علی پور کا ایلی(756 - 787)

ماوراء

محفلین
رنگین شخصیت، ان کے انوکھے انداز اور پرکیف انداز گفتگو سے محفوظ نہیں ہوتا تھا۔ وہ انہیں بیٹے کی حیثیت سے دیکھتا اور اپنے مقاصد کے زاویے سے ان کی باتوں پر غور کرتا اس لیے یہ تمام رنگینی اس کی نگاہ میں دنیاداری مکر فریب چالاکی کے مترادف نظر آتی۔ اسے ان کی ہر بات پر غصہ آتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ بات کی لڑائی ہو جاتی تھی۔

مظفر آباد میں ایلی نے مسلسل طور پر کوشش کی کہ جھگڑا نہ ہو اس لیے وہ بڑے صبرو تحمل سے کام لیتا رہا۔ علی احمد ایلی کی اس خصوصیت سے واقف تھے اور اکثر جان بوجھ کر ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ جنہیں سن کر وہ اکتا جائے اور جھگڑ کر اٹھ بیٹھے تاکہ انہیں بات سے مخلصی حاصل ہو جائے لیکن ایسے حالات علی احمد ایسے وقت پیدا کرتے تھے جب انہیں بات کی نوعیت کا علم ہوتا۔ اور بات کے متعلق کچھ کرنے کا ان کا اپنا ارادہ نہ ہوتا اس طرح بات کے ٹوٹنے کی تمام تر ذمہ داری ایلی پر عائد ہو جاتی اور علی احمد پر کوئی حرف نہ آتا۔

ان دنوں مظفر آباد میں بھی وہ اسی بات سے ڈرتا تھا اسی وجہ سے اس نے ہاجرہ کو باربار تاکید کی تھی کہ راجو یا شمیم سے بات نہ کرے کیونکہ اکثر مرتبہ ایسے حالات میں وہ راجو اور شمیم کو کہا کرتے بھئی کیا معاملہ ہے کچھ پتہ تو لگاؤ یہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور بات کی نوعیت سمجھ کر وہ یوں ظاہر کرتے جیسے انہیں کچھ علم ہی نہ ہو اور پھر معاملے کی نوعیت کے مطابق عمل کرتے۔ بہر حال نویں روز بصد مشکل بات شروع ہوئی۔


حق و انصاف

“ہوں۔“ علی احمد بولے “تو ایلی شادی کرنا چاہتا ہے۔ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔ بی اے کر چکا ہے۔ دال روٹی کما سکتا ہے۔ لٰہذا ضرور کرنی چاہیے اسے شادی۔ اور ایلی کی ماں سنا تھا تم نے تو ایلی کی منگنی کر رکھی تھی۔ وہ کیا ہوئی۔ بھئی ہم نے تو سنا تھا۔ شاید غلط ہو لیکن سنا ضرور تھا۔ اچھا تو کیا سچ تھا۔“ انہوں نے ہاجرہ کے اثبات میں سر ہلانے کے بعد کہا۔ “بہر صورت بہت اچھا کیا تھا تم نے۔ اور اگر تم اب شادی کرنا چاہتی ہو ایلی کی تو ضرور کرو۔ فوراً کر دو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھئی جیسے میرا بیٹا ہے ویسے ہی تمھارا ہے میں شادی کروں یا تم کرو بات کرے یا ماں کرے کیا فرق پڑتا ہے۔ تو اتنی سی بات کے لیے تم دونوں اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہو کیا۔ میں سمجھا نہ جانے کیا ہوا ہے۔ آسمان ٹوٹ پڑا ہے یا زمین ڈوب گئی ہے حد ہو گئی۔ ہی ہی ہی ہی کیوں راجو۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ: 757

“نہیں نہیں۔“ ہاجرہ بولی “ایلی وہاں شادی کرنا نہیں چاہتا“۔
“وہاں نہیں کرنا چاہتا۔ کیوں؟“ کچھ دیر تک وہ ایلی کی طرف دیکھتے رہے پھر خود بولے۔ خیر خیر خیر یہ تو اپنی طبیعت کی بات ہے لیکن اس سے نہیں تو کسی اور سے سہی محلے میں اتنی ساری لڑکیاں ہیں آخر ان کا کرنا کیا ہے اچار ڈالنا ہے کیا۔ وقت پر کام نہ آئیں تو فائدہ کیا ہوا ہی ہی ہی ہی کیوں راجو۔ ہے نا ٹھیک بات۔“
“آپ مجھے کیوں درمیان میں گھسیٹ لیتے ہیں۔“ راجو غصے میں بولی۔
“لو“ وہ مسکرائے۔ “خواہ مخواہ بگڑ رہی ہے بھئی تو میری بیوی جو ہوئی۔“
“وہ بھی تو بیوی ہی ہے نا۔“ راجو نے شمیم کی طرف اشارہ کیا۔
“ ہاں ہاں بالکل ہے بے شک وہ بھی بیوی ہے۔ لیکن درمیان میں گھسیٹنے والی نہیں وہ صرف تم ہو ہی ہی ہی ہی۔ وہ ہنسے۔
راجو کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
“ہاں بھئی تو میں کہہ رہا تھا ایلی کی ماں اتنی لڑکیاں جو پڑی ہیں محلے میں کسی ایک کو پکڑ لو اور یہ کار خیر سر انجام سے دو اللہ اللہ خیر بھلا ہمیں بھی اطلاع کر دینا۔ ایسا نہ کرنا جیسے منگنی پر کیا تھا ہمیں خبر ہی نہ بھیجی۔ اور ہمیں اطلاع کرو گی ایلی کی ماں تو اگر چھٹی تو انشاءاللہ ضرور پہنچوں گا اور ان دونوں کو تو چاہے آج ہی لے جاؤ“ انہوں نے راجو اور شمیم کی طرف اشارہ کیا۔

“اے ہے۔“ راجو بولی۔ “محلے میں کونسی لڑکی ہے کام کی۔“
“لو“ علی احمد بولے۔ “یہ سمجھتی ہے بس یہی ایک کام کی تھی اور اس کے چلے آنے کے بعد دولت پور میں کوئی کام کی لڑکی باقی نہیں رہی۔“
“آپ میری بات نہ کیا کریں۔“ راجو غصے میں بولی۔
“اچھا“ علی احمد بولے۔ “سوچ لو۔ شمیم بھی یہی کہا کرتی تھی۔ اور میں نے شمیم کی بات مان لی تو اب خود ہی ناراض بیٹھی ہے۔ کہتی ہے مجھ سے بات نہیں کرتے۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 758

“بس میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکے کوئی۔“ شمیم بولی۔
“اے ہے آپ خواہ مخواہ دوسری بات چھیڑ بیٹھے۔“ راجو نے کہا “یہ ایلی کی بات تو ختم کرو۔ میں کہتی ہوں محلے میں کوئی کام کی لڑکی ہو بھی۔“

“اوہو۔“ علی احمد بولے۔ “بابا سب کام کی ہوتیں ہیں۔ چاہے ناک اونچی ہو یا بیٹھی ہوئی رنگ گندمی ہو یا سانولا۔ آنکھ موٹی ہو یا چھوٹی۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔“

“ہوں فرق نہیں پڑتا۔“ شمیم چلائی۔ “فرق نہیں پڑتا تو خود اتنی شادیاں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔“
“ہائیں۔“ وہ ایک ساعت کے لیے رکے۔ پھر ہنسنے لگے “بھئی اتنی شادیاں نہ کرتا تو اس نکتہ کا پتہ کیسے چلتا۔ اتنی شادیاں کرنے کے بعد تو یہ تجربہ ہوا۔ ہی ہی ہی ہی۔ ایلی کو تو اس بات کا تجربہ نہیں جبھی اسے بتا رہا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔“

“لیکن۔“ ہاجرہ بولی “ایلی محلے میں کسی سے شادی کرنا نہیں چاہتا۔“
“ہائیں۔“ دفعتاً علی احمد خاموش ہو گئے۔ “محلے میں نہیں کرے گا تو باہر اسے کون لڑکی دے گا۔“
“کیوں اسے کیا ہے۔“ راجو بولی۔
“بھئی آخر باہر والے کسی بات پر لڑکی دیتے ہیں۔ یا دولت ہو یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر خیر۔ نہ یہاں دولت ہے نہ عہدہ۔“
“وہ تو دینے کو تیار ہیں۔“ ہاجرہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
“وہ۔۔۔۔۔۔۔“علی احمد بولے “کون ہیں وہ؟“
“بڑے اونچے کھاتے پیتے ہیں باعزت خاندان سے ہیں۔ باپ ریاست میں وزیر ہے بھائی بڑے عہدوں پر فایز ہیں لڑکی کو ہم دیکھ آئے ہیں۔ بڑے اچھے لوگ ہیں۔“
“اوہ۔۔۔۔۔۔“علی احمد بھونچکے رہ گئے۔
“بس آپ کی رضامندی اور صرف آشیرباد کی ضرورت ہے۔“ ایلی بولا۔
“ہوں۔۔۔۔۔۔“علی احمد دفعتاً سنجیدہ ہو گئے۔ “تو یہ بات ہے۔“
“آپ کے شامل ہوئے بغیر۔۔۔۔۔“ ایلی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 759

