عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے ؟ ایک بہترین آرٹیکل

جناب آبی ٹوکول
بہت لمبا چوڑا مضموں لکھا آپ نے اور کافی تفصیل سے بحث کی
عورت کی صرف گواہی آدھی ہے، باقی اس کے حقوق تو معین ہیں، وہ بھی قران میں‌بیان کر دیے گئے ہیں ، پھر گواہی کے معاملے میں اگر قرآن کی تعلیمات پر ہی عمل کیا جائے تو کیا مذائقہ ہے، یعنی جب بھی گواہی دینی ہو دو عورتیں‌ہی دیں
اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ عورت کی گواہی آدھی نہیں تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا ؟
ایسا کرنے سے کیا عورت کو دگنی وراثت ملے گی ؟
یا کچھ اضافی حقوق حاصل ہو جائیں گے
مجھے سمجھ نہیں آیا اس موضوع پر بحث کیوں چھیڑی گئی ہے اور اس سے کیا فائدے حاصل ہوں گے ( محترمہ ثمینہ سے معذرت کے ساتھ(
 

dxbgraphics

محفلین
یاسر بھیا ! شاید آپ نے تحریر کو بغور نہیں پڑھا ۔ ۔ ۔ آپ نے بھی وہی غلطی دہرائی جو صدیوں سے دہرائی جا رہی ہے۔

کیا صرف ایک شیخ ہی قرآن کو سمجھ سکتا ہے ؟

کیا میں اور آپ مسلمان نہیں ہیں ؟

کیا تفکر کا سارا ٹھیکہ ان ملاؤں کے سر ہے ؟

کیا ہماری قبر کا عذاب روز محشر یہ ملا اٹھائیں گے ؟

میرے پیارے بھائی ! یہ دیکھئے کہ اس آرٹیکل میں قرآن کیا کہہ رہا ہے ۔ اس کی آیات چلا چلا کر کیا کہہ رہی ہیں۔ اور پھر راقم تحریر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ سے بھی ثابت کر رہا ہے ۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے بھی حوالے دے رہا ہے۔

اور آپ ابھی تک شیخ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ میرے بھیا جی ! قرآن کو آپ ثانوی درجہ دے رہے ہیں یا پھر مرد ہونے کے ناطے یہ سب کچھ ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے

لیکن آپ کے کہنے یا شیخ کے بیان کرنے سے قرآن کی صداقت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی پیروی تبدیل نہیں ہو سکتی

ذرا غور کیجئے جس عورت کو ناقص العقل کہا جاتاہے اسی ماں کا ایک ایک قطرہ لہو لیکر مرد پیدا ہوتا ہے، اور وہی خون چوس کر ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اگر عورت ناقض العقل ہے تو میرے بھائی مرد بھی تو ناقص العقل ہوا کیونکہ جنیاتی طور پر اس نالائق عورت کا خون چوس کر وہ پیدا ہوا ہے۔ اب رہ گئی بات سائینس کی تو میرے بھائی سائنس کی ننانوے فیصد تحقیق مفروضوں سے جنم لیتی ہیں جو بعد میں تبدیل ہو جاتی ہیں یا جن کا رد سامنے آجاتا ہے۔

مثال سگمنڈ فرائڈ کا فلسفہ ہے۔ جو اب رد ہو چکا ہے۔ اسکے بعد آنے والے فلسفے بھی رد ہوتے رہے ہیں۔ لیکن جو قرآن نے بیان کیا ہے اس پر سائنس تحقیق نہیں کر رہی ہے۔ مسجد کے دالان میں بیٹھا ہوا ملا روٹی توڑ رہا ہے یا سطحی معاملات پر بحث کر رہا ہے۔

کاش کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات

بہن جی شیخ کو اتنا حقیر نہ سمجھیں۔ ہم اتنا مسلمان ہونے کا دعوہ کرتے ہیں اور ہمیں یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ کھانا کھانے کی کیا دعا ہوتی ہے اور اگر کسی کی طرف سے طعام کھایا جائے تو اس کی کیا دعا ہوتی ہے۔ نیز علماء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا وارث کہا ہے ۔ آپ کس علم کی بنیاد پر ایسا رویہ رکھتی ہیں
 

طالوت

محفلین
تو یہ وہ علم تھا جس میں آپ اضافہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے ۔کوئی بات لاتے تو جی کو لگتی یہ ڈاکٹر طاہر القادری جیسے گمراہ لوگوں کا حوصلہ ہے کہ قران پر روایتوں کو فوقیت دیں اور پھر اس پر یہ جرات بھی رکھتے ہوں کہ اسے رسول اللہ سے منسوب کر دیں ۔صفحے کے صفحے سیاہ کر دئیے مگر ایک چند لفظوں کی آیت نہ سمجھ سکے ۔ فی الحال میں تو بس اتنا کہوں گا کہ نام نہاد شیخ الاسلام پر کلام کیا جائے تو ان دوسرے اعلٰی حجرت کی جگہ گدو بندر میں بنتی ہے ۔ نہ یقین آئے تو کسی معمولی عقل رکھنے والے کو اس کا گلا پھاڑتا ہو ا کوئی لیکچر سنا دیں ۔
-----------------------------------------
متذکرہ بالا سارے آرٹیکل کے خلاف صرف یہی ایک فہمِ صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) کافی ہے :
شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
بخاری و مسلم و کتب سنن اربعہ

میرے علم کی حد تک ۔۔۔۔
شیعہ یا سنی مکاتبِ فکر کے کسی ایک بھی محدث ، فقیہہ ، عالم ، امام سے اس حدیث کا انکار ثابت نہیں ہے !
سوائے ان لوگوں کے جو فہمِ رسول (احادیثِ صحیحہ) کے مقابلے میں اپنے ذاتی "فہمِ قرآن" کی برتری کے قائل ہیں !!
آدمی آپ بھی سنجیدہ اور مخلص ہیں وگرنہ اس طرز عمل کو میں کم از کم منافقت جانتا ہوں ۔ رہی بات احادیث صحیحہ کی تو دوسری تیسری صدی میں اترنے والی ان "آیات" کو کم از کم بارہ سو سالوں سے آپ لوگ "ڈیفنڈ" کر رہے ہیں ۔ اور نتیجہ ؟
بہر حال امام بخاری پر اترنے والی 14 -16 لاکھ "آیات" آپ کو مبارک۔
وسلام
 
