عمران کے الزامات ، افتخار چودھری کا عدالت سے رجوع کا فیصلہ

http://www.express.com.pk/images/NP_LHE/20140707/Sub_Images/1102306148-1.gif
1102306148-1.gif
 
چیف جسٹس پر جھوٹے الزامات کے حوالے سے ایک کیس تو عدالت میں غلط بیانی کا بھی بنتا ہے۔ جب عمران نے پہلی بار انتخابات میں عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہا اور عدلیہ نے توہین عدالت کا کیس شروع کیا تو عمران نے کہا کہ میں نے تو صرف ریٹرنگ آفیسرز کو کہا تھا اعلی عدلیہ کو نہیں۔ لیکن اب عمران تواتر سے افتخار چودھری کو دھاندلی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ یعنی عدالت میں پہلے جھوٹ بولا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
چیف جسٹس پر جھوٹے الزامات کے حوالے سے ایک کیس تو عدالت میں غلط بیانی کا بھی بنتا ہے۔ جب عمران نے پہلی بار انتخابات میں عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہا اور عدلیہ نے توہین عدالت کا کیس شروع کیا تو عمران نے کہا کہ میں نے تو صرف ریٹرنگ آفیسرز کو کہا تھا اعلی عدلیہ کو نہیں۔ لیکن اب عمران تواتر سے افتخار چودھری کو دھاندلی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ یعنی عدالت میں پہلے جھوٹ بولا تھا۔
آپ کا ہی فقرہ کاپی کروں گا :)
جوشِ خطابت :p
 

قیصرانی

لائبریرین
معذرت ، میں آپ کی بات سمجھا نہیں
اس بنیاد پر تو شریف برادران کو بھی عدالت لایا جا سکتا ہے کہ انتخابی جلسوں میں کئے گئے دعووں کو جوشِ خطابت کہا جا رہا ہے، جبکہ سیدھے الفاظ میں وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ یہی بنیاد شاید پاکستان کے تمام تر سیاست دانوں کو جھوٹا اور نا اہل قرار دے سکتی ہے :)
 
اس بنیاد پر تو شریف برادران کو بھی عدالت لایا جا سکتا ہے کہ انتخابی جلسوں میں کئے گئے دعووں کو جوشِ خطابت کہا جا رہا ہے، جبکہ سیدھے الفاظ میں وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ یہی بنیاد شاید پاکستان کے تمام تر سیاست دانوں کو جھوٹا اور نا اہل قرار دے سکتی ہے :)
انتخابی وعدے کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا عدالت میں، یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنا عوامی بھلائی کا منصوبہ بتا رہا ہے۔ اور منصوبے کو جھوٹ نہیں کہ سکتے ہاں اس پر بدنیتی کا اطلاق کا سکتا ہے کہ اس نے صرف عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بتایا حقیقتاً اس کی ایسی نیت نہیں تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
انتخابی وعدے کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا عدالت میں، یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنا عوامی بھلائی کا منصوبہ بتا رہا ہے۔ اور منصوبے کو جھوٹ نہیں کہ سکتے ہاں اس پر بدنیتی کا اطلاق کا سکتا ہے کہ اس نے صرف عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بتایا حقیقتاً اس کی ایسی نیت نہیں تھی۔
حد ہوتی ہے خوش گمانی کی :bighug:
دیکھتے ہیں کہ باقی کے چار سال میں کون سی دودھ کی نہریں بہتی ہیں :)
 
حد ہوتی ہے خوش گمانی کی :bighug:
دیکھتے ہیں کہ باقی کے چار سال میں کون سی دودھ کی نہریں بہتی ہیں :)
دودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں البتہ اس دفعہ حکمرانوں کا انداز مجھے نواز کے پہلے دور حکومت جیسا لگ رہا ہے۔ جب معیشت کو سنبھالا گیا تھا اس دفعہ بھی معیشت کافی حد تک سنبھلی لگتی ہے لیکن ابھی تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں ملے۔ اللہ کرے ثمرات بھی عوام کو ملیں تب ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اور نواز کی حکومت مستحکم ہونگی :)
 