“دیکھو نا ایلی کی ماں“ علی احمد نہایت سنجیدگی سے بولے۔ “ایلی کی شادی کا براہ راست دو پارٹیوں سے تعلق ہے۔ ایک تو ایلی خود ہے جس نے شادی کرنی ہے اور دوسرے ہم سب تم ایلی کی ماں۔ راجو شمیم اور میں جنہوں نے لڑکی کے ساتھ رہنا ہے تو ایلی کی شادی دونوں پارٹیوں کے باہمی مشورے سے ہونی چاہیے۔“
“ٹھیک ہے۔“ ہاجرہ نے کہا۔
“کیوں راجو یہ بات حق و انصاف کی ہے یا نہیں۔“
“ہاں ہے تو مناسب“ راجو نے جواب دیا۔
“تو اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے۔“ علی احمد نے کہا “یا تو ہم لڑکی کا چاؤ کریں اور ایلی اسے پسند کرے اور یا یہ کہ ایلی چناؤ کرے اور ہم اسے پسند کریں۔ کیوں راجہ۔ ہے نا حق و انصاف کی بات۔“
“اور اگر آپ چناؤ ہی نہ کریں تو ۔۔۔۔۔“ راجو بولی۔
“بھئی ہمیں موقع دو نا۔ آج بات کی ہے ایلی کی ماں نے۔ ہمیں چھ مہینے کی مہلت دی جائے چھ مہینے میں ہم لڑکی کا چناؤ کریں گے۔ اسے آزمائیں گے۔“
“اور اگر وہ ایلی کو پسند نہ آئی تو۔“ شمیم نے کہا۔
“تو پھر موقعہ دیا جائے تاکہ کوئی اور پسند کریں۔ انصاف کی بات ہے نا۔“
“بس آپ پسند کرتے رہیں۔۔۔۔۔حتٰی کہ ایلی بوڑھا ہو جائے۔“ راجو بولی۔ “اچھا تو ایک اور صورت ہے۔“ علی احمد بولے “ایلی ہمیں چار پانچ لڑکیوں کے نام دے دے جن سے وہ شادی کرنے کے لیے تیار ہے ان میں سے ہم ایک چن لیں گے۔“
ایلی ہنسنے لگا چار پانچ نام “۔۔۔۔۔۔۔وہ بولا “ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔“
“اچھی لڑکی تو بڑی مشکل سے ملتی ہے۔“ راجو بولی۔
“یہ ایک لڑکی ہے جو بڑی مشکل سے تلاش کی ہے۔“ ہاجرہ نے کہا۔ “ایسی لڑکی کہاں ملتی ہے آجکل۔“
علی احمد خاموش ہو گئے۔
“اب جواب کیوں نہیں دیتے۔“ راجو نے کہا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ: 760 - 761

“ہاں“ ہاجرہ بولی “وہ رشتہ جو ہم نے چنا ہے۔“
“یہ رشتہ ۔۔۔۔۔۔“ علی احمد رک گئے۔“
“ہاں ہاں یہ رشتہ“ ہاجرہ نے دہرایا۔
“اس سے اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔“ راجو بولی۔
“جو جو کچھ بتایا ہے ایلی کی ماں نے اس کے مطابق تو بڑا اچھا رشتہ ہے۔“ شمیم نے کہا۔
“بات کیجئے نا“ راجو علی احمد کو خاموش دیکھ کر غصے میں چیخنے لگی۔
“یہ رشرہ مجھے پسند نہیں“ علی احمد نے کیا۔
ایلی کا دل ڈوب گیا۔
“لیکن وجہ؟“ ہاجرہ غصے میں بولی۔
“وہ بہت اونچے لوگ ہیں۔“ علی احمد نے سنجیدگی سے کہا۔
“یہ تو الٹا اچھا ہے۔“ راجو دب زبان سے بولی۔
“میں بہت چھوٹا شخص ہوں۔“ علی احمد کہنے لگے “اور میں اعلٰی اور اونچے خاندانوں سے رشتہ نہیں کروں گا۔ میں تو اپنے بچوں کا وہاں رشتہ کروں گا جہاں میری ایک حیثیت ہو جہاں میری بات کو اہم سمجھا جائے جہاں میری عزت ہو۔ جہاں۔۔۔۔۔“
“اے ہے وہ تو بڑی عزت کرنے والے لوگ ہیں۔“ ہاجرہ بولی۔
“نہیں یہاں نہیں ہو گا۔“ علی احمد نے کہا۔ “اگر میری رضا مندی کوئی حیثیت رکھتی ہے تو یہاں نہیں ہو گا۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ بیٹھے اور اپنی ڈسک پر بیٹھ کر حساب کے رجسٹر میں لکھنے میں مصروف ہوگئے۔
مظفر آباد سے واپسی پر ایلی کے سامنے چاروں طرف پانی ہی پانی کھڑا تھا اور پانی کے اس پھیلاؤ میں گاڑی ہونک رہی تھی وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ پھیلا ہوا پانی علی احمد کا انکار تھا۔ انکار ہی انکار اور اس پر چاروں طرف اداس آسمان میحط و مسلط۔
گاڑی کراہ رہی تھی۔ ہوا شائیں شائیں کر رہی تھی۔ ہاجرہ گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھی تھی۔ ایلی کھڑکی سے باہر ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔
“دور دور“ سادی یہ کہتے ہوئے بھاگی جا رہی تھی۔ “نہیں میں وعدہ کر چکی ہوں اس معاملے میں میں مجبور ہوں۔ میں مجبور ہوں میں مجبور ہوں۔“۔۔۔۔۔۔۔

چاروں طرف ٹھہرا ہوا پانی ابھر رہا تھا۔ پانی ہی پانی ہی پانی ہی پانی۔ آسمان پانی میں گر کر ڈوب چکا تھا۔کہیں کہیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے دکھائی دے رہے تھے۔

دفعتاً باہر کوئی چیخنے لگا۔ “گاڑی آگے نہیں جائے گی۔ گاڑی آگے نہیں جائے گی۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 762

چھ لڑکیاں​


علی پور علی پور۔۔۔۔۔۔۔ اس کے کان میں آوازیں پڑیں۔
ایلی چونکا۔۔۔۔۔۔۔گاڑی ایک دھچکے سے رک گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ نام مانوس سا ہو۔ جیسے وہاں اسے کچھ کرنا ہو۔ اس نے سامنے دیکھا ہاجرہ سوٹ کیس اٹھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ وہ سامان اٹھانے لگا باہر پلیٹ فارم پر دھندلکے کا ایک پھیلاؤ تھا۔ اس پھیلاؤ میں گویا لوگ تیر رہے تھے۔ وردی والا بابو ہاتھ میں جھنڈی اٹھائے گھور رہا تھا۔ سر پر بسترے اٹھائے وہ ایک سرخ پوش بہاؤ کو چیرتے ہوئے جا رہے تھے۔

دفعتاً ایک چہرہ ان کی طرف بڑھا۔ قریب اور قریب اس چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
“تم ہو بہن۔“ چچا عماد کہہ رہا تھا۔ “تم کہاں گئے ہوئے تھے۔ محلے میں تمھاری ڈھونڈ مچی ہوئی تھی۔ ہر جگہ پوچھ گچھ ہو رہی تھی۔ جلدی پہنچو جلدی ورنہ وہ چلے گئے تو پھر کیا فائدہ میں ذرا موجو والی جا رہا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک ڈبکی لگائی اور دھندلکے میں گم ہو گیا۔
ڈھونڈ مچی ہے۔ ہاجری بڑبڑانے لگی۔ ڈھونڈ کیوں مچی ہے۔ کیوں مچی ہے ڈھونڈ مچی ہے۔ ڈھونڈ مچی ہے۔۔۔۔۔۔۔ یکے کے پہیے چیخ رہے تھے۔

جب وہ بازار میں پہنچے تو دور سے حکیم نے انہیں دیکھا اور پھر اشارہ کرنے لگا۔ بہت سے لوگ جھک جھک کر مڑ مڑ کر ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دودھ والے کی دوکان پر لوگ ان کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 763

ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ راجہ پورس ہو۔ اور منہ میں گھاس لئے سکندر کر روبرو اعتراف شکست کرنے جا رہا ہو۔ “مجھ سے ایسا سلوک کرو جیسا بادشاہ شکست خوردہ غلاموں سے کرتے ہیں۔“

