dxbgraphics
محفلین
فاروق سرور خان صاحب
لقد کان لکم فی رسول اسوۃ حسنۃ
آپ حدیث سے انکار کے جتنے بھی جواز پیش کریں ان کے در یہ ایک آیت کافی ہے
لقد کان لکم فی رسول اسوۃ حسنۃ
آپ حدیث سے انکار کے جتنے بھی جواز پیش کریں ان کے در یہ ایک آیت کافی ہے
بھائی فرخ سلام،
سب سے پہلے میری ایک درخواست ہے آپ سے ۔ اگر آپکومیری باتیں کام کی نہیں لگتیں اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ ان سے آپکا وقت ضائع ہو رہا ہے تو پھر آپکو جواب دینے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ۔ میںنہیںچاہتا کہ آپ کا قیمتی وقت ضائع کروں۔گو کہ مجھے آپ کی باتیں پڑھتے ہوئے ایسی کوئی تکلیف نہیں ہوئی، حالانکہ میرے پاس بھی اور بہت اہم کام ہوتے ہیں۔آپ نے اتنے سارے الفاظ لکھے لیکن کام کی بات ایک بھی نہیں ہے۔ جی ۔ ایک بھی کام کی بات نہیں۔ جہاںجہاں آپ نے میری ہی بات دہرا کر وقت کا ضیاع کیا ہے
یہاں آپ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں
معاملہ: جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو،
کتنے گواہ: پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو
مقصد دو عورتوں کا: تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں،
دست بدست کی صورت میں : سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں،
اب اپ میرے ایک سوال کا جواب دیں:
دو خواتین کی گواہی کی صورت میں اس چیز کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ ایک مرد گواہ بھول نہیں سکتا یا غلطی نہیں کرسکتا؟ کہ اگر وہ بھول گیا تو پھر اُسے کون یاد کروائے گایا اگر وہ غلطی کر گیا تو اُس کی تصحیح کون کروائے گا؟ ظاہر ہے اس صورت میں ان عورتوں میں سے ہی کوئی ایک یا دونوں اسکی تصحیح کروا سکیں گی نا؟ یہ بات شائیدقرآن نے زیر بحث نہیں کی یہاں۔
حالانکہ مالی معاملات میں قرآن میں (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282) ایسے معاملات کو لکھ لینے کا اور گواہ کر لینے کا حکم موجود ہے اور اگر معاملے کے اصول و ضوابط (شرائط وغیرہ) لکھی گئیں ہوں، تو پھر خواتین کے بھولنے سے شائید کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئیے تھا نا؟ مگر پھر بھی مرد نہ ملنے کی صورت میں دو خواتین کا حُکم؟ ایک کیوں نہیں؟بھول تو مرد بھی سکتا ہے؟
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے بھائی۔ یہ تو میں بھی پہلے کہا تھا کہ جب سودے یا معاھدے کی دستاویز موجود ہے تو پھر وہ بھی ایک ثبوت ہوتا ہے۔جی مرد بھی بھول سکتا ہے اور عورت بھی بھول سکتی ہے۔ اسی طرح مرد بھی مر سکتا ہے اور عورت بھی مر سکتی ہے۔ یا پھر ان کا دماغ کا کچھ حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اس نکتہ کی کسی بھی قانون مین اور قرآنی قانون میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس لئے کے ---- مستقبل کے سودے کی دستاویز موجود ہے --- گواہوں کی عدم موجودگی میں جج اس بات کا تصفیہ کرتا ہے کہ معاہدے کے کن نکات پر آپس میں ڈسپیوٹ یعنی اختلاف ہے۔ اس کا فیصلہ پھر جج کرتا ہے۔ گواہان کی عدم موجودگی۔ یہ ایک بالکل مختلف صورتحال ہے ۔ یہاں صرف اس نکتہ کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اگر ایک گواہ عورت جو بھولی نہیں ہے (جو کہ عموماً لالچ اور دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے) اس کو دوسری عورت یاد دلادے کہ ارے تم اس بات کی گواہ تھیں۔
یہاں بھی آُپ نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ صرف وقت ضائع کیا ہے