تو یہ وہ علم تھا جس میں آپ اضافہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے ۔کوئی بات لاتے تو جی کو لگتی یہ ڈاکٹر طاہر القادری جیسے گمراہ لوگوں کا حوصلہ ہے کہ قران پر روایتوں کو فوقیت دیں اور پھر اس پر یہ جرات بھی رکھتے ہوں کہ اسے رسول اللہ سے منسوب کر دیں ۔صفحے کے صفحے سیاہ کر دئیے مگر ایک چند لفظوں کی آیت نہ سمجھ سکے ۔ فی الحال میں تو بس اتنا کہوں گا کہ نام نہاد شیخ الاسلام پر کلام کیا جائے تو ان دوسرے اعلٰی حجرت کی جگہ گدو بندر میں بنتی ہے ۔ نہ یقین آئے تو کسی معمولی عقل رکھنے والے کو اس کا گلا پھاڑتا ہو ا کوئی لیکچر سنا دیں ۔
-----------------------------------------
آپ کس بنیاد پر شیخ الاسلام کی اس طرح تضحیک کر رہے ہیں، آپ خود کونسا علم رکھتے ہیں جو طاہر القادری کو گمراہ کہہ رہے ہیں
استغفراللہ
کیسے کیسے لوگ ہیں جہاں میں
 

آبی ٹوکول

محفلین
جناب آبی ٹوکول
بہت لمبا چوڑا مضموں لکھا آپ نے اور کافی تفصیل سے بحث کی
عورت کی صرف گواہی آدھی ہے، باقی اس کے حقوق تو معین ہیں، وہ بھی قران میں‌بیان کر دیے گئے ہیں ، پھر گواہی کے معاملے میں اگر قرآن کی تعلیمات پر ہی عمل کیا جائے تو کیا مذائقہ ہے، یعنی جب بھی گواہی دینی ہو دو عورتیں‌ہی دیں
اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ عورت کی گواہی آدھی نہیں تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا ؟
ایسا کرنے سے کیا عورت کو دگنی وراثت ملے گی ؟
یا کچھ اضافی حقوق حاصل ہو جائیں گے
مجھے سمجھ نہیں آیا اس موضوع پر بحث کیوں چھیڑی گئی ہے اور اس سے کیا فائدے حاصل ہوں گے ( محترمہ ثمینہ سے معذرت کے ساتھ(
السلام علیکم میرے بھائی یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ جو بات قرآن صاف صاف کہہ رہا اسے مان کیوں نہیں لیتے ؟؟؟؟؟؟کیوں اس واضح اور صریح قرآنی حکم پر اپنی نام نہاد عقل کی بودھی تاویلات کا پانی چڑھاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ قرآن قرآن کی رٹ لگائے رکھتے ہیں اور قرآن کے ادلہ اربعہ میں سے افق پر ہونے کی ناجائز تاویل کرکے احادیث صحیحہ کا انکار کرتے ہیں اور یہ سب کچھ قرآن پاک پر فکری تدبر کے نام پر کرتے ہیں اور نام اسے قرآن دانی کا دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کے قرآن پاک کے حکم کے مقابلے میں ہر شئے کالعدم ہے تو پھر مانو قرآں کے اس حکم کو کیوں نہیں مانتے ہو؟؟؟؟؟؟ کیوں عقل کی اندھی اور بودھی تاویلات کرتے ہو ؟؟؟؟؟؟؟؟ کہیں یہ بات تو نہیں کے قرآن قرآن قرآن کا نعرہ حقیقت میں قرآن کے لیے نہیں بلکہ اپنی عقل کی فوقیت کے لیے ان لوگوں نے ایجاد کررکھا ہے ۔ ۔ ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
تو یہ وہ علم تھا جس میں آپ اضافہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے ۔کوئی بات لاتے تو جی کو لگتی یہ ڈاکٹر طاہر القادری جیسے گمراہ لوگوں کا حوصلہ ہے کہ قران پر روایتوں کو فوقیت دیں اور پھر اس پر یہ جرات بھی رکھتے ہوں کہ اسے رسول اللہ سے منسوب کر دیں ۔صفحے کے صفحے سیاہ کر دئیے مگر ایک چند لفظوں کی آیت نہ سمجھ سکے ۔ فی الحال میں تو بس اتنا کہوں گا کہ نام نہاد شیخ الاسلام پر کلام کیا جائے تو ان دوسرے اعلٰی حجرت کی جگہ گدو بندر میں بنتی ہے ۔ نہ یقین آئے تو کسی معمولی عقل رکھنے والے کو اس کا گلا پھاڑتا ہو ا کوئی لیکچر سنا دیں ۔
-----------------------------------------

