ماوراء
محفلین

سی دوڑنے لگیں۔
اس روز ایلی دیر تک آئینے کے سامنے کھڑا رہا۔ لیکن وہاں ایک بھدے کالے اور بھونڈے لڑکے کے سوا کچھ نہ تھا پھر اس نے باہر جا کر صابن سے منہ دھویا شاید وہ پہلا دن تھا۔ جب اس نے اس شدت سے محسوس کیا تھا کہ وہ بد صورت ہے۔
اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ فرید ایسی نگاہوں سے کیوں دیکھتا تھا۔ نہ جانے وہ ایسی آنکھیں کیونکر بنا لیا کرتا تھا اور پھر اس کا “ایلی“ کہہ کر خاموش ہو جانا۔ جیسے اس کی آواز حلق میں خشک ہو گئی ہو۔ لیکن اس کے اپنے جسم پر چیونٹیاں سی کیوں رینگنے لگتی تھیں۔وہ چیونٹیاں گدگدی کیوں کرتی تھیں۔ جس سے دل میں کچھ کچھ ہوتا تھا۔ عجیب سا احساس تھا وہ، ان جانے میں ایلی کو فرید سے ڈر لگنا شروع ہو گیا اور اس نے فرید کے گھر کی طرف جانا چھوڑ دیا۔ لیکن کیوں۔ وہ یہ نہ جان سکا۔ اس کے باوجود جب کبھی وہ کپڑے بدلتا یا نیا جوڑا پہنتا۔ تو اسے کوئی نہ کوئی ضروری کام پڑ جاتا اور مجبوراً اسے گلی میں اس سمت کو جانا پڑتا۔ جہاں فرید کا گھر تھا۔ جاتے ہوئے اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔ ہر آہٹ پر اس کے دل پر عجیب سا دباؤ محسوس ہوتا۔ جیسے کسی نے اسے پکڑ لیا ہو۔ “ایلی“ اسے خوا مخواہ آوازیں سنائی دیتیں اور پھر جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگتیں۔ گلی میں فرید نہ ملتا تو وہ اطمینان کا سانس لیتا لیکن دل میں دبی دبی سی خلش کانٹے کی طرح لگی رہتی اور بالاخر مایوس ہو کر گھنشام کے گھر کی طرف چل پڑتا۔ شاید گھنشام بازار میں کھڑا ہو۔ اس کی نگاہ تلے گھنشام آ کھڑا ہوتا۔ جس کے پاس ہی فرید کھڑا ہنس رہا ہوتا فرید اور گھنشام۔ اب اس کے ذہن میں لازم و ملزوم ہوئے جا رہے تھے۔ روز بروز بے تاب ہوا جا رہا تھا۔ بات بات پر اس کا دل دھڑکتا ایک اضطراب چاروں طرف دے اس پر یورش کر دیتا اور اس اضطراب کے تعاقب میں وہ آوارہ پھرتا۔ گلی میں میدان میں بازاروں میں اور گھر میں بھی وہ مختصر سا گھر دفعتاً اس قدر وسیع کیوں ہو گیا تھا اور علی احمد کا کمرہ روز بروز سکڑ کر چھوٹا کیوں ہوتا چلا جا رہا تھا۔ خود علی احمد بھی تو اب اس کی نگاہوں میں اتنے عظیم نہ رہے تھے۔ اب وہ انہیں اور ان کے کمرے کو آسانی سے نظر انداز کر سکتا تھا۔
کشمیر کا سیب
ان دنوں علی احمد مضطرب رہنے لگے تھے۔ لکھتے لکھتے وہ قلم رکھ کر باہر آ جاتے اور کسی ٹوٹی ہوئی چارپائی پر ہاتھوں میں سر تھام کر لیٹ جاتے۔ دیر تک چپ چاپ لیٹے حقہ پیتے رہتے پھر دفعتاً جوش میں اٹھ بیٹھتے اور کسی نہ کسی بہانے کشمیر کی بات شروع کر دیتے۔ “اجی کیا بات ہے کشمیر کی۔ اللہ تعالٰی نے زمین پر جنت کا نمونہ اتار رکھا ہے۔ رہنے کا مزہ ہے تو کشمیر میں۔“ وہ کسی کو مخاطب کئے بغیر کہتے “ سرو قد درخت ٹھنڈی نہریں پھل بے اندازہ۔ پھل کھاؤ، چشموں کا ٹھنڈا پانی پیو،