عورت نامہ ( عورت کہانی )

عورت نامہ (عورت کہانی )

عورت نامہ میرا نیا موضوع ہمارا معاشرہ عورت کے بغیر نامکمل ہے عورت کیا کیوں ہے اور عورت کا اسلام کے مطابق ہمارے معاشرہ میں کیا کردار ہے اور مغرب میں عورت کے کردار کو کیسے لیا جاتا ہے مغربی عورت اور مشرقی عورت میں فرق آپ کو یہاں ایک عورت کہانی ملے گی اور اس کہانی کو پڑھنے کے بعد اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیے گا ۔
میں نے عورت کہانی اس لئے شروع نہیں کی کہ پہلے میں آپ سب کی رائے لے لوں اس کے بعد کے مجھے شروع کرنا چاہئے کہ نہیں تاکہ میں مطمئن ہوکر اس پر کچھ قلم آزمائی کروں اور میری رائے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں اس لئے میں تھوڑا انتظار کروں گا کہ سب کی کیا رائے ہیں سب کی رائے کے بعد ہی اس پر کام ہوگا
عورت کو جو مقام اسلام نے دیا ہے وہ کسی نے نہیں دیا ہے جتنی آزادی عورت کو اسلام نے دی ہے وہ کسی اور نے نہیں دی ہے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ مغرب نے عورت کو ایک کھلونا بنادیا ایک سیکس بم بنادیا ہے جو میڈیا کے ذریعے ہماری اقدار کو ختم کرتا چلا جارہا ہے اب یہاں کی عورت بھی آزادی مانگ رہی ہے لیکن کس قسم کی آزادی اسلام نے تو پہلے ہی ان کو آزادی دے رکھی ہے بھائی بہنوں وہ آزادی جس میں دوسروں سے کھلا ملنا جلنا ہو ماں باپ کسی بات پر روک ٹوک نہ لگائیں بس اس بات پر اور کہ بوائے فرینڈ کے گھر آنے پر کوئی پابندی نہ دیر سے گھر آنے کی وجہ نہ پوچھی جائے بھئی اگر یہی سب کرنا ہے تو پھر قرآن کو گھر میں صرف نمائش کرنے کے لئے رکھ دیا گیا ہے اور کوئی اس کی بے حرمتی کرتا ہے تو زمین آسمان ایک کردیا جاتا ہے لیکن اپنی طرف اسے آنکھیں بنی رکھی جاتی ہیں کیوں آخر کیوں فیشن ایک ایسی لعنت جس نے آج کی عورت کا لباس کم تر اور باریک تر کردیا ہے کہ آؤ دعوت نظارہ کرو رمضان المبارک میں طارق روڈ اور بہادر آباد کے ایس ایچ او سے سوال کیا گیا کہ آپ ان اوباش لڑکوں کو کیوں نہیں روکتے تو اس ایس ایچ او نے جواب دیا کہ بھائی ہم تو پوری کوشش کرتے ہیں لیکن ان لڑکی ذات و عورت ذات کو بھی چاہیئے کہ وہ گھر سے پورے اور نارمل لباس میں آیا کریں نا کہ باریک کپڑوں میں کہ آؤ فری میں سب دیکھوں تو پھر ایسا تو ہوگا پہلے اپنے گھر والوں کو دیکھو۔ عورت ایک ماں ایک بہن ایک بیٹی اور ایک بیوی ہے ایک مقدس رشتہ ہے کائنات کا حسن ہے دنیا میں سب پوری جنت لادو لیکن عورت نہ ہو تو اس ساری جنت کا حسن مانند پڑ جائے گا خدارا رک جاؤ ٹھہر جاؤ۔ اسلام نے جو تقدس عورت ذات کو دیا ہے وہ کسی مذہب میں عورت کو نہیں ملا یہ عورت کی آزادی اسلام کی ہی دی ہوئی ہے۔ اسلام کے بعد اگر کسی مذہب میں عورت کا احترام ہے تو وہ یہودیت میں ہے یہودی عورت پردہ کرتی ہے حرام نہیں کھاتی وہ خوبیا ں جو ہمارے اسلام میں ہیں وہ ان میں سے چند خوبیاں یہودیت میں ہیں لیکن باقی سارا معاشرہ جس میں بھی شامل ہوں اپنے ہی ملک میں عورت کو کیا مقام دیتا ہوں کیا میں ان کا احترام اسی طرح کرتا ہوں جس طرح گھر کی چاردیواری میں اپنی بہن ماں کا کرتا ہوں کیا ہم اپنی روایا ت کو چھوڑ کر مغرب زدہ معاشرے کی ضد نہیں کرنے لگے ہم کس طرف جارہے ہیں اور اس میں مردوں کا تو قصور تو ہے ہی لیکن مردوں کے ساتھ ساتھ ہمارے میڈیا کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو باتیں