وہ محسوس کر رہا تھا کہ ان سب کو اس کی شکست کا علم تھا۔ وہ اس کے منہ کے گھاس کو دیکھ رہے تھے۔ وہ اس کی شکست پر خوش تھے۔ لیکن وہ سکندر کون تھا جس کے روبرو پیش ہونے ایلی جا رہا تھا۔ نہ جانے کون تھا۔ بہرحال وہ سکندر تھا وہ فاتح تھا وہ اس کا منتظر تھا۔
چوگان میں انہیں ماں دیکھ کر رک گئی اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔
“ہے تم ہاجرہ۔“ وہ چلائی “ جوجی کی ماں لو یہ آ گئے۔“
“کون آ گئے۔“ ایک کھڑکی سے سر نکال کر بولی۔
“کیا کہا ماں“ دوسری چلائی۔
“ہے ہاجرہ تم ہو کیا۔“
“اب کیا ماں بیٹا نیا گل کھلا کر آئے ہیں۔“
“میں کہتی ہوں بہن پرانے بندھنوں کا بھی خیال کر لیا کرو۔ کب تک آگے دوڑ اور پچھلے چوڑ پر عمل کرو گی۔“
“تو تو ہاجرہ لڑکے کے پیچھے دیوانی ہو گئی۔“

ہاجرہ حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ان کی تعداد ہر ساعت بڑھتی جا رہی تھی کوئی گلی سے نکل کر رک جاتی کوئی کھڑکی سے سر نکالتی۔ کوئی چھت سے جھانکتی چند ساعت تو ایلی کھڑا حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا پھر وہ بھاگا اندھا دھند بھاگا۔ اس نے محسوس کیا جیسے قبرستان میں ڈائنوں نے اسے گھیر لیا ہو۔
“ہئے تم“ رابعہ نے ایلی کو دیکھ کر سینہ تھام لیا۔ اس کی آنکھیں اہل آئیں اور وہ حیرت سے بت بنی دیکھتی رہی۔
ایلی ڈر گیا۔۔۔۔۔۔نہ جانے کیا بات۔
“لوتم آگئے“ ۔۔۔۔۔۔۔ جانو اسے دیکھ کر ٹھٹھکی اور اس نے چیخ سی ماری شہزاد کے ہاتھ سے پیالی گر پڑی اور فرش پر ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اس کے قریب ہی صفدر کھڑا حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 764

چند قدم پرے بیگم اسے گھور رہی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے مر جانے کے بعد وہ بدروح کی شکل میں واپس آیا ہو اور وہ سب ڈر اور حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہوں۔

دیر تک بات کئے بغیر وہ اس کی طرف دیکھتے رہے اتنی دیر میں ہاجرہ بھی آ پہنچی۔ سب سے پہلے رابعہ بولی۔ “ہے ایک گھنٹہ پہلے آ جاتے تو۔۔۔۔۔“
“اتنے دن تمھاری ڈھونڈ پڑی رہی۔“
“انتظار میں راہ تکتے رہے۔“
“ہے کتنا ظلم کیا تم نے۔“
“اتنی دیر لگا دی تم نے۔“
“آخر ملتان میں کیوں رکے رہے۔“
وہ سب باری باری بول رہے تھے۔ ایلی کو ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ نہ جانے وہ کس بات پر اظہار افسوس کرر ہے تھے۔

پھر رابعہ نے طلسم توڑا۔“ ہے اتنی پیاری ہے وہ کہ کیا بتاؤں۔ اتنی رونق لگا رکھی تھی اس نے وہ تو یوں گھل مل گئی جیسے ہم میں سے ہو اتنی اچھی طبیعت مزاج نہیں بو نہیں خوش طبیعت۔ ہنس مکھ۔ تم تو اتنے خوش قسمت ہو‘ وہ ایلی کی طرف دیکھ کر بولی۔
“یہ تو سکندر کا نصیب لے کر آیا ہے۔“ شہزاد بولی۔
“ہے اب جلدی کرو جلدی، نیک کام میں دیر نہ کرو۔“
“لو وہ اپنے منہ سے کہتی تھی۔ کہتی تھی میں تو تمھاری ہو گئی اب تم بنا لو بات بنے۔“
ایلی نے غور سے بیگم کی طرف دیکھا۔
“ادھر کیا دیکھتا ہے“ شہزاد بولی۔ اماں اور کیا کہے گی۔“ وہ ہنسی۔
“اور بہن اتنی خوب صورت اور پھر اتنی اچھی۔“
“یہ تو ساری مر مٹی میں اس پر“ شہزاد ہنسی۔
“کوئی ایسی بات کرو جو میرے پلے بھی پڑے۔“ ہاجرہ بولی۔ “وہ کس کی بات کر رہی ہو۔“
“اے وہ آئے تھے۔“ جانو نے کہا۔
“کون آئے تھے۔؟“
“آئے ہے وہی لاہور والے کیا نام ہے اس لڑکی کا۔“
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 765

“اے سادی اور کون۔“ رابعہ بولی۔
“سادی - - - - - -“ ایلی کا دل ڈوب گیا۔
“سادی“ ہاجرہ نے زیرلب کہا۔ “کہاں آئے تھے۔“
“یہاں یہاں علی پور میں۔ شہزاد کے گھر پورے دو دن رہے۔“ رابعہ چلائی۔
“تمھارا انتظار کرتے رہے۔“ جانو بولی۔
“وہ اس کی بہن اور اس کی خالہ۔ تینوں۔“
“یہاں آئے تھے؟ ہاجرہ نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں ہاں یہاں یہاں یہاں دو دن یہاں رہے وہ۔ اتنی پیاری ہے وہ سادی اتنی رنگین اور اس قدر پیار کرنے والی اور پھر خوبصورت کوئی جواب ہے اس کا“ رابعہ نے ڈرامائی انداز میں کہا۔


نمناک دھندلکا


ایلی کا دل دھک سے رہ گیا۔ آنکھیں دھندلا گئیں۔ پانی ہی پانی پانی ہی پانی چاروں طرف پانی اور اس پر ٹنگا ہو
پھیکا اداس آسمان قریب ہی کوئی چیخ کر بولا “گاڑی آگے نہیں جائے گی- - - - - - -“

ایلی دیوانہ وار بھاگا - - - - - - فرحت کے کمرے میں پہنچ کر وہ دھم سے چارپائی پر گر پڑا۔ اس نے اپنا منہ تکیہ میں ڈبو دیا - - - - - پانی ہی پانی - - - - - - تکیہ بھیگ گیا۔ اس نے سر اٹھایا کمرہ - - - - - - - - نمناک دھند لکے سے بھرا ہوا تھا۔ دور ہاجرہ سہمی ہوئی کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

وہ دھند لکا کئی ایک روز جوں کا توں رہا۔
مایوسی بڑھتی گئی - - - - - - - پھر مایوسی کے اس تاریک آسمان پر دفعتاً فویا امید کا ایک تارا ٹوٹا۔ ایک ساعت کے لئے روشنی کی کرن جھلملائی۔

نہیں نہیں سادی ضرور کچھ کرے گی وہ گھر والوں پر اثر ڈال سکتی ہے اس کی والدہ اس کا ساتھ دے گی۔ اور پھر ساتھ دے گی۔ اور پھر سارے کیرا موزوز غصے میں غرانے کے بعد رو پڑیں گے منصر جوش میں بہن کی اس دیدہ دلیری پر اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا اور پھر اسی ہاتھ سے اپنے آپ کو پیٹنے لگے گا اور بالآخر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے گا اور جوش محبت سے سادی بغلگیر ہو جائے گا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ: 766

اور پھر جب وہ ایلی سے ملے گا تو کہے گا۔ “ایلی صاحب اتفاق سے - - - - - - “
لیکن جلد ہی ٹوٹتے تارے کے وہ روشن ذرات بکھر گئے روشنی بجھ گئی اور وہی تاریکی چھا گئی۔

“نہیں نہیں اس معاملے میں میں مجبور ہوں۔ میں ان سے وعدہ کر چکی ہوں کہ اس بارے میں ضد نہیں کروں گی۔“ سادی چلاتی۔ “خاندانی عزت“ وہ طنز سے ہنسی “ان کی مجبوریاں بھی آخر تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔ ہاں اس معاملے میں مجبور ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ دور ہٹے چلی جاتی اور دور اور دور حتٰی کہ - - - - - - جوں جوں وہ دور ہوتی جاتی تاریکی چاروں طرف سے یورش کرتی۔

مظفر آباد سے آنے کے بعد دس پندرہ روز کے لئے تو ایلی بے حد پریشان رہا اس کے دل میں کئی مرتبہ خیال پیدا ہوا کہ سادی کو ساری بات لکھ دے تاکہ وہ حالات سے واقف رہے لیکن پھر اسے خیال آتا کہ یہ بات خط میں لکھنے والی نہیں۔ بلکہ زبانی کرنے والی ہے لٰہذا وہ سوچتا رہا کہ کیسے بات کرے ملنے کی کوئی صورت بھی تو نہ تھی۔

آخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ شاید صورت پیدا ہو جائے آخر کوئی نہ کوئی صورت تو پیدا ہو گی ہی۔ لیکن اس کا لاہور جانا ضروری تھا۔ علی پور میں بیٹھے تو صورت پیدا نہیں ہو سکتی وہ سادی کے خط کے انتظار میں تھا۔ خط سے حالات کا کچھ تو علم ہو گا۔ وہ علی پور کیسے آئے تھے۔ کیا چوری آئے تھے یا سب کو علم تھا یا ممکن ہے صرف اماں سے بات کی ہو اور پھر علی پور آنے کے بعد ان کے تاثرات کیا تھے لیکن سادی کا کوئی خط موصول نہ ہو رہا تھا۔ ہر روز ایلی امید لگا کر بیٹھ رہتا۔ ڈاکیہ کی آمد کے وقت ہر آہٹ پر اس کے کان بجتے لیکن سادی کا خط موصول نہ ہوا۔ اب مزید انتظار کرنا ممکن نہ تھا۔ لٰہذا اس نے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا۔
گاڑی میں وہ مختلف قسم کے منصوبے بناتا رہا۔
لاہور پہنچتے ہی ایسے وقت سفید منزل جاؤں جبکہ گھر کوئی نہ ہو۔ منصر دفتر گیا ہوا ہو۔ انور کالج میں ہو ممکن ہے کوئی صورت نکل آئے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی صورت نہ نکلے۔ ممکن ہے امان آیا ہوا ہو۔

فرض کیجئے گھر کوئی نہ ہو پھر بھی والدہ تو ہوں گی۔ اور اب شاید وہ سادی کو اس کے سامنے بلانا پنسد نہ کریں۔ بلا بھی لیں تو وہ ان کے سامنے یہ بات کیسے کہے گا۔ بات کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی کے روبرو نہیں ہو سکتی۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 767

باجی کے روبرو بھی نہیں تو پھر - - - - - - - اگر وہ ایک مرتبہ سفید منزل میں چلا گیا تو پھر سب کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ لاہور آیا ہوا ہے۔ اس کے بعد سادی سے خفیہ ملاقات کی صورت نہ رہے گی اور اگر سفید منزل نہ جائے تو پھر سادی کو کیسے معلوم ہو گا کہ وہ لاہور آیا ہوا ہے - - - - - - نہیں نہیں یہ نا ممکن ہے۔ سادی کو خفیہ پیغام بھیجنا ممکن نہیں۔

ایلی اسی ادھیڑ بن میں مصروف تھا کہ گاڑی لاہور کے سٹیشن میں داخل ہو گئی ایلی گاڑی سے اترا۔

ہوٹل میں سامان رکھ کر وہ سیدھا سفید منزل پہنچا۔ صدر دروازہ بند تھا۔ اس نے دستک دی۔ کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے پھر دستک دی۔

جب ایلی نے تیسری مرتبہ دستک دی تو بوڑھا سقہ جو گلی سے گزر رہا تھا ہنس کر بولو “میاں دستک تو دے رہے ہو پر درواجے پر تو تالا پڑا ہے۔“
“تالا - - - - - - ا“ ایلی نے حریت سے دہرایا - - - - - - دروازے پر واقعی تالا پڑا تھا۔
“لیکن“ وہ چلایا “یہ لوگ کہاں ہیں۔“
“میاں کہیں گئے ہوں گے۔“ سقہ نے کہا۔
دیر تک ایلی وہیں کھڑا رہا کہ کسی سے پوچھے لیکن کوئی ادھر سے نہ گزرا۔ ساتھ والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھنے کی اس میں جرات نہ تھی - - - - - - -

شام کو وہ منصر کے دفتر میں پہنچا لیکن وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔ “ارے“ وہ حیرانی سے چلایا “یہاں بھی تالا“ سامنے دوکان پر جا کر اس نے پنواڑی سے پوچھا۔
“کیوں بھئی یہ دفتر نہیں کھلے گا آج۔؟“
“یہ دفتر“ پنواڑی بولو۔“ “یہ دفتر تو بند ہو گیا بابو جی۔“
“بند ہو گیا۔“
“جی آتھ روج ہوئے بند ہوئے اسے۔“
“کیا کسی اور جگہ چلا گیا۔“
“یہ تو مالم نہیں بابو۔“

دوکاندار کی بات سن کر ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کے روبرو ایک آہنی دیوار آ کھڑی ہو۔ ہوٹل میں پہنچ کر ساری رات وہ سوچتا رہا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کس سے دریافت کرے منصر کے دوستوں سے واقف نہ تھا۔ اگرچہ اسے معلوم تھا کہ موتی دروازے کے ایک محلے میں ان کے رشتہ دار رہتے تھے جہاں رانا کی شادی پر وہ گیا تھا۔ اسے وہ راستہ اچھی طرح یاد تھا۔ لیکن آخر وہاں جا کر وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے کس سے پوچھے اور اگر انہوں نے پوچھا میاں تم کون ہو تو وہ کیا جواب دے گا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 768

پھر دفعتاً اسے خیال آیا - - - - - - - ڈاکٹر‘ وہی ڈاکٹر جس نے دوپٹے کی چوری کے موقع پر اسے تسلی دی تھی۔ “مجھے سب معلوم ہے گھبراؤ نہیں۔“
صبح سویرے ہی ڈاکٹر کے مکان پر جا پیہنچا۔
“معاف کیجئے۔“ وہ بولا “آپ کو تکلیف دی۔“
ڈاکٹر اسے دیکھ کر ہنسنے لگا “کیوں پھر دوپٹہ چرانے کا ارادہ ہے۔“
“جی نہیں“ ایلی مسکرایا۔
“لیکن اب تو دوپٹہ چرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ لوگ تو چلے گئے۔“
2چلے گئے۔“ ایلی نے حیرت سے پوچھا “کیوں؟“
“انہوں نے یہ مکان بیچ دیا۔ منصر صاحب نے دفتر میں استعفٰے دے دیا اور وہ ہمیشہ کے لئے یہاں سے چلے گئے ہیں - - - - -
“ہمیشہ کے لئے۔؟“ ایلی نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
“منصر صاحب کے والد کسی ریاست میں اونچے عہدے پر فائز ہیں۔“ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا “اس لئے غالباً انہوں نے سب کو وہیں بلا لیا ہے۔“
“لیکن - - - - - - “ ایلی نے کچھ کہنا چاہا۔
ڈاکٹر نے اسے تھپکنا شروع کر دیا “میرے نوجوان دوست زندگی میں ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں انسان دکھ محسوس کرتا ہے یہ عمر ہی ایسی ہے پھر آہستہ آہستہ - - - - - - -“ وہ مسکرایا “سب ٹھیک ہو جائے گا وقت لاجواب مرہم ہے۔ چائے پئیں گے آپ۔“

“شکریہ۔“ ایلی گنگنایا اور گردن لٹکا کر چل پڑا۔ اسے یہ احساس بھی نہ تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے سلام علیکن کئے بغیر شکریہ ادا کئے بغیر چل پڑا تھا۔ اس کے روبرو ایک خوفناک دھندلکا پھیلا ہوا تھا تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ مناظر اپنا مفہوم کھو چکے تھے آوازیں محض شوروغل میں تبدیلی ہو چکی تھیں۔ لاہور ملبے کا ایک ڈھیر دکھائی دے رہا تھا اس کے رو برو ناؤ گھر تھا۔ لیکن ناؤ گھر گویا ریت میں دھنسا ہوا تھا۔ ریت ریت ریت۔ نمناک دھندلکا اور ریت!! - - - - - -
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 769

والد صاحب


سادی کے یوں اطلاع دئیے بغیر چلے جانے پر ایلی غم نہیں بلکہ حیرت محسوس کر رہا تھا کم از کم اسے اطلاع تو دی ہوتی۔ سادی کو اس کے گھر کے لوگ جانے پر مجبور نہیں کر سکتے تھے۔ ممکن ہے گھر والوں نے چالاکی سے اسے بہلا پھسلا کر رضامند کر لیا ہو اور وہ دھوکے میں آ گئی ہو شاید منصر نے جان بوجھ کر نوکری سے استعفٰی دے دیا ہوتا کہ ان کے لاہور میں رہنے کا جواز نہ رہے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہو کہ ایلی سے سادی کا جذباتی تعلق ٹوٹ جائے۔ نہ بھی ٹوٹے تو اس میں شدت نہ رہے۔ دوری اور وقت مل کر اس کی توجہ کو کسی اور طرف منعطف کرنے میں ممد ثابت ہوں۔
جب اسے یہ خیال آتا تو دکھ محسوس ہوتا۔ دراصل ایلی کو منصر سے محبت ہو چکی تھی۔ منصر اس کا آئیڈیل بن چکا تھا۔ اور منصر کی حیثیت سے ایلی کے ذہن میں اگر سادی سے زیادہ نہ تھی تو کسی صورت میں اس سے کم بھی نہ تھی۔