آدمی آپ بھی سنجیدہ اور مخلص ہیں وگرنہ اس طرز عمل کو میں کم از کم منافقت جانتا ہوں ۔ رہی بات احادیث صحیحہ کی تو دوسری تیسری صدی میں اترنے والی ان "آیات" کو کم از کم بارہ سو سالوں سے آپ لوگ "ڈیفنڈ" کر رہے ہیں ۔ اور نتیجہ ؟
بہر حال امام بخاری پر اترنے والی 14 -16 لاکھ "آیات" آپ کو مبارک وگرنہ یہ لوگ تو ایک دوسرے کو گھاس بھی نہیں ڈالتے تھے۔
وسلام
پیارے طالوت بھیا کیا ہوگیا ہے آپکو صلواتیں تو مجھ کو سنانا تھیں بیچارے ڈاکٹر طاہرالقادری کو کیوں سنا دیں ؟؟؟؟'' موصوف کی تحریر پر اعتراضات تو میں نے وارد کیئے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری نے تو نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب تو مرد و عورت کی ہر معاملے میں ایسی مساوات کے قائل ہیں کہ انھوں نے عورت کی دیت کے آدھا ہونے پر بھی جمہور امت سے اختلاف کیا ہے اور اسی بنا پر وہ راندھا درگاہ بھی کیئے گئے ہیں ۔ ۔ رہی ڈاکٹر صاحب کا یہاں نام لکھنے کی وجہ تو انکا حوالہ تو ہم نے اپنی معروضات پیش کرنے کے بعد فقط اس لیے دیا کہ آخر میں جو جو ایسے مقامات نقل کیئے گئے کہ جہان پر عورت کی گواہی کو شریعت نے مستقل اور مکمل رکھا ہے وہ تمام مقامات انکے ایک لیکچر اسلام اور خواتین کے حقوق سے اخذ کردہ تھے اس لیے ہم نے انکا نام لکھ دیا بطور شکریہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ان کا نام لکھنے سے یہاں لوگوں کو اپنے اپنے بغض کے اظہار کا موقع مل جائے گا ۔ ۔ ۔ باقی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مجھے بھی بہت سے معاملات میں اختلاف ہے مگر میں آپکی طرح لٹھ لیکر کسی پر نہیں چڑھ دوڑتا بلکہ علمی اختلاف کو علمی اختلاف ہی کی حد تک رکھتا اور سمجھتا ہوں اور ایک اچھے عالم دین ہونے کی حیثیت سے انکا احترام کرتا ہوں اختلاف اپنی جگہ ۔ ۔ ۔
اوپر جتنے بھی عقلی دلائل ہیں وہ ہماری ناقص عقل اور ناقص مطالعہ کا شاخسانہ ہیں اور ان سے آپکو یہ بتلانا مقصود تھا کہ کس طرح لوگ قرآن قرآن قرآن کی رٹ تدبر قرآن کے نام پر لگا کر پھر خود ہی واضح قرآنی احکامات کا انکار اپنی ناقص عقل کی بے جا تاویلات کا سہارا لیکر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن تو کہے کہ تم لین دین کے معاملات کو لکھ لیا کرو اور ایسے موقعوں پر اپنے مردوں میں سے دو گواہ اور اگر دو مرد میسر نہ ہون تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ کرلیا کرو ۔ تو ہم اس واضح قرآنی حکم کو ماننے کی بجائے اس پر اپنی یہ عقلی تاویل چڑھائیں کے یہاں جو دوسری عورت ہے اس بطور گواہ نہیں بلکہ یاد دہندہ کے زکر کیا گیا ہے اور اسکی دلیل قرآن پاک سے تو نہ دے سکیں ہاں مگر اس پر اپنی عقل سے یہ دلیل لائیں کے ایک کا دوسری کو یاد دلانا بطور گواہی نہیں کے اس کا مخاطب عدالت نہیں بلکہ وہ پہلی ہے ۔ ۔ لاحول ولا قوۃ یہ ہے فہم قرآن ؟؟؟؟؟؟؟؟
اسے کہتے ہیں تدبر قرآن ؟؟؟؟؟؟ چلو مان لیا کے یہاں پر دوسری عورت کا مخاطب عدالت نہیں پر اوہ خدا کے بندو جب دو عورتیں کمرہ عدالت میں حاضر ہوگیں تو چاہے انکا خطاب ایکدوسرے سے ہی ہو مگر اس سے مقصود تو گواہی ہی ہے ناں جب وہ دوسری پہلی کو یاد دلائے گی تو کیا یاد دلائے گی ؟؟؟؟ وہی امر یاد دلائے گی ناں کہ جس کی ریکارڈنگ کے وقت وہ بھی وہاں بطور سیکنڈ گواہ وہاں موجود تھی اور ویسے بھی کسی کو کسی معاملے میں گواہ کرنا (یعنی گواہ بنانا) اور کسی سے گواہی (یعنی جب مذکورہ قضیہ میں فریقین کسی اختلاف کا شکار ہوجائیں تو تب کمرہ عدالت میں گواہوں ) کا طلب کرنا یہ دو مختلف امور ہیں اور قرآن یہاں ایک مخصوص معاملے میں گواہ بنانے کے لیے مرد و عورت کی جنسی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے تعین عدد کو واضح فرما رہا ہے نہ قرآن کمرہ عدالت میں ہونے والی کاروائی کو نشر کررہا ہے ۔ ۔ ۔ امید کرتا ہون اب آپ سمجھ گئے ہونگے وگرنہ میرے پاس مزید آپشنز خاص ہیں آپ کے لیے جو کہ اس تحریر کا پوسٹ مارٹم کرنے کے سوا ہیں :grin:
 

dxbgraphics

محفلین
تو یہ وہ علم تھا جس میں آپ اضافہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے ۔کوئی بات لاتے تو جی کو لگتی یہ ڈاکٹر طاہر القادری جیسے گمراہ لوگوں کا حوصلہ ہے کہ قران پر روایتوں کو فوقیت دیں اور پھر اس پر یہ جرات بھی رکھتے ہوں کہ اسے رسول اللہ سے منسوب کر دیں ۔صفحے کے صفحے سیاہ کر دئیے مگر ایک چند لفظوں کی آیت نہ سمجھ سکے ۔ فی الحال میں تو بس اتنا کہوں گا کہ نام نہاد شیخ الاسلام پر کلام کیا جائے تو ان دوسرے اعلٰی حجرت کی جگہ گدو بندر میں بنتی ہے ۔ نہ یقین آئے تو کسی معمولی عقل رکھنے والے کو اس کا گلا پھاڑتا ہو ا کوئی لیکچر سنا دیں ۔
-----------------------------------------
آپ کس بنیاد پر شیخ الاسلام کی اس طرح تضحیک کر رہے ہیں، آپ خود کونسا علم رکھتے ہیں جو طاہر القادری کو گمراہ کہہ رہے ہیں
استغفراللہ
کیسے کیسے لوگ ہیں جہاں میں

یار اس کا تو میں بھی گواہ ہوں کہ طاہر القادری کی محفلوں میں ڈانس ہوتا ہے وجد کے نام پر ۔
 

dxbgraphics

محفلین
جب الیکشن میں کھڑے ہوئے تو اتنا تک جھوٹ کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خواب میں آئے اور کہا کہ میں ضرور جیتوں کا۔ اور جھوٹ کا منہ کالا ہی ہوتا ہے جناب ہار گئے
 