بڑوں کے درمیان ہوا کرتی تھیں اب میڈیا پر آکر ایک دوسرے پر اس طرح کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ اور تو میں آپ کے اس فورم کے توسط سے خاص طور پر اپنی بہنوں سے مخاطب ہوتا ہوں کہ قرآن میں سورہ نساء اور سورہ نور پڑھ لیں اور بھی سورتیں ہیں جن میں عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ بناؤ سنگھار اپنے شوہروں کے لئے کرو اور اپنے سینے ڈھانپ کر رکھوں اور اپنے گھر میں اپنے دیوروں سے بھی پردہ کرنے کی ترجیح دی گئی ہے تو پھر باہر کا بندہ تو غیر ہے اس کے ساتھ کھلا گھومنا پھرنا کیا مقصد ہے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں بولیں کہ ہم اتنے ماڈرن ہوگئے ہیں ترقی یافتہ ہوگئے ہیں نہیں غلبط یہ ماڈرائزن ہم کو لے ڈوبے گی میر ے پاس ایک ایسی عورت کی کہانی ہے کہ اگر آپ کو سناؤ تو آپ کی ا آنکھوں سے آنسو نکل پڑے کہ کیا استقامت تھی اس عورت کی کہ آخر تک اس عورت نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ ا۔
ا ور ہر حال میں اللہ کو پکارتی رہی ۔ دو عورتوں کا قصہ ہے کہ ایک عورت پرہیزگار عبادت گزار پانچ وقت کی نماز پڑھتی تھی ۔ تہجد چاشت سب اس کے سامنے ایک گھر میں جو کہ اس کے کمرے کی کھڑکی سے نظر آتا تھا اس میں ایک عورت ناچ گانا کرتی تھی اور دونوں کا معمول تھا لیکن جب سامنے والی عورت ناچ گانا کرتی تھی تو پرہیز گار عورت اس کا گانا سننے بیٹھ جاتی تھی تو دوسری عورت جب نماز کا وقت ہوتا اور پرہیزگار عورت کی قرات کا وقت ہوتا تو ناچ گانا کرنے والی سب چھوڑ چھاڑ کر تلاوت سنتی اور خاموش رہتی یہ معمول چلتا رہا جب دونوں اللہ کو پیاری ہوگیئیں تو ایک بزرگ کو اس وقت کے خواب میں آیا کہ پرہیز گار عورت دوزخ میں ہے اور ناچ گانا کرنے والی جنت میں تو ان سے رہا نہ گیا سوال ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو
جواب ملا کہ بات یہ ہے کہ جب پرہیزگار عورت نماز پڑھتی تھی اور تلاوت کرتی تھی تو دوسری عورت سارا ناچ گانا چھوڑ کر کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ جاتی تھی اور دل ہی دل میں ورد کرتی تھی لیکن جب ناچ گانا کرنے والی عورت ناچ گانا کررہی ہوتی تھی تو پرہیز گار عورت سارے کام چھوڑ کر کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ جاتی تھی اور ناچ گانا سنتی تھی یہی وجہ ہے کہ دونوں اس مقام پر کیوں ہیں ۔
مسئلہ یہی ہے ہم اسلام کو اور اپنے معاشرے کو مکس کردیتے ہیں ۔ اسلام نے عورت کو جو آزادئی اور حقوق دیے ہیں وہ ہمارے معاشرہ نے نہیں دیے ۔ اور جب عورت اپنے حقوق جو اسلام نے دیے بھی مانگتی ہے تو اس کو مغرب سے متاثر ذدہ کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ میرا مقصد عورت کے مخالفت میں نہیں لکھنا یا بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنانا ہے بلکہ اس کا مقام دلانا ہے جو ہمارا معاشرہ اس سے چھیننے کی کوشش کررہا ہے عورت ذات تو وہ پاک مقدس ہستی ہے جن کا باطن سے نبیوں پیغمبروں نے جنم لیا اولیا ء کرام نے جنم لیا عورت کو اس کے مقام سے ہٹانے والے ہم خود ہیں بات ساری وہی ہے کہ جو اپنا نہیں بنا وہ کسی کا نہیں بن سکتا ۔ مرد اپنے آپ کو حاکم سمجھتا ہے تو اس کی غلط فہمی ہے حاکم نہیں بلکہ رکھوالا بنا یا گیا کہ عورت کو مرد کے لئے اس کی پسلی سے، اگر جس طرح عورت اپنی نہیں بن سکتی تو اسی طرح یہ سب مرد پر بھی لاگو ہوتا ہے لیکن مرد جو کہ عورت کے مقابل پیدا کیا گیا ہے جس کا قڑآن پاک میں ذکیر ہے اب یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ پیار سے کس طرح عورت کو سیدھے راستے پر لے جاتا ہے اگر اس میں وہ کاماب نہیں ہوتا تو یہ اس کی نااہلی ہے وہ بھی سزا کا برابر حصہ دار ہوگا کہ دونوں ایک گاڑی کے دوپہیئے ہیں بس بات صرف اتنی سی ہے کہ عورت شرعی طور پر گھر سے نکلے اور واپس آجائے بیکار میں ادھر ادھر کی گن سن لینے سے بہتر ہے کہ اپنے گھر کو سنبھالے یہی ایک صالح عورت کا کردار ہے عورت کے بغیر یہ معاشرہ کہیں کا نہیں ہے عورت کے دم سے ہی حسن کائنات ہے ورنہ یہ حسن بھی نہیں ہوتا عورت ایک پردہ ہے حیا کا حیا کے زیور کا جو نظر آتا بھی ہے اور نہیں بھی میں نہ تو مفروضوں پر بات کررہا ہوں نہ ہی کسی کا مضموں یہ خالص میرے دل کی آواز ہے اس سے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے لیکن تنقید برائے تنقید نہ بلکہ معیاری اور سلجھی ہوئی ہو میرے ذہن میں کئی سوالات آتے ہیں جارہے ہیں ۔
اللہ پاک کہتے ہین کہ ایک ذرا سی نیکی یا عبادت دل سے کی ہو ایک مرتبہ مجھے دل سے پکارو پھر دیکھو کہ میں تمہاری پکار سنتا ہوں کی نہیں لیکن پوری ایمانی قوت جس کا اندازہ صرف اللہ پاک کو ہو کہ نہ دنیا والوں کو تو وہ ناچ گانے والی پورے خلوص دل سے آللہ کی عبادت کا احترام کرنی تھی تو اللہ پاک کو اس کی وہ چیز پسند آگئی بس تو اگر ہم دل خلوص سے عبادت کریں اور تو ساری برائیاں آہستہ آہستہ چھوٹتی چلی جائیں گی جیسے کسی کا نشہ چھڑانا ہو تو ایک دم نہیں چھڑایا جاسکتا آہستہ آہستہ چھڑایا جاتا ہے ۔ عورت ہی کے دم سے جنت بھی ہے دوزخ بھی عورت چاہے تو گھر کو جنت بنادے یا دوزخ یہ اس کے اپنے پر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے کہ عورت حسن کائنات ہے ایک حیا کا زیور ہے عورت ایک ایسا حسین ساتھی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے پیار محبت دوست بیوی کی شکل میں ماں بھن کی شکل میں اگر یہی عورت اپنا دوسرا روپ اختیار کرتی ہے تو اچھا بھلا گھر بھی جہنم بن جاتا ہے تو تالی دو ہاتھ سے بچتی ہے اس میں مرد کا کردار بھی بہت اہم ہے کہ وہ اپنی عورت کو کس طرح رکھتا ہے اس کے اچھے کاموں کا صلہ کیا دیتا ہے اسکی اداؤں کے بدلے میں اس کو مسکراہٹ دیتا ہے یا دھتکارتا ہے ۔ جب مرد عورت سے شادی کرتا ہے تو صرف جسمانی ملاب ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک عہد پیمان ہوتا ہے کی ہم دونوں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھیں گے اور آنے والی نسل کو اس کا حق دیں گے اگر یہ عہد پیماں پر قائم رہیں تو یہ دنیا ہی جنت بن جائیں اور عورت کی گورہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے تو کیا مجال ہے کہ کوئی دہشت گرد جنم لے آخر یہ عورت ہی ہے ۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اسی عورت نے انبیاء کرام اولیاء کرام اور بزرگان دین کو جنم دیا ہے تو کیوں ہم عورت کو پستی کی طرف دھکیلتے جس ماں ایک عورت ماں کی گور میں کھیلا اور بڑے ہوکر اپنی ماں جیسی عورت کی بے عزتی ماں کے بعد بیوی کی گود لیلن گود سے نکلتے ہی اس کے بے حرمتی کیوں اس کا جو حق ہے وہ کیوں سلب کیا جاتا ہے ایک بہن کے ارمانوں کا گلا کیوں گھونٹا جاتا ہے اس کی تعلیم پر کیوں پابندی