علی پور کا ایلی 66 سے 95

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی
صفحہ 66 سے 95

اپنی نگاہیں ہاجرہ پر جمائے رکھیں پھر اس کی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو ڈھلک آیا اور گال سے پھسل کر بالوں میں کھو گیا۔ پھر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور بازو گر کر لٹکنے لگا اور سر ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گیا۔ “ اماں “ ایلی نے چیخ ماری۔ ہاجرہ نے سر پیٹ لیا “ صفیہ، صفیہ۔“

ایک فقیر

طوفان تھم چکا تھا۔ نیچے بڑے کمرے میں پلنگ پر صفیہ کی لاش پڑی تھی اور اس کے گرد محلہ والیاں بیٹھی باتوں میں مشغول تھیں۔ صفیہ کا جسم چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن اس کا جونڈہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایلی نے دو ایک بار صفیہ کی طرف دیکھا، اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ موت کا بہانہ کر کے پڑی ہو۔ جیسے ابھی جاگ اٹھے گی۔ کہے گی “ ایلی بازار سے دودھ لا دو۔ ہاجرہ تو میری بیماری کا بہانہ کر کے آرام سے بیٹھی ہے۔ چل اٹھ برتن صاف کر چل اٹھ۔“ لاش میں جنبش ہوئی۔ ایلی کا دل ڈوب گیا۔ صفیہ کا جونڈہ کھل کر لٹکنے لگا۔ محلہ والیوں نے با آواز بلند کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ایلی چیخ مار کر بھاگا۔ “ دادی اماں، دادی اماں - “ دادی نے اسے تھام لیا۔ “ تو کیوں بیٹھا ہے۔ یہاں ادھر آ میں تجھے سلا دوں۔“ دادی اماں نے اسے بازو سے کھنچتے ہوئے کہا۔

صفیہ کی موت پر ہاجرہ کئی دن تک روتی رہی۔ رہ رہ کر صفیہ کا وہ فقرہ یاد آتا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ اس وقت اس کی آنکھوں میں فخر بھری چمک لہراتی اور گالوں پر آنسو بہنے لگتے۔ برسوں کی خدمت گزاری اور عشق کے بدلے اسے ایک فقرہ ملا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ ہاجرہ اس فقرے کو تمغے کی طرح سینے پر لگائی پھرتی تھی۔ اس ایک فقرے کی وجہ سے برتری میں بدل گیا تھا۔ وہ اس ایک فقرے کی خاطر ایک بار پھر عمر بھر کسی خدمت گزاری میں بسر کر سکتی تھی۔

صفیہ کی موت سے علی احمد کے گھر روزمرہ میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ ایلی اسی طرح ارجمند سے انکر اینڈی ماباؤں کی تفصیلات سمجھتا رہا۔ اگرچہ عملی طور پر ان تفصیلات کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہوا۔ کبھی کبھار کھڑکی کی درز سے وہ ہکوری ڈکوری کے مختلف سائز دیکھتا رہا۔ محلے کے جوانوں کے ساتھ کرکٹ کے میدان میں جاتا رہا۔ جلیل اور رفیق کے ساتھ قاضی دروازے کے پاس اس تنگ گلی میں جھاڑو دینے والی کی شوخیوں کو بغور دیکھتا اور دادا اماں کے ساتھ لپٹ کر سوتا رہا۔

ہاجرہ اسی طرح سارا دن باورچی خانے میں برتن مانجھتی۔ کھانا پکاتی اور علی احمد کی چلمیں بھرتی رہی اور فرحت حسبِ معمول گھر کے کام کرنے کے علاوہ سہیلیوں کے گھروں کے چکر لگاتی رہتی اور دادی اماں اسی طرح گھٹنوں میں سر دیئے چولہے کے پاس بیٹھی رہی اور اس کے پاس سیدہ خاموشی سے تنکوں سے زمین کریدتی رہی اور علی احمد وہ پھٹی ہوئی میلی دھوتی باندھے ڈیسک کے رجسٹر میں لکھتے رہے اور محلے کی چمگادڑیں رات کو احاطے پر چیخ چیخ کر منڈلاتی رہیں۔ بچے کھیلتے رہے۔ بوڑھیاں انہیں گھورتی رہیں اور محلے کے بوڑھے نماز ادا کرنے کے بعد کھانستے ہوئے سر لٹکائے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے اور صفدر دادی اماں کی دیوار پر پھینکنے کے لیے منچھل پوٹاش کے پٹاخے تیار کرتے ہوئے گنگناتا رہا۔ “ حافظ خدا تمہارا۔ اے دلربا ہوں میں فدا۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

سارہ صبورہ

پھر ایک دن علی احمد کے یہاں مہمان آ گئے۔

“ ہاں یہی مکان تو ہے۔“

“ تم آگے چلی جاؤ۔ گھبرانے کی کیا بات ہے۔ اے ہے تمہارا اپنا محلہ ہے۔“ چاچی حاجاں کی آواز آئی۔

“ کون آیا ہے۔ چاچی؟ ماں جیواں بولی۔

“ اپنے علی احمد کے مہمان آئے ہیں۔“

“ کون مہمان آئے ہیں۔ چاچی کن کے گھر آئے ہیں؟“

“ مہمان آئے ہیں۔“ دادی اماں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ “ دیکھ تو لڑکی کون مہمان آئے ہیں۔ شام کوٹ سے تو نہیں آئے۔“

“ کون آیا ہے؟“ علی احمد قلم ڈیسک پر رکھتے ہوئے بولے اور پھر حسبِ عادت جلدی سے قمیض پہننے لگے۔ ہاجرہ باورچی خانے سے نکل کر چپ چاپ دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھیں ابھی سے پرتم ہر رہی تھیں کہ شاید مہمانوں کے آتے ہی صفیہ کی موت پر اظہار افسوس کرنا پڑے۔ شاید وہ آئے ہی اسی غرض سے ہوں۔ ایلی سہم کر کھڑا ہو گیا۔ فرحت اپنا ڈوپٹہ سنمبھالنے لگی۔ سب سیڑھیوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سیڑھیوں سے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ کوئی ہنس رہی تھی۔ جیسے سکول کی لڑکیاں ہنستی ہیں۔ ایک کہہ رہی تھی۔ “ تم چلو آپا۔ چلو بھی نا۔“ دوسری بولی “ تو خوامخواہ جھینپتی ہے۔“ پھر کوئی سریلی آواز میں ہنس پڑی جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں۔

“ اے ہے کون ہے؟“ دادی اماں بولی۔ “ آ جاؤ نا اوپر۔“

“ سلام کہتی ہوں۔“ وہ دونوں دروازے میں آ کھڑی ہوئیں۔ “ فرحت کہاں ہے؟“

“ ہائے “ فرحت چلائی۔ “ یہ تو سارہ صبورہ ہیں۔“ اور بھاگ کر ان سے لپٹ گئی۔ “ کون ہیں۔ دادی اماں؟“ احاطے سے عورتوں نے پوچھنا شروع کر دیا۔

“ کون آیا ہے؟“

“ لڑکیاں ہیں۔“ دادی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ “ اپنی فرحت سے ملنے آئی ہیں۔“

“ اپنی بچیاں ہیں، اللہ عمر دراز کرئے۔“

“ بڑی دور سے آئی ہیں۔ خیر سے۔“

“ ہاں چاچی سہیلیاں جو ہوئیں۔“

“ اچھا کیا جو ملنے آ گئیں۔“

“ کیا نام ہیں لڑکیوں کے؟“

چند ایک ساعت میں محلہ بھر میں یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ جیسے تالاب میں پتھر پھینکتے ہی چھوٹی چھوٹی لہریں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں۔

دیر تک محلے میں وہ لہریں ناچتی ہریں پھر سکون طاری ہو گیا۔ لیکن علی احمد کے گھر میں ایک دبا دبا طوفان اُبھر رہا تھا۔ ادھر بڑے کمرے میں ہاجرہ، فرحت، سارہ، صبورہ بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ کمرے سے ہلکے لطیف قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ ایسے رنگین قہقہے جو محلے کے کسی گھر سے کبھی سنائی نہ دیئے تھے۔ باہر دادی اماں چولہے پر گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی اور اس کے پاس سیدہ سر ہاتھوں میں تھامے تیل سے بھری کڑاہی کو حسرت ناک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ اندر علی احمد قمیص پہنے بار بار چور نگاہوں سے جھانکتے اور پھر حقے کی کش لینا شروع کر دیتے اور کھانستے۔ پھر وہ ایک دم اضطراب سے آواز دیتے۔ “ ایلی کی ماں حقہ بھر دو۔“ پھر قلم اٹھا کر لکھنے کی کوشش کرتے اور پھر کھانسنے لگتے۔ “ ایلی کی ماں کون آئی ہیں؟ لڑکیاں ہیں؟ اچھا تو دوراہے سے آئی ہیں۔ دوراہے میں یہ لوگ رہتے کہاں ہیں؟ پھاٹک والے محلے میں۔ اچھا وہ جو سبز کھڑکیوں والا مکان تھا وہاں ------ ہوں تو اپنے قاضی اظہر حسین کی بیٹیاں ہیں۔ لو تم نے پہلے کیوں نہ بتایا۔ وہ تو بالکل اپنے ہی ہیں۔ ہی ہی ہی۔ جب ہم دورائے دورے پر جایا کرتے تھے تو قاضی اظہر ہی کے گھر رہا کرتے تھے۔ بڑے اچھے تعلقات تھے قاضی جی سے ہی ہی ہی ہی۔“ ان کی باتوں کے دوران دادی اماں ان کی قمیض کو گھور گھور کر دیکھتی اور موہوم آہیں بھرتی۔ ایلی بھی ان کی قمیض کر طرف دیکھ رہا تھا۔ کسی کے آنے پر وہ قمیص ضرور پہنا کرتے تھے۔ مگر جلد ہی مطمئن ہو کر اتار بھی دیتے تھے اور پھر اپنے کام میں لگ جایا کرتے تھے۔ لیکن نہ جانے سارہ صبورہ کے آنے پر انہوں نے قمیض اتاری کیوں نہ تھی۔ پھر کچھ دیر کے بعد وہ چلم اٹھائے خود باہر چولہے کی طرف آ رہے تھے۔ وہ تو چلم بھرنے کے لیے ایلی یا کسی اور کو آواز دیا کرتے تھے۔

“ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے اور با آواز بلند بولے “ اپنے قاضی اظہر کی بیٹیاں ہیں۔ ایک مرتبہ ہم قاضی صاحب سے ملنے گئے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کمرے کی طرف چل دیئے جس میں لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ “ قاضی صاحب بڑے تپاک سے ملے۔ وہ سبز کھڑکیوں والا مکان تھا نا پھاٹک محلے میں۔“ وہ اندر گھس گئے۔ “ اچھا تو تم بڑی لڑکی ہو ان کی۔ ہی ہی ہی۔ سارہ ہو۔ تم فرحت کی ہم جماعت ہو۔ اور یہ صبورہ ہے۔ ہی ہی ہی۔“

باہر چولہے کے پاس دادی اماں چمٹے سے زمیں کرید رہی تھی۔ اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ سیدہ کی آنکھوں میں چمک لہرا رہی تھی اور وہ حسرت ناک نگاہوں سے تیل کی کڑاہی کو گھورنے کی بجائے غور سے اس تنکے کا جائزہ لے رہی تھی جو چولہے کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ کان سے دوپٹہ سرکائے جا رہی تھی۔

“ ہی ہی ہی۔ آؤ نا۔ ادھر۔ اس طرف۔ اس کمرے میں، اچھا قاضی صاحب کا اب کیا حال ہے؟ ایلی بھئی بھاگ کر جا اور لے آ کچھ بوتلیں اور کچھ ------ ادھر آؤ نا سارہ ------ انہیں لے آؤ ایلی کی ماں ------ ہی ہی ہی۔ بہت ہی بھلے آدمی تھے ان کے ابا۔ ہمارے دوست تھے۔ ہی ہی ہی۔“

ہاجرہ مسکرا رہی تھی۔ مگر اس کی مسکراہٹ میں بلا کا اضطراب تھا اور فرحت کے ماتھے پر بل پڑ رہے تھے۔ علی احمد کی مسلسل ہی ہی ہی کی آواز آ رہی تھی۔ دادی کا ہاتھ کانپے چلا جا رہا تھا۔ اور سیدہ کا کان بالکل ننگا ہو چکا تھا۔

شام کو ارجمند نے آواز دی ------ “ آیا “ ایلی چلایا۔ لیکن نہ جانے کیوں ارجمند ایلی کا انتظار کرنے کے بجائے چپ چاپ اوپر آ گیا۔ حالانکہ وہ عام طور پر ایلی کے گھر آنے سے گریز کیا کرتا تھا۔ “ دادی اماں سلام۔ ایلی گھر ہے کیا؟“ اس نے چوری چوری دالان کی طرف دیکھا جہاں سارہ اور صبورہ بیٹھی تھیں اور پھر دروازے سے باہر اس مقام پر کھڑا ہو گیا جہاں دالان میں بیٹھی ہوئی لڑکیاں اسے اچھی طرح دیکھ سکتی تھیں۔ اس نے جیب سے ریشمیں رومال نکالا اور اسے گردن پر پھیرنے لگا پھر وہ ایک انداز سے کھڑا ہو گیا۔ “بیٹھ جا۔“ دادی اماں بولی “ نہیں دادی اماں میں ٹھیک ہوں۔“ ارجمند نے چوری چوری کمرے میں جھانکھتے ہوئے کہا اور پھر آواز نکالے بغیر کوئی شعر گنگنانے لگا۔ ایلی سامنے حیران کھڑا تھا۔ کیونکہ ارجمند جان بوجھ کر اس کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔ کچھ دیر تو ایلی دیکھتا رہا پھر چپکے سے اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔ اسے یوں قریب دیکھ کر ارجمند بولا، “ ایلی وہ کتاب تمہارے پاس ہے نا؟“

“ کونسی کیسی کتاب؟“ ایلی نے پوچھا۔

“ بھئی وہی۔“ وہ با آواز بلند بولا۔“ جو ماسٹر صاحب کل پڑھا رہے تھے۔ کیا نام ہے اس کا۔“ وہ پھر دبی دبی آواز میں ایلی سے کہنے لگا۔ واہ واہ کیا چیزیں ہیں۔ کیا ہکوری ڈکوری ہیں۔ ہاں بھئی تو وہ کتاب ہے جس میں سے آج سوال کرنے ہیں۔“ پھر وہ دادی اماں کو سنانے کے لیے چلایا۔ “ بڑا والا نہیں چھوٹا والا ایڈیشن وہ گلابی گلابی سی۔“ اس نے اندر دالان کی طرف اشارہ کیا۔ “ کیا چیز ہے واہ۔“ ------ ایلی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ دادی اماں ارجمند کو گھور رہی تھی۔ اس کے ریشمیں رومال کو گھور رہی تھی۔ دفعتاً اس نے دادی اماں کی کڑی نگاہوں کو محسوس کیا۔ “ اچھا۔“ وہ بولا “ ذرا ہمارے گھر آؤ نا ایلی۔ وہ چھوٹی گلابی گلابی۔ چھوٹا والا ایڈیشن۔ آؤ گے نا۔“ اس نے اندر دالان کی طرف دیکھا۔ “ میں انتظار کروں گا۔ ہائے کیا چیز ہے۔“ اور وہ چلا گیا۔

ارجمند کے جانے کے بعد رفیق آ گیا۔ اس کی نگاہیں یوں مطمئن تھیں، جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔ “ پھوپھی کہاں ہے؟“ اس نے زیرِ لب کہا “ شاید ادھر ہو۔“ وہ اپنے آپ ہی بولا اور دالان میں داخل ہو گیا۔ پھر وہ ٹھٹھکا “ اوہ۔ مجھے تو پتہ ہی نہ تھا۔“ اس نے گویا دیوار سے مخاطب ہو کر معذرت کی اور واپس جانے لگا۔ “ رفیق ہے۔“ ہاجرہ نے آواز دی۔ وہ رک گیا۔ ایک سرسری مگر بھیگی نظر سارہ اور صبورہ پر ڈالی، ایک ہلکی سی آہ بھری۔“ وہ کہا تھا نا پھوپھی نے سودا لانا ہے۔ تو میں آ گیا۔ خیر خیر۔“ اس کی آنکھوں میں گلابی چھینٹے اڑ رہے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ہائے اللہ

ہی ہی ہی۔ اندر علی احمد ہنس رہے تھے۔ “ وہ بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔“ کہتے ہوئے وہ چلم اٹھائے چلے آئے اور چولہے کے قریب جانے کی بجائے سیدھے دالان میں گھس گئے۔ “ ہی ہی ہی جب ہم سب قاضی صاحب کے مکان پر گئے تھے۔ ہی ہی ہی ادھر آؤ نا سارہ صبورہ تمہیں بات سنائیں۔ اس کمرے میں آؤ‌ نا۔ تم شرماتی کیوں ہو۔ یہ تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔ ہی ہی ہی۔ قاضی صاحب کے گھر کو تو ہم اپنا ہی گھر سمجھا کرتے تھے۔ تم کیوں شرماتی ہو۔ آ جاؤ، آ جاؤ۔“

وہ کھڑے ہنسے جا رہے تھے۔ دادی اماں کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ سیدہ کا دوپٹہ کان سے گرتا جا رہا تھا۔

“بھئی فرحت یہ تمہارے کہنے کے بغیر نہیں آئیں گی۔ ٹھیک تو ہے۔ بھئی یہ آراب طور طریقے کیسے چھوڑیں۔ جب تک میزبان خود نہ کہے کیسے آئیں اور بھئ فرحت تو ان کی میزبان ٹھہری۔ کیوں فرحت یہی بات ہے نا ہی ہی ہی۔ آخر بڑے گھرانے کی لڑکیاں ہیں۔ بہت بڑا گھرانا ہے ان کا۔ کون نہیں جانتا ان کے گھرانے کو دوراہے میں۔ اچھا تو فرحت تم انہیں ساتھ لے آؤ۔ ادھر ہی ہی۔“ وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔

رات پڑ چکی تھی۔ لیکن ہاجرہ ابھی باورچی خانے میں بیٹھی انتظار کر رہی تھی کہ علی احمد کھانا کھا لیں تو وہ فارغ ہو۔ صبورہ فرحت کے ساتھ گپیں مارنے میں مشغول تھی۔ دادی اماں جائے نماز پر بیٹھی تھی۔ سیدہ بستر میں لیٹی ہوئی تھی۔ ایلی دادی اماں کی چارپائی پر اوندھا پڑا نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ علی احمد اپنے کمرے میں سارہ کو وہ قصہ سنا رہے تھے، جب وہ قاضی صاحب سے پہلی مرتبہ ملے تھے۔

“ ہی ہی ہی اور قاضی صاحب نے سمجھا۔ یہاں قریب ہو کر سنو نا۔ انہوں نے سمجھا کہ ہی ہی ہی اندھیرے میں نہ جانے کون ہے۔ ہی ہی ہی۔ ہاتھ چلانے شروع کر دیئے یوں۔ یوں ہی ہی ہی۔“ ہلکی سی باریک ہنسی کی آواز سنائی دی۔ “ ہی ہی ہی “ علی احمد بے تحاشا ہنسے چلے جا رہے تھے۔ ان کے کمرے میں نہ جانے کیا گڈ مڈ ہو رہا تھا۔ جیسے واقعی قاضی صاحب پکڑ دھکڑ کر رہے ہوں۔ ہنسی کی ہلکی آواز آئی پھر بند ہو گئی۔ “ ہی ہی ہی “ بھاری آواز بھی بند ہو گئی۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ پھر دفعتاً ہائے اللہ کی آواز آئی اور پھر علی احمد کے کمرے پر موت کی سی خاموشی چھا گئی۔