طالوت

محفلین
صدیق میں نہیں جانتا کہ خواب کا ذکر کیا تھا یا نہیں ، البتہ ڈانس وغیرہ غالبا آپ دھمال شمال یا وجد میں آنے کو کہہ رہے ہیں ۔ تو بھئی اس سے تو توبہ ہی بھلی ۔
رہی شیخ الاسلام کو گمراہ کہنے کی بات تو اس پر میں کوئی آرٹیکل تو لکھ نہیں سکتا بس حضرت کے دو چار لیکچر سنے تھے ، اپنی تو بس ہو گئی ۔ آخری لیکچے جو مجھے یاد ہے جو میں نے پاکستان میں رمضان میں پیزا ہٹ میں بیٹھے ہوئے سنا تھا اس میں ایک واقعہ نقل کیا ہے ۔ کسی پیر صاحب کا ذکر فرما رہے تھے کہ وہ اپنی ایک نواسی کو ساتھ لئے گھوڑوں پر سوار ایک جنگل سے گزر رہے تھے کہ ڈاکوؤں کا ایک جتھا جو سینکڑوں میں تھے ان کے پیچھے ہو لیا کہ ان کی نواسی پر بری نگاہ رکھی (یہ غالبا پیر صاحب کو گھوڑے پر ہی کشف ہوا ہو گا) خیر پہلے تو انھوں نے نظر انداز کیا اور گھوڑے بھگاتے چلے گئے لیکن جب ڈاکوؤں نے پیچھا نہ چھوڑا تو گھوڑے کی چابک جو گھمائی تو سو کے قریب ڈاکوؤں کی گردنیں تن سے جدا کر دیں ۔ (اب جو اس واقعہ پر سبحان اللہ ، اللہ اکبر کی صدائین بلند ہوئیں تو بھیا ہم تو بھاگ کھڑے ہوئے اور گھر جا کر ہی دم لیا کہ کوئی ہمیں بھی ڈاکوؤں سمجھ کر چابک نہ گھما دے کہ ہماری شروع سے عادت رہی ہے کہ ہلکی ہلکی شیو بڑھائے رکھنا ، جس پر دو چار احباب وارننگ بھی دے چکے ہیں :)) ۔ اب آپ اندازہ لگا لیجئے کہ ان کے علمی لیکچروں میں کیا کیا خرافات ہوا کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ میں نے سنا تھا کہ کہیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ صحابہ رسول اللہ کا بول بزار کھایا کرتے تھے ، مگر چونکہ اس کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی اسلئے میں اب تک اسے الزام ہی سمجھتا آیا ہوں ۔ البتہ ان کے آغاز کے زمانے میں ان کی بڑی شہرت تھی اور میرے ایک دوست ان کا لیکچر سسننے کے واسطے حیدرآباد گئے ۔ وہاں انھوں نے فرمایا کہ مجھے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ میری عمر بھی 63 سال ہو گی ۔ مجمع میں سے کسی نے سوال داغ دیا حضور کے جب آپ کو بشارت ہو چکی تو یہ محافظ کس لئے ، تو سوائے بغلیں جھانکنیں کے اور کیا کر سکتے تھے۔ میرے ان دوست نے اس کے بعد سے خوب توبہ کی ۔ اسلئے یہ تو طے ہے کہ ان کو خواب بھی خوب اتے ہیں اور بشارتیں بھی خوب ملتی ہیں ۔
اور پھر ڈاکٹر اسرار صاحب کے ساتھ ایک بے وجہ بات پر اس کا شرمناک رویہ ۔
وسلام
 
یار اس کا تو میں بھی گواہ ہوں کہ طاہر القادری کی محفلوں میں ڈانس ہوتا ہے وجد کے نام پر ۔

جی وہ وجد ہی ہوتا ہے ، ڈانس نہیں

جب الیکشن میں کھڑے ہوئے تو اتنا تک جھوٹ کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خواب میں آئے اور کہا کہ میں ضرور جیتوں کا۔ اور جھوٹ کا منہ کالا ہی ہوتا ہے جناب ہار گئے
آپ شاید مخالفین کی پھیلائی ہوئی یو ٹیوب ویڈیوز سے بدگمانی کا شکار ہو گئے ہیں، اور آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا واقعہ جھوٹا ہے ؟
طاہرالقادری صاحب بہت علم رکھنے والے آدمیں ہیں، اور میری معلومات کے مطابق وہ الیکشن میں جیتے تھے اور کچھ عرصہ بعد استعفی بھی دے دیا تھا، خیر اگر آپ نہیں مانتے تو میں کیا کر سکتا ہوں،
 