لگائی جاتی ہے آخر ایک عورت ہی اپنا سب داؤ پر لگاکر مرد کو اس مقام پر پہنچاتی ہے تو یہ امتیازی سلوک کیوں جائیداد کی خاطرقرآن سے شادی کیوں اسلامی اصولوں کے مطابق عورت کو کام کی اجازت ہے لیکن ایک حد میں رہتے ہوئے مساجد میں عورتوں کا جانا ممنوع نہیں ہے لیکن آج کے دور میں ہم نے ممنوع قرار دے دیا ہے سعودی عرب میں اور دیگر اسلامی ممالک میں جہاں سے اسلام کی کرنیں پھوٹیں ہیں وہاں عورتوں کا مساجد میں جانا کام کرنا ممنوع نہیں تو ہم کون ہوتے یں اس کو روکنے والے ہاں اگر دیکھا جائے کہ ایک عورت اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھارہی ہے تو اس کو سرزنش کرو ۔
قصہ یوں ہے کہ ایک دیندار شخص تھا وہ شکار کرکے اپنے گھر کا گزارا کیا کرتا تھا ایک دن وہ شکار پر تھا کہ ایک فقیر اس کے در پر آیا کہ بابا اللہ کے واسطے گھر میں کچھ کھانے کو ہے تو دو گھر میں تھوڑا بہت موجود تھا لیکن اس کی بیوی نے کہا کہ بابا گھر پر تو کچھ نہیں ہیں ابھی وہ شکار پر گئے ہیں آئیں گے تو کچھ ہوگا وہ فقیر اس شخص کی بیوی کو یہ کہہ کر چلا گیا کہ گھرکا پردہ اچھا نہیں ہے اس کو تبدیل کرلو میرا یہ پیغام اپنے شوہر کو دے دینا فقیر تو چلا گیا جب اس کا دیندار شوہر شکار سے واپس آیا تو ساری بات اپنے شوہر کا بتائی اور یہ بھی کہا کہ فقیر نے کہا ہے کہ گھر کا پردہ تبدیل کرلو اس کا دنیدار شوہر سمجھ گیا کہ کوئی بزرگ تھا اور نصیحت کرکے چلاگیا تو اس نے اپنی اس بیوی کو طلاق دے دی اور اس کے کچھ عرصہ بعد دوسری شادی کرلی ۔
پھر کچھ دن بعھ وہی فقیر بابا آیا پہلے کی طرح کھانے کا سوال کیا اس دوسری بیوی نے جو گھر میں تھا لاکر بابا کو دے دیا تو بابا نے کہا کہ جب تمہارا شوہر واپس آئے تو اس کو کہنا پردہ بہت اچھا ہے اس کو تبدیل نہ کرے تو جب شوہر نے سنا تو خوش ہوا اور ساری بات بیوی کو بتائی تو وہ بھی خوشی سے جھوم اٹھی یہ ہے فرق رہی قرآن پاک بھی یہ کہتا ہے کہ مرد عورت کا پردہ ہے مرد پر عورت کی ذمہ داریاں ڈال دی گئیں ہیں تو ان کا خیال رکھو کہ یہ مجبور ہیں مظلوم ہیں ان میں وہ طاقت نہیں ہے جو کہ مرد میں ہے مرد کو ہر طرح سے عورت پر فضیلت عطا کی گئی ہے لیکن دوسری جانب عورت کو بھی کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو ڈھک کر رکھو بناؤ سنگھار صرف اپنے شوہر کے لئے کیا جائے ۔
عورت کہانی ایک ایسی داستان ہے جس پر جتنا لکھا جائے کم ہے عورت ذات پر کتنا لکھا جاچکا ہے لیکن عورت ایک ایسی پہیلی ہے کہ نہ سمجھنے کی نہ سمجھانے کی آخر تک کوئی نہیں جان سکا کہ عورت کیا ہے ایک بہن ہے توگھر کی مہک ماں ہے تو جنت کی خوشبو بیوی ہے تو دنیا کا سکون لیکن اگرئہ تینوں بگڑ جائے تو پھر عذاب ہے بس اس کہاں تک لکھا جائےقلم ساتھ چھوڑ دیتا ہے الفاظ ختم ہوجاتے ہیں لیکن حتمی طورپر عورت کے بارے میں کوئی بھی حتمی طورپر نہیں لکھا جاسکتا اور نہ ہی اس کے بارے میں تاحیات رہتے ہوئےسمجھا جاسکتا ہے بیوی کی صورت میں وہ ایک نعمت سے کم نہیں سکون دینے میں اور چھیننے کی میں بھی پیچھے نہیں ہےلیکن ایک پھول ہے جس کو جدا نہیں کیا جاسکتا اس کو سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے کہ اس کی