جائے نماز پر بیٹھے ہوئے دعا مانگتے مانگتے دادی اماں کے ہاتھ لرزے جیسے دفعتاً اسے تشنج کا عارضہ ہو گیا ہو پھر وہ دھپ سے سجدے میں گر گئی۔ سیدہ نے آہ بھر کر رضائی منہ پر لے لی۔ مشین پر کپڑا سیتے سیتے ہاجرہ کا ہاتھ کانپا اور دستہ مشین کی چرخی سے باہر نکل آیا اور ہاجرہ پھٹی بھٹی نگاہوں سے صبورہ اور فرحت کی طرف دیکھنے لگی۔ فرحت نے ماں کی طرف دیکھا۔ اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ لیکن صبورہ اسی طرح خوشی سے چلاتی رہی ہنستی رہی پھر دفعتاً اس نے محسوس کیا۔ جیسے کچھ ہو گیا ہو اور وہ خاموش ہو گئی۔

ایلی نے سر اٹھایا۔ چاروں طرف گھبرا کر دیکھا۔ نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔ جیسے بہت کچھ ہو گیا تھا۔ اس کے دل پر ایک بوجھ سا پڑ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

کچھ بھی تو نہیں

چواؤں - ٹھک علی احمد کے کمرے کا دروازہ بند ہو گیا۔ تمام گھر پر بھیانک سکوت طاری تھا۔ موت کا سکوت، موت، ایلی کانپ گیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے صفیہ آ گئی۔ جیسے وہ اس روز چارپائی پر پڑی دم توڑ رہی تھی۔ ایلی نے محسوس کیا کہ علی احمد کے ساتھ سارہ کمرے میں اسی طرح سر پٹک رہی تھی۔ ادھر سے ادھر۔ ادھر سے ادھر۔ آنکھیں پتھرائے جا رہی تھیں۔ ڈر کی وجہ سے اس کی چیخ نکل گئی۔ دادی اماں اچک کر اس کے پاس آ گئی۔ “ کیا ہے دادی اماں۔“ وہ زیر لب گنگنایا۔“ کچھ نہیں ایلی۔“ دادی اماں نے کہا “ کچھ بھی تو نہیں۔ سو جاؤ۔“ اور وہ اسے کانپتے ہوئے ہاتھ سے تھپکنے لگی۔

اگلے روز جب ایلی بیدار ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ گھر پر وہی بھیانک خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس صبح وہ تمام دنیا کے خلاف غصہ محسوس کر رہا تھا۔ وہ کمرہ غلاظت سے بھرا تھا۔ وہ گھر وہ محلہ وہ شہر سب گندگی سے بھرے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ محلے والے سبھی اندھے تھے۔ اندھے اور اپاہج۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ وہ گھر وہ محلہ وہ شہر چھوڑ کر کہیں چلا جائے جہاں غلاظت نہ ہو جہاں گندگی نہ ہو جہاں بھیانک خاموشی نہ چھائی ہو۔ اس کی نگاہ دادی اماں پر جا پڑی جو چپ چاپ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی۔

اس نے پہلی مرتبہ دادی اماں پر غصہ محسوس کیا۔ کیا وہ گھٹنوں میں سر دیئے اور سجدے کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکتی تھی۔ ویسے محلے کے لڑکوں کے خلاف تو اس کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی۔ جب صفدر اس کے مکان کی دیوار پر پٹاخہ چلاتا تو اس وقت وہ کیوں چیختی تھی۔ “ اے ہے مکان کی دیواریں ہل گئی ہیں۔“ اب کیا مکان کی دیواریں نہیں ہل رہی تھیں۔ پھر وہ یوں چپ کیوں بیٹھی تھی اور فرحت کے پاس بیٹھی ہوئی وہ بھیگی بلی سارہ جھکی جھکی نگاہوں سے گھر والوں کو ٹٹول رہی تھی۔ اور صبورہ یوں چپ چاپ بیٹھی تھی جیسے کچھ کھو گیا ہو۔ ایلی نے پہلی مرتبہ سارہ کی طرف نگاہ بھر کر دیکھا۔ بھیگی بلی کیسی چور نگاہوں سے دیکھتی تھی۔ اسے واضح طور پر معلوم نہ تھا کہ وہ اسے بری کیوں لگ رہی ہے۔ لیکن وہ اسے بری لگ رہی تھی۔

ادھر سے ابا کے حقے کی گڑگڑاہٹ سنکر اس نے منہ بنایا۔ بڑے علی احمد بنے پھرتے ہیں۔ ہی ہی ہی۔ فضول دانت نکالتے رہنا۔ باہر دادی اماں بیٹھی بار بار دالان کی طرف دیکھ کر آہیں بھر رہی تھی۔ اور سیدہ چپ چاپ بیٹھی آلو چھیل رہی تھی۔ ہاجرہ تو خیر برتن دھونے کے سوا کچھ کر ہی نہ سکتی تھی۔ ایلی دل ہی دل میں بل کھاتا رہا۔ اگرچہ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں بل کھا رہا ہے۔

پھر گھر میں یہ دستور ہو گیا۔ علی احمد سارا دن اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے۔ اگرچہ دن میں چار ایک مرتبہ خود حقے کی چلم اٹھا کر دالان کی طرف چلے آتے۔ حالانکہ انہوں نے کبھی خود چلم نہ بھری تھی اور پھر ہاجرہ کے کمرے میں جھانکتے۔ “ ہی ہی ہی کیا ہو رہا ہے بھئی۔“

“سارہ صبورہ گپیں چل رہی ہیں۔ خوب خوب۔ صبورہ کو گپیں بڑی پسند ہیں۔“

دن میں دو ایک بار ارجمند آ جاتا۔ “ ایلی ایلی بھئی وہ سوال چھٹی مشق کا پندرواں سوال وہ کیسے ہو گا۔ اپن سے تو نہیں ہوتا۔ بھئی واہ آج تو صندلی پیراہن زیبِ تن ہے۔ یہ آج معلوم ہوا کہ چاہ غب غب صندلی پیراہن پر کیا بہار دیتا ہے۔“

رفیق آ کر پوچھتا “ پھوپھی آج مچھلی بہت سستی بک رہی ہے۔ کیا خریدو گی؟“ اور چھپ چھپ کر اندر جھانکتا آہیں بھرتا۔

رات پڑتی تو علی احمد آتے۔ “ ہی ہی ہی صبورہ سو گئی کیا ابھی نہیں سوئی ------ یہی عمر تو ہے گپیں ہانکنے کی ہی ہی ہی ہی اور سارہ۔ سارہ تو دیر تک جاگنے کی عادی ہے۔ کیوں سارا۔ اچھا بھئی۔“

یہ کہہ کر وہ باہر نکل آتے۔ اور پھر دالان سے آواز دیتے۔ “ فرحت کی ماں صبورہ سو جائے تو مجھے آج کا حساب لکھوا دینا۔ اور۔ اور۔“ اور وہ عجیب سے ہنسنے لگتے۔

اس پر ہاجرہ کہتی “ ہائے لڑکیو اتنی دیر ہو گئی ہے اب سو جاؤ۔“ اور فرحت فوراً لیٹ کر کہتی۔ “ بھئی ہم تو اب سوتے ہیں۔ نیند آ گئی۔ آؤ صبورہ تم بھی سو جاؤ۔“ اور وہ زبردستی صبورہ کو لٹا لیتی اور پھر آنکھیں بند کر کے یوں پڑ جاتی جیسے نہ جانے کب کی سوئی ہوئی ہو۔

سارہ چپ چاپ اپنی چارپائی پر چلی جاتی مگر وہ لیٹتی نہ تھی۔ ایک طرف چپ چاپ بیٹھ رہتی۔ اس پر ہاجرہ محسوس کرتی۔ جیسے کمرے میں گھٹن پھیل رہی ہو اور وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر کوئی بات چھیڑنے کی کوشش کرتی مگر سارہ چپ چاپ بیٹھی رہتی۔

پھر جب صبورہ سو جاتی تو علی احمد کی آواز آتی “ فرحت کی ماں آج کا حساب تو لکھوا دو آ کر۔ صبورہ سو گئی ہے نا۔“

علی احمد کی آواز سن کر دادی اماں کا سر ہلنے لگتا اور وہ رکوع کے بغیر ہی سجدے میں گر جاتی۔ ادھر سارہ کنکھیوں سے ہاجرہ کی طرف دیکھتی۔ ہاجرہ اٹھ بیٹھتی اور سارہ چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑتی۔ جب وہ صحن سے گزرتیں تو سیدہ اپنا منہ رضائی میں لپیٹ لیتی۔ ایلی گھبرا کر اٹھ بیٹھتا لیکن دادی اماں نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اسے تھپکنے لگتی۔ پھر کچھ دیر کے بعد ہاجرہ ان کے کمرے میں جھانکتی۔ “ سو گیا؟“ ایلی کو جاگتے دیکھ کر گھبرا کر بات بدل لیتی اور ہاجرہ کے جانے کے بعد گھر پر ہنگامہ خیز سکوت چھا جاتا۔

پھر ایک رات جب صبورہ اور فرحت حسبِ معمول باتیں کرتے کرتے لیٹ گئی تھیں اور سارہ دوپٹہ اوڑھے یوں صبورہ کی چارپائی کو کونے پر بیٹھی تھی جیسے اسے ابھی اٹھ کر کہیں جانا ہو اور ہاجرہ منتظر کھڑی تھی کہ کب آواز پڑے اور وہ سارہ کو راستہ دکھا کر اپنے فرض سے فارغ ہو جائے کہ دفعتاً علی احمد کی آواز سنائی دی۔ جیسے وہ بالکل ہی بدلی ہوئی ہو۔ “ صبورہ جاگ رہی ہے۔“ انہوں نے سرتال میں کہا۔

صبورہ ! ہاجرہ کے ہونٹ ہلے۔ اس نے حیرت سے چھوٹی سی بچی کی طرف دیکھا۔ جس نے ابھی عنفوانِ شباب میں قدم رکھا ہی تھا۔

صبورہ ! سیدہ کی آنکھیں یوں کھلی کی کھلی رہ گئیں جیسے دفعتاً بینائی سے محروم ہو گئی ہو۔

