیئے مان جایئے کہ آپ کے پاس سوالات کے جوابات نہیں ہیں




فرخ، گواہی ایک ہی عورت کی شمار ہوگی۔ دوسری عورت اگر پہلی بھول جائے گی تو یاد دلائے گی۔ اس سے زیادہ مزیدکچھ نہیں لکھا۔

قیاسات کے گھوڑے دوڑانے ہیں تو ایسا قیاس کیجئے کہ چونکہ مرد دگنا بے ایمان اور لالچی ہے لہذا اس پر دو عروتوں کو نگراں و گواہ بنایا گیا ہے :)

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
محترم ظفری بھائی ، آپ نے اپنے مراسلے کی شروعات ہی ان الفاظ سے کی تھی :
ہم سن لیتے ہیں ، پڑھ لیتے ہیں مگر مطالعہ نہیں کرتے ۔
میں یہی بات آپ پر لوٹانا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ حدیث آپ کے مطالعےسے نہ گزری ہو:
شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
حدیث کے الفاظ بالکل صاف صاف بیان کر رہے ہیں کہ
عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف ہے!
یہ حدیث صرف ایک کتابِ حدیث میں درج ہوتی تو پھر بھی کسی کے لئے "مطالعے کی کمی" کہا جا سکتا مگر مسئلہ یہی ہے کہ یہ حدیث صحیحین کے علاوہ درج ذیل 10 کتبِ احادیث میں درج ہے :
1۔ ابوداؤد ، باب الدليل على زيادة الاِيمان ونقصانه
2۔ ترمذی ، باب ما جاء في استكمال الايمان وزيادته ونقصانه
3۔ ابن ماجہ ، باب فتنة النساء
4۔ مسند احمد ، جلد:2
5۔ صحیح ابن خزیمہ ، باب اسقاط فرض الصلاة عن الحائض ايام حيضها
6۔ سنن دارمی ، باب الحائض تسمع السجدة فلا تسجد
7۔ سنن بیھقی کبری ، باب الحائض تفطر فى شهر رمضان كتاب الصوم
8۔ ابن حبان ، ذكر الزجر للنساء عن اكثار اللعن واكفار العشير
9۔ مستدرک الحاکم ، جلد:4
10۔ مجمع الزوائد ، باب الصدقة على الاقارب وصدقة المراة على زوجها

۔
پہلی سرخ رنگ میں‌مقید میں آپ کے جملے سے متفق ہوں ۔ :)

مگرمیں بحث کو اس کی مرکزی حیثیت پر رکھتے ہوئے آپ کی بات کا جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کی باقی باتیں سوائے گروہی اختلاف کے سوا کچھ نہیں ۔

آپ دلیل کی منبع یہ حدیث ہے ۔
شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
حدیث کے الفاظ بالکل صاف صاف بیان کر رہے ہیں کہ :
عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف ہے ۔

آپ نے یہ حدیث کوٹ کردی ہے ۔ اور وا شگاف الفاظ میں اعلان بھی کردیا کہ اس حدیث کے الفاظ بلکل واضع ہیں ۔ مگر آپ نے اس بات کی وضاحت کی زحمت گوارا نہیں کہ اس حدیث کا سیاق و سباق کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد کس تناظر میں فرمایا ۔ ہم جیسے طالب علم یہ بات جانتے ہیں کہ جس طرح کسی بھی آیت کو کوٹ کرکے اس کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچا جاسکتا کہ اس سے پہلے اس آیت کا سیاق و سباق دیکھنا پڑتا ہے کہ اس آیت کے مقام پر قرآن کہاں کھڑا ہے ۔ اور اس کا پس منظر کیا ہے ۔ بلکل اسی طرح کسی بھی احادیث کو سمجھنے کے لیئے بھی یہ طریقہ درکار ہوگا ۔

