علی پور کا ایلی(756 - 787)

سندباد

لائبریرین
’’پاگل ہوجاتا ہے۔‘‘
’’کون‘‘۔
’’دیکھنے والا۔‘‘
وہ ہنسی ___ ‘‘ جھوٹ! کوئی نہیں ہوتا۔‘‘
’’جوبائی کے پاس آتے ہیں وہ نہیں آتے۔ جو شادی کے پاس آتے ہیں وہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’تم ہوگئے ہو۔‘‘ وہ ہنسی
’’ہوگیا ہوں‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ اور پھر اُٹھ بیٹھا۔
’’بیٹھو‘‘ وہ بولی۔
ایلی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’کیوں‘‘۔
’’زیادہ پاگل ہونے کا فائدہ؟‘’
وہ ہنسی۔ ’’تمہاری باتیں الٹی ہیں۔‘‘
’’الٹی نہیں سچی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تم سے کون سچیباتیں کرتا ہے یہاں کوئی نہیں۔‘‘
’’یہ سچ ہے‘‘ وہ بولی
’’سبھی سچ تھیں۔‘‘
’’اے ہے میں نے تمہاری توضع نہیں کی۔‘‘
’’لو‘‘ وہ بولا۔ ’’شادی سے ملادیا اس سے بڑھ کر اور کیا تواضع ہوسکتی ہے۔‘‘
’’وہ چل پڑا۔ اچھل کر شادی نے سلیپر پہن لئے اور ساتھ چل پڑی۔
’’ترا نام کیا ہے؟‘‘
’’ایلی‘‘۔
وہ ہنسی ’’کیا نام ہے۔ کوئی سمجھے تیلی ہو۔‘‘
’’ٹھیک سمجھے‘‘ وہ بولا۔ ’’میں تیلی ہوں تو عِطر ہے۔‘‘
’’شادی نے گویا اس کی بات نہ سنی۔
’’پھر آؤگے۔‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کون آنے دے گا۔‘‘
’’ریاست کے مہا راجہ کا پیغام لے آنا۔’’ وہ ہنسی۔
’’اچھا مہا رانی‘‘ ایلی نے جھک کر سلام کیا۔
جب وہ نیچے کٹٹرے میں اترا تو لوگ اوپر کی طرف دیکھ رہے تھے اس نے اوپر دیکھا جنگلے میں شادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ دہلیز پر سائیں کے کھلے ہونٹوں سے لعاب ٹپک رہا تھا۔
 