دادی نے صبورہ کا نام سنا تو اس نے پہلی ہی رکعت میں سلام پھیر دیا۔

“ کس نے بلایا ہے مجھے؟“ صبورہ اٹھ بیٹھی “ مجھے بلایا ہے مجھے؟ چچا نے بلایا ہے۔“ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک لہرائی “ مجھے بلایا ہے۔ مجھے۔“ اور وہ شور مچاتی چلاتی ہوئی بولی “ آ تو رہی ہوں میں۔“ اور پھر آپ ہی آپ علی احمد کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ یہ دیکھ کر سارہ بیٹھی بیٹھی چارپائی پر ڈھیر ہو گئی۔ جیسے کوئی گٹھڑی گر کر اوندھی سی ہو گئی ہو اور فرحت نے منہ موڑ کر اوپر کمبل لے لیا اور ہاجرہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔

چراؤں ٹھک دروازہ بند ہو گیا۔ گھر پر سناٹا چھا گیا۔ ایلی نے دانت پیس کر رضائی پر گھونسہ مارا۔ اس روز دادی اماں اسے تھپکنا بھول گئی۔ اس نے یہ بھی نہ کہا “ سو جا ایلی۔ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

لو لیٹر

اگلے روز ایلی ارجمند کے گھر بیٹھا تھا اور ارجمند اسے سمجھا رہا تھا “ بڑی والی کو نہیں چھوٹی والی کو۔ وہ جو گلابی گلابی سی ہے۔“ “ اچھا“ ایلی نے سمجھے بغیر کچھ کہنے کی غرض سے کہا۔ ارجمند نے زیر لب کہا “ سب بڑی والیاں بے کار ہوتی ہیں۔ ان سے عشق نہیں ہو سکتا۔ اور اس لیے انہیں لو لیٹر نہیں لکھا جا سکتا اور اگر لکھو بھی تو بیکار ہے۔ پوچھو کیوں؟ اس لیے کہ ان کا دل دھک دھک نہیں کر سکتا اور دل دھک دھک نہ کرئے تو پھر عشق کیونکر ہو سکتا ہے۔ سمجھے کیا سمجھے۔ تو جان من لو لیٹر چھوٹی والی کو لکھا جائے ہکوری ڈکوری کو۔“

“ لو لیٹر۔“ ایلی نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔

“ ہاں۔“ ارجمند چلایا۔ “ بالکل موزوں ہے عمر اس کی لولیٹر کے لیے اور اگر ہم نے لو لیٹر نہ لکھا تو وہ خفا ہوجائے گی کہ لو لیٹر بھی نہ لکھا مجھے بڑے عاشق بنے پھرتے تھے اور اس کا دل دکھے گا۔ سمجھے۔“

لیکن ایلی گھبرا رہا تھا۔ “ اگر اس نے علی احمد سے کہہ دیا تو۔“ “انہوں“ ارجمند بولا “ تم انہیں نہیں جانتے۔“ ارجمند اسے سمجھانے لگا “ انکر اینڈی ماباؤں لو لیٹر کے سہارے جیتی ہیں۔ جب تک لو لیٹر نہ پڑھ لیں طبیعت کو چین نہیں پڑتا۔ تازہ موصول نہ ہو تو پرانے پڑھ پڑھ کر وقت کاٹتی ہیں۔ ان کے ٹرنک لو لیٹروں سے بھرے ہوتے ہیں اور چاہے کوئی لکھ دے انہیں۔ پڑھتی ضرور ہیں اور پھر کیا مجال جو کسی کو بتائیں۔ انہوں بالکل نہیں بتاتیں۔“

“ بالکل نہیں۔“

“ انہیں کیا ضرورت ہے۔“

“ تو پھر۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ پھر کیا۔ پھر پھر، اڑ اور ایک لو لیٹر۔“ ارجمند بولا۔

“ اچھا۔“ ایلی نے تھوک نگلنے کی بیکار کوشش کی۔ “ کس چیز سے لکھیں۔ میں بتاؤں آنسوؤں سے لکھیں۔“

“ مگر آنسو آئیں گے کہاں سے۔ ہم تو بھئی ہنسنے کے قائل ہیں۔ رونے کے نہیں۔ البتہ خون سے لکھنا آسان رہے گا۔“

“ وہ کیسے؟“

“ پن چھبو لیں گے کیا؟“

“ تکلیف نہ ہو گی کیا؟“

“ واہ اس میں‌ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے لڑکیاں خون پسند نہیں کرتیں۔ اس لیے سیاہی سے لکھ دو۔“

“ اچھا لیکن لکھیں کیا؟“ ایلی نے پوچھا “ یہ مسئلہ تو چٹکی بجانے میں حل ہو جائے گا ہاں۔“

ارجمند نے کہا “ یہ اتنے پریم شاستر پڑے ہیں۔ ان میں سے چن لو۔“ ارجمند نے کشمیری بازار کی چھپی ہوئی چار ورقی کتابوں کا ایلی کے سامنے ڈھیر لگا دیا۔

سارا دن وہ خط کا مضمون چھانٹتے رہے۔ آخر شام کے چار بجے کے قریب خط مکمل ہو گیا۔ اس میں زیادہ تر شعر لکھے ہوئے تھے۔ “ مائی ڈیرئی لکھوں، میری جان لکھوں یا دلربا لکھوں۔ اے جانِ من میں تم کو القاب کیا لکھوں۔“ یہ شعر تو القاب کی حثیت رکھتا تھا۔ نفسِ مضمون کا شعر یہ تھا “ اس حسن ترے کی بیوٹی نے مرے جینٹل ہارٹ کو توڑ دیا۔ جب سے تم پر ہوا ہوں شیدا نائٹ سلیپنگ چھوڑ دیا۔“ اس شعر کے چناؤ میں بڑی لے دے ہوئی تھی مگر ارجمند نے صاف اعلان کر دیا تھا کہ اگر یہ شعر نہ لکھا گیا تو لیٹر ادھورا رہ جائے گا۔ کیونکہ سکول کی لڑکیاں صرف انہی شعروں کو پسند کرتی ہیں۔ جن میں انگریزی کی چاشنی ہو ورنہ وہ اپنا لو لیٹر کسی سہیلی کو بھی نہیں دکھا سکتیں کہ وہ یہ نہ سمجھ لے کہ اسے کسی گنوار نے لو لیٹر لکھا ہے۔

ارجمند کی بات معقول تھی اور نہ بھی ہوتی تو بھی ایلی لکھنے پر مجبور تھا کیونکہ اسے تو لو لیٹر کے متعلق علم ہی نہ تھا۔ وہ یہ نہ جانتا تھا کہ لو لیٹر لکھنے سے ہو گا کیا۔ شام تک لو لیٹر تو مکمل ہو گیا لیکن اسے صبورہ تک پہنچانا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ ایلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی قمیض کی وہ جیب جلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ جس میں اس نے لو لیٹر رکھا ہوا تھا۔ ارجمند نے کہا تھا “ اس کی جیب میں ڈال دینا اور جیب میں نہ ڈال سکو تو اسے دور سے دکھانا۔ دیکھ کر وہ بے قرار ہو جائے گی اور خود ہی منت کر کے مانگ لے گی۔“

دوسری تجویز ایلی کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول تھی۔ دکھانا بڑی جرات کا کام تھا۔ البتہ چوری چوری اس کی جیب میں رکھنا شاید ممکن ہو۔ لیکن دقت یہ تھی کہ اس کی قمیض میں جیب نہ تھی۔ عجیب قمیض پہنتی تھی۔ وہ اس نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ اس کی قمیض شروع سے لیکر آخر تک انوکھی تھی۔ جابجا چنٹین پڑی ہوئی تھیں۔ کہیں کھلی کہیں تنگ کہیں کچھ کہیں کچھ ایسی قمیض تو محلہ بھر میں کسی کی نہ تھی۔

پھر جب دونوں بہنیں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں تو دفعتاً اسے لو لیٹر کا خیال آیا اور پسینہ آ گیا۔ دل دھڑکنے لگا لیکن ہمت کر کے اس نے وہ رقعہ اس کے جوتے میں ڈال دیا۔ جلدی میں اسے یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ جوتا کس کا تھا۔ سارہ کا یا صبورہ کا۔

اگلے دن وہ علی احمد کے روبرو سر لٹکائے کھڑا تھا۔ “بول“ وہ کہہ رہے تھے “ سچ سچ بتا دے۔“ اور سارہ ان کے قریب کھڑی مسکرا رہی تھی “ بتا “ وہ گرج رہے تھے “ ہوں تو تمہیں نے شرارت کی ہے شرم نہیں آتی۔“

“ شرم نہیں آتی شرم نہیں آتی۔“ چاروں طرف سے آوازیں آ رہی تھیں۔ غصے بھری آوازیں۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ دیوانہ وار چلانے لگے۔ شرم نہیں آتی اور علی احمد کے سامنے تن کر کھڑا ہو جائے شرم نہیں آتی۔ ہی ہی ہی ہی اور باہر نکل جائے اس مکان سے دور۔ اس شہر سے دور۔

“ دفع ہو جاؤ ہماری نظروں سے دور ہو جاؤ۔“ علی احمد گرجے اور ایلی چپ چاپ آ کر چارپائی پر پڑ گیا۔

تمام گھر میں چاروں طرف شور مچا ہوا تھا۔

ہی ہی ہی ہی۔ شرم نہیں آتی۔

قاضی صاحب تو سمجھ لو ہمارے بھائی تھے۔ ذرا قریب ہو جاؤ نا۔ شرم نہیں آتی۔

شرم نہیں آتی۔ شرم نہیں آتی۔ محلے کے کوئے چلا رہے تھے۔

چراؤں، ٹھک، علی احمد کا دروازہ بند ہوتے ہوئے کراہ رہا تھا۔ شرم نہیں آتی۔

غصے میں بھنا کر ایلی نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ منہ سوجھا ہوا تھا۔ کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔ “ شرم نہیں آتی۔“ وہ باآوازِ بلند چلایا لیکن گھیں گھیں کے علاوہ اس کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ بے بسی اور لاچاری کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

بیداریاں

بام آباد

چھٹی ختم ہونے پر علی احمد کا تبادلہ بام آباد ہو گیا۔ لیکن علی احمد تن تنہا بام آباد جانے کے لیے تیار نہ تھے۔