پوری حدیث کا متن کچھ اس طرح ہے ۔
اليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان عقلها. اليس اذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان دينها. (بخاری، رقم ٢٩٣)
''کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی نہیں ہے؟ خواتین نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اس کی عقل کا ناقص ہونا ہے۔ کیا حیض کی حالت میں اس کے لیے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوتا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا کہ یہ اس کے دین کا ناقص ہونا ہے۔
روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ اس میں ابتداء ً اور مستقلاً کوئی حکم بیان نہیں کیا جا رہا ، بلکہ سورہ بقرہ (٢)کی آیت ٢٨٢ میں بیان ہونے والی ہدایت ہی کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ آیت میں ، سماجی معاملات اور تجارتی وکاروباری قضیوں میں خواتین کے تجربہ اور ممارست کی کمی کے تناظر میں احتیاطاً دو عورتوں کو گواہ بنا لینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ اگر ان میں سے ایک الجھاؤ یا کنفیوژن کا شکار ہو تو دوسری خاتون اس کا سہارا بن سکے۔ ظاہر ہے کہ اگر روایت میں اسی ہدایت کی طرف اشارہ ہے تو اسے آیت سے الگ کر کے اس سے کوئی مستقل قانونی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ اس روایت سے کسی قانون یا حکم کا اجراء ہوگیا ۔ یہ بات سیاق و سباق سے واضع ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
 

فرخ

محفلین
پہلی سرخ رنگ میں‌مقید میں آپ کے جملے سے متفق ہوں ۔ :)

مگرمیں بحث کو اس کی مرکزی حیثیت پر رکھتے ہوئے آپ کی بات کا جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کی باقی باتیں سوائے گروہی اختلاف کے سوا کچھ نہیں ۔

آپ دلیل کی منبع یہ حدیث ہے ۔
شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
حدیث کے الفاظ بالکل صاف صاف بیان کر رہے ہیں کہ :
عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف ہے ۔

آپ نے یہ حدیث کوٹ کردی ہے ۔ اور وا شگاف الفاظ میں اعلان بھی کردیا کہ اس حدیث کے الفاظ بلکل واضع ہیں ۔ مگر آپ نے اس بات کی وضاحت کی زحمت گوارا نہیں کہ اس حدیث کا سیاق و سباق کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد کس تناظر میں فرمایا ۔ ہم جیسے طالب علم یہ بات جانتے ہیں کہ جس طرح کسی بھی آیت کو کوٹ کرکے اس کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچا جاسکتا کہ اس سے پہلے اس آیت کا سیاق و سباق دیکھنا پڑتا ہے کہ اس آیت کے مقام پر قرآن کہاں کھڑا ہے ۔ اور اس کا پس منظر کیا ہے ۔ بلکل اسی طرح کسی بھی احادیث کو سمجھنے کے لیئے بھی یہ طریقہ درکار ہوگا ۔

پوری حدیث کا متن کچھ اس طرح ہے ۔
اليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان عقلها. اليس اذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان دينها. (بخاری، رقم ٢٩٣)
''کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی نہیں ہے؟ خواتین نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اس کی عقل کا ناقص ہونا ہے۔ کیا حیض کی حالت میں اس کے لیے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوتا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا کہ یہ اس کے دین کا ناقص ہونا ہے۔
روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ اس میں ابتداء ً اور مستقلاً کوئی حکم بیان نہیں کیا جا رہا ، بلکہ سورہ بقرہ (٢)کی آیت ٢٨٢ میں بیان ہونے والی ہدایت ہی کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ آیت میں ، سماجی معاملات اور تجارتی وکاروباری قضیوں میں خواتین کے تجربہ اور ممارست کی کمی کے تناظر میں احتیاطاً دو عورتوں کو گواہ بنا لینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ اگر ان میں سے ایک الجھاؤ یا کنفیوژن کا شکار ہو تو دوسری خاتون اس کا سہارا بن سکے۔ ظاہر ہے کہ اگر روایت میں اسی ہدایت کی طرف اشارہ ہے تو اسے آیت سے الگ کر کے اس سے کوئی مستقل قانونی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ اس روایت سے کسی قانون یا حکم کا اجراء ہوگیا ۔ یہ بات سیاق و سباق سے واضع ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔

ظفری،
جزاک اللہِ خیرا۔
آپ نے اچھا کیا، کہ اس حدیث کو بیان کردیا۔

آپ یہ بھی تو غور کریں ، اس حدیث میں‌نبی کریم صلی اللہُ علیہ وآلہٍ وسلم نے خواتین سے ایک بات پوچھنے کے انداز میں یوں کہی جو پہلے سے طے شُدہ ہے اور جس پر خواتین نےقبول کیا کہ ہاں ایسا ہی ہے، تو گو یا یہ بات تو پہلے سے ہی طے شُدہ لگ رہی ہے یہاں؎ کہ عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی ہے۔
اگر اس پر بھی کوئی تحقیق آپکی نظر میں ہے کہ پہلے یہ بات کیوں اور کب طے کی گئی، تو بات زیادہ واضح ہوگی۔