اس سے میری مراد عورت کی آدھی گواہی ہے جو اسی ایک آئیت میں نظر آرہی ہے۔فرخ سلام،
آپ گواہی اور خاص طور پر عورتوں کی گواہی کو لین دین کے معاملے تک رکھنا چاہتے ہیں۔ اس محدود محدب عدساتی رحجان کی ہم حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے ۔ اس لئے کہ قرآن حکیم گواہی کے تعزیراتی، دیوانی اور معاہداتی اصول فراہم کرتا ہے۔
اپنی اس بات کو واضح کریں۔ اس آئیت میں واضح طور پر جوالفاظ ہیں، وہ ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو گواہ کرنے کی بات ہے۔ اگر ایک ہی عورت کی گواہی قبول کرنی ہوتی، تو پھر ایک ہی عورت کا کہا جاتا۔ جبکہ پہلے آپ بھی تسلیم کر چُکے ہیں کہ بھول چوک تو مرد سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس پر اصرار نہ کریں۔ اور میرا سوال اب بھی وہیں ہے۔۔۔۔اگر آپ اپنی آسانی کے لئے صرف اور صرف لین دین کے معاہداتی معاملہ کو ہی دیکھن ااچاہتے ہیں تو پھر اس آیت کی قانونی زبان دیکھئے۔ اگر مستقبل کے معاہداتی سودے کے کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اس صورت میں یہ آیت ایک عورت کی گواہی کو قبول کرنے کا واضح حکم دیتی ہے جب تک کہ اس ایک عورت کو درست یاد ہو کہ معاملہ کیا تھا۔ اگر وہ مصر ہے کہ وہ بھول گئی ہے تو پھر دوسری کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ یاد دلا دے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپ عورت کے مقام اور عورت کی گواہی والے معاملے کو ملا رہے ہیں، جبکہ یہ دونوں بالکل الگ الگ موضوعات ہیں۔ ہم یہاںعورت کی آدھی گواہی والے معاملے پر بات کر رہے ہیں۔اس گواہی کو ہم کسی بھی طور دیکھیں، معاشرہ میں عورت کا مقام کمتر یا آدھا نہیں ہوتا۔۔ یا پھر تعزیراتی اور دیوانی معاملات میں دو عورت برابر ایک مرد کا فارمولا کہیں بھی نظر نہیںآتا۔
اس سے میری مراد عورت کی آدھی گواہی ہے جو اسی ایک آئیت میں نظر آرہی ہے۔
اپنی اس بات کو واضح کریں۔ اس آئیت میں واضح طور پر جوالفاظ ہیں، وہ ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو گواہ کرنے کی بات ہے۔ اگر ایک ہی عورت کی گواہی قبول کرنی ہوتی، تو پھر ایک ہی عورت کا کہا جاتا۔ جبکہ پہلے آپ بھی تسلیم کر چُکے ہیں کہ بھول چوک تو مرد سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس پر اصرار نہ کریں۔ اور میرا سوال اب بھی وہیں ہے۔۔۔۔
۔
یہ عجیب بات نہیں کہ قرآنی قانون انتہائی اہم ایسے معاملات جو انسانوں کی سماجی زندگیوں میں ایک بھونچال لاسکتے ہیں ان میں تو ایک عورت کی گواہی قبول کرتا ہے اور غیر اہم معاہداتی معاملات یعنی لین دین وغیرہ میں دو عورتوںکی شرط لگا رہا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہوہے؟؟
فرخ سلام،
آپ وہ آیت واضح کرکے پوری لکھئے، جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے اور صرف آیت کے مندرجات اور متن سے واضح کیجئے کہ آپ کا نکتہ نظر کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جس آیت کی طرف آپ ممکنہ اشارہ کررہے ہیں وہ آیت دوسری خاتونکی ضرورت کی وجہ دوسری عورت کا بھول جانا ہی قرار دیتی ہے۔
میں آپ کے ذہن میں موجود آیت اور اس سے نکلنے والی دلیل کا منتظر رہوں گا،
والسلام
فاروق سرور خان صاحب
لقد کان لکم فی رسول اسوۃ حسنۃ
آپ حدیث سے انکار کے جتنے بھی جواز پیش کریں ان کے در یہ ایک آیت کافی ہے
جناب فاروق صاحب ، وعلیکم السلام
یہ آپ ہی کا فراہم کردہ لنک ہے: (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282)