منصر کا وہ حسن اس کا بانکپن رنگینٹی طبع اس کی خودداری اور اس کے علاوہ منصر کی شخصیت سے خلوص بھری محبت کی شعاعیں سی نکلتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ایسی شعاعیں جو دکھتی نہیں بلکہ محسوس ہوتی ہیں۔ جیسے بلا کی سردی میں کوئی انجانی انگیٹھی کے پاس جا بیٹھا ہو۔
ایلی کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ در پردہ منصر سے محبت رچا بیٹھا تھا حالانکہ سادی نے کئی بار خطوں کے ذریعے اور زبانی اسے خبردار کیا تھا۔ “دیکھنا یہ نہ بھولنا کہ یہ سب لوگ صرف میری وجہ سے - - - - - آپ سے التفات محسوس کرتے ہیں۔ صرف میری وجہ سے ورنہ ان کا بس چلے تو - - - - - -“ سادی کی تنبیہ کے باوجود ایلی منصر کا ہو چکا تھا۔ وہ منصر کی ہدایات پر عمل تو نہیں کرتا تھا لیکن ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے تکلیف محسوس ہوتی تھی۔

“نہیں نہیں“ وہ آپ ہی چلایا “منصر ایسا نہیں کر سکتا۔ منصر اسے دھوکا نہیں دے گا۔ ضرور کوئی مجبوری پیش آ گئی ہو گی کہ انہیں لاہور کو خیرباد کہنا پڑا ورنہ منصر - - - - - - اگر قطع تعلق ہی مقصود ہوتا تو وہ اعلانیہ کہہ دیتا۔ “ایلی صاحب اگر آپ سادی کے راستے سے ہٹ جائیں تو میں بے حد ممنون ہوں گا۔ پھر ایسی چال چلنے کا فائدہ۔ نہیں نہیں منصر ایسا نہیں کر سکتا۔“
 

سندباد

لائبریرین
کئی روز ایلی اس سلسلے پر سنجیدگی سے سوچتا رہا مگر زیادہ سوچنے سے بات اور بھی پیچیدہ ہوگئی۔ حتیٰ کہ وہ اُلجھ کر رہ گیا۔
پھر سادی کا خط موصول ہوا۔ لکھا ہوا تھا ’’بھائی جان کی وجہ سے میں مجبور ہوگئی ___ بھائی جان کے لیی اس کے سوا اور چارہ کار نہ تھا کہ لاہور چھوڑ کر یہاں ریاست گروکل میں آجائیں۔ مجھے بھائی جان سے محبت ہے۔ آپ جلتے ہیں تو پڑے جلئے۔ میں بھائی جان کے لیے سب کچھ قربان کردینے کے لیی تیار ہوں چاہے میری جان ہی کیوں نہ جائے۔
لیکن گھبرائیے نہیں ہمارے یہاں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنے والد صاحب سے بات کرکے ان کے ہاتھ پیغام بھیجنے میں سستی نہ کریں۔ چوںکہ میرے والد صاحب بڑے رکھ رکھاؤ کے دلدادہ ہیں اور ابا کے سامنے اپنی دال نہیں گلتی لہٰذا یہ کام تو آپ کو کرنا ہی ہوگا۔‘‘
’’یہاں کب آئیں گے آپ کی منتظر رہوںگی۔ منتظر ہوں۔‘‘
سادی کا خط پڑھ کر ایلی کو خوشی کی بجائے الٹا غم ہوا اور وہ بالکل ہی مایوس ہوگیا۔
’’والد صاحب‘‘وہ زیرِلب بولا۔ ’’بڑے رکھ رکھاؤ کے دلدادہ ہیں۔ والد ___اونہہ‘‘اس کا جی چاہتا تھا کہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے اور دیوانہ وار چلائے ’’والد صاحب ہاہاہاہا۔‘‘
’’والد صاحب۔ والد صاحب بڑے رکھ رکھاؤ کے دلدادہ ہیں۔ ہاہاہا۔‘‘
’’والد صاحب۔ والد صاحب کے سامنے ہماری دال نہیں گلتی۔ ہی ہی ہی۔‘‘
’’والد صاحب سے کون بات کرے اور کی بھی جائے تو کسی احسن طریق سے کی جائے۔ والد صاحب کی رضا مندی ضروری ہے۔ انہیں خود پیغام لانا چاہئے۔‘‘
’’نہیں مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ___میں چاہتا ہوں کہ بچوں کا رشتہ ایسے گھرانوں میں ہو جہاں میری حیثیت ہو۔ میری عزت ہو۔ میری آؤ بھگت ہو۔ میری عزت ___ ہاہاہاہا ___والد صاحب۔‘‘
ایلی کا جی چاہتا تھا کہ دیوانہ وار باہر نکل جائے اور لوگوں کو اپنا پیغام سنائے۔ ’’تمہارے یہاں والد صاحب ہیں کوئی۔ ان سے بچو۔ والد صاحب سے بچ کر رہو۔ ان سے دور رہ۔ وہ ایک جیتی جاگتی لعنت ہیں۔ بد قسمتی ہیں۔ ان کا رکھ رکھاؤ جھوٹ ہے۔ ان کی خاندانی عظمت فریب ہے۔ والد صاحب ایک بہروپیہ ہیں جو فریبت سے گھر کی گدی پر آبیٹھتے ہیں۔ والدہ محترمہ نے اگر انہیں سر چڑھا رکھا ہے تو کسی ذاتی غرض کی وجہ سے ___والدہ محترمہ نے اپنی آسانی کے لیی انہیں بُت بنا رکھا ہے توڑ دو اِن بتوں کو توڑ دو۔‘‘
بچپن ہی سے ایلی کو اپنے باپ سے بیر تھا۔ اسے علی احمد کو دیکھتے ہی غصہ آجاتا تھا۔ باپ کی وجہ سے ہی وہ والدین کی محبت سے محروم رہا تھا۔ باپ کی وجہ سے وہ نوکرانی کا بیٹا تھا۔ باپ کی وجہ سے اسے سستی اور کمینی عورتوں کے لیی چلچلاتی دھوپ میں بوتل میں رہٹ سے پانی بھرنا پڑا تھا۔ باپ کی وجہ سے محلے والیاں کہا کرتی تھیں ’’بہن آخر بیٹا کس کا ہے اپنے باپ کے قدموں پر چلے گا نا اور کیا وہ بھی گودی میں پلا تھا یہ بھی گودی میں پل رہا ہے۔‘‘
اور والد صاحب ہی کی وجہ سے آج ایلی کے ہاتھ سے سکون اور اطمینان سے زندگی بسر کرنے کا موقعہ ہمیشہ کے لیی جا رہا تھا۔ اگر سادی چھن گئی۔ اگر اس کی پناہ گاہ ہاتھ سے جاتی رہی تو___تو ‘‘ ایلی نے دانت بھینچ لیے تو ___تو میں گندی بد رؤ میں چھلانگ لگا دوںگا۔ میں اپنا آپ کتوں کو کھِلا دوںگا۔ میں اپنے تعفن کو چاروں طرف پھیلا دوںگا۔ میں بھی گود میں پلوںگا۔ میرے کمرے میںبھی ٹین کا سپائی برسرِ پیکار رہے گا۔ ___والد صاحب زندہ پائندہ باد۔
 

