علی پور کا ایلی (96 - 125)

ماوراء

محفلین
:786:



سی دوڑنے لگیں۔

اس روز ایلی دیر تک آئینے کے سامنے کھڑا رہا۔ لیکن وہاں ایک بھدے کالے اور بھونڈے لڑکے کے سوا کچھ نہ تھا پھر اس نے باہر جا کر صابن سے منہ دھویا شاید وہ پہلا دن تھا۔ جب اس نے اس شدت سے محسوس کیا تھا کہ وہ بد صورت ہے۔

اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ فرید ایسی نگاہوں سے کیوں دیکھتا تھا۔ نہ جانے وہ ایسی آنکھیں کیونکر بنا لیا کرتا تھا اور پھر اس کا “ایلی“ کہہ کر خاموش ہو جانا۔ جیسے اس کی آواز حلق میں خشک ہو گئی ہو۔ لیکن اس کے اپنے جسم پر چیونٹیاں سی کیوں رینگنے لگتی تھیں۔وہ چیونٹیاں گدگدی کیوں کرتی تھیں۔ جس سے دل میں کچھ کچھ ہوتا تھا۔ عجیب سا احساس تھا وہ، ان جانے میں ایلی کو فرید سے ڈر لگنا شروع ہو گیا اور اس نے فرید کے گھر کی طرف جانا چھوڑ دیا۔ لیکن کیوں۔ وہ یہ نہ جان سکا۔ اس کے باوجود جب کبھی وہ کپڑے بدلتا یا نیا جوڑا پہنتا۔ تو اسے کوئی نہ کوئی ضروری کام پڑ جاتا اور مجبوراً اسے گلی میں اس سمت کو جانا پڑتا۔ جہاں فرید کا گھر تھا۔ جاتے ہوئے اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔ ہر آہٹ پر اس کے دل پر عجیب سا دباؤ محسوس ہوتا۔ جیسے کسی نے اسے پکڑ لیا ہو۔ “ایلی“ اسے خوا مخواہ آوازیں سنائی دیتیں اور پھر جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگتیں۔ گلی میں فرید نہ ملتا تو وہ اطمینان کا سانس لیتا لیکن دل میں دبی دبی سی خلش کانٹے کی طرح لگی رہتی اور بالاخر مایوس ہو کر گھنشام کے گھر کی طرف چل پڑتا۔ شاید گھنشام بازار میں کھڑا ہو۔ اس کی نگاہ تلے گھنشام آ کھڑا ہوتا۔ جس کے پاس ہی فرید کھڑا ہنس رہا ہوتا فرید اور گھنشام۔ اب اس کے ذہن میں لازم و ملزوم ہوئے جا رہے تھے۔ روز بروز بے تاب ہوا جا رہا تھا۔ بات بات پر اس کا دل دھڑکتا ایک اضطراب چاروں طرف دے اس پر یورش کر دیتا اور اس اضطراب کے تعاقب میں وہ آوارہ پھرتا۔ گلی میں میدان میں بازاروں میں اور گھر میں بھی وہ مختصر سا گھر دفعتاً اس قدر وسیع کیوں ہو گیا تھا اور علی احمد کا کمرہ روز بروز سکڑ کر چھوٹا کیوں ہوتا چلا جا رہا تھا۔ خود علی احمد بھی تو اب اس کی نگاہوں میں اتنے عظیم نہ رہے تھے۔ اب وہ انہیں اور ان کے کمرے کو آسانی سے نظر انداز کر سکتا تھا۔


کشمیر کا سیب


ان دنوں علی احمد مضطرب رہنے لگے تھے۔ لکھتے لکھتے وہ قلم رکھ کر باہر آ جاتے اور کسی ٹوٹی ہوئی چارپائی پر ہاتھوں میں سر تھام کر لیٹ جاتے۔ دیر تک چپ چاپ لیٹے حقہ پیتے رہتے پھر دفعتاً جوش میں اٹھ بیٹھتے اور کسی نہ کسی بہانے کشمیر کی بات شروع کر دیتے۔ “اجی کیا بات ہے کشمیر کی۔ اللہ تعالٰی نے زمین پر جنت کا نمونہ اتار رکھا ہے۔ رہنے کا مزہ ہے تو کشمیر میں۔“ وہ کسی کو مخاطب کئے بغیر کہتے “ سرو قد درخت ٹھنڈی نہریں پھل بے اندازہ۔ پھل کھاؤ، چشموں کا ٹھنڈا پانی پیو،
 

ماوراء

محفلین
اجی وہاں کے رہنے والے حسین نہیں ہوں گے تو کون ہو گا۔“ یہ محسوس کر کے کہ ان کی بات کوئی نہیں سن رہا علی احمد کبھی نہ گھبراتے تھے۔ “ جنہوں نے صبح شام سیب کھائے ہوں ان کی شکل سیب سی نہ ہو گی تو پھر کیسی ہو گی۔ سیدھی بات ہے کیوں رفیقاں جو سیب کھا کر پلے گا وہ بڑا ہو کر سیب بن جائے گا۔ ہی ہی ہی۔ کیا کہتی ہے۔“ اندر باورچی خانے میں رفیقاں چپ چاپ بیٹھی مسکراتی۔“ کیا بات ہے کشمیر کی۔ واہ واہ کسی شاعر نے کہا ہے۔


اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است وہمیں است وہمیں است​


ایلی یہاں آؤ۔ ادھر تمھیں اس شعر کا مطلب آتا ہے کیا؟ “ وہ شعر پھر سے دہراتے اور ایلی کی خاموشی پر کہتے “ آؤ تمھیں اس کا مطلب سمجھائیں لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ کشمیر ہے کہاں۔۔۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے یہ بتاؤ کہ وہاں گرمی کیوں نہیں پڑتی اور وہاں چشمے کیوں پھوٹتے ہیں۔ شاباس ٹھیک پہاڑ تو ہے لیکن پہاڑ پر رہنے والے۔ رفیقاں تم جانتی ہو پہاڑ پر رہنے والوں کے چہرے سیب کی طرح کیوں ہوتے ہیں۔ ایلی کی ماں تم نے دیکھا ہے کسی کو جو برسوں کشمیر میں رہا ہو۔ سبحان اللہ کیا رنگ روپ ہوتا ہے۔ میمیں بیچاری کیا مقابلہ کریں گی۔ انگریز تو بدصورت ہوتے ہیں۔ ان کے منہ پر تو نحوست برستی ہے۔ لیکن کشمیر والے۔ واہ واہ سبحان اللہ۔“

گھر میں کسی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ علی احمد بام آباد کے ویرانے میں بیٹھے بیٹھے دفعتاً کشمیر کیسے جا پہنچے۔ ہاجرہ نے یہ عالم دیکھا تو ایک دن چپکے سے رفیقاں کے کان میں بولی۔ “کوئی بات ہے ضرور کوئی بات ہے میں جھوٹ نہیں کہتی۔ میری بات یاد رکھو۔ اگر بات نہ نکلی تو میرا ذمہ اور بات نکلنے میں دیر بھی نہیں لگے گی ہاں۔ میں تو تیور پہچانتی ہوں ان کے۔
رفیقاں ہونٹ پر انگلی رکھ کر حیرانی سے ہاجرہ کی طرف دیکھتی “اچھا۔ لو میں بیچاری کیا جانوں۔“
بڑی بیچاری تو دیکھو۔ ایلی گھورتا۔
 

ماوراء

محفلین
پھر دفعتاً ننھا بیمار پڑ گیا اور سب کی توجہ ننھے کی طرف مبذول ہو گئی۔ ہاجرہ رفیقاں اور فرحت ہاجرہ کے پاس بیٹھی رہتیں۔ ایلی کو دن میں دو تین بار ڈسپنسری جانا پڑتا۔ وہ نرس تک پہنچ تو جاتا لیکن اس سے براہ راست بات کرنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا۔ کئی بار وہ بات کرنے کے لئے فرید کو ساتھ لے جاتا اور نرس فرید کی طرف دیکھے بغیر جھینپتی۔

نرس کی آمد پر علی احمد قمیض پہن لیتے اور ننھے کی چارپائی کے قریب آ کھڑے ہوتے۔ “ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ نرس سے اپنی بات شروع کر دیتے۔