اور دوسری خاتون کی ضرورت کی وجہ اگر ایک عورت کا بھول جانا ہی ہوتا، تو یہ بات بھی تو طے ہے کہ مرد بھی بھول سکتا ہے اور آپ بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ورنہ تو پھر آپ یہ بات تسلیم کرتےنظر آرہے ہیں کہ عورت میں بھول جانے کا مسئلہ ہے اسی لئے ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی بات کی گئی، اور اسی وجہ سے اس معاملے میں ایک مرد کے برابر دو عورتوں کی گواہی ہوگی۔اور یہی ہم بات کر رہے ہیں۔
اور اگرایسا نہیں ہے، تو پھر خود ہی فرما دیجئے کہ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو پھر ایک مرد اور ایک عورت گواہ کر لو؟
(یاد رہے، بھولنے والی بات مرد پر بھی لاگو ہوتی ہے؟
جناب فاروق صاحب ، وعلیکم السلام
یہ آپ ہی کا فراہم کردہ لنک ہے: (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282)
اور دوسری خاتون کی ضرورت کی وجہ اگر ایک عورت کا بھول جانا ہی ہوتا، تو یہ بات بھی تو طے ہے کہ مرد بھی بھول سکتا ہے اور آپ بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ورنہ تو پھر آپ یہ بات تسلیم کرتےنظر آرہے ہیں کہ عورت میں بھول جانے کا مسئلہ ہے اسی لئے ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی بات کی گئی، اور اسی وجہ سے اس معاملے میں ایک مرد کے برابر دو عورتوں کی گواہی ہوگی۔اور یہی ہم بات کر رہے ہیں۔
اور اگرایسا نہیں ہے، تو پھر خود ہی فرما دیجئے کہ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو پھر ایک مرد اور ایک عورت گواہ کر لو؟
(یاد رہے، بھولنے والی بات مرد پر بھی لاگو ہوتی ہے؟
آپ چاہتے ہیں کہ ہم قرآن میں تھوڑی سی تحریف کردیںجی؟
ہاںیہ بات درست ہے کہ بھول کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ مرد سے یا عورت سے۔ جہاںیہ بات درست ہے وہاں یہ بات بھی درست ہے کہ
ایک عورت کی گواہی کو بھول جانے کی صورت میں مظبوط بنانے کے دوسری عورت کی ضرورت کو واضح اسی آیت میں کیا گیا ہے۔ ہم اس بھلادینے والے حصہ کو مکمل طور پر ہٹا کر ایک طرف نہیںرکھ سکتے۔
اور
لہذا آپ اب درج ذیل حصہ پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالی نے اس حصے کو نازل کیوںکیا تھا۔
تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،
ویسے یہ بات پڑھ کر اب تو قارئین بھی ہنسنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آپ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ایک عورت بھول جائے تو دوسری یاد کروا دے اور دوسری طرف ایک مرد؟ اس بچارے کو کون یاد کروائے گا اگر وہ بھول گیا؟دعا ہے کہ اللہ تعالی اس آیت سے عورت کی پوری گواہی ہونے کے بارے میں ہدایت عطا فرمائیں۔
فرخ، گواہی ایک ہی عورت کی شمار ہوگی۔ دوسری عورت اگر پہلی بھول جائے گی تو یاد دلائے گی۔ اس سے زیادہ مزیدکچھ نہیں لکھا۔
قیاسات کے گھوڑے دوڑانے ہیں تو ایسا قیاس کیجئے کہ چونکہ مرد دگنا بے ایمان اور لالچی ہے لہذا اس پر دو عروتوں کو نگراں و گواہ بنایا گیا ہے
والسلام
پہلی سرخ رنگ میںمقید میں آپ کے جملے سے متفق ہوں ۔محترم ظفری بھائی ، آپ نے اپنے مراسلے کی شروعات ہی ان الفاظ سے کی تھی :
ہم سن لیتے ہیں ، پڑھ لیتے ہیں مگر مطالعہ نہیں کرتے ۔
میں یہی بات آپ پر لوٹانا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ حدیث آپ کے مطالعےسے نہ گزری ہو:
شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
حدیث کے الفاظ بالکل صاف صاف بیان کر رہے ہیں کہ
عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف ہے!
