شمشاد
لائبریرین
علی پور کا ایلی
صفحہ 66 سے 95
اپنی نگاہیں ہاجرہ پر جمائے رکھیں پھر اس کی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو ڈھلک آیا اور گال سے پھسل کر بالوں میں کھو گیا۔ پھر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور بازو گر کر لٹکنے لگا اور سر ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گیا۔ “ اماں “ ایلی نے چیخ ماری۔ ہاجرہ نے سر پیٹ لیا “ صفیہ، صفیہ۔“
ایک فقیر
طوفان تھم چکا تھا۔ نیچے بڑے کمرے میں پلنگ پر صفیہ کی لاش پڑی تھی اور اس کے گرد محلہ والیاں بیٹھی باتوں میں مشغول تھیں۔ صفیہ کا جسم چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن اس کا جونڈہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایلی نے دو ایک بار صفیہ کی طرف دیکھا، اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ موت کا بہانہ کر کے پڑی ہو۔ جیسے ابھی جاگ اٹھے گی۔ کہے گی “ ایلی بازار سے دودھ لا دو۔ ہاجرہ تو میری بیماری کا بہانہ کر کے آرام سے بیٹھی ہے۔ چل اٹھ برتن صاف کر چل اٹھ۔“ لاش میں جنبش ہوئی۔ ایلی کا دل ڈوب گیا۔ صفیہ کا جونڈہ کھل کر لٹکنے لگا۔ محلہ والیوں نے با آواز بلند کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ایلی چیخ مار کر بھاگا۔ “ دادی اماں، دادی اماں - “ دادی نے اسے تھام لیا۔ “ تو کیوں بیٹھا ہے۔ یہاں ادھر آ میں تجھے سلا دوں۔“ دادی اماں نے اسے بازو سے کھنچتے ہوئے کہا۔
صفیہ کی موت پر ہاجرہ کئی دن تک روتی رہی۔ رہ رہ کر صفیہ کا وہ فقرہ یاد آتا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ اس وقت اس کی آنکھوں میں فخر بھری چمک لہراتی اور گالوں پر آنسو بہنے لگتے۔ برسوں کی خدمت گزاری اور عشق کے بدلے اسے ایک فقرہ ملا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ ہاجرہ اس فقرے کو تمغے کی طرح سینے پر لگائی پھرتی تھی۔ اس ایک فقرے کی وجہ سے برتری میں بدل گیا تھا۔ وہ اس ایک فقرے کی خاطر ایک بار پھر عمر بھر کسی خدمت گزاری میں بسر کر سکتی تھی۔
صفیہ کی موت سے علی احمد کے گھر روزمرہ میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ ایلی اسی طرح ارجمند سے انکر اینڈی ماباؤں کی تفصیلات سمجھتا رہا۔ اگرچہ عملی طور پر ان تفصیلات کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہوا۔ کبھی کبھار کھڑکی کی درز سے وہ ہکوری ڈکوری کے مختلف سائز دیکھتا رہا۔ محلے کے جوانوں کے ساتھ کرکٹ کے میدان میں جاتا رہا۔ جلیل اور رفیق کے ساتھ قاضی دروازے کے پاس اس تنگ گلی میں جھاڑو دینے والی کی شوخیوں کو بغور دیکھتا اور دادا اماں کے ساتھ لپٹ کر سوتا رہا۔
ہاجرہ اسی طرح سارا دن باورچی خانے میں برتن مانجھتی۔ کھانا پکاتی اور علی احمد کی چلمیں بھرتی رہی اور فرحت حسبِ معمول گھر کے کام کرنے کے علاوہ سہیلیوں کے گھروں کے چکر لگاتی رہتی اور دادی اماں اسی طرح گھٹنوں میں سر دیئے چولہے کے پاس بیٹھی رہی اور اس کے پاس سیدہ خاموشی سے تنکوں سے زمین کریدتی رہی اور علی احمد وہ پھٹی ہوئی میلی دھوتی باندھے ڈیسک کے رجسٹر میں لکھتے رہے اور محلے کی چمگادڑیں رات کو احاطے پر چیخ چیخ کر منڈلاتی رہیں۔ بچے کھیلتے رہے۔ بوڑھیاں انہیں گھورتی رہیں اور محلے کے بوڑھے نماز ادا کرنے کے بعد کھانستے ہوئے سر لٹکائے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے اور صفدر دادی اماں کی دیوار پر پھینکنے کے لیے منچھل پوٹاش کے پٹاخے تیار کرتے ہوئے گنگناتا رہا۔ “ حافظ خدا تمہارا۔ اے دلربا ہوں میں فدا۔“
