عمران کے الزامات ، افتخار چودھری کا عدالت سے رجوع کا فیصلہ

’’بغیرنکاح بیٹی کے باپ‘‘عمران خان کو تصدیق یا تردید کرنی چاہیے

کراچی (ٹی وی رپورٹ)سینئر صحافی،تجزیہ کار و ممتاز اینکر پرسن کامران خان نے کہا ہے کہ ارسلان افتخار نے الیکشن کمیشن کا رخ کیا ہے جو عمران خان اور پاکستان کی سیاست کیلئے سنجیدہ معاملہ ہے، عمران خان کو اب اس سلسلے میں تصدیق یا تردید کرنی ہے کہ وہ بنا نکاح کیے ہوئے ایک بیٹی کے باپ بنے، دیکھتے ہیں وہ تصدیق کرتے ہیں یا تردید کرتے ہیں یا خاموش ہی رہتے ہیں وہ تاحال اس معاملے میں خاموش رہے ہیں،آئین کی شق 62کے تحت اب تک کسی بھی سیاسی قائد کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا ایک سال سے زائد عرصہ کا اقتدار ہوگیا ہے مگر اخباری اطلاعات کے مطابق اس دوران بجلی کی پیداوار میں ایک میگاواٹ بھی اضافہ نہیں ہوا۔ کراچی کے نصف سے زائد تعمیر شدہ دو فلائی اوورز اور انڈرپاس حسرت کی تصویر بنے ہوئے ہیں، کلفٹن ہی نہیں کراچی کے تمام شہری انہیں دیکھ رہے ہیں ۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’آج کامران خان کے ساتھ‘‘ میں بطور میزبان اپنا تجزیہ پیش کررہے تھے۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ سیاست کے موضوعات میں سرفہرست موضوع عمران خان کی ذاتی زندگی کا وہ باب ہے جس پر شاید عمران خان اور تحریک انصاف چاہے گی کہ پردہ ہی پڑا رہے کیونکہ اس سلسلے میں عمران خان اس سے پہلے بھی اور آج بھی اس کی باضابطہ طور پر تصدیق یا تردید نہیں کرنا چاہتے کہ وہ دراصل بنا نکاح کیے ہوئے ایک بیٹی کے والد بنے۔ اس سلسلے میں یہ بات عام ہوچکی ہے اور پہلے بھی کئی بار سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کے صاحبزادے ارسلان افتخار نے الیکشن کمیشن کا رخ کیا ہے جہاں پر عمران خان کے کاغذات نامزدگی کی بنیاد پر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی بیٹی کی پیدائش جو بنا نکاح ہوئی تھی اس کو چھپایا ہے ، اس طرح انہوں نے آئین کی شق 62 سے انحراف کیا ہے، اس لئے انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیدیا جائے۔ کامران خان نے کہا کہ یہ عمران خان اور پاکستان کی سیاست کے لئے بہت سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ آئین کی شق 62میں اس طرح کسی بھی سیاسی قائد کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے، عمران خان اس سے پہلے اس معاملے پر خاموش ہی رہے ہیں، باضابطہ طور پرانہوں نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے کہ ٹیرین جیڈ نام کی بیٹی جو پیدا ہوئی تھی وہ ان کے اس تعلقات کے نتیجے میں جو کہ بنا نکاح تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں باضابطہ طور پر ان کی سابق دوست سیتا وائٹ جن کا پورا نام اینا لوزا وائٹ ہے، ایک باضابطہ بیان بھی دے چکی ہیں۔ اب سیتا وائٹ اس دنیا میں نہیں ہیں، 2004ء میں ان کا انتقال ہوچکا ہے لیکن سیتا وائٹ اپنی زندگی میں مسلسل عدالتی کوشش کرتی رہیں اور جدوجہد کے نتیجے میں انہوں نے امریکا کی ایک عدالت سے یہ حکم حاصل کرلیا تھا کہ ان کی بیٹی کے والد عمران خان ہی ہیں اور اس سلسلے میں ان کاایک بہت باضابطہ بیان تھا جو اب بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ کامران خان نے بتایا کہ 1959ء میں امریکا میں پیدا ہونے والی سیتا وائٹ کے والد لارڈ بیرن وائٹ معروف بزنس مین تھے، ان کی 1985ء میں عمران خان سے برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں دوستی ہوئی تھی اور 1992ء میں ایک بچی پیدا ہوئی تھی جس کا نام ٹائرین جیڈ رکھا گیا تھا۔ 1995ء میں لاس اینجلس کی کورٹ میں دعویٰ دائر کیا گیا کہ ان کی بچی کے والد عمران خان ہیں۔ 1997ء میں لاس اینجیلس کورٹ نے فیصلہ دیا کہ عمران خان ہی ان کی بچی کے والد ہیں، اس کے بعد 15مئی 2004ء کو سیتا وائٹ کا انتقال ہوگیا۔ کامران خان نے مزید کہا کہ اس کے بعد کئی مواقع پر اس بچی کی تصاویر سامنے آئیں اور اس میں وہ تصویر بہت اہم تھی جو عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کے ساتھ نظر آئیں جس میں جمائما خان نے اقرار کیا کہ دراصل یہ عمران خان ہی کی بیٹی ہیں اور جس کے ساتھ ان کی یہ تصاویر منظرعام پر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بہت اہم دستاویز وہی عدالتی فیصلہ ہے جس کا ذکر بارہا ہورہا ہے،یہ عدالتی فیصلہ سپریئر کورٹ آف دی اسٹیٹ آف کیلیفورنیا نے 13اگست 1997ء کو دیا تھاکہ عمران خان ہی دراصل اس بچی کے والد ہیں ۔