علی پور کا ایلی (96 - 125)

ماوراء

محفلین
صفحہ 116

شام کوٹ۔

شام کوٹ کے نام سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ چونکہ صفیہ کوٹ کی رہنے والی تھی اگرچہ اسے وہاں جانے کا کبھی موقع نہ ملا تھا۔ اسی روز وہ شام کوٹ کو روانہ ہو گیا۔ شام کوٹ کے نئے محلے میں اپنی نئی ماں کا گھر دیکھ کر اسے بے حد مایوسی ہوئی ایک ڈیوڑھی کے پیچھے ایک چھوٹا سا تنگ و تاریک صحن تھا جس کے پیچھے فو کوٹھڑیاں تھیں۔ ڈیوڑھی میں ایک بوڑھی عورت چادر باندھے بیٹھی تھی۔ چادر میں وہ کس قدر بھدی لگ رہی تھی۔ اس کا بیٹھنے کا انداز بھی تو عیجیب تھا۔ جیسے وہ عورت ہی نہ ہو بلکہ کوئی بے حس گنوار مرد بیٹھا ہو۔

ایلی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھی۔ “خیر سے بسم اللہ“ اور وہ اس کے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ “بیٹھ جا۔ سنا علی احمد کا کیا حال ہے۔ آپ کیوں نہیں آیا وہ۔ بہت بننے لگا ہے اب پہلے تو یہ بات نہ تھی۔ دو سال میری منتیں کرتا رہا۔ میری دہلیز پر بیٹھا رہا۔ میری بیٹی کشمیر میں پلی ہے ہاں بڑی ناز ک ہے وہ۔ اسے کوئی دکھ نہ ہو۔ ورنہ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ میں نے بھی ساری عمر سرکاری نوکری کی ہے۔ عمر بھر استانی کا کام کیا ہے۔ تم آئے ہی تھے نا۔ ہمارے سکول میں یاد ہے نا تمھیں۔“

دفعتاً ایلی کو یاد آیا۔ ہوں! یہ تو وہی استانی تھی۔ جو اس روز پردے کے پیچھے کھڑی علی سے باتیں کر رہی تھی۔ ایلی نے گھن سی محسوس کی۔ کیا سبھی استانیاں اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ کیا ان میں ذرا بھی جھجک نہیں ہوتی۔ کیا وہ مردوں کی طرح چادریں باندھتی ہیں۔

“لڑکے ذرا حقہ تو بھرنا۔“ استانی نے کسی کو آواز دی اور پھر اپنی تقریر جاری کر دی۔ “میں نے پورے پندرہ سال ملازمت کی ہے اللہ نہ کرے کوئی ضرورت نہ تھی۔ نوکری کرنے کا بس شوق تھا پڑھانے کا شوق۔“

اس کے لہجے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے محکمہ تعلیم کی بجائے پولیس کی نوکری کی ہو۔ علی احمد کی بات کرتے ہوئے اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس سے کما حقہ واقف ہو۔ جیسے علی احمد کے متعلق بات کرتے ہوئے اسے تکلفات کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے باوجود یا شاید اسی لئے اس کی گفتگو میں نفرت کی جھلک تھی۔ بات بات پر وہ اپنے گھرانے کی عظمت کا ذکر چھیڑ دیتی اپنی بڑائی جتاتی اور بلاخر اپنی بیٹی کی نزاکت طبع کی طرف اشارہ کر کے ایلی کو متنبہ کرتی کہ اس کی بیٹی کو احتیاط سے گھر میں رکھیں۔ پھر اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ “قاسم“ اور ایک جوان لڑکا باہر آگیا۔ “یہ تیرا ماموں ہے۔“ وہ بولی۔ ایلی نے ماموں کو سلام کیا لیکن وہ حیران تھا کہ جس قدر استانی کا چہرہ اور انداز نسائیت سے خالی تھا، اس قدر قاسم کا مردانہ پن سے محروم تھا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 117

