ماوراء
محفلین
صفحہ 116
شام کوٹ۔
شام کوٹ کے نام سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ چونکہ صفیہ کوٹ کی رہنے والی تھی اگرچہ اسے وہاں جانے کا کبھی موقع نہ ملا تھا۔ اسی روز وہ شام کوٹ کو روانہ ہو گیا۔ شام کوٹ کے نئے محلے میں اپنی نئی ماں کا گھر دیکھ کر اسے بے حد مایوسی ہوئی ایک ڈیوڑھی کے پیچھے ایک چھوٹا سا تنگ و تاریک صحن تھا جس کے پیچھے فو کوٹھڑیاں تھیں۔ ڈیوڑھی میں ایک بوڑھی عورت چادر باندھے بیٹھی تھی۔ چادر میں وہ کس قدر بھدی لگ رہی تھی۔ اس کا بیٹھنے کا انداز بھی تو عیجیب تھا۔ جیسے وہ عورت ہی نہ ہو بلکہ کوئی بے حس گنوار مرد بیٹھا ہو۔
ایلی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھی۔ “خیر سے بسم اللہ“ اور وہ اس کے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ “بیٹھ جا۔ سنا علی احمد کا کیا حال ہے۔ آپ کیوں نہیں آیا وہ۔ بہت بننے لگا ہے اب پہلے تو یہ بات نہ تھی۔ دو سال میری منتیں کرتا رہا۔ میری دہلیز پر بیٹھا رہا۔ میری بیٹی کشمیر میں پلی ہے ہاں بڑی ناز ک ہے وہ۔ اسے کوئی دکھ نہ ہو۔ ورنہ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ میں نے بھی ساری عمر سرکاری نوکری کی ہے۔ عمر بھر استانی کا کام کیا ہے۔ تم آئے ہی تھے نا۔ ہمارے سکول میں یاد ہے نا تمھیں۔“
دفعتاً ایلی کو یاد آیا۔ ہوں! یہ تو وہی استانی تھی۔ جو اس روز پردے کے پیچھے کھڑی علی سے باتیں کر رہی تھی۔ ایلی نے گھن سی محسوس کی۔ کیا سبھی استانیاں اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ کیا ان میں ذرا بھی جھجک نہیں ہوتی۔ کیا وہ مردوں کی طرح چادریں باندھتی ہیں۔
“لڑکے ذرا حقہ تو بھرنا۔“ استانی نے کسی کو آواز دی اور پھر اپنی تقریر جاری کر دی۔ “میں نے پورے پندرہ سال ملازمت کی ہے اللہ نہ کرے کوئی ضرورت نہ تھی۔ نوکری کرنے کا بس شوق تھا پڑھانے کا شوق۔“
اس کے لہجے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے محکمہ تعلیم کی بجائے پولیس کی نوکری کی ہو۔ علی احمد کی بات کرتے ہوئے اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس سے کما حقہ واقف ہو۔ جیسے علی احمد کے متعلق بات کرتے ہوئے اسے تکلفات کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے باوجود یا شاید اسی لئے اس کی گفتگو میں نفرت کی جھلک تھی۔ بات بات پر وہ اپنے گھرانے کی عظمت کا ذکر چھیڑ دیتی اپنی بڑائی جتاتی اور بلاخر اپنی بیٹی کی نزاکت طبع کی طرف اشارہ کر کے ایلی کو متنبہ کرتی کہ اس کی بیٹی کو احتیاط سے گھر میں رکھیں۔ پھر اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ “قاسم“ اور ایک جوان لڑکا باہر آگیا۔ “یہ تیرا ماموں ہے۔“ وہ بولی۔ ایلی نے ماموں کو سلام کیا لیکن وہ حیران تھا کہ جس قدر استانی کا چہرہ اور انداز نسائیت سے خالی تھا، اس قدر قاسم کا مردانہ پن سے محروم تھا۔
شام کوٹ۔
شام کوٹ کے نام سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ چونکہ صفیہ کوٹ کی رہنے والی تھی اگرچہ اسے وہاں جانے کا کبھی موقع نہ ملا تھا۔ اسی روز وہ شام کوٹ کو روانہ ہو گیا۔ شام کوٹ کے نئے محلے میں اپنی نئی ماں کا گھر دیکھ کر اسے بے حد مایوسی ہوئی ایک ڈیوڑھی کے پیچھے ایک چھوٹا سا تنگ و تاریک صحن تھا جس کے پیچھے فو کوٹھڑیاں تھیں۔ ڈیوڑھی میں ایک بوڑھی عورت چادر باندھے بیٹھی تھی۔ چادر میں وہ کس قدر بھدی لگ رہی تھی۔ اس کا بیٹھنے کا انداز بھی تو عیجیب تھا۔ جیسے وہ عورت ہی نہ ہو بلکہ کوئی بے حس گنوار مرد بیٹھا ہو۔
ایلی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھی۔ “خیر سے بسم اللہ“ اور وہ اس کے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ “بیٹھ جا۔ سنا علی احمد کا کیا حال ہے۔ آپ کیوں نہیں آیا وہ۔ بہت بننے لگا ہے اب پہلے تو یہ بات نہ تھی۔ دو سال میری منتیں کرتا رہا۔ میری دہلیز پر بیٹھا رہا۔ میری بیٹی کشمیر میں پلی ہے ہاں بڑی ناز ک ہے وہ۔ اسے کوئی دکھ نہ ہو۔ ورنہ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ میں نے بھی ساری عمر سرکاری نوکری کی ہے۔ عمر بھر استانی کا کام کیا ہے۔ تم آئے ہی تھے نا۔ ہمارے سکول میں یاد ہے نا تمھیں۔“
دفعتاً ایلی کو یاد آیا۔ ہوں! یہ تو وہی استانی تھی۔ جو اس روز پردے کے پیچھے کھڑی علی سے باتیں کر رہی تھی۔ ایلی نے گھن سی محسوس کی۔ کیا سبھی استانیاں اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ کیا ان میں ذرا بھی جھجک نہیں ہوتی۔ کیا وہ مردوں کی طرح چادریں باندھتی ہیں۔
“لڑکے ذرا حقہ تو بھرنا۔“ استانی نے کسی کو آواز دی اور پھر اپنی تقریر جاری کر دی۔ “میں نے پورے پندرہ سال ملازمت کی ہے اللہ نہ کرے کوئی ضرورت نہ تھی۔ نوکری کرنے کا بس شوق تھا پڑھانے کا شوق۔“
اس کے لہجے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے محکمہ تعلیم کی بجائے پولیس کی نوکری کی ہو۔ علی احمد کی بات کرتے ہوئے اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس سے کما حقہ واقف ہو۔ جیسے علی احمد کے متعلق بات کرتے ہوئے اسے تکلفات کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے باوجود یا شاید اسی لئے اس کی گفتگو میں نفرت کی جھلک تھی۔ بات بات پر وہ اپنے گھرانے کی عظمت کا ذکر چھیڑ دیتی اپنی بڑائی جتاتی اور بلاخر اپنی بیٹی کی نزاکت طبع کی طرف اشارہ کر کے ایلی کو متنبہ کرتی کہ اس کی بیٹی کو احتیاط سے گھر میں رکھیں۔ پھر اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ “قاسم“ اور ایک جوان لڑکا باہر آگیا۔ “یہ تیرا ماموں ہے۔“ وہ بولی۔ ایلی نے ماموں کو سلام کیا لیکن وہ حیران تھا کہ جس قدر استانی کا چہرہ اور انداز نسائیت سے خالی تھا، اس قدر قاسم کا مردانہ پن سے محروم تھا۔