علی احمد تنہائی سے ڈرتے تھے۔ شاید وہ اپنے آپ سے خائف تھے۔ وہ کمرے میں اکیلے سو نہ سکتے تھے۔ اگر سوتے میں ان کے کمرے سے لوگ چپ چاپ نکل آتے تو جونہی آخری آدمی باہر نکلتا، وہ گھبرا کر جاگ اٹھتے۔ اسی وجہ سے ان کا کسی کمرے یا مکان میں اکیلے رہنا ممکن نہ تھا۔ تنہائی کے علاوہ خاموشی بھی ان پر گراں گزرتی تھی۔ رات کے وقت اگر ان کی آنکھ کھل جاتی تو وہ اسی چھائی ہوئی خاموشی سے ڈر کر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتے تاکہ اپنی آواز کا سہارا لیں یا وہ اپنی بیوی کو پکارتے اور یا حقہ بھر کر اس کی گڑ گڑ سے تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔

لہذا بام آباد تنہا جانا کیسے ممکن تھا۔ ایلی کی ماں ان کے ساتھ جانے کی خواہشمند نہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اسے ساتھ لے جانے سے علی احمد کا مقصد صرف یہی تھا کہ اپنا کمرہ آباد رکھنے کے لیے گھر میں ایک عورت کی موجودگی کا بہانہ قائم ہے۔

اس روز علی احمد دادی اماں کے پاس چپ چاپ بیٹھے تھے۔ دادی اماں کہہ رہی تھیں “ اے ہے۔ لڑکی اگر تو ساتھ چلی جائے تو کم از کم علی احمد کو روٹی کی تکلیف تو نہ ہوگی۔ “ اور دروازے سے لگی ہاجرہ رو رہی تھی۔ اس کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔

“ اللہ رکھے تیرے بال بچے ہیں۔ تو ہی تو اس گھر کی مالکہ ہے۔ تو ساتھ جائے گی تو ہی گھر بسے گا نا۔“

“ نہ میں نہیں بنتی مالکہ اس گھر کی۔“ ہاجرہ نے ہچکی لے کر کہا۔ “ بہت چاکری کر دیکھی ہے۔“

دادی بولی۔ “ آخر تو نہ جائے گی تو گزارہ کیسے ہو گا۔“ ہاجرہ نے کہا۔ “ میرے بغیر انہیں کسی چیز کی کمی ہے کیا۔“

“ چل چھوڑ اب۔“ دادی اماں بولی۔

پھر نہ جانے کیسے چند ہی منٹوں میں محلہ والیاں آ پہنچیں جیسے انہوں نے پہلے ہی سے پروگرام بنا رکھا ہو۔

“ اے ہے کیوں نہ جائے گی تو۔“ چاچی حاجاں ہاتھ چلا کر بولی “ اللہ رکھے تو اس گھر کی مالک ہے۔“

“ لو یہ سنو۔“ ماں جیواں نے ہاجرہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ “ اللہ عمر دراز کرئے تیرے بچوں کی۔ تو نہ جائے گی اپنے گھر تو ہو گا کیا۔“

“ تو ان آنے جانے والیوں کی کیا پرواہ کرتی ہے۔ آتی ہیں تو آ جائیں۔ آئیں گی اور چلی جائیں گی۔ ان کل موہنیوں کا کیا ہے جی۔ گھر تو تیرا ہی ہے نا۔ اپنے لیے نہیں تو ان بچوں کے لیے تجھے ضرور جانا چاہیے۔“

محلے کی بوڑھیاں ہاجرہ کے گرد چیلوں کی طرح منڈلانے لگیں۔ ان کی چیخیں سن کر ایلی نے محسوس کیا کہ بام پور میں طوفان آیا ہی چاہتا ہے۔ پہلے تو ہاجرہ نے جلی کٹی سنانے کی کوشش کی پھر اس نے ہچکیوں سے احتجاج کیا اور بالاخر خاموش ہو گئی اور اس کی خاموشی پر ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔

“ ہاجرہ جائے گی، ہاجرہ جائے گی۔“

“ اے ہے کیوں نہ جائے اپنے گھر۔“

“ ہی ہی ہی۔“ علی احمد ہنسنے لگے “ تو سامان باندھ دو نا اس کا۔“ اور سامان باندھا جانے لگا اور دو روز میں وہ سب بام آباد جا پہنچے۔

بام آباد ایک نیا شہر تھا۔ لیکن جب ایلی نے اسے دیکھا تو اس میں کوئی ایسا نیا پن دکھائی نہ دیا۔ ایلی کا خیال تھا کہ نیا شہر بھی ویسا ہی ہو گا جیسے نیا گھر ہوتا ہے لیکن اسے پہلی بار معلوم ہوا کہ نیا شہر نئے گھر سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔

بام آباد ایک ویرانہ تھا۔ وسیع ویرانہ۔ اس کی سڑکیں بے تحاشہ چوڑی تھیں کہ سڑک پار کرنا مشکل ہو جاتا۔ پختہ سڑکیں تو در حقیقت بہت چھوٹی تھیں مگر ان کے ارد گرد بہت ساری زمین خالی پڑی ہوئی تھی۔ بازاروں کو دونوں طرف دکانوں کی جگہ جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ جن میں عجیب سی دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ سڑک کے درمیاں دو چوک آتے تھے۔ وہ چوک اتنے وسیع تھے کہ ایک طرف سے دوسری طرف چلتے چلتے ایلی تھک جایا کرتا۔ علی پور کا آصفی محلہ اس ایک چوک میں سما سکتا تھا۔ سڑک ختم ہوتے ہی ویرانہ شروع ہو جاتا پھر ہسپتال کی عمارت آتی جس پر ہر وقت موت کا سا سکوت طاری رہتا۔ دائیں طرف ہائی سکول کی عمارت تھی۔ ایک بہت بڑی پختہ اور خوبصورت عمارت شکل و صورت میں وہ انگریزی کے حرف ای (E) سے ملتی تھی۔ بڑی عمارت سے ہٹ کر کچے کمروں کی ایک لمبی قطار تھی اور اس سے مغرب کی طرف ایک مربع بلڈنگ تھی جس کے سامنے بہت بڑا پھاٹک لگا ہوا تھا۔ یہ سکول کا بورڈنگ ہاؤس تھا۔

سکول کے ارد گرد وسیع میدان تھے۔ جن میں ریت اڑتی تھی۔ ریت میں کہیں کہیں جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ سکول سے پرے یہاں وہاں کھجور کے درخت لگے ہوئے تھے اور سڑک پر اونٹوں کے قافلے آتے جاتے رہتے تھے۔

سکول سے بہت دور شہر کے دوسرے سرے پر علی احمد کا مکان ایک گلی میں واقع تھا۔ اس مکان میں چار کمرے تھے۔ ایک بہت بڑا صحن جس میں ایک کونے پر خاردار درخت لگا تھا۔ مکان کے ایک طرف کئی ایک غریب کنبے آباد تھے۔ وہیں ایک کوٹھڑی میں مائی رفیقاں اور اس کا بیٹا گاماں رہتے تھے۔ دوسرے طرف ایک گھوڑا ڈاکٹر رہتے تھے۔ جن کا رنگ بے حد کالا تھا مگر جن کی پیشانی محراب دار تھی۔ ڈاکٹر کا بیٹا فرید بھرپور جوان تھا۔ اس کا منہ کتنا چوڑا تھا اور اس کا جسم کس قدر پھیلا پھیلا سا تھا۔ ڈاکٹر کے گھر میں دو جوان لڑکیاں تھیں۔ زاہدہ اور عابدہ، جو ہر وقت نمازیں پڑھنے میں لگی رہتی تھیں۔ ان کی آنکھیں موٹی موٹی تھیں۔ لیکن وہ اس قدر کالی کیوں تھیں۔ ان کی آوازیں یوں سنائی دیتی تھیں جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ وہ دونوں فرحت کی سہیلیاں بن گئیں۔ اس بات پر ایلی کو بڑا غصہ آیا۔ اسے فرحت کی سہیلیوں سے بے حد چڑ ہو گئی تھی۔ فرحت کی سہیلیوں کا خیال آتے ہیں اس کی نگاہوں تلے سارہ اور صبورہ آ جاتیں اور پھر آواز آتی “ سارہ سو گئی ہے کیا“ اور پھر چراؤں ٹھک دروازہ بند ہو جاتا۔ “ ہونہہ، سہیلیاں۔“ ایلی کے دل میں غصے کی ایک لہر اٹھتی اور وہ ہوا میں ایک گھونسہ چلا دیتا۔

زاہدہ اور عابدہ نے صحن کی درمیانی دیوار سے ایک اینٹ نکال رکھی تھی تاکہ آپس میں باتیں کر سکیں اور علی احمد آتے جاتے دزدیدہ اور حسرت بھری نگاہوں سے اس سوراخ کر طرف دیکھا کرتے اور ہاجرہ علی احمد کی نگاہوں کو دیکھ کر اپنا سینہ تھام لیا کرتی، ہائے اللہ اب کیا ہو گا اور ایلی محسوس کرتا کہ اب وہ سوراخ بڑا ہو جائے گا۔ بڑھتے بڑھتے دروازہ بن جائے گا اور پھر ایک دن آواز آئے گی۔ زاہدہ سو گئی کیا اور عابدہ چپکے سے دروازے سے نکل کر گھر میں آ جائے گی اور پھر علی احمد کے کمرے میں گھس جائے گی۔ پھر دروازہ بند ہو جائے گا اور پھر - پھر - لیکن غصے سے اس کا منہ اس قدر سرخ ہو جاتا کہ “ پھر “ کے متعلق اسے کوئی دلچسپی نہ رہتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

رفیقاں

بام آباد میں سب سے پہلی عورت جو ان کے گھر آئی رفیقاں تھی۔ “ بی بی کوئی کم ہووے تاں دسونا“ اس کے انداز میں بے بسی کی جھلک نمایاں تھی۔ لیکن نہ جانے کیوں ایلی نے محسوس کیا کہ اس کی جھکی جھکی آنکھیں نہ دیکھنے والی نظر آنے کے باوجود دیکھتی تھیں۔

ہاجرہ پہلے ہی روز رفیقاں کی دکھ بھری کہانی سن رہی تھی اور اس کا پلو بھیگا ہوا تھا۔ ایلی نے ایک نظر دونوں کو دیکھا اور پھر غصے سے بے تاب ہو کر باہر چلا گیا۔