دو ناگ

اس گھر میں سب سے زیادہ قابل قبول شخصیت اس کی نئی امی شمیم کی ہی تھی۔ شمیم میں نہ تو استانی کی سی بیباکی تھی اور نہ قاسم کی سی مجہولیت۔ البتہ ایلی کو ایک تکلیف ضرور تھی۔ جب بھی شمیم اس کے پاس آتی تو اس کی چادر سے دو حنا مالیدہ ہاتھ نکل آتے۔ جن کی سفیدہ کی وجہ سے حنائی سرخی اور بھی شوخ دکھائی دیتی اور حنا کی سرخی کی وجہ سے ہاتھوں کی سفیدی اور بھی دودھیا۔ ان ہاتھوں کو دیکھ کر ان جانے میں وہ محسوس کرتا جیسے کوئی جرم ہو، گناہ کر رہا ہو۔ شمیم محبت جتانے کے لئے اپنے حنا مالیدہ ہاتھ اس کی طرف بڑھاتی اور ایلی انہیں اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھ کر گھبرا کر سہم جاتا اور دور ہٹنے کی شدید کوشش کرتا مگر بلآخر وہ دو حنائی ناگ اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ حنا کی بو سے اس کے ذہن میں ایک طوفان سا اٹھتا۔ گردو پیش دھندلا جاتے اور پھر----------- شرم سے اس کا سر جھک جاتا وہ اپنی نگاہ میں ننگا ہو جاتا۔ ننگا اور شرمسار۔

اس طرح اس کی زندگی میں ہاتھوں کی اہمیت بڑھتی گئی۔ ماں کی اہمیت بڑھتی گئی اور اس کے ذہن میں حنائی رنگ کا جنسی زندگی سے تعلق استوار ہوتا گیا۔ ان کے گھر میں جو دعوت آتی تھی۔ اسے براہ راست یا باپ سے تعلق ہوتا تھا اگر وہ ان کے بندے کمرے میں جا پہنچتی تو بھی اور اگر وہ اس کی زد سے بچنے کی کوشش کرتی تو بھی۔ بہر صورت ہر عورت جو اس مکان میں آتی تھی اسے علی احمد سے تعلق ہوتا اثباتی یا منفی تعلق۔

لیکن اس زمانے میں اسے اثبات نفی کا شعور نہ تھا۔ اس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جاتا کہ بند کمرے کے طلسم کو توڑ کر ٹین کے سپاہی کے چنگل میں پھنسی ہوئی عورت کو نجات دلائے لیکن اس خیال کے ساتھ ہی خواہ مخواہ چند ایک خیالی تصاویر اس کے ذہن میں اتر آتیں اور وہ لاحول پڑھنے سے مخلصی نہ ہوتی۔ پھر وہ اس خیال کو بھولنے کو بھولنے کی کوشش میں لگ جاتا۔ لیکن ٹین کے سپاہی سے مخلصی پانے والی حسین ماں جسے چھوڑ کر وہ بھاگ رہا ہوتا اپنی گود سے حنائی ہاتھ نکال کر اشارے کرتی۔ “ایلی۔ ایلی ٹھہرو مجھے ساتھ لے جاؤ۔ ایلی“ ----------------- اور حنائی ہاتھ اس کی طرف بڑھتے چلے آتے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 118

شمیم کے حنائی ہاتھوں سے ڈر کر وہ قاسم کے پاس جا بیٹھتا گرچہ اسے قاسم قطعی طور پر پسند نہ تھا۔ پھر بھی اسے سکون و اطمینان تو میسر ہو جاتا تھا نہ جانے قاسم میں کیا تھا۔ اس کے جسم پر بال نہ تھے اور یہ بات ایلی کو ناگوار تھی۔ اس کا صاف سنہرا جسم دیکھنے سے کتراتا تھا لیکن قاسم قمیض پہنے بغیر بیٹھا رہتا۔ اب وہ قاسم کو قمیض پہننے پر کیسے مجبور کر سکتا تھا پھر اس کی ماں استانی بھی تو بند کو ڈھانپنے کے متعلق محتاط نہ تھی اس کی قمیض کے بٹن اکثر کھلے رہتے تھے۔ جس میں لٹا ہوا پائمال جسم کسی بند کمرے اور ٹین کے سپاہی کی غمازی کرتا تھا۔

بڑھیا کے جسم کی طرف دیکھ کر اسے کراہیت محسوس ہوتی۔ اس کی حنا مالیدہ ہاتھوں کو دیکھ کر اسے غصہ آتا۔ اسے حنا سے ہاتھ رنگنے کا کیا حق تھا۔ اسے ان بوتلوں کو لٹکانے کیا حق تھا۔ شدید نفرت سے گھبرا کر وہ اندر کمرے میں جا گھستا جہاں وہ لڑکی شاد چپ چاپ بیٹھی کام میں مشغول ہوتی۔ شاد‘ عجیب نام تھا اس کا لیکن اس کا رنگ زرد کیوں رہتا تھا۔ حالانکہ چلنے پھرنے اور کام کرنے میں وہ بے انتہا تیز تھی۔ کس پھرتی سے کام کرتی تھی وہ ----------سارے گھر میں صرف شاد ہی ایسی لڑکی تھی۔ جسے دیکھ کر اسے گھبراہٹ نہ ہوتی تھی۔ اس کی کئی ایک وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ پتلے دبلے جسم کی لڑکی تھی۔ دوسرے اس کا رنگ سفید نہ تھا اور تیسرے اس کے ہاتھ حنا مالیدہ نہ تھے۔ حنا مالیدہ ہاتھ اس کے لئے صرف اس صورت میں پریشان کن ہوا کرتے تھے، جب ان کا رنگ گورا ہو اور دیکھنے میں وہ گدگدے محسوس ہوں۔