سندباد

لائبریرین
برہنہ نگاہ
پھر ایلی کو جو ہوش آیا تو اس کے سامنے ہاجرہ اور فرحت سہمی ہوئی کھڑی تھیں۔
’’کیوں ایلی‘‘ ہاجرہ کہہ رہی تھی ’’خیر تو ہے۔‘‘
’’خیر ___ ‘‘ وہ بولا۔ ’’کیوں؟‘‘
’’تیری چیخیں تو سارے محلے میں سنائی دے رہی تھیں بیٹا۔‘‘
’’چیخیں___ ‘‘ اس نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’نہ بیٹا‘‘ ہاجرہ قریب آکر بولی خود کو اختیار میں رکھا کرتے ہیں۔ اللہ کرے گا کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔‘‘
’’وہ تو خیر نہ جانے کب نکلے گی لیکن جو صورت نکلی رہی ہے اُسے تو دیکھو ذرا۔‘‘ شہزاد داخل ہوکر بولی۔
’’کیا نکلی ہوئی ہے۔‘‘ ہاجرہ نے پوچھا۔
’’یہ‘‘ شہزاد نے بڑھ کر ایلی کی ٹھوڑی کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔
’’اب تو تُو بھی نہیں آتی‘‘ فرحت بولی۔ ’’آج نہ جانے کتنی دیر کے بعد شکل دکھائی ہے۔‘‘
’’میری شکل ___ ‘‘ وہ ہنسی ’’میری شکل دیکھ کر پہلے تم کب خوش ہوا کرتی تھیں صرف ایک ایلی تھا اور اُسے اپنی سدھ بدھ نہیں رہی___کیوں ایلی‘‘ وہ چلائی۔
’’اپنی سدھ بدھ پہلے کب تھی‘‘ ایلی نے اُسے چھیڑا۔
’’اچھا‘‘ اس نے مُنہ پکا کرکے جواب دیا ’’میں سمجھی پہلے تھی۔‘‘
’’اگر سمجھ لیتی تو بات نہ بگڑتی‘‘ ایلی نے کہا۔
’’تت تت___تم نے ہی سمجھا دیا ہوتا‘‘ وہ ہنسی۔ ’’ چل تجھے چائے پلاؤں۔ یہاں اکیلا بیٹھا رہتا ہے فضول۔ چل۔‘‘ شہزاد نے اسے پکڑلیا۔
ایک ساعت کے لیی ایلی نے شدت محسوس کیا کہ سب کے روبرو شہزاد کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لے اور اس کا بند بند چومنا شروع کردے اور پھر چلّا کرکہے۔ ’’چل۔ اگر یہی ہے تو یہی سہی۔‘‘ اس نے شہزاد پر ایک برہنہ نگاہ ڈالی اور وہ اس کی طرف بڑھا۔
شہزاد بھانپ گئی اور پھدک کر پیچھے ہٹی اور پھر بھاگی۔ ’’آؤ ناپھر‘‘ وہ چلاّئی ’’جلدی آؤ۔‘‘ ایلی بھاگا۔
اس وقت نہ جانے ایلی کو کیا ہوگیا تھا۔ اس وقت گویا وہ اپنے آپ میں نہ تھا۔ جیسے کوئی اور روح اس کے جسم میں حلول کرگئی تھی۔ وہ بھول چکا تھا کہ ہاجرہ اور فرحت کھڑی دیکھ رہی ہیں۔ وہ بھول چکا تھا کہ شہزاد شریف کی بیاہتا بیوی ہے۔ وہ بھول چکا تھا کہ اسے سادی سے محبت ہے۔ وہ اپنا آپ بھول چکا تھا۔ اس وقت اسے کسی فرد یا اصول کا لحاظ نہ تھا۔ وہ ننگا تھا۔ شرم و حیاء سے قطعی طور پر بے گانہ۔ اسے صرف ایک خواہش تھی کہ اعلانیہ اپنے کو کنوئیں میں پھینک دے اور پھر بھینس کی غلاظت میں لت پت ہوجائے۔ اس کا شدت سے جی چاہتا تھا کہ سب کے روبرو اپنی تذلیل کرے۔ سب کے رو برو کسی کی تذلیل کرے۔
شہزاد نے مڑ کر ایلی کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ خوف سے بھیانک ہو رہا تھا یا شاید ایلی کی وہ خواہش شہزاد پر بھی اثر کرچکی تھی اور اس کا چہرہ ڈر نہیں بلکہ کسی اور جذبے سے بھیانک ہو رہا تھا یا ممکن ہے دونوں ہی باتیں درست ہوں اورایلی کے قرب سے خائف تھی۔ اور اس کی آرزو کر رہی تھی۔
اگر اس وقت سیڑھیوں میں ایلی کا پاؤں نہ پھسلتا اور وہ دھڑام سے نہ گرتا تو اس کی زندگی میں واقعات کا دھارا کسی اور رُخ پر چل پڑتا۔ حالات نئی کروٹ لیتے لیکن گرتے ہی اس کی توجہ چوٹ کی طرف مبذول ہوگئی اور اس کو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ شہزاد اس پر جُھکی ہوئی ہے اور اسے اسی برہنہ نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔
کچھ دیر بعد ایلی چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ دفعتاً اُسے خیال آیا کہ اس وقت اُسے کیا ہوگیا تھا۔ نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔ عجیب سی وحشت تھی۔ عجیب۔ اس وقت اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے شہزاد شہد کا چھتہ ہو اور وہ خود ریچھ۔ کتنے خطرناک عزائم لیی وہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اور شہزاد نے جب مڑ کر اس کی طرف دیکھا تو اس کی نگاہ میں کس قدر خوف تھا___لیکن اس خوف میں لذت کی جھلک تھی وحشت بھری لذت اور پھر وہ نگاہ جو شہزاد نے اس پر ڈالی تھی جب وہ گر پڑا تھا۔ کیا شہزاد خواہش کے مجذوبانہ اظہار کو پسند کرتی تھی لیکن وہ تخلئے میں بھی خواہش کے اظہار سے گھبراتی تھی وہ تو آرزو کی ہلکی پھوار کی دلدادہ تھی۔ موسلادھار بوچھاڑ کو وہ کیسے پسند کرسکتی تھی۔ لیکن اس وقت ___ایلی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
کیا سبھی عورتیں ایسی ہوتی ہیں۔ آرزو کے ہلکے سے اظہار کو ناپسند کرتی ہیں۔ بُرا مانتی ہیں، لیکن مجنونانہ وحشت بھری خواہش کے اعلانیہ اظہار کے روبرو انکار رکھ رکھاؤ احتیاط ضبط سب پاش پاش ہوجاتے ہیں اور ان کی نگاہ میں فخر بھری انبساط جھلکتی ہے اور ایک ساعت کے لیی وہ تمام دنیا اور پابندیوں سے آزاد ہوجاتی ہیں۔
ایلی نے کئی ایک مرتبہ دیکھا تھا کہ وہ شہزاد جو خواہش کے عملی اظہار سے ڈرتی تھی اور تخلئے میں بھی اس سے بچنے کی کوشش کیا کرتی وحشت بھرے اعلانیہ اظہار پر اس میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوجاتی جیسے سانپ کو دیکھ کر چوہیا مبہوت ہوکر بے حس ہوجاتی ہے اور پھر اس عالم میں شہزاد کو بھول جاتا کہ وہ شریف کی بیوی ہے چاربچیوں کی ماں ہے اور ___گویا سبھی کچھ بھول جاتا تھا اور وہ بے پروا بے خوف ہوکر میدان میں آکھڑی ہوتی۔ دعوت دیتی کہ وہ وحشت طوفان بن کر چلے لیکن ایسے مواقع پر ایلی گھبرا جاتا تھا۔ اور قدم پیچھے ہٹا لیتا تھا۔ یہ دیکھ کر شہزاد کے انداز میں ہلکی سے تحقیر جھلکتی جیسے کہہ رہی ہو بس۔ اتنی ہی جرأت کا اظہار کیا تھا۔ مثلاً جب اس نے ضد سے سادی کا سلگایا ہوا سگرٹ حاصل کیا تھا۔ دوپٹہ چھینا تھا اور اس رات جب وہ بھاگنے کے بعد سفید منزل میں لوٹ آیا تھا۔ سادی کتنی عظیم شخصیت تھی اس کی وہ بے نیازی وہ ہنسی وہ رنگینی ___ایلی نے آہ بھری نہ جانے کیوں رات کے اندھیرے میں تنِ تنہا سادی کے اس قدر قریب ہونے کے باوجود اس نے کبھی خواہش محسوس نہ کی تھی۔ وحشت اور مجذوبانہ اظہار کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا سادی کے متعلق سوچتا تو ایلی کا دل بیٹھ جاتا۔ اُسے دکھ ہوتا اور اس کی توجہ پھر والد صاحب کی طرف مبذول ہوجاتی۔ اس پر ایک اور قسم کا جنون سوار ہوجاتا ___اور پھر وہ چاہتا کہ کسی اور طرف توجہ مبذول کرے اور یوں اپنے آپ کو محفوظ کرلے۔ لیکن اس کی توجہ مبذول نہ ہوتی اور وہی دیوانہ پن اس پر مسلط ہوجاتا۔ اور اس کا جی چاہتا۔ کہ ساری دنیا سے انتقام لے۔ اپنے آپ کو تباہ کردے۔ کسی اندھے کنویں میں چھلانگ لگا دے اور بھینس کی طرح غلاظت میں لت پت ہو جائے ___ اس وقت شہزاد مڑکر ایلی کی طرف دیکھتی اس کی آنکھوں میں وحشت بھرا خوف جھلکتا جو دفعتاً وحشت سے بھری لذت میں بدل جاتا___اور وہ گرے ہوئے ایلی کی طرف بڑھتی___اس کے کپڑے تار تار ہوجاتے۔ دھجیاں ہوا میں اڑتیں۔ شہزاد کے بلّوری جسم سے گلابی شعاعیں نکلتیں اور قریب اور قریب۔ اور قریب پھر نشے اور رنگ کی ایک بوچھاڑ پڑتی اور وہ لت پت ہوجاتا۔
 