نرس کے جانے کے بعد علی احمد ان سب کو تسلی دیتے۔
“گھبراؤ نہیں ٹھیک ہو جائے گا۔ بالکل ٹھیک ہو جائے گا سیب کھلاؤ اسے سیب۔۔۔۔۔ لیکن سیب کشمیر کا ہو۔ کلو کا نہ ہو۔ ایلی بھاگ کر ایک سیب لے آؤ۔ وہ دو آنے جیب سے نکال کر کہتے۔ بس سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایلی کی ماں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ مگر ایلی کلو کا نہ لانا تھوڑا سا رس نکال کر بچے کو دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں نا انگریز۔ این ایپل اے ڈے۔کیپس دی ڈاکٹر اوے‘ کیا سمجھے ایلی۔ اچھا تم آؤ گے تو تمھیں سمجھا دیں گے۔“

رفیقاں آتی تو علی احمد اسے روک لیتے “رفیقاں ٹھہر تو سہی۔ تو تو بام آباد کا سکندر اعظم معلوم ہوتی ہے۔ آندھی کی طرح آتی ہے، بگولے کی طرح چلی جاتی ہے۔ اس طرح بھاگنےدوڑنے سے فائدہ اور پھر بام آباد میں یہ کوئی جگہ ہے کیا بالکل فضول بے کار، یہاں تو اچھا خاصا آدمی بیمار پڑ جاتا ہے۔ اب دیکھو اندر ننھا بیمار پڑا ہے۔ میری اپنی صحت تباہ ہو چکی ہے۔ تم بھی تو زرد پڑ رہی ہوں۔ کیوں“ رفیقاں آنکھیں جھکائے مسکرائے جاتی۔ اچھا تو سکندر اعظم اب کی گرمیوں میں ہم تمھیں کشمیر لے چلیں گے۔ تم بھی اور ننھا بھی وہاں جا کر یوں سرخ ہو جاؤ گے۔ جیسے جیسے۔۔۔۔۔۔“
کور کی آمد پر وہ قہقہہ مار کر صحن سے اٹھ بیٹھتے “ آئیے مہاراج لو بھئی یہ راجپوتانے کے شدح سا ہنسی بھی آ گئی۔ تم چاہے جا کر ساری عمر کشمیر رہو کچھ فرق پڑے گا۔“ اور کور یہ بات سن کر پنکھے کی رسی کی چابک بنا لیتی اور اسے گھمانے لگتی۔ علی احمد ہنسنے لگتے۔

ادھر کور اور علی احمد کے درمیان ہنگامہ شروع ہوتا ادھر ساتھ والے کمرے میں ننھے کی حالت بد سے بد تر ہوئی جاتی۔ ننھے پر ہاجرہ کا سر جھکا ہوتا۔ گالوں پر آنسو رواں ہوتے اور چارپائی کے پاس رفیقاں چپ چاپ کھڑی ہوتی۔ اس پر ایلی نرس کو بلانے کے لیے بھاگتا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 99

نرس کو گھر آتا دیکھ کر ٹین کا سپاہی چونکتا اور اپنی رزم گاہ کو چھوڑ کر نکل آتا پھر دفعتاً یہ محسوس کر کے کہ اس نے قمیض نہیں پہنی ہوئی علی احمد لپک کر اندر داخل ہوتے اور قمیض پہن کر نرس کے روبرو آ کھڑے ہوتے۔

“ کیوں کیا بات ہے؟“ وہ کہتے “ خیریت تو ہے کیا بچے کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی ہے کہ آپ تشریف لائی ہیں۔ آپ کے آنے پر ہر شخص کا دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ نرس۔“ وہ مسکراتے۔
دفعتاً انہیں خیال آتا۔ کہتے “اگر آپ برا نہ مانیں نرس تو پوچھوں کیا آپ کشمیر کی رہنے والی ہیں۔ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“

ان کی باتیں سن کر ہاجرہ اندر ننھے کو گود میں لئے بیٹھی آنسو بہائے جاتی اور رفیقاں اسے سمجھاتی تسلی دیتی۔ ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ہاجرہ روتی کیوں تھی۔ وہ کیاں توقع کرتی تھی کہ علی احمد اس کے بچے میں دلچسپی لیں۔

دلچسپی تو وہ لیتے تھے۔ اکثر آ کر دیکھتے بھی “گھبراؤ نہیں۔“ مسکرا کر کہتے “ٹھیک ہو جائے گا۔ گرمیوں میں اسے کشمیر لے چلیں گے۔“ لیکن ہاجرہ چاہتی تھی کہ نوکرانی کے بچے کی بیماری کی وجہ سے آقا اپنی زندگی حرام کر لیں۔ نرس سے باتیں نہ کریں۔ کور سے کشتی نہ لڑیں۔ یہ سوچ کر ایلی کو آقا پر نہیں بلکہ نوکرانی پر غصہ آتا تھا۔

پھر ایک روز علی احمد کو ایک ضروری خط موصول ہوا۔ خط پڑھتے ہی وہ اٹھ بیٹھے اور جلدی سے تیاری کرنے لگے۔ پھر وہ ہاجرہ کے کمرے کے دروازہ پر آ کھڑے ہوئے۔ ہاجرہ اور سب عورتیں بچے کے اوپر جھکی ہوئی تھیں۔

“کیا حال ہے؟“ وہ بولے۔ “ واہ تم تو ویسے ہی گھبرا جاتی ہو فضول۔ آخر بیماری جاتے جاتے ہی جائے گی۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں بچے بیمار ہوا ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اچھا تو میں دو دن کے لیے سرکاری کام پر جا رہا ہوں۔ گھبرانا نہیں دو روز کے بعد آ جاؤں گا ہاں ہاں ۔۔۔۔ ایلی، ایلی یہ لو۔ “ انہوں نے چند پیسے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے “خرچ کر لینا۔ اچھا بھائی میں جاتا ہوں۔“

ننھے کی حالت خراب ہوتی چلی جا رہی تھی۔ سانس اکھڑ رہا تھا۔ منہ سوج رہا تھا۔ ہاجرہ کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ رفیقاں کے ہونٹوں پر وہی مبہم سی شرارت آمیز ہنسی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 100

فرحت چپ چاپ بیٹھی ابا کو جاتے ہوئے حیرانی سے دیکھ رہی تھی اور علی احمد بڑے اطمینان سے انہیں الوادع کہتے ہوئے تسلی دے رہے تھے “ کوئی بات نہیں میں جلد آ جاؤں گا سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

آٹھ دن کے بعد علی احمد لوٹے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی چلاّنے لگے۔ “ ایلی کی ماں تمھیں مبارک ہو۔ اب تم تنہا نہ رہو گی۔ تمھارا ایک ساتھی گھر میں آ جائے گا۔

“ہائیں تم اس قدر خاموش کیوں ہو۔“ انہوں نے گھر پر چھائی ہوئی خاموشی کو محسوس کر کے کہا اور پھر جیسے یک دم کچھ یاد آ جانے پر پر بولے۔
“ہاں ننھے کا کیا حال ہے؟“
ہاجرہ کے منہ سے ایک دبی ہوئی چیخ سن کر وہ گھبرا گئے۔
“ اوہ۔ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں مجھے تار دے دیا ہوتا کوئی آدمی بھیج دیا ہوتا۔ تت تت تت۔ کتنا پیارا بچہ تھا۔ بے حد افسوس ہے۔“ انہو نے آہ بھری۔ “مگر اللہ کے کاموں میں کس کو دخل ہو سکتا ہے۔ صبر کے سوا چارہ نہیں اس طرح رونے سے کیا ہوتا ہے۔ رونا دھونا بے کار بے کار ہے۔ بالکل بیمار قسمت میں یونہی لکھا تھا۔ “قسمت! ہاجرہ نے ماتھے پر زور سے ہاتھ مارا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

اس شام علی احمد صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے “وہ اپنی استانی شام کوٹ کی ہے نا۔ تم جانتی ہو نا۔ نہیں جانتی۔ ہاں ایلی جانتا ہے‘ کیوں ایلی جب تم میرے ساتھ دورے پر گئے تھے اور اس نے تمھیں مٹھائی کھلائی تھی یاد ہے نا۔ اس کی لڑکی ہے۔ سولہ سال کی عمر ہو گی۔ کشمیر میں پرورش پائی ہے۔ رنگ انار سا ہے۔ آخر کیوں نہ ہو۔ جس نے اناج کی جگہ پھلوں میں پرورش پائی ہو۔ اس کا رنگ انار سا کیوں نہ ہو گا۔ ساری بات طے ہو گئی ہے۔ تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔ میں نے سوچا تھا۔ ایلی کی ماں اتنے بڑے گھر میں اکیلی رہتی ہے۔ کوئی تو ساتھی ہونا چاہیے۔ لو بس اب تیار ہو جاؤ۔ ایلی کی ماں۔ ہم سب علی پور جا رہے ہیں۔ ایلی کی دادی نے بلایا ہے۔ سارا انتظام تمھیں کرنا ہو گا ایلی کی ماں۔ تمھارے سوا گھر میں اور کون ہے۔ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔
ہاجرہ کی آنکھیں بالکل ہی پتھرا گئیں۔ رفیقاں مسکرانے لگی اور ایلی علی پور جانے کی خوش میں ناچنے لگا۔ ایلی کو بھائی کی موت پر چنداں غم نہ ہوا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اچھا ہی ہوا کہ نوکرانی کے گناہ کا نشام مٹ گیا۔ اب اسے کوئی یاد دلانے والا نہ تھا کہ وہ آسا ہے۔

