سندباد
لائبریرین
’’پاگل ہوجاتا ہے۔‘‘
’’کون‘‘۔
’’دیکھنے والا۔‘‘
وہ ہنسی ___ ‘‘ جھوٹ! کوئی نہیں ہوتا۔‘‘
’’جوبائی کے پاس آتے ہیں وہ نہیں آتے۔ جو شادی کے پاس آتے ہیں وہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’تم ہوگئے ہو۔‘‘ وہ ہنسی
’’ہوگیا ہوں‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ اور پھر اُٹھ بیٹھا۔
’’بیٹھو‘‘ وہ بولی۔
ایلی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’کیوں‘‘۔
’’زیادہ پاگل ہونے کا فائدہ؟‘’
وہ ہنسی۔ ’’تمہاری باتیں الٹی ہیں۔‘‘
’’الٹی نہیں سچی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تم سے کون سچیباتیں کرتا ہے یہاں کوئی نہیں۔‘‘
’’یہ سچ ہے‘‘ وہ بولی
’’سبھی سچ تھیں۔‘‘
’’اے ہے میں نے تمہاری توضع نہیں کی۔‘‘
’’لو‘‘ وہ بولا۔ ’’شادی سے ملادیا اس سے بڑھ کر اور کیا تواضع ہوسکتی ہے۔‘‘
’’وہ چل پڑا۔ اچھل کر شادی نے سلیپر پہن لئے اور ساتھ چل پڑی۔
’’ترا نام کیا ہے؟‘‘
’’ایلی‘‘۔
وہ ہنسی ’’کیا نام ہے۔ کوئی سمجھے تیلی ہو۔‘‘
’’ٹھیک سمجھے‘‘ وہ بولا۔ ’’میں تیلی ہوں تو عِطر ہے۔‘‘
’’شادی نے گویا اس کی بات نہ سنی۔
’’پھر آؤگے۔‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کون آنے دے گا۔‘‘
’’ریاست کے مہا راجہ کا پیغام لے آنا۔’’ وہ ہنسی۔
’’اچھا مہا رانی‘‘ ایلی نے جھک کر سلام کیا۔
جب وہ نیچے کٹٹرے میں اترا تو لوگ اوپر کی طرف دیکھ رہے تھے اس نے اوپر دیکھا جنگلے میں شادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ دہلیز پر سائیں کے کھلے ہونٹوں سے لعاب ٹپک رہا تھا۔
’’کون‘‘۔
’’دیکھنے والا۔‘‘
وہ ہنسی ___ ‘‘ جھوٹ! کوئی نہیں ہوتا۔‘‘
’’جوبائی کے پاس آتے ہیں وہ نہیں آتے۔ جو شادی کے پاس آتے ہیں وہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’تم ہوگئے ہو۔‘‘ وہ ہنسی
’’ہوگیا ہوں‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ اور پھر اُٹھ بیٹھا۔
’’بیٹھو‘‘ وہ بولی۔
ایلی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’کیوں‘‘۔
’’زیادہ پاگل ہونے کا فائدہ؟‘’
وہ ہنسی۔ ’’تمہاری باتیں الٹی ہیں۔‘‘
’’الٹی نہیں سچی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تم سے کون سچیباتیں کرتا ہے یہاں کوئی نہیں۔‘‘
’’یہ سچ ہے‘‘ وہ بولی
’’سبھی سچ تھیں۔‘‘
’’اے ہے میں نے تمہاری توضع نہیں کی۔‘‘
’’لو‘‘ وہ بولا۔ ’’شادی سے ملادیا اس سے بڑھ کر اور کیا تواضع ہوسکتی ہے۔‘‘
’’وہ چل پڑا۔ اچھل کر شادی نے سلیپر پہن لئے اور ساتھ چل پڑی۔
’’ترا نام کیا ہے؟‘‘
’’ایلی‘‘۔
وہ ہنسی ’’کیا نام ہے۔ کوئی سمجھے تیلی ہو۔‘‘
’’ٹھیک سمجھے‘‘ وہ بولا۔ ’’میں تیلی ہوں تو عِطر ہے۔‘‘
’’شادی نے گویا اس کی بات نہ سنی۔
’’پھر آؤگے۔‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کون آنے دے گا۔‘‘
’’ریاست کے مہا راجہ کا پیغام لے آنا۔’’ وہ ہنسی۔
’’اچھا مہا رانی‘‘ ایلی نے جھک کر سلام کیا۔
جب وہ نیچے کٹٹرے میں اترا تو لوگ اوپر کی طرف دیکھ رہے تھے اس نے اوپر دیکھا جنگلے میں شادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ دہلیز پر سائیں کے کھلے ہونٹوں سے لعاب ٹپک رہا تھا۔