طالوت

محفلین
اوپر جلدی میں کچھ زیادہ ہی سختی سے کام لے گیا اسلئے وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ۔ حدیث کے حوالے سے میں اسے وحی الہی کا درجہ دینے کو تیار نہیں ۔
محدثین کرام کا اس امت پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے سبائی مورخوں اور راویوں کے جھوٹ سے نجات دلانے کو جس طرح انتھک محنت کی اور متعدد فن ایجاد کئے اور کھرے کھوٹے کو الگ کرنے میں جس قدر کاوشیں کی ہیں آج جب میں دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں بلکہ سچ کہوں تو اس قدر سلسلوں میں میرا سر بھی چکرا کر رہ جاتا ہے کہ ان اللہ کے بندوں نے اپنی عمریں کس قدر تعمیری سلسلوں میں صرف کر دیں اللہ رب العزت انھیں یقینا اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ کہ انھوں کذابوں اور یہودیوں و نصرانیوں کی روحانی پیروؤں کے منہ پر ایسے طمانچے مارے ہیں کہ آج بھی جب کبھی ان کا ذکر کیا جائے تو وہ بلبلا اٹھتے ہیں ۔
مگر باوجود اس تمام تر محنت کے وہ بھی انسان تھے اور بھول چوک خطا و غلطی جذبات محبت و نفرت ان کے ساتھ تھی ۔ اسلئے ان کی اس محنت کو حرف آخر نہ تو تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے وہ تمام روایات وحی کا درجہ پا سکتی ہیں ۔ بلکہ ان کے ایجاد کردہ یہ فن طے کردہ یہ سارے اصول جن کے بانیوں میں سے میری ماں سیدہ عائشہ صدیقہ بھی ہیں بذات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ سلسلہ بخاری و مسلم یا دیگر آئمہ کے بعد رک نہیں گیا بلکہ آج بھی ہم انھیں اصولوں کو یا اس کے علاوہ بھی ہم کچھ طے کر سکیں تو ان کو بھی بروئے کار لا کر مزید چھان پھٹک کر سکتے ہیں ۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ کسی ایک راوی کو کچھ محدثین سچا اور کچھ جھوٹا کہیں تو یہ بات اور بھی تقویت پاتی ہے کہ ہمیں اس جمود کا شکار ہونے کی بجائے اس سلسلے میں مزید کام کرنا چاہیے تاکہ ہم مخالفین کے منہ بند کس سکیں ۔ مگر افسوس کہ ہمارے احباب صحہ ستہ کا نام سنتے ہی اسے آیات کا درجہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور غالبا یہ جرات امام اوزاعی نے کی تھی کہ حدیثوں کو قران پر حاکم قرار دے دیا ۔ اب اس قدر ظن کو قران جو ایک قطعی اور حتمی شئے ہے کہ کیسے مقابل قررار دیا جا سکتا ہے ۔
اور محدثین کی یہ تمام کوششیں اور امام بخاری کی لاکھوں حدیثوں میں سے چند ہزار کا انتخاب بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس زمانے میں اقوال رسول کے نام پر کیا کیا بدمعاشیاں کی گئیں ۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کے بعد بھی یہ جاری نہ رہی ہوں یا محدثین نے کہیں غلطی نہ کھائی ہو۔ علاوہ ازیں امام اعظم ابو حنیفہ نے بھی اپنے علم کو کتابوں میں نہیں سمیٹا اور فقہ میں جس طرح اجتہاد کے وہ قائل تھے اور ان کے معاملوں میں وقت کی نزاکت اور روایات کا رد جس طرح نظر آتا ہے وہ بھی اپنے اندر نہ صرف سبق رکھتا ہے بلکہ بہت سی راہیں متعین کرتا ہے ۔ اور پھر امام موصوف نے اپنی زندگی میں اپنا فقہ مدون نہیں کیا یہ بعد میں ان کے شاگردوں امام یوسف اور امام محمد کا کام ہے تو میں تو سمجھتا ہوں کہ امام اعظم کی یہ ساری کاوش اسلئے رہی ہو گی تاکہ لوگ ان کے فقہی مسائل کو حرف آخر نہ جان لیں ۔
مگر بعد کے حضرات نے اسے بطور سرمایہ یا بطور مقابلہ محفوظ کیا جس سے اٹھ کر بات کرنا ہم آج آئمہ کی توہین یا اسلام کا انکار سمجھنے لگے ہیں ۔
میں اگرچہ اپنی بات ٹھیک سے پیش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہوں مگر میرے خیال میں میری یہ تحریر بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کر دے گی۔
وسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
صدیق میں نہیں جانتا کہ خواب کا ذکر کیا تھا یا نہیں ، البتہ ڈانس وغیرہ غالبا آپ دھمال شمال یا وجد میں آنے کو کہہ رہے ہیں ۔ تو بھئی اس سے تو توبہ ہی بھلی ۔
۔
وسلام
طالوت بھائی کم از کم مجھے آپ جیسے سنجیدہ فکر انسان یہ توقع نہ تھی کے آپ بار بار موضوع سے ہٹ کر گفتگو کریں گے ؟؟؟؟؟کیا اس دھاگے کا عنوان طاہر القادری صاحب کی شخصیت ہے ؟؟؟؟؟؟ مجھ سے غلطی ہوگئی جو انکا نام لکھ دیا اب ان ساری خرافات کہ جنکا ورود آپکے قلم سے ہورہا ہے ان سب کےلیے خود کو زمے دار سمجھ رہا ہوں ۔ ۔ خدارا ہوش کے ناخن لو اور اگر کچھ لکھنا ہی ہے تو موضوع پر لکھو ۔ ۔ اور میری انتظامیہ سے گذارش ہے کہ اب جو کوئی بھی موضوع سے ہٹ کر کسی عالم دین کی ذاتی شخصیت پر کیچڑ اچھالے اس کے تمام مراسلات حزف کردیئے جائیں اور بہتر یہ ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر جس طرح سے لوگوں نے اپنے اپنے دلی بغض کا اظہار فرمایا ہے ان سب کو بھی حذف کردیا جائے ۔ ۔ ۔
 