تازگی ختم نہ ہوجائےورنہ دوسرا پھول کہاں سکون دیتا ہے۔ عورت کو سمجھنا ہے تو اس کو پہلے انسان تسلیم کریں ۔ جیسے مرد انسان ہے اسی طرح عورت بھی انسان ہے اور انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے اس میں اچھائی اور برائی دونوں ہوتی ہیں جس میں اچھائی برائی کو ڈھانپ لیتی ہے وہ اچھا انسان ہوتا ہے اچھے انسان میں بھی برائی موجود ہوتی ہے بس چھپی ہوتی ہے عورت کو فرشتہ یا شیطان سمجھنے کے بجائے اس کو انسان سمجھیں۔ بہن عورت اور مرد یہ دو ذاتیں اللہ نے بنائی ہے عورت سے ہی حسن کائنات ہے اگر عورت نہ ہوتی تو دنیا کا حسن مانند پڑجاتا عورت ذات ایک خوشبو ہے جو اپنے آنگن کو ہر پل مہکاتی رہتی ہے عورت وہ محبت عظیم ہے جس کے سامنے پہاڑ بھی ریزہ ہوجاتا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترم اللہ کو پیاری ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جلیل القدرکہ غصہ والے پیغمبر تھے جب اللہ پاک سے ہمکلام ہونے لگے تو آواز آئی کہ "موسیٰ سنبھل کر اب تمھارے لئے دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھ اب نہیں رہے" مطلب کہ جب حضرت موسیٰ کوہ طور پر جاتے تھے تو ان کی والدہ ان کے لئے دعا کرتی تھیں جب وہ ہاتھ نہیں رہے تو ہھر حضرت موسیٰ کو تنبیہہ ہوئی
عورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی عظمت کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے کہ وہ ایک ماں جس نے جنم دیا ایک بہن ہے جو لاڈلی ہے ایک بیوی ہے جو ہر طرح سے خدمت کرتی ہے غرض عورت ہر طرح سے اس درخت کی مانند ہے جو ہر گرم سرد موسم میں چھاؤں دیتی ہے سکون دیتی ہے اس کی عظمت کو پہنچا بھی نہیں جا سکتا - حضور پاک کا واقعہ ہے ۔
ایک شخص نے حضور پاک سے فرمایا کہ یا رسول اللہ میں ماں کو کندھے پر اٹھا کر حج کروادیا تو کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا تو آپ حضور نے جواب دیا نہیں تم نے تو ابھی کچھ ادا نہیں کیا جس وقت اس نے تم کو جنم دیا تھا اس کی تکلیف کا تو تم ساری عمر بھی حق ادا نہیں کرسکتے ۔
عورت کا وجود نوعِ انسانی کی بقا کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کا۔ عورت بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں ایک نعمت ہے ۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک ماں ہے جس کی آغوش ایک نومولود کی طبعی ضروریات ہی پورا نہیں کرتی بلکہ اس کی نفسیات پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ لہٰذا ایک ماں کی گود سے ایک بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ دنیا کی اعلیٰ ترین درسگاہ بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر ماں خدا کو بھگوان کے روپ میں پیش کرے تو بعد میں اس بھگوان سے خدائے حقیقی تک پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ ایک بچہ خیر و شر، شرک و توحید اور جبر و قدر جیسے دقیق موضوعات سے لے کر صبروقناعت‘ سادگی و حیا اور فقر و استغنا جیسے عملی مسائل پر ابتدائی تعلیم ماں ہی سے حاصل کرتا ہے۔