چند دن شام کوٹ رہنے والے کے بعد وہ مکلاوا لے کر واپس علی پور پہنچ گیا اور چند ہی دنوں کے بعد علی احمد اپنے حنائی ناگ لے کر واپس نوکری پر چلے گئے اور ایلی علی پور میں اکیلا رہ گیا۔
اس بات پر اسے بے حد مسرت ہوئی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ آزاد ہے۔ اسے علی احمد نے بند کمرے، ٹین کے سپاہی اور حنائی ناگوں سے نجات مل گئی ہے اور وہ مجرم نہیں ہے۔ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔

لیکن اس کے باوجود محلے میں کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہو جاتا، جس سے اس کے دل میں ان ہاتھوں کی یاد تازہ ہو جاتی۔ اس کے دل میں پھر لذت اور گناہ کا احساس ابھرتا،


چوزے اور گدھ


حنائی ہاتھوں کے سحر سے بچنے کے لیے وہ گھر سے باہر نکلتا اور گھومتا پھرتا۔ ارجمند، جمیل یا سعیدہ کے گھر پہنچ جاتے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 119

سعیدہ ایلی کی خالہ زاد بہن تھی۔ حسن دین کی بیوی ہونے کے باوجود وہ حسن دین سے کس قدر مختلف تھی۔ حسن دین محکمہ ڈاک میں ملازم تھے اور اکثر علی پور سے باہر رہا کرتے تھے۔ لیکن اگر علی پور میں ہوتے تو بھی ایسے محسوس ہوتا۔ جیسے وہ باہر ہوں۔ ان کی موجودگی اور غیرموجودگی میں چنداں فرق نہ تھا۔ اول تو وہ بات کرنے کے قائل ہی نہ تھے اور کرنے کی کوشش بھی کرتے تو وہ مکمل نہ ہو سکتی بلکہ ادھوری رہ جاتی۔

گھر میں داخل ہوتے ہی وہ ایک نظر سعیدہ کی طرف ڈالتے اور پھر مسکرا دیتے۔ یہی ان کی سب سے بڑی بات ہوتی جسے صرف سعیدہ سمجھتی تھی۔ اس مسکراہٹ میں ان کا احساس کمتری ادھوری کوشش اور سعیدہ سے قلبی تعلق سبھی کچھ واضح ہو جاتا پھر وہ اپنی حاضری کے باوجود گویا مکان سے ناپید ہو جاتے اور سعیدہ اس مسکراہٹ سے اخذ شدہ احساس برتری میں پھولے نہ سماتی۔

سعیدہ کے مکان میں ہر وقت بھیڑ لگی رہتی تھی۔ اسے بھیڑ رکھنے سے بے حد دلچسپی تھی۔ وہ اپنی کھڑکی سے آتے جاتے کو آواز دیتی۔ “رفیق کہاں جا رہا ہے تو۔“ فرحت تو آج آئی نہیں ادھر۔“ “زبیدہ لو تم کہاں جا رہی ہو -------- بازی نہیں لگے گی کیا“ “آؤ نا ایلی آج تو پارٹی کا بندوبست ہونا چاہیے۔“

سعیدہ، زبیدہ اور آصفہ تینوں سگی بہنیں تھیں۔ زبیدہ رحم علی سے بیاہی جا چکی تھی اور آصفہ مولانا عبداللہ سے ویسے تو تینوں بہنیں مزاج کی رنگین واقع ہوئی تھیں۔ مگر سعیدہ میں بہت زیادہ مجلسی عنصر تھا۔ اس کا گھر بھی محلے کے مرکزی مقام پر تھا۔ اور ادھر ادھر سے لوگوں کو بلا کر اپنے گھر میں اکٹھا کر لیا کرتی اور پھر وہاں تاش کی بازی شروع ہو جاتی۔ چور سپاہی یا بھابی دیور کا کھیل چلتا۔ چور سے باقاعدہ ایک اکنی بطور جرمانہ وصول کی جاتی اور پھر یہ اکنیاں اکٹھی کر کے کچھ منگایا جاتا یا پکایا جاتا اور بلاخر سب لوگ مل کر کھاتے پیتے۔ اس شغل کے دوران سعیدہ کا گھر قہقہوں سے گونجتا۔ ایک دوسرے سے مذاق کئے جاتے۔ فقرے کسے جاتے۔