قیصرانی

لائبریرین
دودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں البتہ اس دفعہ حکمرانوں کا انداز مجھے نواز کے پہلے دور حکومت جیسا لگ رہا ہے۔ جب معیشت کو سنبھالا گیا تھا اس دفعہ بھی معیشت کافی حد تک سنبھلی لگتی ہے لیکن ابھی تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں ملے۔ اللہ کرے ثمرات بھی عوام کو ملیں تب ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اور نواز کی حکومت مستحکم ہونگی :)
یعنی سارا زور نواز کی حکومت مستحکم کرنے پر ہے :)
ویسے مجھے زہر لگتا ہے جب نواز شریف کے بھائی، بیٹی، بھتیجے، داماد وغیرہ بغیر کسی سرکاری عہدے کے سرکاری اجلاسوں کی سربراہی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس بنیاد پر تو شریف برادران کو بھی عدالت لایا جا سکتا ہے کہ انتخابی جلسوں میں کئے گئے دعووں کو جوشِ خطابت کہا جا رہا ہے، جبکہ سیدھے الفاظ میں وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ یہی بنیاد شاید پاکستان کے تمام تر سیاست دانوں کو جھوٹا اور نا اہل قرار دے سکتی ہے :)
کوئی دوسرا کرے تو پھر ایسا ہوتا۔۔۔ اب تو بات حضرت گنجوی شاہی محلے والے کی ہے۔ :)

انتخابی وعدے کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا عدالت میں، یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنا عوامی بھلائی کا منصوبہ بتا رہا ہے۔ اور منصوبے کو جھوٹ نہیں کہ سکتے ہاں اس پر بدنیتی کا اطلاق کا سکتا ہے کہ اس نے صرف عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بتایا حقیقتاً اس کی ایسی نیت نہیں تھی۔
کسی دور میں آپ جیسے جیالے پی پی کے پاس ہوتے تھے۔ لیکن اب نون لیگ کے پاس ہیں۔ :)
 
یعنی سارا زور نواز کی حکومت مستحکم کرنے پر ہے :)
ویسے مجھے زہر لگتا ہے جب نواز شریف کے بھائی، بیٹی، بھتیجے، داماد وغیرہ بغیر کسی سرکاری عہدے کے سرکاری اجلاسوں کی سربراہی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ :)
برا تو مجھے بھی لگتا ہے ظاہر ہے یہ طریقے اداروں اور جمہوریت کو مستحکم کرنے والے تو نہیں۔ میں نے خواجہ سعد رفیق کے ایک کوارڈینیٹر سے کہا تھا کہ ن لیگ کو ادارے کی طرح کیوں نہیں چلایا جاتا ؟ تو اس کے جواب کا خلاصہ تھا کہ یہ ہمارا سیاسی کلچر نہیں البتہ اس رویے کا شکوہ اسے بھی تھا :)
میرا سارا زور نواز حکومت کو مستحکم کرنے پر نہیں ۔ جمہوریت (بمعنی عوامی حکومت) کو مستحکم کرنے پر ہے۔
نواز حکومت مستحکم ہونے کی بات میں نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہی ہے۔ یعنی اگر جمہوریت مستحکم ہوگی تب ہی آپ کی حکومت مستحکم ہوگی :)
 
کوئی دوسرا کرے تو پھر ایسا ہوتا۔۔۔ اب تو بات حضرت گنجوی شاہی محلے والے کی ہے۔ :)


کسی دور میں آپ جیسے جیالے پی پی کے پاس ہوتے تھے۔ لیکن اب نون لیگ کے پاس ہیں۔ :)
یہ کیا فضول بات کی ہے آپ نے۔ :)
اگر آپ کو میری بات قانونی طور پر درست نہیں لگتی تو کسی قانون دان یا وکیل وغیرہ سے پوچھ لیں، وہ جو بتائے میں بھی ماننے کو تیار ہوں۔
 
ارسلان افتخار کا عمران خان کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ
227921_62113014.jpg