علی پور جانے کی خبر سن کر ایلی کی توجہ اپنے ساتھیوں کی طرف مبذول ہو گئی اور وہ یوں بہل گیا جیسے کوئی بچہ کھلونا ملنے پر بہل جاتا ہے۔ نویں جماعت کا امتحان ختم ہو چکا تھا۔ اس لئے علی پور جانے کی خبر اس کے لئے بے حد خوش کن تھی۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 101

شہ بالا


علی پور پہنچتے ہی محلے والوں نے ایلی پر سوالوں کی بوچھاڑ کر ڈالی۔
“کیوں ایلی کیا بات کی شادی پر آئے ہو۔ کیا کہتا ہے“
“ایلی شہ بالا بنے گا اپنے ابا کا ہے نا“۔۔۔۔۔۔۔“ کیوں میاں تمھاری نظر میں بھی کوئی کشمیر کا سیب ہے۔ ابھی سے چناؤ کر لو میاں پھر پچھتاؤ گے۔“
“اے ہے ایلی بیٹے سے مذاق کیوں کرتے ہو۔ وہ کیوں بنے شہ بالا کسی کا۔ اس کے تو دولہا بننے کے دن آ رہے ہیں۔ بھئی اسے دق نہ کرو۔“
“کیوں بھئی اماں کو ڈولی میں بٹھا کر کب لائے گا۔ ایلی۔“
ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا جواب دے۔ ویسے وہ کوشش تو کرتا تھا کہ کوئی چمکیلی بات کرے لیکن نہ جانے کیوں اسے اس بات پر شرم محسوس ہونے لگتی اور اس کی آواز گلے میں خشک ہو کر رہ جاتی۔ اس پر عورتیں اسے چھیڑتیں۔
“لے لڑکے کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔“
“اے ہے اس کے گلے میں تو آواز خشک ہو گئی۔“
“نہ بیٹے ایلی برا نہ مان۔ اس کا کیا علی احمد تو ہے ہی ایسا۔“
“عورتوں کے بغیر اس کا وقت کٹنا مشکل ہے۔ مگر بیٹا چاہے کوئی آئے کوئی جائے گھر کا مالک تو ہی ہے۔ اور گھر کی مالکہ تیری ماں ہاجرہ۔“
“ان آنے جانے والیوں کو کون پوچھتا ہے ماں۔“
ادھر علی احمد کے گرد لوگوں نے حلقہ باندھ رکھا تھا۔ “کیوں علی احمد نہ رہ سکا تو نئی شادی کئے بغیر شرم نہیں آتی علی احمد۔ یہ کیا تیرے دولہا بننے کا وقت ہے۔ گھر بیٹی جوان ہو چکی ہے۔ لڑکا دسویں پاس کر چکا ہے۔“ “علی احمد کوئی کشمیر کا سیب ہمیں بھی لا دو۔“
 

ماوراء

محفلین
لیکن علی احمد کے حلق میں آواز خشک نہ ہوتی تھی نہ ان کا چہرہ زرد پڑتا اور نہ ہی ان کی زبان لڑکھڑاتی اور وہ سب کو کوئی جواب دے کر خاموش کر دیتے۔ داروغہ سے کہتے بھائی داروغہ کشمیر کے سیب لانے کی چیزیں نہیں۔ بھئی وہ تو ڈال سے توڑ کر کھانے کی چیز ہے۔ ہمت ہے تو بڑھاؤ۔“

جانوں مائی سے کہتے “لو مائی اللہ نہ کرے میں کیوں رہوں شادی کے بغیر مرد ہوں میں مرد اور وہ بھی تیرا بیٹا۔“
پھر جیواں آ کر چلاّتی۔ علی احمد تیرے تع بال سفید ہو گئے۔“
“ہاں ماں“۔ وہ جواب دیتے “دل سفید نہیں ہوا۔ ابھی ایمان کی روشنی سے منور ہے اور اللہ رسول کی سنت کا لحاظ ہے۔“
“اے ہے۔ علی احمد۔“ جیواں ہنس کر دو ہتڑ مارتی “ تو تو بھانڈ ہی رہے گا۔ ساری عمر۔“ اور علی احمد ہنستے اور جیواں چلاّتی اور ان کا گھر قہقہوں سے گونجنے لگتا۔ اس وقت ایلی کو علی احمد سے عقیدت سی محسوس ہونے لگی۔ ان کی باتیں سن کر وہ ان کے تمام قصور بخش دیتا۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی علی احمد کی طرح باتیں کر سکے لیکن بات کرتے وقت اس کی زبان اٹک جاتی تھی۔ گلہ بیٹھ جاتا۔ دل کو کچھ کچھ ہونے لگتا تھا اور اس کا جی چاہتا تھا کہ بھاگ جائے دور جہاں کوئی نہ ہو۔ کوئی نہ ہو۔

علی پور پہنچ کر پہلے تو ہاجرہ بہت روئی تھی رو رو کر اس نے برا حال کر لیا۔ وہ ننھے کی باتیں کرتے ہوئے آنسو بہاتی رہتی۔ “اور پھر ایسا سمجھدار اور متحمل مزاج۔ رونا تو جانتا ہی نہ تھا وہ ہائے اتنی تکیلف وہ بیماری لگی اسے کہ توبہ پے۔ زہر باد کوئی معمولی بیماری نہیں بہن۔ لیکن اس بچہ نے اف تک نہ کی۔ رویا ہی نہیں۔ بس حیران نگاہوں سے چاروں طرف دیکھتا رہا کہ میں کہاں آ گیا جہاں میری کسی کو قدر نہیں۔ جہاں کسی کو میرے دکھ کی خبر نہیں۔“

ہاجرہ کے آنسو سر نو ٹپکنے لگتے اور وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو جاتی۔ “بیماری میں بھی اس کا مسکرانا نہ گیا۔ یوں مسکرانا نہ گیا۔ یوں مسکراتا۔ جیسے سیانے لوگ مسکراتے ہیں۔ میں روتی تھی اور وہ مسکراتا تھا۔ بیماری نے اسے ذرا بھی مہلت نہ دی۔“ ہاجرہ وہ رو رو کر بچے کی باتیں کرتی رہتی اور پلو سے آنسو پونچھتی رہتی۔

ہاجرہ بار بار علی احمد کے بے حسی کا قصہ بیان کرتی رہی۔ “ انہیں اپنے شغل سے کام۔ کوئی مرے یا جئے ان کی بلا سے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ نمبر 103

انہیں تو کشمیری سیب کا عشق لگا تھا۔ کہتے تھے۔ کشمیری پھلوں پر پلی ہے۔ دسویں پاس ہے۔ انگریزی فرفر بولتی ہے۔ اچھا ہے بہن ہم بھی اس سے اٹھنا بیٹھنا۔ چلنا پھرنا۔ بات کرنا سیکھیں گے۔ مجھے تو خوشی ہے بہن کہ گھر میں میم آئے گی۔ سچ کہتی ہوں۔ میرا خدا شاہد ہے۔ بہن مجھے کلمے کی قسم مجھے کوئی دکھ نہیں۔ بس یہی دکھ ہے۔ کہ ننھا تڑپ تڑپ کر مر رہا تھا اور میاں کو کشمیری سیب کی دھن لگی تھی۔ دو پیسے کی دوا تک نہ منگوائی۔ نرس دیکھنے آتی تھی تو اس سے ٹھٹھے کئے جاتے تھے توبہ ہے۔ گھر میں کوئی دم توڑ رہا ہو اور لوگ اپنی حرص و ہوس میں کھوئے ہوئے ہوں۔ کیا زمانہ آیا ہے۔ مجھے سوکن کا دکھ تو نہیں۔ اس ننھے پھول سے بچے کا دکھ ہے۔“ اور وہ از سر نو رونےلگتی۔ اس وقت ایلی کو محسوس ہوتا کہ ہاجرہ بچے کا نام لے کر نی جانے کس دکھ کی وجہ سے رو رہی ہے۔ سوکن کا دکھ نہ تھا تو وہ اتنی قسمیں کیوں کھاتی تھی۔ کلمہ کیوں پڑھتی تھی۔