دوسرے یہ ذھنی الجھاؤ یا کنفیوژن یا بھول جانے والی بات پر تو ہم یہی سوال اُٹھاتے آرہے ہیں، یہ مسئلہ تو مرد حضرات کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے، یہ خواتین کے بارے میں ہی کیوں کہا گیا؟
اوپر ذرا اپنی پیش کردہ حدیث میں‌غور فرمائیے گا۔جہاں نبی ء آخرلزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ "یہ اس کی عقل کا ناقص ہونا ہے" اور یہ وہ وجہ ہے جو بنیاد بنی ہے عورت کی آدھی گواہی کی۔

اگر صرف حدیث کو دیکھیں تو اس میں تو کوئی خاص شرط نہیں لگائی گئی کہ کن معاملات میں‌عورت کی گواہی آدھی ہے۔جبکہ قرآن میں ایک خاص معاملے کے بارے میں یہ بات نظر آرہی ہے۔

حتمی فیصلہ دراصل احادیث اور قرآنی آیات کی روشنی میں ہی مرتب کیا جاسکتا ہے۔اگر ان میں سے ایک کو دوسرے سے الگ کرکے فیصلہ کریں تو معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آتا اور بحث کا نتیجہ وہ نظر آتا ہے جب لوگ سوالات کے جواب دینے کی بجائےاپنی زبردستی کی قرآن فہمی پر اَڑ جاتے ہیں۔
 
فرخ آپ کی سب باتوں کا جواب دیا جا چکا ہے ۔ اگر آُ قرآں حکیم میں تھریف کرنا چاہتے ہیں تو خوشی سے کیجئے ورنہ بغور پڑھ کر اپنا ہوم ورک کیجئے :)

عورت کی گواہی پوری ہے اور یہ بات قرآن حکیم کی بہت سئ آیات سے واضح ہے۔۔۔

والسلام
 

فرخ

محفلین
نہیں‌جناب، آپ نےمیرے کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں‌دیا، البتہ حسبِ عادت کچھ الگ مطلب نکال کر بات کا رُخ موڑنے کی کوشش ضرور کی ہے۔اور حسب عادت قرآن کریم میں‌تحریف کا الزام بھی آپ ہی کا عائد کردہ ہے اور راہ فرار اختیار کرنے کا پرانا طریقہ :) :
فرخ آپ کی سب باتوں کا جواب دیا جا چکا ہے ۔ اگر آُ قرآں حکیم میں تھریف کرنا چاہتے ہیں تو خوشی سے کیجئے ورنہ بغور پڑھ کر اپنا ہوم ورک کیجئے :)

عورت کی گواہی پوری ہے اور یہ بات قرآن حکیم کی بہت سئ آیات سے واضح ہے۔۔۔
والسلام

اور نہ ہی آپ یہ ثابت کر سکے ہیں کہ عورت کی گواہی پوری ہے۔ زبردستی کا فتویٰ لگانے والے پہلے ہی بدنام ہیں بھائی۔اور آپ نے تو روایات کے خلاف جانے کے ہر طریقے آزما لئے ہیں مگر بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔

آپ نے تسلیم کیا:
ہاں‌یہ بات درست ہے کہ بھول کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ مرد سے یا عورت سے۔ جہاں‌یہ بات درست ہے وہاں یہ بات بھی درست ہے کہ
ایک عورت کی گواہی کو بھول جانے کی صورت میں مظبوط بنانے کے دوسری عورت کی ضرورت کو واضح اسی آیت میں کیا گیا ہے۔ ہم اس بھلادینے والے حصہ کو مکمل طور پر ہٹا کر ایک طرف نہیں‌رکھ سکتے۔

اور

لہذا آپ اب درج ذیل حصہ پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالی نے اس حصے کو نازل کیوں‌کیا تھا۔
تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،