اسی وجہ سے اب یہ کہا جارہا ہے کہ قانونی طور پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ دراصل عمران خان ہی اس بچی کے والد ہیں۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مغربی اخبارات اور میڈیا میں بھی بہت تفصیل سے خبریں شائع ہوچکی ہیں اور ایک بہت اہم صفحہ اول کی خبر لندن کے اخبار نیوز آف دی ورلڈ میں شائع ہوئی تھی جس میں تفصیل سے اس پورے اسکینڈل کو سامنے لایا گیا تھا، نیوز آف دی ورلڈ کی تحقیقاتی رپورٹ کے ذریعے پہلی بار عمران خان کی بیٹی کی تصویر سامنے لائی گئی تھی۔ کامران خان نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں اس معاملے کو بہت اچھالا گیا ہے، یہ پہلی بار نہیں ہے، اس سے پہلے 1997ء میں بھی اس معاملے کو پاکستان مسلم لیگ ن نے اچھالا تھا اور کئی دعوے جاری کیے تھے ۔ لیکن پاکستان کے میڈیا میں اس بات کو بھرپور انداز میں اس وقت سامنے لایا گیا جب عمران خان متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خلاف لندن میں تحریک چلارہے تھے اور برطانوی حکومت پر دبائو ڈال رہے تھے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اسی دوران ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں عمران خان کے ساتھ پیش ہوئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے یہ سنسنی خیز انکشاف پاکستانی ناظرین کے سامنے کیا تھا۔ یہ پہلی بار تھا جب پاکستان کی مین اسٹریم ٹیلی ویژن اسکرین پر یہ اسکینڈل سامنے لایا گیا تھا۔اس کے کئی سال بعد 2007ء میں پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ایک بار پھر اس بات کو سامنے لایا گیا اور چوہدری نثار علی خان نے باضابطہ طور پر عمران خان کے حوالے سے اس سلسلے میں مزید معلومات دی تھیں۔ عمران خان نے اس حوالے سے کبھی کوئی تفصیلی تصدیق یا تردید جاری نہیں کی ہے، مختلف ٹیلی ویژن انٹرویوز میں جب ان سے اس بار ے میں سوالات کئے گئے ہیں تو ان کا مختلف جواب انہوں نے دیا ہے۔ کامران خان نے کہا کہ یقینی طور پر اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا کہ انسان کی ہمیشہ اصلاح ہوسکتی ہے، وہ توبہ کرسکتا ہے، وہ نئی زندگی شروع کرسکتا ہے اور اسلام خاص طور پر اس قسم کی صورتحال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور عمران خان کے جواب سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ شاید ان کے ماضی کا باب ہے جس کو وہ زیادہ اچھالنا نہیں چاہتے یا اس پر بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
2010 سے ٹیکس دے رہا ہے نواز شریف۔ وہ بھی چوہدری شوگر ملز کے ڈائریکٹر کی حثیت سے۔ اس سے پہلے وہ بیچارہ ملک سے باہر جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ 2008 میں واپس آیا تو دوبارہ سے دکانداری چمکاتے دو سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔ اب جلا وطنی سے پہلے کیوں ٹیکس نہیں دیتا تھا۔ یہ مت پوچھیے گا۔ کچھ باتیں ان کہی رہنے دو۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا بیرونِ ملک کے کاروبار اور جائیداد پر بھی یہ اسی طرح ٹیکس بچاتے ہیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
وہاں تو یہ لائسنس بھی قطار میں لگ کر بنواتے ہیں۔
آپ چونکہ "سیانے بیانے" بندے ہیں، یہ تو بتائیے کہ جب افتخار چوہدری چیف جسٹس تھے، کیا انہیں عمران خان کی بیٹی کے بارے کوئی خبر نہیں تھی؟ اچانک ہی انہیں یہ کیسے یاد آ گیا کہ عمران خان کی ایک بیٹی بھی ہے جسے عمران خان کو نا اہل قرار دینے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اتنے "نیک نیت" بندے کی ایسی حرکت اور وہ بھی اس وقت اس بندے کے خلاف جس کی وجہ سے اس کے بیٹے کو اتنے پُرکشش عہدے کو چھوڑنا پڑا ہو، عجیب نہیں لگتی؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ چونکہ "سیانے بیانے" بندے ہیں، یہ تو بتائیے کہ جب افتخار چوہدری چیف جسٹس تھے، کیا انہیں عمران خان کی بیٹی کے بارے کوئی خبر نہیں تھی؟ اچانک ہی انہیں یہ کیسے یاد آ گیا کہ عمران خان کی ایک بیٹی بھی ہے جسے عمران خان کو نا اہل قرار دینے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اتنے "نیک نیت" بندے کی ایسی حرکت اور وہ بھی اس وقت اس بندے کے خلاف جس کی وجہ سے اس کے بیٹے کو اتنے پُرکشش عہدے کو چھوڑنا پڑا ہو، عجیب نہیں لگتی؟
سر جی۔۔۔ بات تو مختصر سی ہے کہ اپنا مقصد ہو تو پی سی او سے حلف بھی لے لو۔ مشکل آئے تو لانگ مارچ کروا دو۔ اگر بیٹا کسی پوسٹ پر رہے تو ٹھیک بلکہ بلے بلے۔۔ ورنہ پھر زنجیر عدل ہلا دو۔
فیض کے اشعار دیکھیں۔ کیسے عکاس ہیں۔
سرِ دربار پُرستش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالہ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہئے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہئے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہئے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ
 