رفیقاں روز ان کے یہاں آنے لگی۔ اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا گاماں بھی ہوتا تھا۔ وہ آ کر گھر کے کام کاج میں ہاجرہ کا ہاتھ بٹاتی اور اس دوران علی احمد خلاف معمول خود چلم اٹھائے باورچی خانے میں آ جایا کرتے۔

“ اوہ۔ رفیقاں ہے۔ کیا حال ہے رفیقاں۔ اچھی تو ہے تُو۔ بڑی دیر کے بعد دیکھا ہے تجھے۔“ اور رفیقاں مسکراہٹ بھینچنے کو کوشش کرتی اور نظریں جھکا لیتی اور علی احمد اپنے آپ باتیں کرتے کرتے تھک جاتے اور پھر اپنے کمرے میں چلے جاتے اور وہاں پہنچ کر آواز دیتے “ رفیقاں ذرا آنا تو۔“ اس پر ہاجرہ کی تیوری چڑھ جاتی اور رفیقاں مسکرا کر سر جھکا لیتی جیسے وہ سب سمجھتی ہو اور چپ چاپ بیٹھی کام کیئے جاتی۔

لیکن ایلی کو محسوس ہوتا جیسے اس کی خاموشی میں ہاں کی جھلک ہو جیسے اس کا جی چاہتا ہو کہ اٹھ کر علی احمد کے کمرے میں چلی جائے اور پوچھے آپ نے بلایا ہے جی لیکن وہ بیٹھے رہنے پر مجبور تھی۔ بی بی کیا کہے گی اور بی بی بات بات پر کچھ نہ کچھ کہا کرتی تھی۔ آواز پڑنے پر وہ زیرِ لب کہتی “ اونہوں۔ ان تلوں میں تیل نہیں رفیقاں ایسی نہیں۔ سب عورتیں ایک سی نہیں ہوتیں کہ بلاوے کی منتظر ہوں۔“ یہ سن کر رفیقاں مسکرائے جاتی اور ایلی مبہم طور پر محسوس کرتا جیسے رفیقاں کا جی کچھ اور چاہتا ہے اور وہ کچھ اور کر رہی ہے اور ایلی کی نگاہ میں رفیقاں کی مسکراہٹ دو دھاری چھری کی طرح محسوس ہوتی تھی اور وہ رفیقاں سے نفرت کرتا اور یہ نفرت روز بروز شدید تر ہوتی جاتی تھی۔

لیکن ہاجرہ رفیقاں کے گُن گاتی تھی۔ بات بات پر رفیقاں کی تعریف، رفیقاں کی شرافت اور نیکی کی گھر میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ شاید اسی دھوم کی وجہ سے رفیقاں قطعی طور پر مجبور ہو گئی تھی کہ علی احمد کی آواز سننے کے باوجود اور ان کی متبسم آنکھوں کے اشارے کے باوجود چپ چاپ بیٹھی رہے۔ اسکے باوجود جب وہ علی احمد کے کمرے کے دروازے کے قریب سے گزرتی تو اس کی گردن تن جاتی۔ گھگھرا یوں کھلتا اور بند ہوتا کہ عجیب سےدائرے بنتے چلے جاتے اور ایلی محسوس کرتا جیسے اس کا جی چاہتا ہو کہ رک جائے اور چوری چوری مسکرانے کی بجائے قہقہہ مار کر ہنس دے۔ کیوں بلایا ہے مجھے۔ کس نے بلایا ہے مجھے، مگر وہ چلے جاتی چلے جاتی۔ ایلی سمجھتا تھا کہ ہاجرہ کی توقعات نے اس کا وہاں رکنا ناممکن کر دیا اور ہاجرہ کے ان محبت بھرے جذبات سے جو اس نے رفیقاں سے وابستہ کر رکھے تھے۔ صفیہ کی بُو آتی تھی اور ایلی کو محسوس ہوتا تھا جیسے رفیقاں صفیہ کی جانشین ہو ------ ایلی کو اس بات پر اور بھی غصہ آتا تھا۔

علی احمد کا گھر ایک عجیب گھر تھا۔ اس میں دو طاقتیں برسرِ پیکار تھیں۔ علی احمد اور ہاجرہ ہر نوواردہ کو دیکھ کر دونوں طاقتیں اسے اپنی اپنی طرف کھینچتیں۔ علی احمد کے کمرے کا کھلا دروازہ اسے اپنی طرف بلاتا اور باورچی خانے کی محراب اسے اپنی طرف کھینچتی۔ علی احمد کے دروازے سے قہقہوں کی آواز سنائی دیتی اور باورچی خانے سے دبی دبی آہوں کی۔ وہ کمرہ اور باورچی خانہ دونوں ہی مظلوم تھے۔ کمرہ ہی ہی کرنے پر مجبور تھا اور باورچی خانہ آہیں بھرنے پر۔ فطرت ان دونوں کی مجبوریوں پر مسکراتی تھی۔ جیسے وہ ان دونوں کے راز سے واقف ہو اور ان دونوں کی کشمکش سے دور ایلی اور فرحت ایک ویرانے میں اکیلے زندگی کے دن کاٹ رہے تھے۔ تن تنہا۔

ہر نوواردہ کے پاؤں کی آہٹ سن کر دونوں بھائی بہنوں کے کان کھڑے ہو جاتے۔ اب کیا ہو گا۔ وہ اشتیاق بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگتے۔ نوواردہ کمرے اور باورچی خانے کے درمیاں لٹک جاتی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کرے۔ بالاخر یا تو وہ باورچی خانے میں جا پہنچتی اور یا علی احمد کے کمرے میں رک جاتی اور پھر مکان سے یا تو قہقہوں کی گونج سنائی دیتی اور یا آہوں کی۔ ہر صورت میں مکان پر اداسی چھا جاتی۔ جس میں دبی دبی چیخوں کی گھٹی گھٹی آوازیں سنائی دیتیں اور ایلی ڈر کر چلاتا۔ آپا اتنی اداس کیوں ہے۔ اور فرحت آہ بھر کر کہتی “ اب تو سوئے گا بھی کہ نہیں۔“

صفیہ کی موت کے بعد بھی گھر میں ہاجرہ کی حثییت ایک نوکرانی کی سی تھی۔ وہ دن بھر باورچی خانے میں برتن مانجھتی۔ آہیں بھرتی اور آنے جانے والیوں کے پاس بیٹھ کر آنسو بہاتی رہتی۔ “ ایلی کی ماں “ کمرے سے آواز آتی۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھتی “ جی آئی “ اور پھر درواشے کے باہر چوکھٹ سے لگ کر پوچھتی۔ “ جی کیا ہے؟“ جیسے کوئی فقیر بھیک مانگنے کے لیے کھڑا ہو۔ ہاجرہ فطری اور ازلی طور پر بھکارن تھی۔ ڈر، خوف، ہراس اور احساس کمتری اس کی گھٹی میں پڑے تھے جو اس نے وراثت میں ایلی کو بخش دیئے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

بند کمرا

پھر علی احمد کے دفتر میں کلرکوں کی بھرتی کے لیے امتحانات شروع ہو گئے اور علی احمد کے گھر میں سفارشات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ وہ پہلا موقع تھا جب کہ ایلی کو احساس ہوا کہ امتحانات اس قسم کے نتائج بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

ڈیوڑھی میں غریب سائلوں کی منتیں سنائی دیتیں اور پھر کھجوروں سے بھری ہوئی ٹوکری اندر آ جاتی اور پھر علی احمد کو خود باہر جا کر ٹوکری بھیجنے والے کو ڈانٹنا پڑتا۔ پھر منتوں کی آوازیں بلند ہوتیں اور پھر ٹوکری دوبارہ گھر میں آ پہنچتی۔

ان دنوں سفارشوں کا تانتا بندھا تھا۔ شاید اس لیے کہ بام پور غریبوں کا شہر تھا۔ یا شاید اس لیے کہ علی احمد کے ٹین کے سپاہی کے متعلق لوگ جان چکے تھے۔

علی احمد اپنے کمرے سے باہر سائلوں کی طرف دیکھتے اور پھر یوں کام میں لگ جاتے، جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔ ادھر ہاجرہ ان مہمانوں کو منہ نہ لگاتی اور بات کیے بغیر اپنے کام میں مشغول رہتی۔ پھر ایلی چوری چوری جھانکتا۔ اس کو توجہ لوگوں کی نسبت اس ٹوکری پر پڑتی جو ان کے ساتھ ہوتی۔ علی احمد کی توجہ ٹوکری کی بجائے اس شخص پر پڑتی جو سفارش کے لیے آتا تھا۔ چار ایک بار دیکھنے اور جانچنے کے بعد وہ باہر نکلتے اور غصے میں چلاتے “ ہاں بھئی کیا کام ہے۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں قطعی طور پر مجبور ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اندر چلے جاتے اور از سر نو کام میں مشغول ہو جاتے۔

اکثر بار سفارشی براہ راست علی احمد کے کمرے میں جا پہنچتا اور ابتدائی جھاڑ جھپاڑ کے بعد ہی ہی ہی ہی ان کا قہقہ گونجتا اور ایلی کو معلوم ہو جاتا کہ ٹین کا سپاہی بیدار ہو چکا ہے اور ابھی وہ رزم گاہ میں اتر آئے گا اور پھر ------ پھر گھر پر موت کا سناٹا چھا جائے گا اور اس سناٹے میں رنگین مگر دبی دبی ہنسی کی آواز ابھرے گی۔ پھر دفعتاً سب ٹھیک ہو جائے گا اور نتائج خوشگوار ہوں گے۔ جیسے دکھی شہزادی کی کہانی میں مشکلات لڑائیوں اور امتحانات کے بعد سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اور اس کے بعد سب ہمیشہ خوش و خرم رہتے سہتے ہیں۔