پہلے تو ہاجرہ ننھے کے لئے روتی رہی اور علی احمد کی بے وفائی کا گلہ کر کے آنسو بہاتی رہی پھر دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ لوگ یہ نہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ سوکن کی آمد کی وجہ سے رو رہی ہے اور بیٹے کے بہانے اپنے لٹے ہوئے سہاگ پر آنسو بہا رہی ہے۔ ہاجرہ سب کچھ برداشت کر سکتی تھی۔

یہ نہیں کہ لوگ اس کی قوت برداشت کا مذاق اڑائیں۔ اس پر خاوند پسندی کا جرم عائد کریں۔ اس لئے وہ خاموش ہو گئی اور اٹھ کر علی احمد کے بیاہ کی تیاری میں لگ گئی اور یوں شوق سے انتظامات کرنے لگی، جیسے خاوند کی بجائے اس کے بیٹے کی شادی ہو رہی تھی۔ انتظامات پر وہ بات بات پر اعتراض کرتی “نہیں نہیں یہ تو کچھ بھی نہیں۔ میں دولہن کو یہ پہننے نہ دوں گی۔ دولہن کیا کہے گی۔ سسرال والے کیا سمجھیں گے۔ اور یہ زیور تو اب پرانا ہو گیا ہے۔ دولہن کے لئے نئی طرز کی چیز ہونی چاہیے۔“

اماں کے اس انہماک اور شوق کو دیکھ کر ایلی حیران ہوتا تھا۔ لوگ حیران ہوتے تھے اور حیرانی کا اظہار بھی کرتے تھے۔ “ہاجرہ تم کیوں جان مار رہی ہو۔ لو خواہ مخواہ۔ چھوڑو کرنے دو آپ ہی اسے۔ تمھیں کیا پڑی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے انسان کو۔“

یہ سن کر ہاجرہ کی آنکھ میں چمک سی لہراتی۔ “اے ہے بہن اس میں کیا ہے۔ سوکن آئی ہے تو بے شک آئے۔ اپنے اپنے نصیب ہیں۔ جو اللہ نے نصیب میں لکھ دیا بسم اللہ۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ نمبر 104

اس پر لوگ اس کی طرف عجیب نگاہوں سے دیکھتے۔ حیرانی شکوک میں بدل جاتی اور وہ سوچتے ضرور اس میں کوئی بھید ہے۔ ایلی بھی ان شکوک کو شدت سے محسوس کرتا اور اسے ماں پر غصّہ آتا لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتا لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ غصہ کیوں محسوس کر رہا ہے اور اس کے اپنے دل میں شکوک کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس گھر کی تمام تر باتیں ہی عجیب تھیں۔ صرف ایک دادی اماں تھیں جو گھر کی الجھنوں سے دور بیٹھ کر مسکراتی رہتی تھیں۔

ایلی کو صرف دادی اماں پر بھروسہ تھا جو کسی بات میں دخل نہ دیتی تھی اور کھری کھری سنا دیتی تھی۔ “ علی احمد رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔“ اس نے علی احمد کی شادی کے متعلق صف یہی ایک جملہ کہا تھا اور پھر خاموش ہو کر جائے نماز پر جا بیٹھی۔

گھر کے باقی تمام لوگ عجیب تھے۔ ابا اپنی دھن میں کھوئے ہوئے تھے۔ اماں یوں مکّے کی حاجن بنی ہوئی تھیں۔ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہو۔ صرف دو پروں کی کسر تھی اور سیدہ۔ کیسی چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی۔ جیسے منہ میں زبان نہ ہو۔ مسکراتی بھی تو ہونٹوں کے کونوں سے کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔

گھر کی ان الجھنوں سے اکتا کر ایلی باہر نکل جاتا اور محلے کے لڑکوں کو بلا کر سب کچھ بھول جاتا یا تو وہ ارجمند کے چوبارے میں جا کر کھڑکی کی درز سے ہکوراڈ کورا دیکھتا رہتا یا محلے کے کنوئیں کے پاس کھڑے ہو کر انکراینڈی ماباؤں کو آزماتا یا جمیل کے ساتھ جا کر تنگ گلی میں پیڑے کھاتا یا رضا کی دوکان پر بیٹھ کر اس کی اناپ شناب باتوں پر ہنستا یا بالا کے ہاں جا کر گراموفون سنتا اور یا محلے کے سب لڑکوں کو اکھٹا کر کے میدان میں گیند بیٹ کھیلنے میں مصروف ہو جاتا۔ ان مصروفیتوں میں دن بیت جاتا اور شام پڑ جاتی اور پھر دادی اماں کی آواز محلے میں گونجتی۔ “ایلی اب تو آئے گا کہ نہیں سارا دن لنڈوروں کی طرح پھرتا ہے۔ آ اب رات ہو گئی۔ ایلی۔“ پھر وہ چپکے سے دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھتا اور دادی اماں اسے دیکھ کر غصّے سے چیختی اور وہ بے خوف آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر چڑھ جاتا اور وہ ہنس پڑتی اور پھر وہ دونوں ایک چارپائی پر سو جاتے اور دادی اماں اسے تھپکتی۔ “سو جا اب لنڈور کہیں کا۔“ اس وقت ابا لیمپ کی روشنی میں مہاجنوں کی طرح حساب ملانے میں مصروف ہوتے۔ دو اور تین پانچ، آٹھ۔ تیرہ یہ ہوئے دو سو تیرہ اور ہاجرہ چیزیں دیکھتے ہوئے بڑبڑاتی “لو یہ قمیض کا کپڑا تو بالکل بے کار ہے۔ دولہن کیا کہے گی۔“ اور علی احمد چلاتے “تو تو پاگل ہو گئی ہے۔ اٹھارہ روپے گز کا ہے۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ دو سو تیرہ اور چھ سو چھبیس یہ ہوئے کل۔۔۔۔۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 105

دلہن


دولہن کی آمد پر محلے میں ایک شور مچ گیا۔ چاروں طرف سے عورتوں نے علی احمد کے گھر کی طرف یورش کر دی۔
“ آؤ بہن دولہن کو دیکھ آئیں،“
“ دولہن آ گئی کیا؟“
“ابھی آئی ہے ابھی۔“
“ہائے میرا ڈوپٹہ کہاں ہے؟“
“کہتے ہیں کشمیر میں پلی ہے؟“
“سنا ہے وہ تو انگریزی فرفر بولتی ہے۔“ اور وہ دوپٹے سنبھال کر علی احمد کے گھر کی طرف چل پڑتیں۔
دولہن کی آمد کی خبر سن کر ایلی نے جھرجھری لی۔ اس کے بدن میں بجلی سی دوڑ گئی اور وہ چپ چاپ کھڑے کا کھڑا رہ گیا نہ جانے کیوں وہ گھر جانے سے ڈرتا تھا۔
“اے ہے تو یہاں کھڑا ہے۔ ایلی۔“ وہ اسے سہما ہوا کھڑا دیکھ کر بولیں۔“ اور تمھارے گھر میں اللہ کے فضل سے نئی دولہن آئی ہے۔“
دوسری بولی بہن اللی کے فضل سے کیوں کہو۔ یوں کہو کہ علی احمد کے شوق کی وجہ سے۔“
پہلی بولی: “اب جو آگئی ہے تو اس پر اللہ کا فضل ہو۔ خوشیاں دیکھے۔“
ایلی حیرانی سے اس کی باتیں سنتا تھا۔ عجیب باتیں تھیں ان کی۔ وہ علی احمد پر غصے سے بل کھاتیں اور ساتھ ہی ان کی رنگیں مزاجی کی وجہ سے ان کی جانب کھنچی جاتیں۔ ہاجرہ سے ہمدردی کا اظہار کرتیں اور ساتھ ہی اسے مورد الزام بھی سمجھتیں۔ کتنی عجیب بات تھی۔

دولہن کو دیکھنے سارا محّلہ علی احمد کے گھر اکھٹا ہو رہا تھا مگر ایلی محسوس کرتا تھا جیسے اسے گھر نہیں جانا چاہیے۔ اس میں گھر جانے کی ہمت نہ پڑتی تھی، لیکن اسے گھر جانا ہی پڑا اور وہ چپکے سے ایک کونے میں جا کھڑا ہوا۔ بڑے کمرے میں عورتوں کے ہجوم کے درمیان پلنگ پر ایک سرخ رنگ کی گٹھڑی سی لپٹی پڑی تھی دو حنا مالیدہ ہاتھ لٹک رہے تھے۔ کتنی رنگدار مہندی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 106