باذوق

محفلین
محدثین کرام کا اس امت پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے سبائی مورخوں اور راویوں کے جھوٹ سے نجات دلانے کو جس طرح انتھک محنت کی اور متعدد فن ایجاد کئے اور کھرے کھوٹے کو الگ کرنے میں جس قدر کاوشیں کی ہیں آج جب میں دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں بلکہ سچ کہوں تو اس قدر سلسلوں میں میرا سر بھی چکرا کر رہ جاتا ہے کہ ان اللہ کے بندوں نے اپنی عمریں کس قدر تعمیری سلسلوں میں صرف کر دیں اللہ رب العزت انھیں یقینا اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ کہ انھوں کذابوں اور یہودیوں و نصرانیوں کی روحانی پیروؤں کے منہ پر ایسے طمانچے مارے ہیں کہ آج بھی جب کبھی ان کا ذکر کیا جائے تو وہ بلبلا اٹھتے ہیں ۔
مگر باوجود اس تمام تر محنت کے وہ بھی انسان تھے اور بھول چوک خطا و غلطی جذبات محبت و نفرت ان کے ساتھ تھی ۔ اسلئے ان کی اس محنت کو حرف آخر نہ تو تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے وہ تمام روایات وحی کا درجہ پا سکتی ہیں ۔ بلکہ ان کے ایجاد کردہ یہ فن طے کردہ یہ سارے اصول جن کے بانیوں میں سے میری ماں سیدہ عائشہ صدیقہ بھی ہیں بذات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ سلسلہ بخاری و مسلم یا دیگر آئمہ کے بعد رک نہیں گیا بلکہ آج بھی ہم انھیں اصولوں کو یا اس کے علاوہ بھی ہم کچھ طے کر سکیں تو ان کو بھی بروئے کار لا کر مزید چھان پھٹک کر سکتے ہیں ۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ کسی ایک راوی کو کچھ محدثین سچا اور کچھ جھوٹا کہیں تو یہ بات اور بھی تقویت پاتی ہے کہ ہمیں اس جمود کا شکار ہونے کی بجائے اس سلسلے میں مزید کام کرنا چاہیے تاکہ ہم مخالفین کے منہ بند کس سکیں ۔ مگر افسوس کہ ہمارے احباب صحہ ستہ کا نام سنتے ہی اسے آیات کا درجہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور غالبا یہ جرات امام اوزاعی نے کی تھی کہ حدیثوں کو قران پر حاکم قرار دے دیا ۔ اب اس قدر ظن کو قران جو ایک قطعی اور حتمی شئے ہے کہ کیسے مقابل قررار دیا جا سکتا ہے ۔
اور محدثین کی یہ تمام کوششیں اور امام بخاری کی لاکھوں حدیثوں میں سے چند ہزار کا انتخاب بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس زمانے میں اقوال رسول کے نام پر کیا کیا بدمعاشیاں کی گئیں ۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کے بعد بھی یہ جاری نہ رہی ہوں یا محدثین نے کہیں غلطی نہ کھائی ہو۔ علاوہ ازیں امام اعظم ابو حنیفہ نے بھی اپنے علم کو کتابوں میں نہیں سمیٹا اور فقہ میں جس طرح اجتہاد کے وہ قائل تھے اور ان کے معاملوں میں وقت کی نزاکت اور روایات کا رد جس طرح نظر آتا ہے وہ بھی اپنے اندر نہ صرف سبق رکھتا ہے بلکہ بہت سی راہیں متعین کرتا ہے ۔ اور پھر امام موصوف نے اپنی زندگی میں اپنا فقہ مدون نہیں کیا یہ بعد میں ان کے شاگردوں امام یوسف اور امام محمد کا کام ہے تو میں تو سمجھتا ہوں کہ امام اعظم کی یہ ساری کاوش اسلئے رہی ہو گی تاکہ لوگ ان کے فقہی مسائل کو حرف آخر نہ جان لیں ۔
مگر بعد کے حضرات نے اسے بطور سرمایہ یا بطور مقابلہ محفوظ کیا جس سے اٹھ کر بات کرنا ہم آج آئمہ کی توہین یا اسلام کا انکار سمجھنے لگے ہیں ۔
بھائی طالوت !
معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ اقتباس کردہ سارا مواد ۔۔۔ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ تقریباً وہی ہے جو ایک زمانے سے ایک مخصوص مکتبِ فکر پیش کرتا آیا ہے جس میں جو جو اہم نام شامل ہیں ان کا ذکر ایک مقالے میں یہاں پیش ہوا تھا ، البتہ فہرست میں حبیب الرحمٰن کاندھلوی کا نام چھوٹ گیا ہے۔

بھائی ، مجھے ان نظریات سے اختلاف ہے جن سے آپ اتفاق رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ سے کج بحثی شروع کر دوں یا اپنے موقف کی برتری آپ سے قبول کروانے کے لئے لٹھ لے کر پیچھے پڑوں۔
دراصل یہ اس قدر وسیع موضوع ہے کہ ایک طویل عرصہ سے مباحث جاری ہیں۔
وقت کی اور فرصت کی کمی ہے ورنہ میرا تو ارادہ رہا ہے کہ اس موضوع پر جتنے مباحث اب تک ہوئے ہیں بلاگ کی شکل میں کسی ایک جگہ انہیں جمع کر دوں کہ اکثر اوقات ایک ہی بات بار بار دہرانی پڑتی ہے۔
کسی موضوع سے متعلق دیانت داری یوں ہوتی ہے کہ دونوں طرف کے نقطہ ہائے نظر کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے۔ میں طلوع اسلام کے لٹریچر سے لے کر آج کے غامدی صاحب کے مضامین بھی پڑھتا ہوں اور پھر ان کے مخالفین کا ردّ بھی۔ یوں کچھ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اگر آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں تو پھر کچھ کتابوں کے نام دینا چاہوں گا ، انہیں پڑھئے گا۔
 

وقاص قائم

محفلین
بہت شکریہ مرزا یاسر صاحب ایسی معلوماتی ویڈیو کے ذریعے اسلامی کے خلاف ہونے والے پروپگینڈے کا جواب دینے کے لئے
 

dxbgraphics

محفلین
جی وہ وجد ہی ہوتا ہے ، ڈانس نہیں


آپ شاید مخالفین کی پھیلائی ہوئی یو ٹیوب ویڈیوز سے بدگمانی کا شکار ہو گئے ہیں، اور آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا واقعہ جھوٹا ہے ؟
طاہرالقادری صاحب بہت علم رکھنے والے آدمیں ہیں، اور میری معلومات کے مطابق وہ الیکشن میں جیتے تھے اور کچھ عرصہ بعد استعفی بھی دے دیا تھا، خیر اگر آپ نہیں مانتے تو میں کیا کر سکتا ہوں،

جناب وہ ہار گئے تھے۔ جس سے ان کا پول کھل گیا ۔ دوسرا یار اتنی تو میرے سب سے چھوٹے بھائی کو بھی عقل تھی کہ مجھ سے کہنے لگا کہ بھائی جان یہ بوڑھے لوگ ڈانس کیوں کر رہے ہیں۔ میں نے تو اللہ توبہ ایسے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو مزاروں پر سجدے بھی کرتے ہیں اور اس بات کا بھی میں گواہ ہوں۔ ٹائم ملا تو وہ ویڈیو بھی کسی وقت آپ کو میل کردونگا۔
اگر آپ کا پشاور آنا ہوا تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہر مزار منشیات فروشی کا اڈہ ہوتا ہے۔
بری امام میں غیرمہذب کام ہوتے رہے جس کی کوریج سے مجھے بھی روکا گیا۔ جس وقت میں پشاور میں رپورٹنگ کرتا تھا۔
مع السلام
 

طالوت

محفلین
ضرور حذف کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ مگر اگر مراسلے مجھ سے متعلق ہوں تو کیا خیال ہے ؟ اب یہ نہ کہیے گا کہ میرا اور طاہر القادری کا کیا مقابلہ تو جناب جیسا وہ انسان ویسا میں ۔
رہی بات خرافات کی تو وہ میری نہیں طاہر القادری کی ہیں ۔جس جملے کو آپ نے سرخ رنگ دیا ہے وہ محض صدیق کے ڈانس کہنے پر میں نے اس کی تصحیح کی ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر یہ الف لیلوی داستانوں کو کوئی اسلام کہتا ہے یا اس قسم کی چیزیں بیان کرنے والے کو کوئی عالم سمجھتا ہے تو بھر اللہ ہی حافظ ہے ۔
البتہ یہ بات آپ کی بلاشبہ درست ہے کہ ہم خوامخواہ موضوع سے نکل گئے اور غیر ضروری گفتگو کی جس کا مجھے افسوس ہے ۔ عذر گناہ بد تر از گناہ ضرور مگر ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔
وسلام
 