سندباد

لائبریرین
تاریک عزم
کٹٹرہ رنگین میں سے گزرتے ہوئے ایلی غور سے ہر بائی کی طرف دیکھ رہا تھا جو چو بارے کے جنگلوں چھت کی شہ نشینوں ،اور جدید طرز کے مکانات کی بالکونیوں میںبیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے بنے سنورے خدوخال اور سنگار کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا ہر بائی میں اسے شادی دکھائی دے رہی تھی۔ دبکی ہوئی چھپی ہوئی عورت محروم دکھی عورت جس قدربائی اپنی نمائش کرتی اسی قدر وہ دبکی رہتی ہے جس قدربنی سنوری دکھائی دیتی ہے اسی قدر پریشان حال ہوتی ہے وہ سوچ رہا تھا۔
کٹٹرے سے نکل کر دفعتاً اسے خیال آ یا اب مجھے کیا کرنا ہے ۔ وہ چونک پڑا۔سوچنے لگا۔ آ خر میں یہاں آ یاہی کیوں تھا۔۔۔ویسے ہی سیر کے لیے۔کیاشادی سے ملنے۔۔۔یہ کیسے ہوسکتاہے ۔مجھے توشادی کا علم بھی نہ تھا۔ پھر۔۔۔اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس نے اپنا قدم اور تیز کردیا۔
’’ارے رے رے ‘‘ایک راہ گیر اس کی طرف جھپٹا اس نے ایلی کو بازووں میں تھام لیا۔ ًارے بابو کیا بدرو میں گروگے ۔‘‘
’’اس وقت وہ بدرو کے عین کنارے پر کھڑا تھا۔
ً ’’بدرومیں گروگے ! بدرومیں گروگے!! چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔
’’غلاظت میں لت پت ہونے کاشوق ہے کیا۔‘‘ کوئی ہنسا۔
’’کنویں میں گروگے ۔‘‘ کوئی چلائی۔
’’آجا ؤآ جاؤ۔ میں یہاں ہوں ‘‘ آ رام باغ کے ایک چوبارے سے ایک بد شکل کسبی نے کھڑکی سے سر نکال کر اُسے آ وازدی۔
’’ہی ہی ہی ہی ۔‘‘ چیچک کے داغوں بھر اہوس سے پھولا ہوا چہرا س کے روبرو آگیا۔‘‘ یہ کیالت پت ہوگا، لت پت ہونا تومردوںکاکام ہے ۔‘‘
’’آجاؤ آجاؤ۔ اس کی بات نہ سنو ۔‘‘ ایک نے کہا۔
چاروں طرف سے آوازیں آ رہی تھیں آرام باغ چوباروں میں بیٹھی ہر کسبی اس کی طرف دیکھ کر مسکرارہی تھی۔
وہ رک گیا۔اور مردانہ شان سے دانت بھینج کربولا۔
’’ ہاں میں لت پت ہوں گا۔کیوںمیری مرضی۔۔۔مجھے کون روک سکتا ہے ۔ اگر پاکیزگی کی طرف جانے کے لیے روکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں تومیں کنوئیں میںکودوںگا۔ لت پت ہوں گا۔ لت پت ہوںگا۔ لت پت ہوں گا۔‘‘ وہ اعلانیہ کسبیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
 

سندباد

لائبریرین
’’کیا کہا بابو۔‘‘ ایک مزدور رک گیا۔’’ کیا ہوگے تم۔‘‘
’’ میں ’’ایلی چونکا۔
’’کہہ جورہے ہو کچھ‘‘مزدور بولا میں سمجھا شاید مجھ سے کہہ رہے تھے۔‘‘
’’تم سے نہیں کہہ رہا ‘‘ ایلی نے جواب دیا۔ اور وہ دونوں کھڑے ہوکر سامنے کی کھڑکی میں کھڑی پٹھانی کی طرف دیکھنے لگے۔
’’دیکھ بابو ‘‘مزدور قریب تر ہوگیا۔’’ یہ جو پٹھانی ہے نایہ سامنے چوبارے والی ہے توپٹاخہ وہ طریقے آ تے ہیں کہ بس سمجھ لو آنکھیں روشن ہو جائیں پر اسے بیماری ہے۔‘‘
’’بیماری‘‘ایلی نے حیرت سے دہرایا۔
مزدورنے آنکھ ماری’’وہی بیماری‘‘وہ بولا’’جوہواکرتی ہے ۔‘‘
کچھ دیر توایلی گھور گھور کر اعلانیہ کسبیوں کو جانچتارہا۔ پھر دفعتاً اسے شرم محسوس ہونے لگی۔
کسبیوں کی باتیں بھدی اور ننگی تھیں اور وہ محسوس کر رہا تھاجیسے چوکیوں پر خالی جسم کے ڈھیر لگے تھے پلپلاتے جسم جونکیں۔ بڑی بڑی جونکیں۔اس کاوہ مردانہ عزم ختم ہوگیانگاہیں ج٘ھک گئیں۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔پھر جواس نے دیکھا تووہ آرام باغ سے دور نکل آیا تھا۔
پھر دفعتاً ایک عظیم شور سنائی دیا۔ دور دورپیچھے بہت پیچھے وہ چیخ رہی تھیں چلّا رہی تھیں۔
’’دیکھا نابھاگ گیا۔‘‘
’’ہاتھ پلے کچھ ہوتا تو___!!‘‘
’’یہ مرد کاکام ہے ___!!‘‘
’’بند کمرے ہی میں جائے گا ___ ‘‘
گبھراکر ایلی پل پر بیٹھ گیا۔ لوگ آجارہے تھے۔ہر کوئی اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہاتھا۔ ہم جانتے ہیں کی سی مسکراہٹ، کوئی بات نہیں کی سی ہنسی ۔ بیچاراکہتی ہوئی نگاہیں۔ اس نے محسوس کیا جیسے آرام باغ والیوں نے انہیں سب کچھ بتا دیا ہو۔سب کچھ۔
 