ویسے سعیدہ کے گھر میں تو روز ہی ہنگامہ رہتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار وہ خصوصی طور پر مولوو شریف کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ فرش پر سفید چادریں بچھائی جاتیں۔ گلاب چھڑکا جاتا۔ کھانے کو الائچیاں اور پان مہیا کئے جاتے۔ شام کو عورتیں اکٹھی ہو کر نعتیں پڑھتیں اور مرد دور کسی جگہ بیٹھ کر سنتے یا قریب ہی کسی مقام پر چھپ کر دیکھتے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 120

گانے کے علاوہ سعیدہ کو ناچنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ اکثر وہ چند ایک قریبی بہنوں اور بھائیوں کو بلا کر گانے کی محفل جما لیتی اور پھر سر پر طلے دار ٹوپی پہن کر ڈھولک لے ساتھ ناچتی اور اپنے حنائی ہاتھوں کو عجیب انداز سے لہراتی اور ایلی محسوس کرتا جیسے وہ کوئی جادوگرنی ہو اور حنائی ہاتھ کوئی جیتا جاگتا طلسم ہوں اس وقت اس کی نگاہ میں گردو پیش دھندلانے لگتے اور وہ چپکے سے وہاں اٹھ کر اپنے گھر دادی اماں کے پاس پناہ لینے کے لئے آ جاتا۔

دادی اماں اسے تھپک کر سلاتی “کچھ بھی تو نہیں ایلی۔ کچھ بھی نہیں سو جا اب۔“ لیکن دادی اماں کی تسلیوں کے باوجود یا شاید ان تسلیوں کی وجہ سے وہ محسوس کرتا کہ کچھ ہے۔ نہ جانے کہاں کچھ نہ کچھ ہے ضرور ہے جو اسے پریشان کر رہا ہے۔ اس کے دل کے نچلے پردوں میں لہریں لے رہا ہے۔ طوفان بپا کر رہا ہے۔ لیکن دادی اسے تھپکے جاتی۔ “سو جا۔ کچھ بھی تو نہیں۔ سو جا۔“ اور بلاخر وہ سو جاتا اور پھر نہ جانے کیا ہوتا۔ اس کے سامنے حنائی ناگ لپکتے اور ایک بھاری بھر کم جسم ناچتا ناچتا اس کی طرف بڑھتا اور پھر دھڑام سے اس کی چھاتی پر آ گرتا اور اس کا دم رک جاتا اور وہ چیخ مار کر بھاگ اٹھتا۔ دادی اماں اٹھ بیٹھتیں۔ “کیا ہے تجھے ایلی۔ ڈر گیا ہے کیا۔ نہ جانے سارا دن کہاں کہاں کھیلتا ہے۔ کس کس مقام پر بیٹھتا ہے تو۔ تجھے جو کہا ہے میں نے کسی مقام پر نہ جایا کر۔ رات کو ڈرنا ہی ہوا اس وجہ سے ‘اب سو جا۔‘ دادی اماں کو کیا معلوم تھا کہ وہ عمر کے کیسے سخت مقام پر آ پہنچا ہے۔

صبح سویرے ایلی پھر باہر نکل جاتا اور محلے کی زندگی کی گہما گہمی میں کھو جاتا بوڑھی عورتیں اس کی طرف اپنے جھلی دار پنجے بڑھاتیں۔ “ایلی ہے جیتا رہ بیٹے۔ خدا عمر دراز کرے۔ تیری ماں کا کلیجہ ٹھنڈہ رہےمیں کہتی ہوں۔“ وہ راز دارانہ طور پر ایلی پر جھک جاتیں۔ “اللہ رکھے جائیداد کا وارث تو ہی ہے۔ تو ہی گھر کا مالک ہے اور یہ جو آتی جاتی ہیں۔ کلمو نہیاں یہ سب چڑیلیں ہیں۔ سب دفعان ہو جائیں گی۔ انشاءاللہ تو ہی گھر کا مالک بنے گا۔ کھیلنے جا رہا ہے۔ تو جا بچے جا۔ دوگھڑی کھیلنا اچھا ہی ہوتا ہے۔“ عورتوں سے بچ کر وہ محلے کے کسی بوڑھے کے ہتے چڑھ جاتا۔