اور میراسوال اب بھی وہیں ہے:
ذرا غور کر کے بتائیے کہ قرآن کی اس آئیت میں اللہ جل شانہ نے مرد کے بھولنے کی بات نہیں کی، بلکہ عورتوں کے بھولنے کی وجہ سے ایک مرد کی بجائے دو عورتوں کا حُکم دیا ہے؟
کیا یہ عورتوں کی کسی کمزوری کی طرف اشارہ ہے؟ جبکہ کہیں مردوں کے بارے میں ایسی بات نہیں کی گئی؟
اور
دو خواتین کی گواہی کی صورت میں اس چیز کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ ایک مرد گواہ بھول نہیں سکتا یا غلطی نہیں کرسکتا؟ کہ اگر وہ بھول گیا تو پھر اُسے کون یاد کروائے گایا اگر وہ غلطی کر گیا تو اُس کی تصحیح کون کروائے گا؟ کیونکہ مرد کی بھول چُوک بھی ایک بالکل قدرتی امر ہے اور اسے قطعا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ آپ کو دعوت ہے، قرآن میں سوچ بچار کی اور غوروفکر کی۔ جسے شائید آپ قرآن میں تحریف کا نام دے کر راہ فرار اختیار کر لیں۔۔۔۔۔

اور ہو سکے تو کچھ اپنے اوپر جبر کر کے اور برداشت کر کے ظفری والا مراسلہ اور اسکے جواب میں میرا مراسلہ بھی پڑھ لیجئے گا، حالانکہ میں جانتا ہوں، روایات و احادیث آپ کو ہضم نہیں ہونے کیں۔۔:(

اور اب جواب میں یہ مت کہیئے گا کہ یہ بس ایسے ہی ہے۔کیونکہ اسطرح صرف وہ بات کرتے ہیں جب کے پاس کوئی دلیل اور علم نہیں ہوتا۔۔۔
 
فرخ ،

پتہ نہیں آپ کا سوال کیا ہے۔ میرے اسلوب پر نکتہ چینی اور تبصرہ نگاری سے کسی کو بھی کچھ فائیدہ نہیں ہوگا۔ آپ سوالت کے بجائے مکمل دلائیل اور ثبوت کے ساتھ اپنی معلومات کا اظہار فرمائیے ۔۔۔ تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آپ عورت کی گواہی کو آدھا سمجھتے ہیں؟؟؟؟ کیا قرآن کی کوئی آئت عورت کو گواہی کو صراحت سے آدھا قرآر دیتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس آیت کو ہم سب کی معلومات کے لئے پیش کیجئے ۔

آپ چاہتے ہیں کہ قرآن کی پہلئےے آیک آیت میں تحریف کی جائے اور پھر اس سے معانی اخذ کئے جائیں۔ یہ طریقہ کسی طور بھی ممکن نہیں۔

آپ مبہم سوالات کرنے کے بجائے ، اپنے دلائیل سے یہ ثابت کیجئے کہ قرآن کی جس آیت کی بات آپ کررہے ہیں وہ ایک عورت کی گواہی کو کیوں ادھی قرار دیتی ہے۔

مجھے تو صرف اتنا نظر آتا ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے۔ وہ بھی مستقبل کے معاہداتی معاملات میں۔ تعزیری اور دیواانی ایسے معاملات جو ماضی میں واقع ہو چکے ہوں ان کے بارے میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ عورت یا مرد کی گواہی میں کوئی فرق نہیں ۔۔۔ اس بارے میں تفصیلی طور پر لکھ چکا ہوں۔

آپ مین میخ نکالنے والے مبہم سوالات جو کہ صرف آپ کے ذہن میں ہیں کی جگہ اپنا مدلل بیان لائیے تاکہ سب کا فائیدہ ہو۔

اس طرح کے سوالات نا کیجئے بلکہ درست اور مکمل معلومات پیش کیجئے۔ مذہب سنی سنائی کا نام نہیں‌ہے ۔۔۔ بلکہ قرآن حکیم اس کی بنیاد ہے ، رسول صلعم اس کتاب کے باعث ہی ہمارے رسول قرار پائے۔ اسی کتاب کی تعلیم دی اور اسی کتاب سے دلائیل۔ رسول اللہ صلعم کی تمام کی تمام سنت اور تمام احادیث رسول اللہ صلعم کے قول کے مطابق، قرآں کے موافق ہونا ضروری ہیں۔ پہلے عورت کی آدھی گواہی کو قرآن حکیم سے ثابت کیجئے پھر اس پر سنت رسول سے دلائیل لائیے۔

ایک بار پھر ۔ ۔ سوالات نہیں ۔۔۔۔ مدلل بیان پیش کیجئے تاکہ سب کا بھلا ہو۔

میں‌صرف ایک طالب علم قرآن ہوں۔


والسلام
 
Top