اس سے پہلے ایلی کو مبہم سا احساس تھا کہ سب قصور علی احمد کا ہے اور وہ سوچا کرتا نہ جانے وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیوں دروازہ کھلتا ہے اور پھر بند ہو جاتا ہے۔ کیوں ٹین کا سپاہی ہنس ہنس کر لڑتا ہے اگرچہ اسے خوب معلوم تھا کہ علی احمد کے کمرے میں جو کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جسے قہقہوں اور بھیانک سناٹے سے تعلق ہے۔ گناہ ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں ہوتا کیا ہے۔ بلکہ اس کے دل میں دبی دبی آرزو تھی کہ کبھی وہ اتفاقاً وہاں چلا جائے اور اتفاقاً اس کی نظر پڑ جائے اور پھر اسے غصہ آنا شروع ہو جاتا۔ نہ جانے اپنی بے بسی پر یا اس عمل پر جو اس کے خیال میں وہاں ظہور پذیر ہوتا تھا۔

اب ایلی کو مبہم سا احساس ہونے لگا کہ علی احمد بیچارے مجبور تھے۔ ان کی نگاہوں سے ان کی مجبوری واضح ہوتی تھی۔ ان کی ہی ہی ہی ہی میں ان کی مجبوری صاف سنائی دیتی تھی۔ وہ کیوں اور کیسے مجبور تھے اسے معلوم نہ ہوا۔ بہرحال وہ مجبور تھے۔ قصور انکا تھا جو اپنے عزیزوں کو ساتھ لاتی تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

کور اور آسا

کور بھی پہلی مرتبہ بھائی کی سفارش کرنے آئی تھی۔ اس کے ساتھ اس کی ماں تھی۔ خود آسا تھا جسے دفتر میں کلرک بننے کا بے حد شوق تھا۔ تینوں کا قافلہ چپ چاپ اندر آ گھسا۔ آگے آگے ماں تھی۔ درمیان میں کور تھی اور پیچھے آسا۔ ماں کے کپڑے میل سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کا جسم لٹا ہوا تھا۔ نگاہ حرص آلود تھی۔ اسے دیکھ کر انتہائی غلاظت کا احساس ہوتا تھا۔ کور سیاہ فام گوشت تھا۔ کور سیاہ فام گوشت کا ایک گول مٹول لوتھڑا تھی۔ جس پر بھڑکیلے کپڑے ٹنگے ہوئے تھے۔ جو اس لوتھڑے کو اور بھی بدنما بنا رہے تھے۔ اس کا قد ٹھنگنا تھا۔ سر چھوٹا اور گول جس میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں رینگتیں اور سفید دانت رضامندی کی چمک سے روشن تھے۔

آسا ایک اونچا لمبا لڑکا تھا۔ اس کا چہرہ ذہنی چمک سے کورا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حماقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور اس کے انداز سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کو کے پیچھے پیچھے چلنے کا عادی ہے۔

یہ قافلہ چپکے سے مکان میں داخل ہوا اور علی احمد کے متعلق ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے بعد باہر صحن میں اسی مقام پر خیمہ زن ہو گیا۔ جہاں سے اندر کام میں منہمک علی احمد پورے طور پر دکھائی دیتے تھے۔ علی احمد نے باہر دیکھا۔ کور کے دانت چمکے۔ انہوں نے جلد ہی سر جھکا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کور اپنے گھگھرے اور چولی کو ٹھیک کر کے علی احمد کی طرف منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔ بڑھیا نے اس کی طرف پیٹھ کر لی۔ آسا آسمان کی طرف اڑتی ہوئی چیلوں کو بغور معائنہ کرنے لگا۔ کور کے دانت پھر چمکے۔ اس نے ایک بھرپور انگڑائی لی۔ علی احمد کے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر رجسٹر پر جا گرا۔ “ کون ہے؟“ وہ بولے۔ جواب میں دانت چمکے اور بغیر کسی تمہید کے کور اٹھ کر علی احمد کے کمرے میں جا داخل ہوئی۔ اس پر بڑھیا اس خاردار درخت کو دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ جو صحن میں پھیلا ہوا تھا اور آسا تنکے سے زمیں پر بیل بوٹے بنانے لگا۔

اس روز علی احمد کے کمرے سے ٹین کے سپاہی کی ہی ہی ہی سنائی دینے کی بجائے ربڑ کی گڑیا کی چیں چیں سنائی دے رہی تھی۔ اور ایلی حیران تھا اور فرحت یوں خلا میں گھور رہی تھی جیسے کچھ بھی نہ ہو۔

دفعتاً دروازہ کھلا اور کور ہنستی ہوئی نکلی۔ “ ماں۔ ماں آسا فیل تو نہیں۔ آسا تو پاس ہے۔ نہ جانے کس نے اس سے کہہ دیا ہے کہ تو فیل ہے خواہ مخواہ وہ تو پاس ہے۔ میں نے خود نتیجہ دیکھا ہے۔ تو نے کہا نہیں تھا۔“ اس نے آسا کو مخاطب کر کے کہا۔

“ یہ تو پاگل ہے۔“ آسا کی ماں بولی۔

آسا پاگلوں کی طرح ہنسا اور پھر خاموش ہو گیا۔ کور کے دانت چمکے۔ علی احمد سر کھجانے لگے۔ “ آؤں گی۔ ضرور آؤں گی۔ بابو جی۔“ وہ بولی “ چل ماں“ اور مڑ مڑ کر دانت چمکاتی ہوئی سیاہ گھگھرے کو ٹانگوں پر لپیٹتی ہوئی چل پڑی۔ اب آسا سب سے آگے تھا، پیچھے اس کی ماں اور سب سے پیچھے کور تھی۔

انہیں جاتے دیکھ کر ایلی باہر نکلا۔ مضطربانہ گھر میں گھومنے لگا۔ باورچی خانے میں داخل ہوا تو دفعتاً سرگوشیوں کی آوازیں بند ہو گئیں۔ ہاجرہ چولہے کے پاس بیٹھی تھی۔ اس سے ذرا پرے رفیقاں گھگھرے پر بوٹیاں بنا رہی تھی۔

ظاہر تھا کہ وہ دونوں کور کے متعلق باتیں کر رہی تھیں۔ لیکن کیوں ایلی کے آنے پر وہ دفعتاً چپ کیوں ہو جایا کرتی تھیں۔ یوں سر سے سر جوڑ کر دبی دبی آواز میں پہروں باتیں کرتے رہنا اور رفیقاں کے ہونٹوں پر وہ دبی دبی مسکراہٹ جیسے وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہی ہو، جیسے وہ ہاجرہ کو فریب دے رہی ہو۔ اماں اسے اس قدر اچھا کیوں سمجھتی تھیں اور وہ چلتے وقت جان بوجھ کر اس طرح قدم کیوں اٹھاتی تھی کہ اس کے گھگھرے میں دائرے پڑیں اور علی احمد کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی گردن مورنی کی طرح تن کیوں جاتی تھی۔ ایلی کو ان سب باتوں کی وجہ سے رفیقاں سے نفرت تھی۔

شدید نفرت ایسی نفرت جو اسے کور سے بھی نہ تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

نوکرانی کے ہاں بچہ

چند ہی دنوں بعد ان کے یہاں ایک عجیب سا واقعہ ہوا۔ ایک روز وہ گلی میں کھیلنے کے بعد جب گھر میں داخل ہوا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھا تو فرحت نے اسے روک دیا۔

“ اونہوں اندر نہ جانا۔“

وہ اس بات پر حیران رہ گیا “ کیوں اندر کیا ہے۔“

“ اماں بیمار ہیں۔“ فرحت نے کہا۔

“ تو کیا ہوا۔“ ایلی نے کہا۔ وہ تو ان کا اپنا کمرہ تھا۔ علی احمد کا کمرہ تو نہ تھا جس میں جانے سے ہمیشہ گھبرایا کرتا تھا اور داخل ہونے سے پہلے ان جانے میں کھانستا اور پھر نگاہیں جھکا کر داخل ہوتا جیسے کوئی جرم یا گناہ ہو مگر یہ تو ان کا اپنا کمرہ تھا۔ پھر فرحت کا اسے روکنے سے کیا مطلب تھا۔ اگر اماں بیمار تھیں تو کیا تھا۔ بیماری کی وجہ سے کمرے میں جانے کی ممانعت تو نہیں ہو سکتی۔ اماں دفعتاً میم تو نہیں بن گئی تھیں کہ بیماری میں‌ لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ سب فرحت اپنی طرف سے کہہ رہی تھی۔ ایلی نے سوچ کر سینہ تان لیا۔ “ نہیں نہیں میں جاؤں گا۔“ وہ بولا۔

عین اس وقت رفیقاں دوڑتی ہوئی باہر نکلی “ تمہیں مبارک ہو۔ تمہارے ہاں ایک ننھا بھائی ہوا ہے۔“ بھائی ہوا ہے۔ اس کی سمجھ میں میں نہ آیا۔ بھائی کیسے ہو سکتا تھا۔ رفیقاں کا مطلب کیا تھا۔ اماں کے یہاں بیٹا لیکن یہ کیسے ممکن تھا۔ اماں تو اس گھر کی نوکرانی تھی۔ نوکرانی کے گھر بیٹا۔ اماں تو علی احمد کے کمرے میں کبھی نہ گئی تھی۔ اماں کو تو کبھی آواز پڑتی تھی۔ ہاجرہ سو گئی کیا۔ اماں تو ایسی نہ تھی۔ پھر اماں کے ہاں بیٹا نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ گناہ تھا، بے عزتی تھی۔ نوکرانی کی بے عزتی۔ اماں نے تو کسی کلرک کو بھرتی نہ کرانا تھا۔ پھر یقیناً رفیقاں بکتی تھی۔ وہ دوڑ کر اندر گیا اور ننھے منے بچے کو دیکھ کر شرم سے زمین میں گڑ کے رہ گیا۔ پھر وہ باہر آ بیٹھا اور محسوس کرنے لگا۔ جیسے وہ آسا ہو۔ جیسے علی احمد نے اس کی ماں کو بھی کھلونا بنایا ہو۔ اس خیال پر اس کے دل کو ایک دھچکا لگا۔

وہ صحن میں خاردار درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ چاروں طرف ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ دور تک کچی اینٹوں کی منڈیروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اس سے پرے ریت کے ٹیلے اداس کھڑے تھے۔ آسا۔ آسا درخت پر بیٹھا ہوا کوا چلایا۔ اس نے غصہ میں ایک پتھر اٹھا کر اس کی طرف پھینک دیا۔