نہ جانے مونگیا قمیض کی وجہ سے وہ اور بھی سرخ دکھائی دے رہی تھ یا شاید اس لئے کہ ہاتھ بہت سفید تھے۔ ایلی نے نفرت بھری جھری جھری محسوس کی اور منہ موڑ لیا۔
ادھر عورتوں نے اسے دیکھ کر شور مچایا “ایلی یہاں آ۔ اپنی امی کو سلام کر آ کر۔“
“سلام جی۔“ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور پھر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
اے ہے لڑکا سلام کہتا ہے۔ اسے پیار تو کر لے دولہن۔“
“اللہ رکھے تیرا بیٹا ہے۔“
“پلا پلایا بیٹا مل گیا تجھے یہ بھی کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔“
مونگیا چادر تلے سے حنائی ہاتھ ایلی کی طرف بڑھا۔ اس نے سر جھکا دیا اور منہ موڑ کر سانس بند کر کے کھڑا ہو گیا تاکہ اسے حنا کا رنگ دکھائی نہ دے۔ بو نہ آئے۔ سر تھپکنے کے بعد وہ حنائی ہاتھ اس کے منہ پر آ ٹکا۔ مہندی کی بو کا ایک طوفان امڈ آیا۔ اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ڈور گئے۔ نہ جانے اس بو میں کیا تھا۔ ایلی کے جسم کا بند بند ٹوٹنے لگتا تھا۔ تار تار بجنے لگتا۔ گھبرا کر اس نے اپنا آپ چھڑا لیا اور صحن کی طرف بھاگا۔
“شرماتا ہے۔“ ماں جیواں چلائی۔ “بڑا شرمیلا لڑکا ہے۔“
دوسری بولی “ایسا اچھا بیٹھا ملا ہے تجھے۔“
ایلی کی دادی اماں کے تخت تک پہنچ چکا تھا۔ اس کا دل مالش کر رہا تھا۔ سر گھوم رہا تھا اندر وہ سب ہنس رہی تھیں۔
“دیکھ آیا اماں کو۔“ دادی اماں نے کہا “بیٹھ جا۔“ دیر تک وہ خاموش بیٹھے رہے۔
“میں نے تیرے لئے کچھ رکھا ہوا ہے۔ وہاں مٹی کی ہنڈیا میں۔“ دادی اماں اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
دوسرے کمرے میں علی احمد مضطربانہ طور پر ٹہل رہے تھے، بار بار وہ باہر نکلتے “مائی جیواں تجھ پر تو پھر سے جوانی آ رہی ہے۔ ہلدی کا برتن کھاتی ہے کیا؟“
“شرم کر علی احمد۔“ مائی جیواں ہنستی۔ “شرم کر“ لیکن اس کے انداز سے ظاہر ہوتا جیسے وہ اس کی بے شرمی پر بے حد مسرور ہو۔
چاچی حاجاں چلاتی “لے آ گیا تیرا کشمیر کا سیب۔ تجھے مبارک ہو علی احمد۔“
“کیوں چاچی؟“ وہ جواب میں پوچھتے “خسارے کا سودا تو نہیں کیا ہم نے۔“
 

ماوراء

محفلین
وہ مسکرا کر کہتی “علی احمد پہلے تو ہمیشہ مٹی پر گرا کرتا تھا۔ اب کی بار تو جیت گیا ہے۔“
“پسند ہے تمھیں چاچی؟“
“اچھی ہے۔ اپنی لڑکیوں کی طرح ہی ہے۔ بیچاری، ناک نقشہ برا نہیں رنگ سفید ہے۔
آنکھیں کالی تو ہیں پر ذرا کھلی کھلی ہیں۔ بہرحال ناک نقشہ برا نہیں۔“
“تیرے ناک نقشے کی طرح ہے کیا۔“ علی احمد نے مسکرا کر پوچھا۔
“چل دفعہ ہو منہ کالا۔“
“کیوں چاچی میں کیا بات کہتا ہوں۔“ چاچی ہنسے جا رہی تھی۔
کھانے سے فارغ ہو کر ایلی پھر دولہن کے کمرے میں جا داخل ہوا اور چوری چوری اسے دیکھنے لگا۔ سفید جسم سے چارپائی بھری ہوئی تھی۔ اسے سفید رنگ بہت پیارا لگتا تھا اور ان جانے میں وہ بھرے جسم کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ عورتیں ایک ایک کر کے چلی گئیں۔ پھر وہ دولہن کے پاس جا بیٹھا۔ دفعتاً دوپٹے میں حرکت ہوئی اور ایک بڑا سا سفید منہ ننگا ہو گیا اور وہ چوری چوری اس کی طرف دیکھنے لگا۔

“ہائیں۔“ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کی امیدوں کے عالی شان محل کو پاؤں کی ٹھوکر سے چور چور کر دیا ہو۔ دولہن کی آنکھوں میں فرق تھا اور اس کا چہرہ خالی ورق کی طرح سراسر کورا تھا، ایلی نے محسوس کیا جیسے اسے دھوکا دیا گیا ہو۔ جیسے اس کی توقعات کو ٹھکرایا گیا ہو اسے جان بوجھ کر غلط فہمی میں مبتلا رکھنے سے علی احمد کا کوئی خاص مقصد ہو گا۔غصے سے اس کی کنپٹیاں بجنے لگتیں اور وہ بھاگا۔ دور دولہن سے دور اس جیتے جاگتے دھوکے سے دور باہر صحن میں پہنچ کر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ کئی دن تو اس صدمہ کی وجہ سے وہ سخت اداس رہا پھر اس نے اپنے آپ کو محلے کی زندگی میں کھو دیا تاکہ گھر کے واقعات کو دل سے بھلا کر اپنی خوشی کو محفوظ کر سکے۔


نماز کمیٹی


اس زمانے میں علی پور میں خلافت تحریک کے تحت نماز کمیٹیوں کا دور دورہ تھا۔ مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بڑا جوش تھا ہر محلے میں نماز کمیٹیاں قائم ہو رہی تھیں۔ نوجوان لڑکے علی الصبح منہ اندھیرے جاگ پڑتے اور سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے ایک دوسرے کو جگاتے۔ پھر جلوس کی شکل میں شہر کا چکر لگاتے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 108

محلے محلے پھرتے اور گاگا کر لوگوں کو جگاتے۔ نماز پڑھنے کی تلقین کرتے۔ لڑکوں کو نماز پڑھنے سے اس قدر دلچسپی نہ تھی۔ البتہ اکھٹے ہو کر گاتے ہوئے جگہ جگہ جانا۔ مجاہدانہ انداز سے گھومنا اور مجاہدانہ شان سے للکار للکار کر گانا یا غازی مصطفٰے پاشا کمال کی شان میں قصیدے پڑھنا اور امان اللہ خان کے گن گانا اور علی برادران کو سراہنا۔۔۔۔۔ ایلی کو یہ شغل بے حد پسند آیا۔
کیوں نہ پسند آتا محلے کے جوان اس بات میں شان امتیاز سمجھتے تھے۔ جب وہ باہر نکلتے تو ان کا انداز عجیب ہوتا جیسے ہیرو ہوں۔ جیسے مصطفٰے پاشا کا گیت گانے والے خود مصطفٰے کمال ہوں۔ جنہوں نے زمانے کی نگاہوں سے بچنے کے لیے بھیس بدل رکھا ہو۔ اس شغل میں سبھی شریک ہوتے تھے۔ رفیق، اعظم، غلام علی، ضیاء اور صفدر لیکن صفدر اور غلام علی کی حیثیت صرف منتظمان کی سی تھی۔ وہ صبح جاگتے لال نینوں کا انتظام کرتے۔ انہیں جلاتے پھر نعتوں کی کاپیاں نکال کر گیتوں کی دھنیں قائم کرتے اور بالاخر چھوٹے لڑکوں کو گانے کا کام سونپ کر خود سگریٹ سلگا کر جلوس کے ساتھ چل پڑتے۔