سندباد

لائبریرین
مظلوم حبشی
کئی ایک بار وہ آرام باغ میں اِدھر سے اُدھرتک اوراُدھر سے اِدھر تک آیا گیا۔ کئی مرتبہ اس نے شدیدکوشش کی کہ کسی چوبارے کے زینے پر چڑھا جائے لیکن عین قریب پہنچ کر نہ جانے کیا ہوجاتا۔ وہ محسوس کرتا جیسے سبھی اس کی طرف دیکھ رہے ہوں دوکان دار راہ گیر۔ تماش بین اور کسبیاں۔ یہ محسوس کرکے وہ گھر آجاتااور آگے چلنا شروع کردیتا۔
اس نے کئی مرتبہ ان میں سے ایک کا چنا ؤ کیا۔کئی مرتبہ ’’ اچھا یہ ٹھیک ہے یہ والی واپسی پر آؤںگا تو سیدھا اوپرچڑھ جاؤںگا‘‘ لیکن جب وہ واپس آتا تووقت پر زینہ پہچان نہ پاتا اور پھر آگے نکل جاتا اور پھرجب وہ آگے نکل جاتا تواسے خیال آتا ’’نہیں یہ تواچھی نہیں۔ اس کی نگاہیں توبے باک ہیں ننگی نگا ہیں، دیکھو تو کیسے چھاتیاں ہلاکر آگے کو بڑھاتی ہیں ۔لاحول ولا قوۃ۔‘‘
ایلی تھک کر چورہوگیا۔ لیکن ابھی تک وہ آرام باغ میں گھوم رہاتھا۔ دوکانیں بند ہوچکی تھیں۔ پنواڑیوں کے گرد ہجوم اکٹھا ہورہا تھالوگ اوپر دیکھ رہے تھے اشارے کررہے تھے انگلیوں سے دام چکا رہے تھے کسبیاں مسکرارہی تھیں بآ واز بلند گالیاں دے رہی تھیں۔
ایلی کے دل میں نفرت کاایک طوفان پیدا ہوچکا تھا۔ ساڑھے گیارہ بج چکے تھے کسی چوبارے پر چڑھنے کا سوچ ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چونکہ پنواڑی کی دوکان پر کھڑے تماش بینوں سے آنکھ بچا کر اوپر چڑھنا تقریباً ناممکن تھا۔وہ سب ایک دوسرے پر آ وازے کس رہے تھے پھبتیاں اڑارہے تھے۔ اس کے باوجود ایلی وہیں ایک تاریک کونے میں کھڑا تھا۔ وہ اس گھات میں تھاکہ کب کوئی دروازہ دکھائی دے جو لوگوں کی نگاہوں سے دور ہو اوٹ میں ہو اور وہ آ نکھیں بند کر کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر سیڑھیاں چڑھ جائے اسکا عزم اور بھی مضبوط ہوا جارہا تھا اس عزم کی وجہ حصول لذت نہ تھی ۔وہ خواہش کی شدت سے بیقرار نہ تھا۔ بلکہ ان حالات میں لذت اور عیش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس وقت ایلی خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کے جنگل میں بری طرح پھنسا تھا ان کسبیوں کی طر ف دیکھ دیکھ کر اس نے نفرت سے کئی بار جھر جھری لی تھی اور اب وہ نفرت اسقدر ہوچکی تھی کہ اسے کوڑے ماررہی تھی۔ اور مظلوم حبشی کی طرح کوڑے کھاکر وہ خود کو مشتعل کئے جارہا تھا۔
وہ کسبیاں درحقیقت اس وقت ایلی کی نگاہ میں وہ رنڈیاں نہ تھیں بلکہ اس کورٹ کی تھیں بلکہ اس ہائی کورٹ کی جج تھیں جہاں وہ آخری اپیل پیش کرنے جارہا تھا۔
 