علم کی اس اولین درسگاہ کا اپنا قبلہ ہی درست نہ ہو تو قدرت کے فطری نقشہ میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بگاڑ کا عملی نمونہ کبھی دنیا ہٹلر‘ میسولینی اور چنگیزخان کی شکل میں انفرادی سطح پر دیکھتی ہے تو کہیں اجتماعی سطح پر قوم لوط، قوم عاد اور ثمود کی صورت میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ خواتین کی طبیعت میں کئی پہلوؤں سے بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے مگر اس تحریر میں ہم صرف ایک خاص چیز کی طرف توجہ دلارہے ہیں یعنی نمود و نمائش کے جذبے میں حد سے بڑھ جانا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ عورتوں میں نمود و نمائش کا جذبہ مردوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جذبہ اگر اپنی حدود میں رہے تو دنیا کے حسن میں اضافہ کرتا ہے اور اگر ان قیود سے ماورا ہو جائے تو فساد برپا کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی نمود و نمائش کے بے شمار پہلو ہیں لیکن ان کاسب سے نمایاں اظہار ملبوسات اور زیورات کے ذریعے سے ہوتا ہے۔
جہاں تک لباس کا تعلق ہے تو اس کا بنیادی مقصد سترپوشی ہی نہیں بلکہ زینت و آرائش بھی ہے بشرطیکہ اس میں اسراف نہ ہو ۔لیکن اگر ہم خواتین کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مطمح نظر اکثراس سے مختلف ہوتا ہے۔ اکثر خواتین ملبوسات کو مقابلے کے جذبے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غرض سے بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی لباس کو زیب تن کر لیا جائے تو دوسری تقریب کے لیے وہ شجرِ ممنوعہ بن جاتا ہے۔ پھر اگر کوئی یہ بدعت کر بھی لے تو اسے غربت کے طعنے دے کر راہِراست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لباس جتنا مہنگا ہو، اتنا ہی خاتون کے اعلیٰ ذوق اور
اسٹیٹس کا عکاس سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب زیورات کا شوق بھی خواتین کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ سونا جو کہ انتہائی بے مصرف دھات ہے ۔ خواتین ہی کی وجہ سے انتہائی قیمتی بنا ہوا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اسٹیل کی چوڑیاں پہننا عار اور سونے کی چوڑیاں پہننا وقار سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں محض دھاتیں ہیں۔ سونے کی قدروقیمت کا تعلق قدیم ترین نفسیات سے ہے۔ چنانچہ یہ زیورات تالوں میں بند الماریوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ اگر کبھی خواتین سے یہ کہا جائے کہ ان زیورات کو کسی منافع بخش مصرف میں استعمال کیا جائے تو ان کے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔ خواتین اسی نمود و نمائش کے جذبے کے تحت تقاریب کو رونق بخشتی ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے نت نئے لباس پہنے جاتے ہیں۔ منفرد نظر آنے کی خواہش میں لاکھوں روپے کے زیورات بنوائے جاتے ہیں اور پھر اسے مووی میں محفوظ کرکے امر کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسی طرز عمل کی بناء پر آمدنی کے ناجائز ذرائع کو فروغ ملتا ہے۔ کرپشن پیدا ہوتی ہے۔ سادگی کی جگہ تصنع و بناوٹ آجاتی ہے۔ معصومیت کی بجائے چالاکی پیدا ہوتی ہے۔ ہمدردی کی بجائے حسد گھر کر لیتا ہے۔ یوں انسانیت کی یہ عظیم ترین درسگاہ بگاڑ کا شکار ہو کر ایک بڑے بگاڑ کو جنم دینے کا سبب بن جاتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ خواتین یہ فیصلہ کریں کہ انہیں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس جھوٹی شان و شوکت کی ختم نہ ہونے والی جدوجہد میں جھونک دینا ہے یا انہیں سادگی اور وقار کا درس دینا ہے ۔ کیونکہ سادگی ہی وہ راستہ ہے جس کے ساتھ کسی شخص کو اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے ظاہری سہاروں کی ضرورت نہیں رہتی۔
 