ارسلان افتخار کا عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ۔ اہم دستاویزات بیرون ملک سے بھی منگوائی جائیں گی۔
اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے صاحبزادے ارسلان افتخار نے عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کیلئے قانونی ماہرین سے مشاورت مکمل کر لی ہے اور عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ارسلان افتخار الیکشن کمیشن میں عمران خان کی دستاویزات کے حصول کیلئے درخواست دیں گے۔ دستاویزات عمران خان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیلئے حاصل کی جاری ہیں۔ عمران خان کے خلاف اہم مصدقہ دستاویزات بیرون ملک سے بھی منگوائی جا رہی ہیں۔ یہ تمام دستاویزات عمران خان کے خلاف ریفرنس میں استعمال کی جائیں گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں البتہ اس دفعہ حکمرانوں کا انداز مجھے نواز کے پہلے دور حکومت جیسا لگ رہا ہے۔ جب معیشت کو سنبھالا گیا تھا اس دفعہ بھی معیشت کافی حد تک سنبھلی لگتی ہے لیکن ابھی تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں ملے۔ اللہ کرے ثمرات بھی عوام کو ملیں تب ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اور نواز کی حکومت مستحکم ہونگی
قرضوں کی معیشت میں واقعی عوام کو ثمرات نہیں ملتے۔ ٹرکل ڈاون ایک بہلاوا ہے ۔
1-
معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں میں جکڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور قرضے پہ قرضہ لے کر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو رہن رکھ رہے ہیں جبکہ قرضے لے کر ریزرو بڑھانے اور مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر میں اضافہ کرنے سے ملکی معیشت کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔

2-
وفاقی حکومت پر مجموعی قرضوں کی مالیت جی ڈی پی کے 63.3فیصد کے برابر ہے، اس طرح موجودہ حکومت بھی فسکل رسپانسبلیٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے۔
اس ایکٹ کے مطابق حکومت کو مجموعی عوامی قرضوں کو جون 2013تک جی ڈی پی کے 60فیصد کے برابر لانے کا پابند بنایا گیا تھا جبکہ 2013کے بعد مجموعی عوامی قرضوں میں ہر سال جی ڈی پی کے 2.5فیصد کے برابر کمی لانے کی پابندی عائد کی گئی تھی تاہم اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق دسمبر 2013تک مجموعی قرضے ایکٹ کی مقرر کردہ حد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 63.3فیصد رہے۔


3-
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ، ڈاکٹر شاہدکار دار اور محمد یعقوب (سابق گورنر سٹیٹ بینک) برسوں سے فریادکر رہے ہیں کہ ہم قرض لیں نہ نوٹ چھاپیں تاکہ افراط زرکے موذی مرض کے شکار نہ ہوں۔
گزشتہ مہینے سٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ موجودہ حکومت نے ایک ماہ میں بیسیوں ارب روپے قرض لیا جبکہ اس کا ہدف صرف دس ارب روپے قرض لینے کا تھا۔ برطانوی اخباروں نے تو صرف سٹیٹ بینک کی رپورٹ کا حوالہ دینے پر اکتفا کیا، یہ کام ان کا نہیں کہ وہ پاکستانیوں کو یہ بھی یاد کرائیں کہ حکو مت جو قرض لیتی ہے اُس پرسُود ( اسلامی شریعت میں حرام ) بھی ادا کرنا ہوتاہے ۔ کتنا سُود؟ اس کی کب اورکیسے ادائیگی ہوگی ؟ غالباً مزید قرض لے کر!
یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ قرض لی گئی رقم کن منصوبوں پر خرچ ہوگی۔


4-
ڈاکٹر حفیظ اے پاشا (ماہرِ اقتصادیات، سابق مشیر خزانہ)
حکومت کی توجہ اسٹرکچرل اصلاحات کے بجائے قرضوں کے حصول پر ہے۔ حکومت نے آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران باون ارب ڈالر قرض لینے کے معاہدے کر کے آنے والی نسلوں کو گروی رکھ دیا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن (ماہر معیشت)
وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ وہاں سے اتنی رقم آئے گی، وہاں سے اتنی رقم آئے گی، تو یہ سب تو قرض ہی ہے نا، یہ قرض تو اور بڑھے گا، بے شک فارن ریزرو بہتر ہوجائیں گے، لیکن یہ ہے تو قرض ہی نا۔


5-
پاکستانی حکومتوں کی طرف سے قرضوں کے یہ پہاڑ قانونی اعتبار سے بھی قابل اعتراض ہیں، کیوں کہ 2006 ء کے فسکل ریسپانسیبلٹی اینڈ ڈیبٹ لیمیٹیشن ایکٹ (FRDL) میں یہ طے کردیا گیا تھا کہ داخلی یا خارجی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد سے تجاوز نہیں کرے گا، لیکن روزِ اول ہی سے پاکستان کی حکومتیں اس قانون کی خلاف ورزی کرتی چلی آرہی ہیں۔

6-

حکومت نے قومی اقتصادی سروے برائے 14-2013 جاری کردیا جس کے مطابق ملک میں مہنگائی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا
 
Top