صفحہ 66 سے 95
اپنی نگاہیں ہاجرہ پر جمائے رکھیں پھر اس کی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو ڈھلک آیا اور گال سے پھسل کر بالوں میں کھو گیا۔ پھر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور بازو گر کر لٹکنے لگا اور سر ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گیا۔ “ اماں “ ایلی نے چیخ ماری۔ ہاجرہ نے سر پیٹ لیا “ صفیہ، صفیہ۔“
ایک فقیر
طوفان تھم چکا تھا۔ نیچے بڑے کمرے میں پلنگ پر صفیہ کی لاش پڑی تھی اور اس کے گرد محلہ والیاں بیٹھی باتوں میں مشغول تھیں۔ صفیہ کا جسم چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن اس کا جونڈہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایلی نے دو ایک بار صفیہ کی طرف دیکھا، اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ موت کا بہانہ کر کے پڑی ہو۔ جیسے ابھی جاگ اٹھے گی۔ کہے گی “ ایلی بازار سے دودھ لا دو۔ ہاجرہ تو میری بیماری کا بہانہ کر کے آرام سے بیٹھی ہے۔ چل اٹھ برتن صاف کر چل اٹھ۔“ لاش میں جنبش ہوئی۔ ایلی کا دل ڈوب گیا۔ صفیہ کا جونڈہ کھل کر لٹکنے لگا۔ محلہ والیوں نے با آواز بلند کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ایلی چیخ مار کر بھاگا۔ “ دادی اماں، دادی اماں - “ دادی نے اسے تھام لیا۔ “ تو کیوں بیٹھا ہے۔ یہاں ادھر آ میں تجھے سلا دوں۔“ دادی اماں نے اسے بازو سے کھنچتے ہوئے کہا۔
صفیہ کی موت پر ہاجرہ کئی دن تک روتی رہی۔ رہ رہ کر صفیہ کا وہ فقرہ یاد آتا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ اس وقت اس کی آنکھوں میں فخر بھری چمک لہراتی اور گالوں پر آنسو بہنے لگتے۔ برسوں کی خدمت گزاری اور عشق کے بدلے اسے ایک فقرہ ملا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ ہاجرہ اس فقرے کو تمغے کی طرح سینے پر لگائی پھرتی تھی۔ اس ایک فقرے کی وجہ سے برتری میں بدل گیا تھا۔ وہ اس ایک فقرے کی خاطر ایک بار پھر عمر بھر کسی خدمت گزاری میں بسر کر سکتی تھی۔
صفیہ کی موت سے علی احمد کے گھر روزمرہ میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ ایلی اسی طرح ارجمند سے انکر اینڈی ماباؤں کی تفصیلات سمجھتا رہا۔ اگرچہ عملی طور پر ان تفصیلات کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہوا۔ کبھی کبھار کھڑکی کی درز سے وہ ہکوری ڈکوری کے مختلف سائز دیکھتا رہا۔ محلے کے جوانوں کے ساتھ کرکٹ کے میدان میں جاتا رہا۔ جلیل اور رفیق کے ساتھ قاضی دروازے کے پاس اس تنگ گلی میں جھاڑو دینے والی کی شوخیوں کو بغور دیکھتا اور دادا اماں کے ساتھ لپٹ کر سوتا رہا۔
ہاجرہ اسی طرح سارا دن باورچی خانے میں برتن مانجھتی۔ کھانا پکاتی اور علی احمد کی چلمیں بھرتی رہی اور فرحت حسبِ معمول گھر کے کام کرنے کے علاوہ سہیلیوں کے گھروں کے چکر لگاتی رہتی اور دادی اماں اسی طرح گھٹنوں میں سر دیئے چولہے کے پاس بیٹھی رہی اور اس کے پاس سیدہ خاموشی سے تنکوں سے زمین کریدتی رہی اور علی احمد وہ پھٹی ہوئی میلی دھوتی باندھے ڈیسک کے رجسٹر میں لکھتے رہے اور محلے کی چمگادڑیں رات کو احاطے پر چیخ چیخ کر منڈلاتی رہیں۔ بچے کھیلتے رہے۔ بوڑھیاں انہیں گھورتی رہیں اور محلے کے بوڑھے نماز ادا کرنے کے بعد کھانستے ہوئے سر لٹکائے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے اور صفدر دادی اماں کی دیوار پر پھینکنے کے لیے منچھل پوٹاش کے پٹاخے تیار کرتے ہوئے گنگناتا رہا۔ “ حافظ خدا تمہارا۔ اے دلربا ہوں میں فدا۔“