آپ چونکہ "سیانے بیانے" بندے ہیں، یہ تو بتائیے کہ جب افتخار چوہدری چیف جسٹس تھے، کیا انہیں عمران خان کی بیٹی کے بارے کوئی خبر نہیں تھی؟ اچانک ہی انہیں یہ کیسے یاد آ گیا کہ عمران خان کی ایک بیٹی بھی ہے جسے عمران خان کو نا اہل قرار دینے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اتنے "نیک نیت" بندے کی ایسی حرکت اور وہ بھی اس وقت اس بندے کے خلاف جس کی وجہ سے اس کے بیٹے کو اتنے پُرکشش عہدے کو چھوڑنا پڑا ہو، عجیب نہیں لگتی؟
یہ کیس ارسلان کا جوابی وار ہے ، اس جھوٹے پراپیگنڈا کے خلاف جو عمران نے افتخار چودھری کے خلاف شروع کر رکھا ہے دھاندلی کے الزامات کی صورت میں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ کیس ارسلان کا جوابی وار ہے ، اس جھوٹے پراپیگنڈا کے خلاف جو عمران نے افتخار چودھری کے خلاف شروع کر رکھا ہے دھاندلی کے الزامات کی صورت میں۔
بے شک آپ کی بات درست ہے کہ عمران خان بھی پلے بوائے ہے لیکن افتخار چوہدری کو اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ اس بارے باپ بیٹا، دونوں ہی ایک ہی "پیج" پر کھڑے ہیں۔ دونوں کی شہرت میں جو فرق ہے، وہ بھی واضح ہے کہ ڈاکٹر ارسلان افتخار کس وجہ سے مشہور ہے اور افتخار چوہدری کس وجہ سے :)
 
بے شک آپ کی بات درست ہے کہ عمران خان بھی پلے بوائے ہے لیکن افتخار چوہدری کو اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ اس بارے باپ بیٹا، دونوں ہی ایک ہی "پیج" پر کھڑے ہیں۔ دونوں کی شہرت میں جو فرق ہے، وہ بھی واضح ہے کہ ڈاکٹر ارسلان افتخار کس وجہ سے مشہور ہے اور افتخار چوہدری کس وجہ سے :)
ایک وضاحت: عمران کی پلے بوائے شہرت تو ہے لیکن میں ذاتی طور اس پر بغیر شرعی ثبوت کے "زانی" کا الزام لگا کر بہتان کی سزا میں نہیں پھنسنا چاہتا۔
یہ دونوں کی لڑائی ہے آپس میں ان کو آپس میں ہی رہنا دیا جائے تو بہتر ہے۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک وضاحت: عمران کی پلے بوائے شہرت تو ہے لیکن میں ذاتی طور اس پر بغیر شرعی ثبوت کے "زانی" کا الزام لگا کر بہتان کی سزا میں نہیں پھنسنا چاہتا۔
یہ دونوں کی لڑائی ہے آپس میں ان کو آپس میں ہی رہنا دیا جائے تو بہتر ہے۔ :)
متفق، اگرچہ ذاتی لڑائی عموماً ذاتی مفادات کے لئے ہی ہوتی ہے :)
 