سندباد

لائبریرین
جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو ایک روز سوچے سمجھے بغیر وہ ہاجرہ سے کہنے لگا۔
’’اماں میں امرتسر جاؤںگا۔‘‘
’’امرتسر ___ ‘‘ ہاجرہ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’امرتسر کون ہے‘‘ وہ بولی ’’کس کے پاس جاؤگے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ایک نوکری ہے۔‘‘
’’نوکری‘‘ ہاجرہ نے سینہ تھام لیا اس کی باچھیں کھِل گئیں۔‘‘ ہے تجھے نوکری مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ تیرا خیال بٹ جائے۔ شغل میں لگ جائے اور ہمیں چار پیسے مل جائیں۔ اتنا قرض ہوگیا ہے سر پر۔‘‘
’’نوکری‘‘ فرحت مسکرائی۔’’نوکری گھر بیٹھے تو نہیں ملتی انسان تلاش کرتا ہے جوتے چٹخاتا ہے تو کہیں ملتی ہے لیکن یہ تو اور باتوں میں کھویا بیٹھا ہے۔‘‘
’’اب تو چھوڑ اس بات کو‘‘ ہاجرہ بولی ’’اللہ کرے امرتسر میں نوکری مل جائے۔‘‘
’’لیکن دور ملے تو اچھا ہے‘‘۔ فرحت نے کہا ’’امرتسر سے تو روز ہی آجائے گا۔ یہ نوکری مل بھی گئی تو چلے گی نہیں۔‘‘
ایلی نے امرتسر جانے کی تجویز نہ سوچی تھی۔ اسے خیال بھی نہ تھا کہ وہ امرتسر جائے گا اور نوکری کی بات تو ایلی نے ویسے ہی چلا دی تھی۔ ساری بات ہی عجیب تھی۔ اسے ابھی تک معلوم نہ تھا کہ امرتسر جاکر کرے گا کیا۔ کہاں ٹھہرے گا۔ کدھر جائے گا۔ بات اس کے مُنہ سے یوں ہی نکل گئی تھی جیسے میز پر پڑا پستول آپ ہی آپ چل جائے اور حیرت کی بات تھی کہ اسے اس بات پر تعجب محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ آخر امرتسر کیوں۔ جانا ہی تھا تو لاہور جاتا۔ لیکن لاہور اب ایلی کے لیی خوش کن جگہ نہ رہی تھی۔ لاہور سے بڑی خوشگوار یادیں وابستہ تھیں۔ جو اس کے لیی باعثِ تکلیف تھیں۔
امرتسر پہنچ کر بھی اسے شعوری طور پر احساس نہ ہوا کہ وہ وہاں کیوں آیا ہے۔ بہر صورت وہ مطمئن انداز سے آوارہ گھومتا رہا۔ ہال بازار میں چار ایک چکر کاٹنے کے بعد وہ کمپنی باغ میں جابیٹھا۔ دیر تک وہ بیٹھا لوگوں کو دیکھتا رہا پھر آموں والی کوٹھی کی طرف چلا گیا۔
آموں والی کوٹھی ویران پڑی تھی۔ دیواریں بوسیدہ ہوچکی تھیں دو ایک کمروں کی چھتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ صحن میں گھاس پھوس اُگی ہوئی تھی۔
سڑک کے کنارے وہ ایک ٹوٹے ہوئے پُل پر بیٹھ گیا۔ پرانی یادیں ایک ایک کرکے اس کے ذہن میں تازہ ہو رہی تھیں۔
رسوئی میں رسوئیہ اور چھوکرے چل پھر رہے تھے۔ رسوئیہ کھیر پکانے میں مصروف تھا۔ دودھ کی گاگریں قطار میں پڑی تھیں۔ سکھ لڑکے کیس سکھا رہے تھے۔ بنگالی بابو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے سے مچھلی تلنے کی بو آ رہی تھی___دفعتاً آصف آگیا۔ وہ اُسے دیکھ کر مسکرانے لگا ’’تم یہاں بیٹھے ہو‘‘ وہ زیرِلب گنگنایا، ’’نور آئے گا___نور___نور کا نام سنتے ہی گویا شبھ لگن سے بہار آگئی۔ آموں پر بور آگیا۔ کوئل کو کہنے لگی۔
ایلی اٹھ بیٹھا۔
آصف جاچکا تھا۔ نور کا کچھ پتہ نہ تھا۔ آموں والی کوٹھی پر وحشت برس رہی تھی۔ گھبرا کر وہ چل پڑا۔
گھومتے گھومتے شام کے وقت وہ کٹٹرا رنگین میں جاپہنچا۔ بیٹھکوں میں بجلی کے ہنڈے جل رہے تھے۔ جنگلوں میںزرق برق ملبوسات چمک رہے تھے۔ روغنی چہروں پر وہی مسکراہٹ وہی رنگ وہی دعوت۔ چوباروں میں سارنگیاں التجائیں کر رہی تھیں۔ طبلے سر پیٹ رہے تھے۔ پان کی دکانوں پر ویسے ہی جھرمٹ لگے ہوئے تھے۔ لوگوں کی نگاہیں چوباروں پر جمی ہوئی تھیں۔
 

سندباد

لائبریرین
شادی
دفعتاً دھڑر ڑاڑام___کی آواز سنائی دی۔ کٹٹرا رنگین میں سب لوگ چونکے۔ اس چوبارے کے زینے سے جس کے نیچے ایلی کھڑا تھا ایک بڑا سا گیند لڑھکتا ہوا گرا اور سڑک کے درمیان ڈھیر ہوگیا۔ پھر جو ایلی نے غور سے دیکھا تو گیند گویا پھٹ گیا اور اس میں سے ٹانگیں اور بازو نکل کر سڑک پر بکھر گئے۔
یہ دیکھ کر کٹڑے میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔
’’ہاہاہاہا___ ‘‘ سبھی لوگ ہنس رہے تھے کوئی امداد کے لیی آگے نہ بڑھا۔
’’ارے‘‘ ایک بولا ’’بھئی اب کی بار تو بڑا صبر کیا سائیں نے۔ دس بارہ دن کے بعد جوش آیا ہے۔‘‘
’’بیچارہ کیا کرے رہا بھی نہیں جاتا بن دیکھے شادی کو۔‘‘
’’میاں عشق ہے مجاک نہیں ہے۔‘‘
’’ہاں بھئی عشق میں تو ہڈیاں ٹوٹتی ہیں سو تڑوا رہاہے۔‘‘
’’اور وہ شادی اسے مالم ہی نہیں۔‘‘

’’کیسے ہو میاں اس کے دروجے پر تو لکھ پتیوں کی اے لمبی کاریں کھڑی رہیں ہیں۔‘‘
’’کیا نام پایا ہے بھئی اس شادی نے۔ ہر کوئی مرتا ہے اس پر کٹڑے کی رانی ہے رانی ابھی سمجھو کل ہی نتھ کھلوائی تھی اس نے اور آج۔‘‘
شادی___ایلی کے ذہن میں ایک کرن چمکی۔ ’’شادی‘‘___اس نے محسوس کیا جیسے وہ شادی کو جانتا ہو۔
ایک اتنی بڑی نتھ والی مریل سی مگر اونچی لمبی زرد لڑکی اس کے روبرو آکھڑی ہوئی ’’سنبھالو اپنی بنو کو‘‘ وہ بولی ___ اس نے تیم کی گٹھڑی اس کی طرف دھکیلی۔ ریشمی ملبوسات کے اوپر ایک یہاں سے وہاں تک لمبی چوٹی لٹک رہی تھی ’’چھوڑ بھی شادی تیم نے چڑ کر کہا۔‘‘
’’کسائیں‘‘___ایلی نے سائیں کی طرف دیکھتے ہوئے زیرِ لب کہا۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ خود بھی ایک سائیں ہو سائیں۔ اب بصد مشکل اپنا آپ سمیٹ رہا تھا۔ اس کی ناک اور ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا مگر اس کی نگاہیں شادی کے چوبارے پر لگی ہوئی تھیں۔ پھر وہ گھسیٹتا ہوا شادی کے چوبارے کے زینے کی طرف بڑھا اور زینے کے ساتھ بازار میں تختے پر سر رکھ کر بیٹھ گیا۔ دفعتاً ایلی کو خیال آیا۔ کیا شادی عورت نہیں کیا وہ محض طائفہ ہے کہ اسے سائیں کی حالت پر ترس نہیں آتا۔ کیا کٹڑے کی وہ تمام حسین و جمیل پتلیاں سب طوائف ہیں ___’’ نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ عورتیں ہیں۔ ان سب میں کہیں نہ کہیں عورت چھپی بیٹھی ہے۔ وہ لاکھ پتی جن کی موٹریں چوباروں تلے کھڑی ہیں اور وہ تماشبین جو کٹڑے میں آتے ہیں وہ تو طائفہ کے پاس آتے ہیں۔ گھر کی عورتیں چھوڑ کر آتے ہیں۔ عورت سے فرار ہوکر آتے ہیں ___ہوں جبھی طائفہ عورت کو چھپا لیتی ہے اور طوائفہ کا روپ دھار لیتی ہے لیکن ان کی اپنی تسکین تو اس چھپی ہوئی عورت میں مضمر ہے۔
 