“میاں ایلی کہاں ہیں وہ تیرے ابا آج کل۔ نیا بیاہ کرنے کی تو نہیں سوچ رہا۔ وہ دماغ پھر گیا ہے اس کا لیکن بھئی ایک خوبی ضرور ہے۔ اس میں محلے میں کبھی ایسی بات نہیں کی۔ خیر اپنے اعمال کا ہر کوئی خود ذمہدار ہوتا ہے۔ لیکن یاد رکھ۔ اپنے ابا کے نقش قدم پر نہ چلنا۔ سمجھے۔ بڑا اچھا لڑکا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 121

لیکن اب محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر تو بھی بگڑتا جا رہا ہے۔ اچھا جا کھیل جا۔“
ارجمند ایلی کو دیکھ کر ریشمیں رومال لہراتا “ارے یار بس تم تو سوئے ہی رہتے ہو۔ ابھی ابھی کیپ اور کپ سکول جا رہی تھیں۔ کیا بتاؤں آج کیا ٹھاٹھ تھے۔ غضب ہو گیا۔ سرخ قمیض جیسے خون سے رنگی ہو۔“ دفعتاً پاؤں کی آہٹ سن کر وہ چونکتا۔ “آخا“ وہ بات کاٹ کر کہتا “ارے وہ دیکھو تو میاں پہلوان بھی آ گئے وہ دیکھو کنوئیں کے پاس۔“

وہ دیکھا سلام کا جواب دیا جا رہا ہے۔ کیا سمجھے یہ ماتھے سے مکھی نہیں اڑائی جا رہی ۔ اس وقت مکھی کہاں۔ کیوں ایلی ہے نا اور ذرا ہکورا ڈکورا تو دیکھو جب تک اس کلاک پر ماؤس نہیں چڑھے گا۔ یہ ٹن ٹن ہی کرتی رہے گی۔“ اور پھر وہ ننھے چوزوں کی طرح سر جوڑ کر کیپ کپ کی باتیں کرنے میں دیر تک مصروف رہتے۔

ارجمند سے ملنے کے بعد وہ رفیق اور جلیل کے یہاں چلا جاتا۔ رفیق تو زیادہ وقت سودا خریدنے میں مصروف رہتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ صبح سویرے اٹھ کر چچی پھوپھا اور خالہ کے گھر جا کر پوچھتا۔ “خالہ جی کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا دیجئے۔“ “چچی بازار سے کچھ منگوانا ہے کیا۔“ پھوپھا جی میں بازار جا رہا ہوں۔ دیر تک وہ بازار جانے کا ڈھنڈورہ پیٹتا رہتا ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے گلابی پھواڑ اڑتی رہتی اور نگاہیں چوری چوری گردوپیش کا جائزہ لیتی رہتیں پھر وہ سودے اکھٹے کر کے اپنا ریشمی رومال جیب میں ڈال اور غزلوں کی کاپی تھام کر بازار چلا جاتا جب سودا سلف سے فارغ ہوتا تو وہ جلیل کی طرف جا پہنچتا اور پھر وہ تنگ گلی کی لڑکی اپنے گھر کی دہلیز اور گلی میں جھاڑو دیتی اور چلا چلا کر باتیں کرتی اور رفیق کی آنکھوں میں بوندا باندی ہوتی اور جلیل وحشت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتا اور لڑکی مسکرائے جاتی اور ایلی محسوس کرتا جیسے وہ کوئی دلچسپ سازش کر رہے ہوں۔

پھر یوسف آ نکلتا یوسف کے آںے پر نقشہ ہی بدل جاتا کیونکہ یوسف لڑکیوں کے وجود سے بے نیاز تھا وہ ان مسکاتے ہوئے جھانکتے ہوئے لجاتے ہوئے چٹے سفید چہروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا۔ اس کے آتے یئ تمسخرانہ حرکات کا طوفان امڈ آتا۔ جلیل اور رفیق اسے بناتے اور وہ جان بوجھ کر بنتا، جیسے کارٹون میں جان پڑ گئی ہو۔ ایلی محسوس کرتا۔ جیسے یوسف کو نبانےسے جلیل کا مقصد صرف اس لڑکی کو محفوظ کرنا ہوتا تھا جو نہ جانے کیوں گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جھاڑو دینے پر تلی رہتی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 122