بڑے لڑکوں میں صرف اعظم تھا جو انتظامات کرنے کے علاوہ گانے میں بھی پیش پیش ہوتا تھا۔ ایلی اعظم کو دیکھ کر فخر سے پھولے نہ سماتا۔ اس کالے، گانے کا انداز، گردن اٹھا کر چلنے کی عادت اور گاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے کا انداز ایلی کو بے حد جاذب معلوم ہوتے تھے۔ اس کے گلے میں یا کندھوں پر ایک شان بے نیازی سے رومال پڑا ہوتا تھا۔ جس پر کمبل بڑی شان سے لٹکتا اور پھر گاتے ہوئے اس کی گردن کا زاویہ کس قدر خوب صورت معلوم ہوتا تھا۔ ایلی کا جی چاہتا کہ وہ بھی اعظم کی طرح بے نیازی سے چلے اور شان استغنٰی سے گائے اور اس کا کمبل بھی ویسے ہی لٹکے۔ لیکن سردی کی وجہ سے وہ کمبل میں ٹھٹھرتا ہوا چلتا اور گاتے ہوئے اس کی گردن پھول جاتی اور آواز چیختی اور کنپٹیاں درد کرنے لگتیں۔ ایلی کی آواز تو بہت بلند تھی لیکن اس کے گانے میں مٹھاس نہ تھی۔ عام طور پر وہ آواز بہت اونچی نکالتا اور ابتدا ہی میں ایسی سر قائم کر لیتا جسے نبھانا مشکل ہو جاتا۔ پھر وہ سب اصرار کر کے اسے گانے والوں کے گروپ کا سردار بنا دیتے۔ یہ بہت بڑا امتیاز تھا۔ اسی امتیاز کی وجہ سے وہ بہت سویرے جاگ اٹھتا اور باہر نکل جاتا کہ نماز کمیٹی کے لئے لیٹ نہ ہو جائے۔

علی پور میں جب وہ جلوس کی صورت میں چلتے تو بند کھڑکیاں کھل جاتیں۔ چھتوں سے خمار آلود چہرے جھانکتے، منڈیروں سے انگڑائی لیتے ہوئے بازو دکھائی دیتے، بڑے لڑکے سگریٹ کا کش لے لے کر کھڑکیوں منذیروں اور چقوں کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتے اور ساتھ ہی ٹولی کو ہدایات دیتے رہتے۔ دریچوں سے مہین آوازیں سنائی دیتیں۔ “ آ کر دیکھو تو نماز کمیٹی والے ہیں۔ دیکھ تو۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 109

مسجد کے زیر سایہ


دوپہر کے وقت وہ ارجمند کے یہاں چلا جاتا اور وہ دونوں “ انکراینڈی ماباؤں“ کے تمام سامان سے لیس ہو کر کنوئیں کے قریب جا کھڑے ہوتے اور ہر آتی جاتی لڑکی پر انکراینڈی چلاتے۔ ارجمند ریشیں رومال لہراتا۔ اس کے ہونٹ بانسری پر رکھے ہوتے لیکن بانسری بجانے کی بجائے وہ کچھ اور ہی ظاہر کرتے اور وہ دبی زبان سے کہتا “اف! غضب ہے۔ قیامت ہے۔ اب لڑکپن چھوڑ دے شباب آنے کو ہے۔“

ان دونوں کو وہاں کھڑا دیکھ کر کنوئیں کے پاس والے مکان سے برتن بجنے کی آوازیں آنا شروع ہو جاتیں پھر کوئی قہقہہ مار کر ہنستی اور با آواز بلند کسی کو پکارتی “ عائشاں آئے گی بھی یا نہیں۔ ہی ہی ہی ہی۔“ اس کے قہقے سن کر ایلی کو علی احمد کا کمرہ یاد آ جاتا اور وہ سوچنے لگتا “ کیا ہر مکان میں علی احمد کا کمرہ ہوتا ہے‘ کیا ہر بند دروازے کے پیچھے ٹین کے سپاہی چھپے ہوتے ہیں۔“

پھر دفعتاً ٹاٹ کا پردہ ہلتا اور ایک بھرے جسم کی لڑکی سامنے آ کھڑی ہوتی۔ ارجمند کا رومال ہلتا بانسری منتیں کرتی۔ آنکھیں چمک چمک کر دیکھتیں۔ بازو بغل گیر ہونے کے اشارہ کرتے۔
اس وقت ایلی کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا۔ آنکھیں جھک جاتیں۔ دل دھک دھک کرنے لگتا۔ کوئی آ نکلتا تو وہ اس انداز سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔ جیسے کسی اور کام میں مصروف ہو۔ جیسے اسے ارجمند سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے وہ راہ چلتے چلتے رک گیا ہو۔ اور ٹاٹ کے پردے سے مسکراتی ہوئی نوجوان لڑکی کی موجودگی کا اسے قطعی علم نہ ہو جیسے وہ انکر اینڈی ماباؤں کے عمل سے قطعی ناواقف ہو۔

ادھر ارجمند کا ریشمیں رومال اس کی گردن پر آ گرتا بانسری کا زاویہ بدل اور وہ یوں آسمان کی طرف دیکھنے لگتا۔ جیسے اللہ سے لو لگا کر اس کی حمد و ثناء میں کوئی دھن بجا رہا ہو۔
اس کے باوجود آتے جاتے شکوک بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے اور پھر مسکرا کر آگے نکل جاتے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 110

ان کے جانے کے بعد ٹاٹ کے پردے کی اوٹ سے چھپی ہوئی لڑکی کا بازو یا آنکھ پھر سے باہر نکل آتی اور ارجمند کا رومال پھر سے لہرانے لگتا۔ ایلی کا دل پھر سے دھڑکنے لگتا اور اس کی پیشانی پھر سے پسینے سے بھیگ جاتی۔ اس خطرناک کھیل میں وہ زیادہ دیر مشغول نہ رہ سکتے تھے۔ اس لئے کہ آتے جاتے لوگ انہیں وہاں اس طور پر کھڑے دیکھ کر گھورتے تھے۔ شاید خطرناک ہونے ہی کی وجہ سے یہ کھیل ان کے لئے بے حد دلچسپ تھا۔ حالانکہ ایلی کو کبھی اتنی مہلت نہ ملی تھی کہ وہ ٹاٹ سے جھانکتے ہوئے چہرے کو نظر بھر کر دیکھ سکے وہ صرف یہی جانتا تھا کہ وہ بڑا سا چہرہ سفید سفید ہے اور وہ بانہیں مخلمیں گوشت سے لبالب بھری ہیں اور وہ آنکھیں بے حد کالی اور شوخ ہیں۔


پھر دونوں کنوئیں کو چھوڑ کر پرانی حویلی کے میدان میں آ کھڑے ہوتے۔ اس میدان میں کسی زمانے میں ایک حویلی تھی، جو اب مہندم ہو چکی تھی۔ مشرق کی طرف چند ایک پختہ مکانات تھے۔ شمال کی سمت میں ایک گلی نکل گئی تھی، جس میں دور تک کچے مکانات بنے ہوئے تھے۔ یہ گلی آصفی محلے سے تعلق نہ رکھتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ پرانے زمانے میں آصفیوں کا کام کاج کرنے والے کمیں، یہ گلی انہیں کی تھی اگرچہ اب ان کی مجلسی حیثیت آصفیوں سے کسی صورت کم نہ تھی۔


پرانی حویلی کے میدان کے پرے مشرق میں شیخوں کے چند ایک مکانات تھے۔ کنوئیں کے پاس ایک مکان میں سید آ کر آباد ہو گئے تھے۔ اور اس کے قریب چند کشمیری آ بسے تھے۔ اب آصفی محلہ صرف مغربی حصہ تک محدود تھا۔ وہ پختہ وسیع میدان جسے منڈی کہتے تھے، اس کا مرکزی حصہ تھا۔ آصفی لڑکے عام طور پر اس مرکزی حصے میں کھیلنے سے گھبرایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہاں کھیلنے سے انہیں محلے کی عورتوں کی نگاہوں تلے رہنا پڑتا تھا اور وہ بات بات پر اعتراض کرتیں۔ “اے نالی کا گند اچھالتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آتی۔ سارا دن ناپاک چھینٹے اڑاتے رہتے ہو، چھوڑو اس گندے کھیل کو۔“ گلی میں کھیلنے پر وہ چلاتیں۔ “کسی کا سر پھوڑ کر اطمینان کا سانس لو گے تم یہ کیا شریفوں کا کھیل ہے۔“ منڈی میں انکراینڈی ماباؤں کا کھیل تو بالکل بیکار تھا۔ وہاں تو ریشمی رومال تک لہرایا نہ جا سکتا تھا۔ بانسری بجانا تو الگے چیز تھی۔ اگر وہاں ریشمی رومال لہرایا بھی جا سکتا تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ منڈی کے گرد رہنے والی لڑکیاں کھڑکیوں میں نہیں آ سکتی تھیں۔ یا تو ان میں اس قدر جرات نہ تھی اور یا شاید حس ہی نہ ہو وہ دبے پاؤں چلتیں جیسے پاؤں کی آہٹ ان کی دشمن ہو۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 111