شاہنواز عامر صاحب یہ کس کی تحریر ہے؟

کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے؟
شمشاد جی میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں میرے پاس کوئی او رذریعہ نہیں ہے یہ ساری میری اپنی تحریری ہیں ابھی میں نے ایک اور تحریر لکھی ہے ایران کی اپنی فوج پاکستان میں داخل کرنے دھمکی میں دوسروں کی تحریروں کو چوری کرنے کا شوق نہیں ہے جو بھی تحریر ملے گی وہ میری اپنی ہوگی اگر نہ ہوئی تو اس کے ساتھ حوالہ ہوگا جیسے امریکن پادری کا بیٹا اسلام کا داعی کیسے بنا وہ امت کی تھی میں بھی تحریر لکھ سکتا تھا اس کی لیکن میں دوسرے کا کریڈٹ کیسے لو ذر میری تحریر " ایران کا اپنی فوج پاکستان میں داخل کرنے کی دھمکی " پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا ۔ جب مجھے اس فورم پر مقفل کیا گیا تھا تو میں نے دوسرے فورم جوائن کئے اور ان فورمز نے میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور آج میری تحریریں 13 فورمز پر شائع ہوچکی ہے اور میرا ایک کالم www.boureywalanews.com پر بھی شائع ہوچکا ہے حال ہی میں بعنوان "سلگتا کراچی " میں یہ کالم یہاں بھی چسپاں کردوں گا بس میرا یہ مطالبہ ہے کہ میرا کریڈٹ کسی اور کے کھاتے میں نہ ڈالیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں نے تو پیتل کی چوڑیوں کا سنا ہے اور دیکهی بهی ہیں. اسٹیل کی چوڑیاں کیسی ہوتی ہوں گی بهلا؟ کہیں یہ اشارہ ہتهکڑی کی طرف تو نہیں؟
 
افسوس شمشاد جی افسوس جب مجھے اس فورم پر مقفل کیا گیا تو میں نے دوسرے فورمز جوائن کئے میرا کام چلتا رہا اور آج انہی کی بدولت میری تحریروں میں پختگی آئی ہے کہ میں مزید کچھ قلم آزمائی کرسکوں انہی فورمز کے مدیران کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے تنقید کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی
 

شمشاد

لائبریرین
شاہنواز عامر صاحب معاف کیجیے گا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ آپ پروفیسر مبشر نذیر کے نام سے بھی لکھتے ہیں۔ اور جب پروفیسر مبشر نذیر کے نام سے لکھتے ہیں تو وہی نام استعمال کرنے میں کس چیز کی ممانعت ہے۔

یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

آخری دو پیراگراف تو لفظ بہ لفظ وہی ہیں جو آپ کی تحریر میں ہیں۔

میرے خیال میں اسے چوری اور سینہ زوری بھی کہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
افسوس شمشاد جی افسوس جب مجھے اس فورم پر مقفل کیا گیا تو میں نے دوسرے فورمز جوائن کئے میرا کام چلتا رہا اور آج انہی کی بدولت میری تحریروں میں پختگی آئی ہے کہ میں مزید کچھ قلم آزمائی کرسکوں انہی فورمز کے مدیران کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے تنقید کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی
اور یہ بھی کہ دوسروں کا مال کیسے اڑانا ہے، یہ بھی حوصلہ وہیں سے ملا ہے کیا؟ یا پھر پروفیسر مبشر نذیر نے آپ کے کالم چُرا لیے ہیں۔
 
اور یہ بھی کہ دوسروں کا مال کیسے اڑانا ہے، یہ بھی حوصلہ وہیں سے ملا ہے کیا؟ یا پھر پروفیسر مبشر نذیر نے آپ کے کالم چُرا لیے ہیں۔
جناب شمسشاد صاحب میں پروفیسر مبشر کو میں نے پڑھا بھی نہیں ہوں اور ان کے کالم کہاں چھپتے ہیں میں ان کو جانتا بھی نہیں ہوں ہاں البتہ اس فورم پر یہ مسئلہ ضرور ہے کہ کسی کے آرٹیکلز یا کچھ بھی ہو وہ کسی اور کے کھاتے میں ڈال دئیے جاتے اس کی ایک مثال ہوں اس فورم پر مجھ کوئی صلہ نہیں ملا مجھ چاہئے بھی نہیں میری محنت میری ہے اس کو کوئی بھی نہیں چھین سکتا اور اسی فورم کا کہنا ہے ناکہ پائریسی نہیں چلے گی نقل نہیں چلے گی پر میرے ساتھ یہ ہورہا ہے اور ایک اچھے عنوان پر یا اس پر بحث کرنے اور اس کی اچھائی برائی پر بحث کرنے کی بجائے الٹے سیدھے تبصرے کئے جارہے ہیں لگتا ہیں یہاں آپ سب صرف الٹی سیدھی گپ شپ ہی کرتے ہیں ادب سے آپ کو کوئی لگاؤ نہیں ہے اگر ہوتا تو اس موضوع کے عنوان پر بات کرتا نا کہ الٹی سیدھی تنقید برائے تنقید کرتا مجھے افسوس ہوا کہ مجھے آپ سے ایسی امید نہیں تھی
 