دوپہر کے وقت جلیل اور ایلی محلے میں لوٹ آتے۔ اس وقت محلے کی بوڑھی عورتیں چوگان میں بیٹھ کر کوئی نہ کوئی کام کیا کرتی تھیں۔ کوئی ازار بند بنتی۔ کوئی تاگے کے گولے بناتی۔ چوگان سے گزرتے ہوئے رفیق کی گردن جھک جاتی۔ اس کی آنکھوں کی بوندا باندی ختم ہو جاتی۔ اس کے ہونٹوں کا گیت ختم ہو جاتا اور اس کے چہرے پاس جا بیٹھتا صفدر کی گردن تو ہمیشہ اکڑی رہتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہر وقت عجیب سی سرخی پھیلی رہتی اس کے بازو عجیب انداز سے لٹکتے رہتے اور ہونٹوں پر تبسم گیت سماں طاری رہتا۔ وہ مضطربانہ طور پر ادھر ادھر ٹہلتا ادھر ادھر دیکھتا اور پھر تھیٹر کے گیت کا کوئی بول ان جانے میں اس کے منہ سے نکل جاتا “حافظ خدا تمھارا۔“ اس وقت ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ کسی سے رخصت ہو رہا ہو۔ اس پر ایلی کی نگاہوں تلے ایک پار سی حسینہ آ کھڑی ہوتی اور اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ وہ صفدر سے پوچھے کہ وہ پارسی لڑکی گایا کرتی تھی اور صفدر کی آنکھیں سرخ کیوں رہا کرتی تھیں اس کے بازو لہرایا کیوں کرتے تھے کگر ایلی کو صفدر سے بات کرنے کی جرات نہ ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ صفدر محلے کے بڑے لڑکوں میں سے تھا اور چھوٹے لڑکے بڑے لڑکوں سے ایسی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ اگرچہ صفدر کے انداز میں وہ معزز پن نہ تھا جو عام طور پر بڑے لڑکوں میں پایا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس صفدر میں بے باکی تھی۔ خلوص تھا پھر بھی ایلی کو یہ باتیں پوچھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔

صفدر کی اس بے باکی کی وجہ سے محلّہ والیاں اسے بہت برا سمجھتی تھیں اور دادی اماں تو صفدر کا نام سنتے ہی غصے سے چلانے لگتی۔ “بدمعاش کہیں کا شرابی۔ دفع کر اسے۔ نام نہ لے۔ مردود کہیں کا۔“ اور صفدر بھی دادی اماں کے نام سے چڑتا تھا۔ “مردود بڑھیا۔ کھڑکی میں گدھ کی طرح بیٹھی رہتی ہے مرتی بھی نہیں۔“ اور منچھل پوٹاش کا پٹاخہ بناتے وقت اس کی آنکھوں میں یوں مسرت لہراتی جیسے بڑھیا کو وہ اس پٹاخے تلے تڑپتے ہوئے دیکھ رہا ہو اور دیوار پر پٹاخہ یوں مارتا کہ ایلی محسوس کرتا۔ جیسے دیوار کی بجائے بڑھیا کے سینے پر پھینک رہا ہو۔

آصفی محلے کی زندگی محلے کی تنگ و تاریک گلیوں، کوٹھڑیوں اور نانک چندی اینٹوں کی رینگتی ہوئی اونچی دیواروں سے گھرے ہوئے احاطے میں مخصوص انداز سے دھڑکتی تھی۔

محلے کی بوڑھیاں صبح سویرے ہی بیدار ہو جاتیں اور کھڑکیوں میں چوکیوں پر گدھوں کی طرح آ بیٹھتیں۔ جوان لڑکیاں کوٹھڑیوں کی گھٹی گھٹی فضا میں تاریک دالانوں میں برتن مانجھنے آٹا گوندھنے اور سر کا پلو سنبھالنے میں شدت سے مصرف رہتیں۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 123

اس تاریک اور گھٹی گھٹی فضا کی وجہ سے ان کے رنگ زرد تھے۔ چہروں پر مردنی چھائی ہوئی تھی اور انداز سے بے حسی ٹپکتی تھی۔ اگر کبھی کبھار ان کے چہرے پر جوانی کی چمک لہراتی بھی تو وہ کونے کی طرف منہ موڑ کر اپنا آپ سنبھال لیتیں اور پھر آٹا گوندھنے میں یا برتن مانجھنے میں مصروف ہو جاتیں۔

آصفی محلے میں صرف چند ایک مخصوص قسم کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ محلے کی بوڑھیوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ محلے کی بوڑھیوں کی آوازیں ان کے چرخوں کی گھمر گھمر، تاریک دالانوں میں برتنوں کی کھنک، چوگان میں بچوں کا دبا دبا شور محلے کی مسجد سے تکبیریں مردوں کی کھنکھاریں اور دبے پاؤں چلنے کی آوازیں۔ بند ہوتے ہوئے نانک چندی دروازوں کی چراؤں ٹھک چمگادڑوں کی چیخیں جو شام کو چوگان پر منڈلایا کرتیں اور پھر ضیعفوں کے خراٹے۔