نیچی نگاہوں سے دیکھتیں۔ بند ہونٹوں سے مسکراتیں اور یوں آہستہ بولتیں جیسے وہ لڑکیاں نہیں بلکہ چلتے پھرتے سائے ہوں اور پھر منڈی میں ہر آہٹ پر بوڑھیوں کے کام کھڑے ہو جاتے۔
“کون ہے۔ اے ہے شریفوں کے بیٹے بھی اب بانسریاں بجانے لگے۔ میراثی بن گئے۔ کیا توبہ ہے کیا زمانہ آیا ہے۔“
“ریشمی رومال لہراتے ہوئے شرم نہیں آتی کیا۔“ چاروں طرف سے بوڑھیاں کھڑکیوں میں آ جمع ہوتیں۔“ یہ ذرا دیکھنا ماں برکتے۔ چاچی حاجاں ذرا آؤ تو۔“

سارے محلے میں انکراینڈی ماباؤں کے لئے صرف دو مناسب مقامات تھے ایک تو کنوئیں کے پاس مسجد کے قریب جہاں بڑی ڈیوڑھی تھی اور دوسرے پرانی حویلی کے میدان میں بڑی لالٹین کے نیچے---------


کپ اور کیپ


جب وہ دونوں لالٹین کے نیچے کھڑے ہوتے اور ارجمند بانسری کی سروں کو چھیڑتا تو دفعتاً عصمت اللہ کے مکان کی کھڑکی کی چق کو حرکت ہوتی جسے دیکھ کر ارجمند زیر لب کہتا “وہ مارا دیکھا۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔“ پھر وہ حق کی طرف کر آنکھیں چمکاتا اور ایلی سے مخاطب ہو کر کہتا “دیکھا ادھر بین بجی ادھر سانپ ناچنے لگا۔ اسے کہتے ہیں انکراینڈی ماباؤں۔“

ارجمند کی باتیں سن کر ایلی فخر محسوس کرتا کیونکہ ارجمند کی فتح اس کی اپنی فتح تھی۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سانپ کون ہے۔ کہاں ہے اور اس کے ناچنے کا مطلب کیا ہے۔ چق کی طرف تو وہ بھی دیکھتا تھا۔ مگر اتنی دور سے چق کے پیچھے اسے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا پھر وہ دوسری جانب دیکھنے لگتا شاید سانپ ادھر ناچ رہا ہو۔

اسے یوں کھوئے ہوئے دیکھ کر ارجمند چلاتا “نہیں یار۔ کیپ کیپ سمجھے کیپ کھڑکی میں آ بیٹھی ہے وہ ہلی چق، وہ اب دیکھا۔ اف یار کس غضب کی چیز ہے بس سمجھ لو بالکل تیار ہے۔ ذرا سی کسر ہے ایک آنچ کی اگر ہماری ڈسپنسری یہاں علی پور میں ہوتی اور کیپ کسی روز دوا لینے آ نکلتی تو سب ٹھیک ہو جاتا۔ معاملہ صاف ہو جاتا۔ لیکن اب یہاں ڈسپنسری جو نہیں کیا کیا جائے۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 112

ایلی محسوس کرتا کہ انکراینڈی ماباؤں میں ایک ڈسپنسری کا ہونا اشد ضروری ہوتا ہے۔ لیکن سوچنے پر اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ ڈسپنسری اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتی ہے۔ ڈسپنسریاں تو علی پور میں بھی تھیں۔ جہاں لمبی میزیں بچھی ہوئی تھیں۔ میزوں پر روئی کے پھاہے پڑے ہوتے اور کمپاؤنڈر قینچی لئے کھڑا رہتا۔ پھر بڑی بڑی بوتلیں اور وہ عجیب سی بو جسے سونگھنے سے انسان خواہ مخواہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ بیمار ہے اور وہ ڈاکٹر جس کے ماتھے پر شکنیں پڑی رہتیں۔ ہاتھوں میں ربڑ کی ٹوٹیاں لگتیں۔ جو نہایت خشک آواز میں باتیں کرتا تھا۔ اور مریضوں کی بات یوں بے پروائی سے سنتا تھا۔ جیسے سن ہی رہا ہو۔ ایسی جگہ کے ہونے سے بھلا کیا فائدہ ہو سکتا تھا اور فائدے سے ارجمند کا مطلب کیا تھا۔

“کیپ کیپ۔“ ارجمند کی آواز سن کر ایلی پھر چوکنا اور کھڑکی کی طرف دیکھتا کھڑکی میں ایک زرد رو لڑکی کا چہرہ دیکھ کر اس کا دل دھڑکنے لگتا اور وہ نگاہیں پھیر لیتا پھر ارجمند کا رومال ہلتا اور اس کے بالوں اور گالوں سے مس کرتا ہوا چھاتی پر آ گرتا اور ارجمند اسے یوں گلے لگا لیتا جیسے کوئی جاندار چیز ہو۔ یہ دیکھ کر کیپ مسکراتی اور لوچدار آواز سے پڑوسن کو بلاتی۔ “ سکینہ ‘ سکینہ۔ “

وہ دونوں اسے کیپ کہا کرتے تھے۔ یہ نام ارجمند نے تجویز کیا تھا تاکہ سننے والوں کو معلوم نہ ہو کہ وہ کس کے متعلق باتیں کر رہے ہیں۔ ایلی جب چوگان میں لڑکوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تو ارجمند اس کے پاس آ کر بہانے سے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیتا۔ جس سے ایلی کو معلوم ہو جاتا کہ کیپ کے متعلق کوئی ہے یا کیپ کھڑکی میں کھڑی ہے یا وہ چوگان کی طرف آ رہی ہے یا اس کے سکول سے آنے کا وقت ہو چکا ہے۔

اگر کسی خاص مصروفیت کی وجہ سے ایلی ارجمند کا اشارہ نہ سمجھتا تو ارجمند ٹوپی کے متعلق کوئی بات کر دیتا۔ ایلی ہم نے ایک کیپ خریدی ہے آؤ دکھائیں۔ غضب کی چیز ہے۔ ایسا خوب صورت رنگ ہے کہ تمھیں کیا بتائیں۔ واہ واہ دیکھو اور پھڑک جاؤ۔“

اس پر ایلی کی سمجھ میں آ جاتا کہ کوئی بات ہے اور پھر ایلی کسی بہانے کھیل چھوڑ کر ارجمند کے ساتھ چل پڑتا اور وہ دونوں پرانی حویلی کے میدان جا کھڑے ہوتے اور کیپ کھڑکی میں آ کر سکینہ کو آوازیں دیتی اور با آواز بلند ہنستی یا انگریزی پڑھتی یا ویسے ہی کھڑکی میں کھڑی ہو کر سکینہ سے باتیں کرنے لگتی۔

“کل چھٹی ہے نا۔ پرسوں کا وقت بدل جائے گا۔ پرسوں سے نو بجے لگے گا سکول------------- اور ڈھائی بجے ختم ہو گا۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 113

اس پر ارجمند چلاتا “ نوٹڈ نوٹڈ‘ “ اور پھر زیرِ لب گنگناتا “ڈارلنگ مابدولت تین بجے ڈیوڑھی پر ڈیوٹی دیا کریں گے تاکہ حضور کا باقاعدہ استقبال کیا جائے جو حضور کے شایان شان ہو۔“ اتنے میں کیپ کے گھر سے ایک چھوٹی سی لڑکی مسکراتی ہوئی نکل آتی۔
ارجمند چلاتا “کپ کپ‘ مدھ بھری پیالی۔“
وہ خوامخواہ شرماتی اور مسکاتی اور ان کے پاس سے گزر جاتی۔
“مدھ بھری پیالی۔“ ارجمند با آواز بلند کہتا “ چند سال کے بعد کیا غضب ہو گا۔ کیا قیامت ٹوٹے گی۔ کیا فتنہ بیدار ہو گا۔ اف پیالی پیالہ بن جائے گی۔ پتی پھول بن جائے گی۔ پتی پھول بن جائے گی کلی کھل کر چمن ہو جائے گی کیا سمجھے ایلی۔“