ظفری

لائبریرین
عورت کی گواہی سے متعلق یہ بحث جس نہج پر جاری ہے اس سے تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سن لیتے ہیں ، پڑھ لیتے ہیں مگر مطالعہ نہیں کرتے ۔ اور پھر ہم کوئی بھی بحث از‌خود نتیجے یا پھر اپنے مکتبِ فکر کے کسی عالم کے فرمان کے تناظر میں کرتے ہیں ۔پھر اس فرمان کو حتمی درجہ یا حتمی حکم قرار دیدتے ہیں ۔ اور اس پر کسی بھی قیمت پر کوئی دلائل ، استدلال اور ثبوت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی اس پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ یہ عمومی رویہ بن چکا ہے ۔ جس کی شکایت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ خیر ۔۔۔۔

جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک واضع حکم قرآن و سنت اور حدیث میں موجود ہے تو اس پر سرخم تسلیم کرنا ایک مسلمان کا فرض بن جاتا ہے ۔اور اللہ کے حکم کے بعد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی فرمان پر عمل کرنا بھی عین ایمان کا حصہ ہے ۔

عورت کی گواہی کے حوالے سے آپ پورا قرآن پڑھ جایئے ۔ پورے حدیث کے ذخیرے کو دیکھ لیجیئے ۔ گواہی کے معاملے میں کہیں بھی کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ اس کو قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جس بات کو اللہ نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا ۔ جس پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی گفتگو نہیں فرمائی ۔ تواس کے بعد فقہا کی بات رہ جاتی ہے ۔ جس پر آپ اور میں گفتگو کرسکتے ہیں ۔ صرف اللہ اور ا سکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے ۔ جس پر ہمیں سرِ خم تسلیم کرنا ہے ۔
سورہ بقرہ کی جس آیت کو منبع بناکر عورت کی گواہی سے متعلق جو ساری بات کہی جاتی ہے ۔ اس کا تعلق نہ تو واقعاتی گواہی سے ہے اور نہ ہی اس کا عدالتی گواہی سے کوئی تعلق بنتا ہے ۔ بلکہ اس آیت میں جو بات کہی گئی اس میں واضع ہے کہ ہم جب کوئی معاملہ کرنے لگے تو ہمیں گواہ " بنانے " ہیں ۔اصل میں یہ وہ صورتحال ہے جس کا سورہ بقرہ کی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ وہاں نہ تو کسی قسم کی جرائم کی گواہی کا ذکر موجود ہے اور نہ ہی واقعاتی گواہی زیرِ بحث ہے ۔ اگر وہاں یہ مسئلہ زیرِ بحث آتا ہے کہ تمہارے سامنے کوئی مسئلہ ، جھگڑا پیش آگیا ہے تو تمہیں کیسے گواہ "طلب " کرنے ہیں ۔ اگر یہ صورتحال ہوتی تو قرآن کی آیت اس طرح شروع نہیں ہوتی کہ " تم جب لین دین کا کوئی معاملہ کرنے لگو تو اس طرح کے گواہ " بناؤ " ۔ بلکہ وہ یوں شروع ہوتی کہ "تم جب لین دین کا کوئی معاملہ کرنے لگو تو اس طرح کے گواہ " طلب " کرو ۔ "
قرآن مجید کے بارے میں بھی یہ بات جان لینا چاہیئے کہ وہ صرف عدالتی معاملات کو ہی بیان کرنے نہیں آیا بلکہ اس کا اصل مقصد ہمارے " نفوس " کا تزکیہ کرنا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن عدالتی قوانین بھی بیان کرتا ہے مگر یہاں اس کا یہ موضوع نہیں ہے ۔ اس آیت میں وہ یہ ہدایت دے رہا ہے کہ ہم کو جھگڑوں اور نزعات سے بچنے کے لیئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اس میں سب سے پہلی یہ بات کہی ہے کہ جب آپس میں کوئی لین دین کا معاملہ کرو تو اسکو لکھ لو ، اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ جب تم گواہ بنارہے ہو ، تمہارے پاس اختیار موجود ہے ۔ کوئی مشکل پیش نہیں ہے تو مردوں کو گواہ بناؤ ۔ یہاں انتخاب ہمارے پاس ہے ۔ کیونکہ گھر کی چہار دیواری میں رہنے والی عورت کو گواہ بناکر عدالت میں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر قرآن نے ہدایت فرمائی کہ اگر دو مرد گواہ دستیاب نہیں ہیں اور کسی عورت کو ہی گواہ بنانا پڑ رہا ہے تو اس عورت کیساتھ ایک عورت اور ہونا چاہیئے جو اس کی تقویت کا باعث بنے کہ جب یہ عورت گھر کی چہار دیواری سے نکل کر عدالتی مجمع کے سامنے کھڑی ہو تو کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکا ر نہ ہو ۔ اور لین دین کے جو معاملہ تصفیے کے لیئے پیش ہوا ہے وہ کہیں کسی جھگڑے کا شکار نہ ہوجائے ۔