سندباد

لائبریرین
دفعتاً ایلی کے دل میں ایک شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ جاکر شادی سے ملے اس سے پوچھے کہ تمہاری عورت کہاں ہے اور تمہیں اپنی اصلیت کو تیاگنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے اور تم کتنی دکھی ہو اور تمہاری زندگی اتنا بڑا المیہ ہے تو پھر تم طائفہ کیوں ہو___؟
اور اگر اس نے ایلی کو سائیں کی طرح سیڑھیوں سے لڑھکا دیا تو___اگر وہ چھپی ہوئی عورت کو بیدار کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو اونہوں ایلی مسکرا دیا۔ اس نے اگر اس کو چنداں اہمیت نہ دی جیسے یہ اگر بعید از قیاس ہو جیسے ایسا ہو ہی نہ سکتا ہو۔ میں کیا اس کا عاشق ہوں جو مجھے سیڑھیوں سے لڑھکا دے گی___لیکن شاید اتنے سارے لکھ پتی تماش بینوں کے رو برو وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو۔ اونہوں ___بے کار ہے جھمگٹ میں ملاقات کیسی ___وہ چل پڑا لیکن پنواڑی ہنسنے لگا اور پھر ایلی کی طرف متوجہ ہوکر بولا ’’اے بابوجی اگر جو کسی کو مخل نہ آئے تو پھر دس سے کیا سلوخ کیا جائے۔‘‘ ایلی مسکرادیا۔
’’اسے سمجھاریا ہوں کہ بھائی میرے دوررج سے شادی کی طبیعت اچھی نہیں اس لیی یہ پانسو پچپن کے سگرٹ کے ڈبے آج نہیں بکیںگے۔ ہی ہی ہی ہی۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’طبیعت خراب ہے۔‘‘ایلی نے کہا
’’یہی تو میں کہہ ریا تھا بابوجی۔‘‘
’’اجی نہیں بابوجی بڑی ضد والی ہے۔ طبیعت اچھی نہ ہو تو گاہک سے نہیں ملتی۔‘‘
یہ سن کر ایلی کو سوجھی پھر وہ اُس چوبارے کے سامنے کھڑا تھا۔ جہاں پہلے تیم اور نیم رہتی تھی اور اب خالی پڑا تھا۔ دیر تک وہ اُسے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر جو اس نے دیکھا تو اس کے سامنے ایک اور ہی چوبارہ تھا۔ سامنے الماس کھڑی ہنس رہی تھی۔ ’’آجاؤ‘‘ وہ بولی ’’تم تو میرے ہم نام ہو الیاس اور الماس میں کیا فرق ہے۔ میں الماس ہوں بائی نہیں چند روز الماس بن کر جی لوں پھر تو‘‘۔ وہ آہ بھر بولی ’’بائی بن کر جانا ہی پڑے گا کیوں حئی‘‘۔ وہ آغا کے بھائی سے پوچھنے لگی ’’جانا ہی پڑے گا نا ___ میرے ایسے نصیب کہاں کہ ہمیشہ کے لیے الماس بن کر تیرے قدموں میں پڑی رہوں۔ ‘‘
دفعتاً الماس کا چہرہ بدل گیا اور ایک اتنی بڑی نتھ والی لڑکی اس کی جگہ آکھڑی ہوئی۔ اس نے آہ بھری۔ ’’شادی بن کر جینا میرے نصیب کہاں۔ تم دیکھتے کیا ہو۔‘‘ وہ بولی ’’شادی گھر پر ہی ہے۔ بائی کی طبیعت اچھی نہیں ___ ‘‘
پھر وہ شادی کے چوبارے کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جیسے واقعی شادی نے اُسے بلایا ہو۔ کمرے میں ایک موٹے سے میراثی کو دیکھ کر وہ گھبرا کر رک گیا۔
 

سندباد

لائبریرین
پیغامِ بر
’’کون ہے‘‘ میراثی نے فرعوں بن کر پوچھا۔ ایلی چپکے سے دبکا کھڑا رہا۔ پھر میراثی اٹھ کر زینے کی طرف آیا۔ ’’کون ہے‘‘۔ وہ چلّایا۔
’’میں ہوں۔‘‘
’’میں کون؟‘‘
ایلی خاموش رہا۔ میراثی نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔
ایلی کا جی چاہا کہ دوڑ کر واپس زینے سے اُتر جائے لیکن اب واپسی کی بھی ہمت نہ تھی۔
’’مجھے‘‘ وہ بولا ’’مجھے شادی کو پیغام ___ میں پیغام لایا ہوں۔‘‘
’’کون ہے‘‘ اندر سے بڑھیا کی آواز آئی۔
میراثی چل پڑا ایلی چپکے سے اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ اس کا دل دھک دھک دھک کر رہا تھا۔ کمرے کے دروازے پر پہنچ کر میراثی رک گیا۔
شادی پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ___’’آجاؤ‘‘ وہ تھکی ہوئی آواز میں بولی۔ میراثی چلا گیا۔ ابھی ایلی بات کرنے کے لیی مُنہ سنوار رہا تھا کہ بڑھیا آگئی۔
’’کہاں سے آئے ہو۔‘‘ وہ تحکمانہ انداز میں بولی
’’ریاست سے آیا ہوں۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔
’’ریاست سے۔‘‘ بڑھیا چلّائی۔
ایلی نے سر ہلا دیا۔
’’کسی نے بھیجا ہے کیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کس نے۔‘‘
’’پیغام لایا ہوں۔‘‘
’’کس کا۔ ‘‘
’’اے بیٹھ کر ذرا دم تو لینے دو اسے‘‘ شادی نے کہا ’’تم جاؤ اماں۔‘‘
بڑھیا دو ایک ساعت کے لیی کھڑی رہی پھر میراثی کے بلانے پر چلی گئی۔
’’بیٹھ جا‘‘ شادی نے کہا۔
پائینتی کے قریب بڑے صوفے میں ایلی بیٹھ گیا۔
اس کے روبرو ایک مٹیار حسین عورت لیٹی ہوئی تھی۔ چہرے پر تھکاوٹ کے آثار تھے۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ قمیص ڈھیلی تھی۔ آنکھیں خمار آلود تھیں۔
’’نہیں نہیں یہ وہ شادی نہیں۔‘‘ ایلی نے سوچا ’’وہ نتھ والی شادی چار سال میں وہ سے یہ ہوجائے___نہیں نہیں یہ کوئی اور شادی ہے۔‘‘
’’پیغام لائے ہو‘‘ شادی نے ایلی کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ایلی نے جواب دیا۔
’’اور تم تو کہتے تھے پیغام لایا ہوں۔‘‘
’’جھوٹ بول رہا تھا۔‘‘
’’ہائیں‘‘ اس نے آنکھیں گھمائیں۔ ’’سچ۔‘‘
ایلی نے اثبات میں سر ہلادیا۔
’’جھوٹ کیوں بولا۔‘‘
’’نہ بولتا تو مجھے آنے نہ دیتے۔‘‘
کیا آنا اتنا ہی ضروری تھا۔‘‘
’’اس سے بھی زیادہ۔‘‘
’’اوہ ___اچھا‘‘ وہ قریب تر ہوگئی۔
ایلی نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر باہر کی طرف اشارہ کیا۔
 

سندباد

لائبریرین
دو بچے
شادی نے آنکھوں سے اثبات کا اظہار کیا۔ اس وقت بائی یوں مسکرا رہی تھی جیسے دو بچے اکٹھے مل کر شرارت سوچ رہے ہوں۔
’’چار سال پہلے‘‘ ایلی نے کہا ’’تُو مجھ سے ملی تھی۔‘‘
’’سچ۔‘‘
’’ہاں اتنی بڑی نتھ تھی تیرے ناک میں___دبلی پتلی تھی تو۔‘‘
’’اور ملی کیوں تھی۔‘‘
’’تو نے ایک ریشمی گٹھڑی مجھے دی تھی۔‘‘
’’گٹھڑی‘‘۔
’’ہاں‘‘۔
’’میں نے تو کبھی کپڑے نہیںبیچے۔‘‘ وہ ہنسی
’’گٹھڑی بزازی کی نہیں تھی۔ اس پر اتنی لمبی چوٹی تھی۔ اور تو نے وہ گٹھڑی میری طرف دھکیلی تھی اور تیرے ساتھ بہت سی لڑکیاں بھی تھیں۔ اس چوبارے کی نچلی منزل میں چاروں طرف دالان تھے اور صحن کے درمیان میری سائیکل تھی۔‘‘
’’ہائے اللہ‘‘ وہ چونکی ’’اچھا وہ تسلیم کے گھر۔ مجھے یاد آیا۔‘‘
’’تم وہی شادی ہو کیا۔‘‘
’’ہاں‘‘۔
’’جھوٹ‘‘۔
’’کیوں‘‘۔
’’نہیں ___کہاں وہ زردرو سی لڑکی اور کہاں تم۔‘‘ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’کیوں کیا ہے مجھے‘‘ وہ نخرے سے بولی۔
’’پتہ نہیں‘‘ ایلی نے کہا۔ ’’لیکن کٹڑے میں لوگ کہہ رہے تھے سارا شہر پاگل ہو رہا ہے۔ تمہارے پیچھے۔
’’ہونہہ‘‘ اس نے ہونٹ بٹوہ بنائے۔ ’’سب اپنے مطلب کے سیانے ہیں کوئی بھی پاگل نہیں ہوتا۔‘‘
’’یہی دیکھنے تو میں آیا تھا۔ میں نے کہا مں ھی ایک نظر دیکھ آؤں۔‘‘
’’توپھر کیا دیکھا۔‘‘
ایلی نے اثبات میں اشارہ کیا۔ ’’سب کچھ دیکھا۔‘‘
شادی نے چتون سے پوچھا ’’کیا۔‘‘
 
Top