یہ حدیث صرف ایک کتابِ حدیث میں درج ہوتی تو پھر بھی کسی کے لئے "مطالعے کی کمی" کہا جا سکتا مگر مسئلہ یہی ہے کہ یہ حدیث صحیحین کے علاوہ درج ذیل 10 کتبِ احادیث میں درج ہے :
1۔ ابوداؤد ، باب الدليل على زيادة الاِيمان ونقصانه
2۔ ترمذی ، باب ما جاء في استكمال الايمان وزيادته ونقصانه
3۔ ابن ماجہ ، باب فتنة النساء
4۔ مسند احمد ، جلد:2
5۔ صحیح ابن خزیمہ ، باب اسقاط فرض الصلاة عن الحائض ايام حيضها
6۔ سنن دارمی ، باب الحائض تسمع السجدة فلا تسجد
7۔ سنن بیھقی کبری ، باب الحائض تفطر فى شهر رمضان كتاب الصوم
8۔ ابن حبان ، ذكر الزجر للنساء عن اكثار اللعن واكفار العشير
9۔ مستدرک الحاکم ، جلد:4
10۔ مجمع الزوائد ، باب الصدقة على الاقارب وصدقة المراة على زوجها
۔
پہلی سرخ رنگ میںمقید میں آپ کے جملے سے متفق ہوں ۔
مگرمیں بحث کو اس کی مرکزی حیثیت پر رکھتے ہوئے آپ کی بات کا جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کی باقی باتیں سوائے گروہی اختلاف کے سوا کچھ نہیں ۔
آپ دلیل کی منبع یہ حدیث ہے ۔
شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
حدیث کے الفاظ بالکل صاف صاف بیان کر رہے ہیں کہ :
عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف ہے ۔
آپ نے یہ حدیث کوٹ کردی ہے ۔ اور وا شگاف الفاظ میں اعلان بھی کردیا کہ اس حدیث کے الفاظ بلکل واضع ہیں ۔ مگر آپ نے اس بات کی وضاحت کی زحمت گوارا نہیں کہ اس حدیث کا سیاق و سباق کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد کس تناظر میں فرمایا ۔ ہم جیسے طالب علم یہ بات جانتے ہیں کہ جس طرح کسی بھی آیت کو کوٹ کرکے اس کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچا جاسکتا کہ اس سے پہلے اس آیت کا سیاق و سباق دیکھنا پڑتا ہے کہ اس آیت کے مقام پر قرآن کہاں کھڑا ہے ۔ اور اس کا پس منظر کیا ہے ۔ بلکل اسی طرح کسی بھی احادیث کو سمجھنے کے لیئے بھی یہ طریقہ درکار ہوگا ۔
پوری حدیث کا متن کچھ اس طرح ہے ۔
اليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان عقلها. اليس اذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان دينها. (بخاری، رقم ٢٩٣)
''کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی نہیں ہے؟ خواتین نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اس کی عقل کا ناقص ہونا ہے۔ کیا حیض کی حالت میں اس کے لیے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوتا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا کہ یہ اس کے دین کا ناقص ہونا ہے۔
روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ اس میں ابتداء ً اور مستقلاً کوئی حکم بیان نہیں کیا جا رہا ، بلکہ سورہ بقرہ (٢)کی آیت ٢٨٢ میں بیان ہونے والی ہدایت ہی کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ آیت میں ، سماجی معاملات اور تجارتی وکاروباری قضیوں میں خواتین کے تجربہ اور ممارست کی کمی کے تناظر میں احتیاطاً دو عورتوں کو گواہ بنا لینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ اگر ان میں سے ایک الجھاؤ یا کنفیوژن کا شکار ہو تو دوسری خاتون اس کا سہارا بن سکے۔ ظاہر ہے کہ اگر روایت میں اسی ہدایت کی طرف اشارہ ہے تو اسے آیت سے الگ کر کے اس سے کوئی مستقل قانونی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ اس روایت سے کسی قانون یا حکم کا اجراء ہوگیا ۔ یہ بات سیاق و سباق سے واضع ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
فرخ آپ کی سب باتوں کا جواب دیا جا چکا ہے ۔ اگر آُ قرآں حکیم میں تھریف کرنا چاہتے ہیں تو خوشی سے کیجئے ورنہ بغور پڑھ کر اپنا ہوم ورک کیجئے
عورت کی گواہی پوری ہے اور یہ بات قرآن حکیم کی بہت سئ آیات سے واضح ہے۔۔۔
والسلام
ہاںیہ بات درست ہے کہ بھول کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ مرد سے یا عورت سے۔ جہاںیہ بات درست ہے وہاں یہ بات بھی درست ہے کہ
ایک عورت کی گواہی کو بھول جانے کی صورت میں مظبوط بنانے کے دوسری عورت کی ضرورت کو واضح اسی آیت میں کیا گیا ہے۔ ہم اس بھلادینے والے حصہ کو مکمل طور پر ہٹا کر ایک طرف نہیںرکھ سکتے۔
اور
لہذا آپ اب درج ذیل حصہ پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالی نے اس حصے کو نازل کیوںکیا تھا۔
تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،