ہمارے آئمہ کرام میں سے امام تیمیہ اور امام طیب نے " الاب " میں بڑی تفصیلی بحث کرکے یہ بتایا ہے کہ اس آیت کا عدالتی اور واقعاتی گواہی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں فطری ہدایت واضع ہے ۔ " ہم لین دین کے معاملے میں کسی کو گواہ بنا رہے ہیں ، ہم دستاویز بنا رہے ہیں ۔ اور معلوم نہیں کہ آج جو دستاویز بنائی جارہی ہے ۔ اس پر گواہی کی ضرورت 20 برس بعد ہو تو اس موقع پر ہمیں ہدایت کی جا رہی ہے کہ ہم کو ایسے گواہ بنانا چاہئیں کہ جن کو عدالت میں طلب کرنا آسان ہو ۔ جن کیساتھ معاملہ کرنا آسان ہو اور عام حالات میں وہ مرد ہوتے ہیں ۔اس میں بھی شریعت کا قانون جو سدِ ذریعہ پر مبنی ہوتا ہے ۔ اس میں ہمیشہ سے یہ بات پیشِ نظر ہوتی ہے کہ اگر کسی موقع پر آپ یہ محسوس کرتے ہیں ۔ جس وجہ سے یہ بات کہی گئی ہے وہ چیز ہی ختم ہوگئی ہے تو اس کے ساتھ حکم کی " نوعیت " بھی بلکل تبدیل ہوجائے گی ۔ سدِ ذریعہ کے احکام کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً مجھے اس بات کا پورا اطمینان ہے کہ ایک خاتون بہت اچھے طریقے سے گواہی دے سکے گی ۔ اور اللہ تعالی نے ایک عمومی قانون بھی بیان کردیا ۔ اس مستثنیٰ صورت میں اس کو میں تنہا بھی گواہ بنا سکتا ہوں ۔ اور قاضی کو گواہوں کی صنف کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنا ۔ بلکہ اس کو فیصلہ اس بنیاد پر کرنا ہے کہ اس کے سامنے کیا مواد آیا ہے ۔ یعنی وہ یہ نہیں کہے گا کہ " آپ نے دستاویز نہیں لکھی تو میں آپ کا مقدمہ لینے کے لیئے تیار نہیں ہوں " ( آیت تو یہیں سے شروع ہوتی ہے ) ۔ وہ یہ بھی کہنے کا مجاز نہیں ہے کہ آپ نے عورتوں کو گواہ بنا لیا ہے تو میں مقدمہ سننے کے لیئے تیار نہیں ہوں ۔ " کیونکہ ان باتوں کا عدالت سے تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ تو ہمیں کہا گیا ہے کہ تم اتنا اہتمام کرلو کہ کل کہیں کوئی مشکل درپیش نہ ہو ۔ لہذا اس آیت کے آخر میں اس کے حکمت بیان کی گئی ہے کہ " تم کو اس معاملے میں جس ترتیب کا طریقہ بتایا گیا ہے اس پر عمل کرکے تم اپنے مال و اسباب کی صحیح طور پر حفاظت کرسکو گے ۔ "
اس آیت کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہوئی ہے جس سے اسلام کے بارے میں بہت سے ذہنوں میں غلط تاثر پیدا ہوا ہے ۔اس آیت میں اللہ تعالی بلکل دوسری بات فرما رہا ہے ۔ جس کا تعلق ہمیں جھگڑے اور نزعات سے بچانے کے لیئے ہے ۔ اس کا تعلق قطعی طور پر عدالتی گواہی یا عدالت سے نہیں ہے ۔ اس گواہی کااہتمام مجھے انفرادی طور پر کرنا ہے ۔ عدالت صرف یہ دیکھے گی کہ گواہ کون ہیں ۔ معاملات کیا ہیں اور گواہوں کی گواہی سے مقدمہ ثابت ہوتا ہے کہ نہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
آبی ٹوکول سے گذارش ہے کہ آدھی سورہ یا کسی آیت کو کوٹ کرنے کے بجائے وہ پوری سورہ کو کوٹ کریں تاکہ اس آیت کا سیاق و سباق واضع طور پر سامنے آسکے ۔
مثال کے طور پر ۔۔۔۔


سب سے پہلے تو ہم سورہ بقرہ کی جو آیت موضوع سخن ہے اسکا وہ حصہ جو زیر بحث ہے اسکا عربی متن اور پھر اس کا اردو ترجمہ نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى ۔ ۔ ۔ ۔ [البقرة : 282]

۔ ۔ ۔ترجمہ:- اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،

[البقرة : 282]

اصل سیاق و سباق کچھ یوں ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ وَاللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ :
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے ۔

اس طرح اصل سیاق و سباق پس منظر میں چلا گیا ہے اور آبی ٹوکول کے کوٹ والے ترجمہ کی شروعات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ' اس آیت میں اللہ نے ہر معاملے میں عورت کی گواہی کو دو عورتوں سے مشروط کردیا ہے ۔ جبکہ پوری سورہ سامنے آنے کے بعد یہ بات واضع ہے کہ ایک غیرعدالتی معاملے میں دو عورتوں کو ترجیح دی گئی ہے ۔ یعنی یہاں کوئی عدالتی کاورائی سے متعلق مقدمہ درپیش نہیں ہے ۔ ( اس کی تفصیل میں بیان کرچکا ہوں )
اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ گواہی کیا ہوتی ہے اور اس کی کیا قسمیں ہیں ۔ اور ان کا اطلاق کہاں ، کیسے اور کس طرح ہوتا ہے ۔ اس سورہ میں عورت کی جس گواہی کا تعلق ہے وہ غیر عدالتی ہے ۔ اس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اس معاملے میں کیسے گواہ بنائیں ۔ اس کی تفصیل بھی پیش کی جا چکی ہے ۔ اگر اسی سورہ کو منبع بناکر بحث مقصود ہے تو میں اس پر بحث کے لیئے حاضر ہوں ۔
 
ظفری بھیا اچھی بات کی ہے آپ نے۔

مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایک ایسے فلسفے کو یہاں پوسٹ کیا جس کی گہرائی میں جاکر کسی نے نہیں سوچا بلکہ روایتی انداز میں بحث شروع کردی۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ تحریر میری نہیں ہے بلکہ مجھے میل کے ذریعے دانیال ابیر نے بھیجی اور اس میل سے پہلے میری ان کے کافی بحث بھی ہوتی رہی تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو میل کردونگا

اس تحریر کا بنیادی خیال خاصا گہرا تھا مگر افسوس کہ اس کو روایتی سطحی انداز میں لیا گیا۔ مصنف نے اس میں صرف عورت کی حیثیت سے متعلق جو سمجھانے کی کوشش کی اس کو کسی نے نہیں سمجھا بلکہ اپنے اپنے انداز میں بحث کو الجھا دیا۔

بہرحال آپکا طرز تحریر اچھا لگا ماشا اللہ

خوش رہیئے
 

تیشہ

محفلین
:battingeyelashes: ویلکم بیک ،

مجھے گزرتے گزرتے لگا جیسے طفری کا نام ہے ۔ پھر میں پلٹ کر آئی دیکھنے :tongue:
ہاں واقعی یہ آپ ہی کی پوسٹ ہے ۔ ویلکم بیک ۔ :party:
 
Top