متفق، اگرچہ ذاتی لڑائی عموماً ذاتی مفادات کے لئے ہی ہوتی ہے :)
دیکھا جائے تو اس بچگانہ لڑائی کا آغاز عمران نے کیا اور غالباً نادیدہ قوتوں کے اشارے پر :)
عمران تو لگتا ہے شروع میں جمہوری طریقے سے خیبر صوبے میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا دل جیتنے کا زہن بنا چکا تھا ۔ شاید کسی کے اشارے نے اسے اس چکر میں پھنسا دیا :)
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھا جائے تو اس بچگانہ لڑائی کا آغاز عمران نے کیا اور غالباً نادیدہ قوتوں کے اشارے پر :)
عمران تو لگتا ہے شروع میں جمہوری طریقے سے خیبر صوبے میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا دل جیتنے کا زہن بنا چکا تھا ۔ شاید کسی کے اشارے نے اسے اس چکر میں پھنسا دیا :)
عمران خان کی بات کو سنجیدگی سے لینا تو فضول ہی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں جب آپ دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں تو دوسرا آپ کو نشانہ بناتا ہے اور ساری ناگفتنی سامنے آ جاتی ہے
 
عمران خان کی بات کو سنجیدگی سے لینا تو فضول ہی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں جب آپ دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں تو دوسرا آپ کو نشانہ بناتا ہے اور ساری ناگفتنی سامنے آ جاتی ہے
جو بھی ہیں دونوں حضرات نے اچھے کام بھی کئے ہیں۔
 
یہی افتخار چوہدری تھا اور یہی کیس (آرٹیکل 62،63) لیکر ڈاکٹر طاہر القادری اسکی عدالت میں گئے تھے اور معاملہ کسی ایک شخصیت کا نہیں بلکہ سب پر ان شقوں کے نفاذ کا تھا، سب نے دیکھا کہ کس طرح انصاف کے اس نام نہاد علمبردار جج نے تین دن تک پیٹیشن نہیں سنی اور غیر متعلقہ غیر آئینی موشگافیاں کرکے ڈاکٹر صاحب کو غیرملکی شہری کہہ کر تمام سمندر پار پاکستانیوں کی توہین و تضحیک کی اور پیٹیشن کو خارج کردیا۔۔۔۔آج اسی کا بیٹا یہی کیس لیکر اپنی ذاتی دشمنی میں صرف ایک شخص (عمران)کے خلاف ان شقوں کی دہائی دے رہا ہے اور یہی نام نہاد چیپ جسٹس اسکا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔۔۔۔شیم شیم شیم۔۔۔چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئیے ان بد دیانتوں کو۔۔۔
 

ساجد

محفلین
ایک ہوتا ہے کتا جو صرف ایک ہڈی کے حصول کے لئے کوشش کرتا رہتا ہے جب اسے ہڈی مل جائے تو وہ صبر سے بیٹھ جاتا ہے اور کتے کی ایک نسل ایسی بھی ہے جو انسانوں کی ہڈیاں تڑوا کر ان سے خون نچوڑ کر بھی مطمئن نہیں ہوتی اول الذکر کتا چار ٹانگوں والا ہوتا ہے جو قسائی کے پھٹے تلے بیٹھتا ہے اور آخیرالذکر "دولتی" نسل عام طور پر کوچہ سیاست اور اسمبلی ہالوں میں پائی جاتی ہے ۔
 
کچھ نالائق شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں اور اس چکر میں لوگوں کی نظر میں کتے ہوجاتے ہیں یعنی کوئلوں کی دلالی میں منہ بھی کالا اور ہاتھ بھی
 
کچھ دیر پہلے معروف قانون دان محترم ایس ایم ظفر صاحب ان کیسوں پر رائے دے رہے تھے۔
شیشے کے گھروں میں رہنے والے ایک دوسرے کو پتھر مار رہے ہیں۔ کچھ دن ٹی وی، سوشل میڈیا اور عوام کو محظوظ ہونے کا موقع ملے گا اور کیس طوالت اختیار کرتے فائلوں میں دب جائیں گے۔
 
Lenay-k-denay-par-jaen-gay-By-Nazeer-Naji.jpg
 
Top