زیک

مسافر
شاہنواز عامر صاحب معاف کیجیے گا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ آپ پروفیسر مبشر نذیر کے نام سے بھی لکھتے ہیں۔ اور جب پروفیسر مبشر نذیر کے نام سے لکھتے ہیں تو وہی نام استعمال کرنے میں کس چیز کی ممانعت ہے۔

یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

آخری دو پیراگراف تو لفظ بہ لفظ وہی ہیں جو آپ کی تحریر میں ہیں۔

میرے خیال میں اسے چوری اور سینہ زوری بھی کہتے ہیں۔
اس لنک پر لکھا ہے: "(مصنف: پروفیسر محمد عقیل)"
 

شمشاد

لائبریرین
اس لنک پر لکھا ہے: "(مصنف: پروفیسر محمد عقیل)"
جی ہاں پروفیسر محمد عقیل ہی ہیں۔ مجھے نیچے دیئے گئے ای میل عنوان سے مغالطہ ہو گیا کہ محمد عقیل کی بجائے مبشر نذیر لکھ دیا۔

اب اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ یہ تحریر شاہنواز عامر نے وہاں سے اُڑائی ہے یا پروفیسر نے یہاں سے اُڑائی ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
افسوس شمشاد جی افسوس جب مجھے اس فورم پر مقفل کیا گیا تو میں نے دوسرے فورمز جوائن کئے میرا کام چلتا رہا اور آج انہی کی بدولت میری تحریروں میں پختگی آئی ہے کہ میں مزید کچھ قلم آزمائی کرسکوں انہی فورمز کے مدیران کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے تنقید کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی
جی ہاں وہ تو آپ کی تحریر سے ظاہر ہے کہ آپ کتنے پائے کے لکھاری ہیں جو معطل کو مسلسل مقفل لکھے جا رہے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ ش
آپ میرے مراسلات کا مطالعہ کریں ایسا کیوں ہے میں میری باتوں کا جواب وہاں موجود ہے
اب کون آپ کے 20، 22 فورمز پر جا کر آپ کے مراسلے ڈھونڈھے اور آپ کے مراسلوں کا مطالعہ کرے، آپ یہیں کیوں نہیں بتا دیتے؟
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔ مرد اپنے آپ کو حاکم سمجھتا ہے تو اس کی غلط فہمی ہے حاکم نہیں بلکہ رکھوالا بنا یا گیا کہ عورت کو مرد کے لئے اس کی پسلی سے، اگر جس طرح عورت اپنی نہیں بن سکتی تو اسی طرح یہ سب مرد پر بھی لاگو ہوتا ہے لیکن مرد جو کہ عورت کے مقابل پیدا کیا گیا ہے جس کا قڑآن پاک میں ذکیر ہے اب یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ پیار سے کس طرح عورت کو سیدھے راستے پر لے جاتا ہے اگر اس میں وہ کاماب نہیں ہوتا تو یہ اس کی نااہلی ہے وہ بھی سزا کا برابر حصہ دار ہوگا کہ دونوں ایک گاڑی کے دوپہیئے ہیں بس بات صرف اتنی سی ہے کہ عورت شرعی طور پر گھر سے نکلے۔۔۔۔۔۔۔

شاہنواز عامر قرآن پاک میں اس بات کا کہاں ذکر آیا ہے کہ عورت کو مرد کے لیے اس کی پسلی سے، (کچھ بے ربط قسم کا فقرہ ہے اوپر)، بہر حال اس کا حوالہ دے دیں۔
 
Top