ان جملہ آوازوں میں صرف ایک آواز ایسی تھی جو محلے کی نفسیت سے مختلف تھی۔ وہ بالا کا گراموفون تھا۔ جو کبھی کبھار بالا کے آسیب زدہ کمرے میں گانے کی کوشش کیا کرتا تھا اگرچہ اس ماحول میں اس کی آواز گھٹ کر رہ جایا کرتی تھی۔

جب پہلی مرتبہ بالا کے گراموفون پر جانکی بائی الہ آبادی کے گیت کی آواز محلے میں سنائی دی تو محلے کے گدھیں جھپٹ کر کھڑکیوں میں آ گئیں۔
“میں پوچھتی ہوں یہ کون چلا رہا ہے۔“
“نہ جانے کہاں سے آواز آ رہی ہے۔“
“اے ہے یہ تو عورت ہے کوئی۔“
“لو چاچی وہ تو بالا نے لگایا ہے کوئی رکاٹ۔ اے ہے محلے میں باجے بجانا۔“
“توبہ ہے ماں آج تک تو یہ بات سننے میں آئی نہیں تھی۔“
“میں کہتی ہوں اس لڑکی کا دماغ چل گیا ہے۔“
“لڑکے کا کیوں بہن۔ قصور تو داڑھی والے کا ہے۔ جس نے اسے باجا خرید کے دیا۔“
اس روز محلے کی گدھیں در تک سر اٹھا کر پر پھڑپھڑاتی رہیں۔ لیکن بالا سے کچھ کہنا ممکن بھی ہوتا؟ بڑی سے بڑی جھاڑ جھپٹ سن کر بالا ہنس دینے کا عادی تھا۔

“ہی ہی ہی ہی۔ چاچی سنا تم نے یہ توؤں والا باجا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ اچھا ہے نا۔ پورے دو سو میں لیا ہے اور یہ ریکارڈ جانکی بائی الہ آباد والی کا ہے۔ بڑا اچھا گاتی ہے۔ ماں جی ہی ہی ہی۔
سنو تو ابھی اپنا نام بولے گی میں ہوں جانکی‘ بائی الہ آباد والی۔ ہاں۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 124

بالا کی بات پر بوڑھیوں کے ہونٹوں پر ہنسی آ جاتی۔ اے چھوڑ چاچی۔ اس لڑکے پر تو آسیب کا سایہ ہے ساری رات جنوں کی محفل لگی رہتی ہے اس کے تخت پر۔

“ہاں ماں اس کے بس کی بات بھی ہو۔ انگلیاں تو سونگھو اس کی پلاؤ کی خوشبو آتی ہے ہاں۔“
بالا کی جگہ اگر اور گراموفون خریدتا تو شاید اسے بجانے کی کبھی اجازت نہ ملتی۔ لیکن بالا کون روکتا۔ آسیب زدہ کو محلے میں خصوصی درجہ حاصل تھا۔

بیاہ


بالا کے گراموفون کے علاوہ کبھی کبھار بیاہ شادی کے موقعوں پر محلے کی فضا میں تبدیلی واقع ہوتی، لیکن اس میں بھی آوازوں کی نوعیت نہ بدلتی تھی۔ ڈھولک تو بجتی تھی اور ڈھولک کی ضرب میں جوان لڑکی کی مضطرب انگلیوں کی تڑپ بھی گونجتی لیکن گانے زیادہ تر بوڑھیاں ہی گاتیں اور ان کی دھنیں اس قسم کی ہقتیں۔ وہ گانے معلوم ہی نہ تھے۔ انہیں سن کر محسوس ہوتا جیسے بہت سی چمگادڑیں بھیانک آواز میں چیخ رہی ہوں۔ جیسے کسی کی موت پر کوئی بین کر رہا ہو۔ دھیمی آواز میں لمبے سر گونجتے اور محلے کی فضا کو اور بھی تاریک کر دیتے۔