سندباد

لائبریرین
’’مجھ میں لت پت ہونے کی ہمت ہے ۔‘‘
اس وقت وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے میں نے دار وپی رکھی ہو۔ اس کا سر گھوم رہاتھا۔ اس کی نگاہوں میں ستارے ٹکرارہے تھے غلیظ جسموں سے گندگی کی بوچھاڑیں اڑرہی تھیں کٹے ہو ئے سر ڈھیر ہوئے جارہے تھے خون ۔بہتا ہوا خون۔ بازوا ٹھے ہوئے تھے۔ ہاتھ ٹٹول رہے تھے۔ ہتھنیوں کی سونڈیں اس کی طرف بڑھ رہی تھیں تاکہ اُسے گرفت میں لے لیں۔
پھر دفعتاً ایک چیخ سی سنا ئی دی کسی کٹے ہوئے دھڑکی چیخ ۔تمام فضاسرخ ہوگئی۔ وہ کونے سے یوں باہر نکل آیا جیسے اُسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو جیسے کسی کے دیکھنے یاد نہ دیکھنے سے کوئی فرق نہ پڑ تاہو۔زینہ چڑھتے ہوئے اس نے نیچے شور وغل کی آواز سنی۔ وہ رک گیا اور اس نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اورنعرہ لگایا۔ ’’ لت پت زندہ باد ‘‘۔
ایلی کی نگاہ اوپر کی طرف اٹھی اوپر دروازے پر بھدا بد نما چہرہ اس کی طرف گھوررہاتھا چاروں طرف سے چیچک کے داغوں کی بوچھاڑ پڑ رہی تھی۔
پھر وہ بدنما بھدابد نما چہرہ پھیلنے لگا۔ گویا چیچک کے داغوں کا بھرا تھال کسی نے انڈ یل دیا ہو پسینے اور گوشت کی مکر وہ بو۔ سرکٹ کر نہ جانے کہا ں گرگیا لاش۔ ٹھنڈے گوشت کی عظیم بد نمالاش۔
مظلوم حبشی نے کوڑوں کی ایک بوچھاڑ محسوس کی___بوکا ایک ریلا آیا۔ جوش اور غصے میں اس نے آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگادی ۔ تعفن کی وجہ سے اس کاسر پھٹا جارہاتھا۔ چھینٹے اُڑ رہے تھے۔ اور پھر ایک___
زن___
اور پھروہ ننگے فقیر کی طرح کیچڑ میں لت پت تھا۔ شرم سے اس کی گردن لٹک گئی تھی۔ اسے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔
گوشت کا بدنما سمندر لپٹ رہاتھا ایک کر یہہ منظر چہرہ ابھر رہا تھا۔ بدنما دانت۔ رینگتی ہوئی منحوس آ نکھیں۔
پھر کوئی اسے تسلی دے رہا تھا۔’’ اپنا گھر ہو اپنی عورت ہو۔ اپنی بوتل ہو اپنا گلاس ہو۔ یہ چیز چسکیاں بھرنے کی ہے۔ غٹا غٹ کی نہیں۔‘‘
’’یہ محبت کاکھیل ہے ۔ سودے کا نہیں۔ محبت کا۔‘‘
’’پہلے پہل ایسا ہوتاہے۔ پھر ٹھیک ہو جاتا ہے۔‘‘
ایلی کو اپنے آپ سے بو آ رہی تھی ۔ اس کمرے سے وحشت ہو رہی تھی۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ سر اٹھا کر دیکھتا کہ کون اسے تسلیاں دے رہا ہے ۔ اس کی باتیں سننے کی اسے فرصت نہ تھی جسپکیاں بھر نا ۔ٹیک ٹیک کر چلنا یہ سب اس کے لئے بے معنی تھا۔ ایلی یوں محسوس کر رہاتھا جیسے گندم کادانہ کھانے کے بعد وہ ننگاہو۔ احساس گناہ اور احساس پستی چاروں طرف سے یورش کر رہے تھے۔
 
Top