ایلی حیرت سے ارجمند کی طرف دیکھتا۔ ارجمند کی باتیں کس قدر دلفریب تھیں۔ اسے کیسے اچھے فقرے یاد تھے اور وہ اردو کس بے تکلفی سے بولتا تھا۔ “کاش“ ایلی سوچتا “ میں بھی پانی پت جاتا اور وہاں سے خوب صورت زبان سیکھ آتا اور پھر میں بھی ایسے جملے بول سکتا۔“ لیکن ایلی تو سیدھی سادھی بات کرتے ہوئے بھی جھینپ جاتا تھا پاگلوں کی طرح وہ کپ کی طرف دیکھ تو سکتا تھا لیکن بات نہ کر سکتا تھا اور وہ پیالی تھی بھی تو بے حد خوب صورت۔ کس قدر سفید رنگ تھا اور اس پر سرخی جھلکتی تھی۔ ایلی اسے دیکھ کر دم بخود رہ جایا کرتا تھا مگر وہ پیالی بہت ہی چھوٹی تھی اور اس کی سیاہ اور شفاف آنکھیں خوب صورت ہونے کے باوجود ان نگاہوں سے خالی تھیں۔ جو بڑی لڑکیوں کی آنکھوں سے چھلکتی تھیں نہ جانے ان میں کس چیز کی کمی تھی کپ میں مدھ تو بھری تھی اور وہ جھلکتی بھی تھی مگر وہ مدھ اس سے کس قدر مختلف تھی جو کیپ سے چھلکا کرتی تھی۔ حالانکہ کیپ رعنائی اور حسن میں کپ کے مقابلے میں ہیج تھی۔
جب کپ لجائی ہوئی ان کے پاس سے گزرتی تو ارجمند ہنس کے کہتا “جان من کیا دو سال کے بعد ہمیں یاد رکھو گی بھلا نہ دینا خاکسار کو۔“
کپ کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور ایلی کا دل گویا کھل کر پھول بن جاتا۔
ارجمند کہتا “چلو بھئی اب ہکوری ڈکوری کی باری ہے۔ دعا کرو سائز بڑا نہ ہو۔“ پھر وہ ارجمند کے گھر بند کھڑکیوں کی درزوں سے جھانکتے رہتے۔ لیکن عام طور پر ان کا شوق پورا نہ ہوتا اور سامنے کا دالان ویران رہتا۔ اگر کبھی کوئی عورت غسل کرنے آتی بھی تو ایلی کی آنکھیں آپ ہی بند ہو جاتیں اور وہ محسوس کرتا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 114

جیسے وہ جرم کر رہا ہو لیکن اس وقت اس کا دل دحڑکتا نسیں تھرکتیں اور سانس مشکل سے آتا۔ یہ کیفیت تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ پر لذت بھی تھی ایلی کی تمام تر دلچسپی اس کیفیت سے وابستہ تھی۔ اس منظر سے نہیں وہ منظر صرف اس لئے ضروری تھا کہ اس کی موجودگی سے ایلی کو یہ کیفیت حاصل ہوتی تھی۔


نسا نذیراں



ہکوری ڈکوری سے فارغ ہو کر ایلی جمیل کے یہاں چلا جاتا اور وہ دونوں مل کر روپے گنتے جو جمیل نے ماں کی صندوقچی سے چرائے ہوتے ایک دو تین چار---------- پھر وہ مل کر منصوبے بناتے۔ منصوبے بناتے وقت سامنے چوبارے میں ایک لڑکی آ جاتی انہیں دیکھ کر لڑکی کو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ وہ اٹھ بیٹھتی چار ایک قدم چلتی پھر لوٹ آتی پھر کھڑکی میں کھڑی ہو کر انگڑائیاں لیتی پھر سرہانہ اٹھا کر اسے سینے سے لگاتی۔ گود میں بٹھاتی پھر وہ ناچنا شروع کر دیتی۔ ناچ ختم ہونے پر وہ پھر سے انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی۔ از سر نو کھڑکی میں آ جاتی۔ دوپٹہ اتار کر پھینک دیتی۔ بالوں کو لپیٹ لیتی پھر انہیں کھول دیتی۔ پھر ڈوپٹہ اوڑھ لیتی اور از سر نو ناچنے لگتی۔ ایلی نے کئی مرتبہ اسے دیکھا تھا۔ لیکن اس نے جمیل سے بات نہ کی تھی۔ نہ ہی اسے خیال آیا تھا کہ وہاں انکراینڈی ماباؤں کا کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک وہ کھیل تو ارجمند کی موجودگی کا محتاج نہ تھا۔ جمیل کو ایسی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ فی الحال وہ تو ماں کی گٹھڑی میں سے روپے چرانے اور دوستوں کو پیڑے کھلانے کے دلچسپ مشغلے میں کھویا ہوا تھا۔

لیکن ایک روز جمیل نے اس سیماب صفت لڑکی کو دیکھ لیا اور دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ یہ نیا کھیل اسے بہت پسند آیا اور وہ دونوں شدت سے اس جوان لڑکی کی طرف دیکھنے لگے جو دور اپنے چوبارے میں نہ جانے کیا کھیل کھیل رہی تھی۔ کیسا ناچ ناچ رہی تھی۔ پھر اس کا یہ معمول بن گیا اور ایلی کے لئے جمیل کے چوبارے میں انکراینڈی ماباؤں کا ایک نیا باب کھل گیا۔ انکراینڈی کے اس باب میں ایک عجیب و غریب خصوصیت تھی نہ تو اس میں ریشمی رومال ہلانا پڑتا تھا اور نہ بانسری بجانے کی ضرورت تھی۔ نہ پریم پتروں کی کتاب کھولنی پڑتی تھی۔ بس وہ صرف کھڑکی کھول کر اس میں بیٹھ جاتے باقی سب کچھ وہ لڑکی خود کیا کرتی تھی۔ جب ایلی اکتا جاتا تو وہ گھر چلا آتا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 115

جب وہ گھر کی سیڑھیوں کے قریب پہنچتا تو نذیراں اسے دیکھ کر کسی بہانے اپنا کام چھوڑ کر ان کی ڈیوڑھی میں آ جاتی “کہاں سے آئے ہو؟“ وہ اس کے قریب آ کر مسکراتے ہوئے پوچھتی اور اس قدر قریب آ جاتی کہ اس کے جسم کی بو ایلی کی ناک پر یورش کر دیتی اور نذیراں کا سانس اس کے منہ سے ٹکراتا ہوا محسوس ہوتا اور نذیراں ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھتی اور اس کی بانہیں ایلی کی طرف بڑھتیں اور گھبرا کر ایلی پیچھے ہٹ جاتا۔
“کہاں سے آئے ہو؟“ وہ اس کی طرف بڑھنے لگتی۔
“یہیں۔ یہیں۔ ذرا باہر گیا تھا۔“ وہ کنی کترا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھتا اور بھاگ کر اوپر چڑھ جاتا۔ اسے یوں اوپر چڑھتے ہوئے دیکھ کر دادی اماں پوچھتیں۔
“کیا ہے تمھیں ایلی۔ یوں بھاگ کر کیوں چڑھتے ہو سیڑھیاں جیسے کوئی پیچھا کر رہا ہو۔“
ایلی ڈر کر پیچھے دیکھتا کہیں وہ پیچھے تو نہیں آ رہی۔؟
“کیا ہے ان سیڑھیوں میں؟“ وہ پھر پوچھتیں۔
“کچھ نہیں دادی اماں کچھ نہیں۔“
نذیراں کو دیکھ کر اسے کبھی خیال نہ آیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ انکراینڈی ماباؤں کا کھیل کھیل سکتا ہے اور ڈسپنسری کے بغیر ہی کامیابی حاصل کر سکتا ہے نہ اسے ریشمی رومال کی ضرورت ہے اور نہ شعروں کی کتاب کی۔ لیکن اس کے ذہن میں کامیابی کی نہ تو آرزو تھی اور نہ یہ شعور تھا کہ کامیابی کا مطلب کیا ہے اسے وہ لڑکیاں بے حد پیاری لگتی تھیں جو دور کسی کھڑکی سے جھانکتیں اور مسکراہٹ بھری نگاہ چھلکا کر کھڑکی بند کر لیتیں۔ اسے وہ لڑکیاں پسند تھیں۔ جن کے چہروں پر اداسی چھائی ہوتی۔ ایسی لڑکیاں جن کی صورت روئی روئی ہوتی جو ہائے اللہ کہہ کر بھاگ جاتیں وہ نہیں جو آگے بڑھ کر اسے گھیر لیتیں اور پوچھتیں کہاں سے آئے ہو۔

مکلاوا

ایک دن جب وہ حسب معمول نذیراں سے خوف زدہ ہو کر سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو ابا نے اسے آواز دی۔ “ایلی“ وہ گھبرا گیا نہ جانے ابا نے کیوں بلایا تھا کہیں وہ سیڑھیوں کی بات سے واقف تو نہ تھے۔

ایلی ڈرت ڈرتے قریب گیا “آج تم شمیم کے ساتھ شام کوٹ جا رہے ہو سمجھتے جاؤ تیاری کر لو۔“ علی احمد نے کہا۔ خوشی سے ایلی کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ ایک نئی جگہ جائے گا۔
 
Top