اگر کوئی نوجوان لڑکی کوئی گیت گانے کی کوشش کرتی تو اس کی آواز اس قدر بیگانی سنائی دیتی تھی کہ وہ جلد ہی شرما کر یا گھبرا کر اس ناکام کوشش کو چھوڑ دیتی اور بوڑھیاں اپنہ عظمت کو از سر نو محسوس کر کے پھر سے کمبی اداس سروں میں رونے لگتیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود شادی کے موقع پر کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور وقوع پذیر ہوتی۔ نانک چندی دیواروں کی سیاہی گھل کر صاف ہو جاتی۔ کھڑکیوں میں سرخ دوپٹے لہراتے اور علی پور کا بینڈ باجا کچی حویلی میں نغمے بجاتا۔ اس روز محلے کے لڑکے بوڑھی گدھوں کے منحوس سائے کو اپنے سروں پر محسوس نہ کرتے۔ گیس کی روشنی میں لڑکوں کے ریشمیں رومال لہراتے۔ سیاہ بودے چمکتے۔ جیبوں سے پریم سندیس۔ کتابیں باہر نکل آتیں لڑکوں کی نگاہیں کھڑکیوں کے اردگرد ناکام منڈلاتیں لیکن یہ سب باتیں بیکار تھیں۔ کیونکہ محلے کی لڑکیوں کی مجال نہ تھی کہ وہ کھڑکیوں یا دروازوں میں آ کھڑی ہوں۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 125

لڑکے کچھ دینے لینے کچھ کہنے کے بہانے بیاہ والے گھر میں جا داخل ہوتے۔ تاریک ڈیوڑھیوں میں چھپ کر انتظار کرتے بھیڑ میں راستہ بنانے اندھیرے میں چٹکیاں بھرنے کی کوشش کرتے۔ اس افراتفری میں چوڑیاں کھنکتیں۔ مہندی والے ہاتھ کپڑوں میں لپٹ جاتے۔ جسم سمٹتے “ ہائے میں مر گئی۔“ کی نحیف آوازیں سنائی دیتیں “لین ان معمولی مگر دلچسپ باتوں کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا۔

بیاہ شادی کے موقع پر ایلی کے لئے گھر جانا مشکل ہو جاتا تھا۔ جب وہ اپنی اندھیری ڈیوڑھی میں پہنچتا تو ایک دھندلی سی شکل ڈیوڑھی کے کسی کونے سے نکل آتی۔ گھبرا کر وہ رک جاتا اور دھندلی شکل گھوم کر اس کا رستہ روک لیتی۔
“کون ہے؟“ وہ چلاتا۔
بھدی سی ہنسی سنائی دیتی۔ “ڈر گئے۔“ نذیراں کی آواز آتی اور وہ مڑ کر ڈیوڑھی سے باہر نکل جاتا اور ارجمند کو ڈھونڈ نکالتا۔

“ہیلو ایلی ہے۔“ ارجمند چلاتا “سراسر بے معنی ہے۔ ایلی۔ برات والے گھر جانا بے معنی ہے۔ بیکار ہے بالکل بیکار میں نے چٹکی بھری تو ظالم کہنے لگی۔ کہوں چاچی سے۔ ہاتھ جوڑ کر جان چھڑائی پھر مسکرانے سے بھی باز نہیں آتیں۔ اگر واقعی مکے سے حج کر کے آئی ہیں یہ لڑکیاں تو پھر دیکھ کر مسکراتی کیوں ہیں اور مسکراہٹ بھی خالص ڈسپنسری والی اور چٹکی بھرو تو چاچی سے کہہ دوں گی۔ لاحول ولا قوۃ۔ چلو کپ اور کیپ کی طرف چلیں۔ محلے سے بات بنتی ہے۔ آج بانسری پر ایک دھن سیکھ کر آیا ہوں۔ واہ کیا دھن ہے۔ بس سمجھ لو کچا دھاگا ہے جس سے سرکار بندھی آئے گی۔ آؤ سناؤں تمھیں۔“

نہ جانے کیوں ایلی نے نذیراں کی بات کبھی ارجمند سے نہ کی تھی۔ بلکہ وہ ڈرتا تھا کہ ارجمند کو نذیراں کی بات کا پتہ نہ چل جائے۔ تاکہ وہ رنگین انکراینڈی ماباؤں کا کھیل حقیقت کا روپ نہ دھارے ایلی کو ہلتی ہوئی چقوں سے دلچسپی تھی۔ مسکراتی ہوئی آنکھوں سے دلچسپی تھی۔ معنی خیز انداز سے حرکت کرتے ہاتھوں کو دیکھنے کا شوق تھا۔ لیکن عورت یا لڑکیوں کا قرب اس کے لئے سوہان روح تھا۔ اور نہ ڈر تھا کہ نذیراں کی بات سن کر ارجمند کی توجہ اس طرف منعطف ہو گئی تو وہ رنگینی ختم ہو جائے گی۔ اور نہ جانے کیا شروع ہو جائے۔ اس کے ذہن میں قرب کا مفہوم تاریکی تھا۔ پراسرار خوفناک تاریکی۔
 
Top