ہاجرہ کے کمرے میں‌ شور مچا ہوا تھا۔ محلے والیاں اونچی آواز میں چلا رہی تھیں۔ “ بہن تمہیں مبارک ہو۔“

وہ ہاجرہ کو مبارک باد کیوں دے رہی تھیں۔ لوگ کیوں ہاجرہ کے کمرے میں جمع ہوتے جا رہے تھے۔ کیوں؟ لوگوں کو تو چاہیے تھا کہ اس سے نفرت کریں جو نوکرانی ہونے کے باوجود گود میں بچہ لیے پڑی تھی۔ لیکن اماں کو بھی احساس نہ تھا۔ کس بے شرمی سے مسکرا رہی تھی۔ اسے شرم نہ آتی تھی۔ مگر اماں تو ایسی نہ تھی۔

ایلی شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا تھا۔ اب وہ لوگوں کو کیسے منہ دکھائے گا۔ اب وہ اپنی ماں کے سامنے کیسے جائے گا اور فرحت ------ فرحت کو اس بات کا کتنا دکھ ہو گا۔ مگر فرحت تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ کیا فرحت کو یہ بات گوارا تھی۔ کیا اس حادثہ پر اسے دکھ نہ ہوا تھا۔ ادھر ابا اپنے کمرے میں آقاؤں کی طرح اطمینان سے بیٹھے لکھ رہے تھے۔ جیسے انہیں نوکرانی اور اس کے نوزائیدہ بچے کی خبر ہی نہ ہو۔

بچے کی مبارکباد کے لیے مختلف قسم کے لوگ آتے تھے۔ کچھ تو ہاجرہ کی کوٹھری میں جا کر گھس جاتے اور کچھ علی احمد کے کمرے سے آگے نہ جا سکتے۔ کور ان لوگوں میں پیش پیش تھی۔ “ بابو جی مبارخ ہو۔“ وہ دور سے چلاتی ہوئی آئی اور پھر علی احمد کے کمرے میں داخل ہو کر یوں مطمئن ہو گئی۔ جیسے علی احمد ہی زچہ اور بچہ ہوں۔

علی احمد کا کمرہ کور کے لیے مخصوص ہوا جا رہا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ دانت چمکاتی گھگھرا جھلاتی آ موجود ہوتی۔ “ کہو بابو جی کیا حال چال ہے۔ ننھا کیسا ہے۔“ اس کے سفید دانت سیاہ رنگ میں چمکتے۔ “ آ گئی تو۔“ علی احمد اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے۔

“اچھا تو ابھی یقین نہیں آیا۔“ وہ پنکھے کی رسی ہاتھ میں پکڑ کر چابک کی طرح جھلاتے ہوئے چلاتی۔

یہ دیکھ کر ٹین کا سپاہی جوش میں آ جاتا۔ “ اچھا یہ جرات۔“

پھر کمرے میں اودھم مچ جاتا اور ایلی غصے میں مٹھیاں بھینچتا۔ “ کتنی مکروہ آواز ہے کور کی، انداز کس قدر ننگا ہے۔ ننگا اور غلیظ“ اسے کور سے نفرت تھی اور وہ آسا کو دیکھ کر غصے میں کھولنے لگتا تھا۔ کیونکہ وہ محسوس کرتا جیسے خود آسا ہو اور کلرکی کا امتحان پاس کرنے کے لیے ہاجرہ کو لے کر آیا ہو۔

ایلی بڑی محنت سے اپنی توجہ کسی اور طرف مبذول کرنے کی کوشش کرتا مگر ان کی آوازیں اس کے کانوں پر ہتھوڑوں کی طرح پڑتیں۔ پھر دفعتاً علی احمد کے کمرے کا دروازہ کھلتا اور علی احمد کی آواز سنائی دیتی “ ایلی، ایلی۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

دھرم بھرشٹ

اس وقت ایلی کا علی احمد کے کمرے میں جانا کس قدر دشوار اور پُراذیت ہوا کرتا اور وہ دروازے پر جا کر رک جاتا۔ اندر جانے کی ہمت نہ پڑتی۔ پھر وہ انتظار کرتا کہ ایک بار پھر آواز پڑے تو اندر جائے۔ باہر چلچلاتی دھوپ میں اسے کافی دیر تک کھڑا رہنا پڑتا۔ اندر ربڑ کی گڑیا نہ جانے کیا کیا تماشے کرتی۔ ان تماشوں میں وہ دونوں بھول جاتے کہ انہوں نے ایلی کو آواز دی تھی۔

“ ایلی “ دوسری مرتبہ آواز پڑنے پر وہ ڈرتا ڈرتا اندر داخل ہوتا۔ اکثر دونوں ایک دوسرے سے یوں باتوں میں مشغول ہوتے، ایک دوسرے میں اس حد تک کھوئے ہوتے کہ دیر تک قریب کھڑے ایلی کی طرف ان کی توجہ مبذول نہ ہوتی۔ پھر علی احمد چونک کر کہتے “ اوہ تو آ گیا ایلی۔ وہ میز پر بوتل پڑی ہے۔ اس میں پانی لے آ۔ کور کو پیاس لگی ہے۔“ ایلی غصے سے تنگ منہ والی بوتل کو دیکھتا ------ گردن مروڑ کر اسے اٹھا لیتا۔

“ ایلی۔“ کور چلاتی “ کنوئیں سے لانا۔“

ایلی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ کنوئیں سے لانا۔ بڑی آئی دھرم والی۔ چاہے خود روز بھرشٹ ہوتی رہے۔ پر دھرم بھرشٹ نہ ہو۔ اس گھر کا پانی نہ پئے گی۔ مٹکے کا پانی نہ پیئے گی۔ دھرم بھڑشٹ ہوتا ہے۔ لیکن بند کمرے میں خون چوسنے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا۔ مسلمان سے کشتی لڑنے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا۔ ہتھیلی پر دو روپے رکھوانے سے دھرم بھڑشٹ نہں ہوتا۔ بڑی دھرم والی بنی پھرتی ہے۔ کنوئیں سے لانا، غصے میں وہ بل کھاتا۔ لیکن بل کھانے کے علاوہ وہ کر ہی کیا سکتا تھا۔ چلچلاتی دھوپ میں چلتا ہوا، غصے کی آگ میں کھولتا ہوا وہ کنوئیں پر پہنچتا، راستے میں وہ بار بار دانت پیس پیس کر بوتل کی گردن مروڑتا۔ جیسے وہ کور ہو، بوتل کی گردن مروڑنے سے اس کی ایک گونہ تسلی ہو جاتی تھی۔

بام آباد میں کنوئیں نہیں تھے۔ جن میں ڈول ڈال کر پانی نکالا جا سکتا۔ وہاں سب کنوئیں رہٹ والے تھے۔ چلچلاتی دھوپ میں ایلی کو تن تنہا رہٹ کو بیل کی طرح کھینچنا پڑتا۔ اول تو اس کے چلانے سے رہٹ کا چکر ہلتا بھی نہ تھا۔ دم لینے کے بعد وہ پھر سے رہٹ کو دھکیلتا اور پھر تھک کر رک جاتا تاکہ تازہ دم ہو کر اسے چلا سکے اور جب چلتے پانی کا اتنا بڑا دھارا بوتل پر گرتا تو بوتل گر کر اوندھی جاتی۔ اس نے کئی بار علی احمد سے کہا تھا کہ کنوئیں پر بوتل نہیں بھرتی لیکن کور نے شیشے کی بوتل کے علاوہ کسی اور برتن میں پانی پینے سے انکار کر دیا تھا۔ شیشے کی بوتل میں پانی پینے سے دھرم بھرشٹ نہ ہوتا تھا اور علی احمد کے گھر میں کور کے نزدیک اور کوئی برتن نہ تھا جس میں دھرم بھڑشٹ کیے بغیر پانی پیا جا سکتا ہو۔ علی احمد بیچارے کر بھی کیا سکتے تھے۔ وہ کور کی بات سن کر ہنس دیتے اور کور انہیں ہنستا دیکھ کر کمرے میں لگے ہوئے پنکھے کی رسی معنی خیز انداز سے گھماتی جس پر علی احمد اور بھی ہنسنے لگتے اور بات شروع ہوئے بغیر ہی ختم ہو جاتی۔

علی احمد رسی کا سگنل دیکھتے ہی ٹین کے سپاہی میں بدل کر ربڑ کی گڑیا پر وار کرنا شروع کر دیتے۔ جیسے کہ ایک سپاہی کا فرض ہوتا ہے اور ایلی بوتل ہاتھ میں‌ اٹھائے کھڑے کا کھڑا رہ جاتا اور اس کی رہٹ اور بوتل کی داستان علی احمد اور کور کے قہقہوں میں دب کر رہ جاتی۔

ایک روز کنوئیں سے پانی لاتے ہوئے اسے ایک خوفناک خیال آیا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں بام آباد کا وہ ریتلا میدان ویران پڑا تھا۔ دور تک گلیوں میں کوئی نہ تھا۔ اس نے بوتل کی طرف دیکھا۔ ایک بار پھر چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ مطمئن ہونے کے بعد ایلی نے منہ میں تھوک بھرا اور پھر دھڑکتے ہوئے بوتل میں تھوک دیا۔

اس روز پانی لاتے ہوئے وہ بے حد مسرور تھا۔ جیسے اس نے اپنے دشمن کو ہمیشہ کے لیے زیر کر لیا ہو۔ جیسے اس کا انتقام پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہو۔ پھر دفعتاً اسے ایک اور خیال آیا۔ وہ رک گیا اور بوتل زمین پر رکھ کر سوچنے لگا۔ اس کا دل دھک دھک بج رہا تھا۔ منہ سرخ ہو رہا تھا اور بدن پر چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ لیکن وہ ڈر گیا۔ اس میں اس قدر جرات نہ تھی۔ اس کے علاوہ اس کھلے میدان میں کوئی جگہ نہ تھی۔ جہاں وہ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنا سکتا۔ لیکن ڈیوڑھی میں‌ پہنچ کر دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ وہاں اسے کوئی بھی نہ دیکھ سکتا تھا۔ کوئی نہیں۔ خوشی سے اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔ وہ خوش تھا۔ اس کا انتقام ادھورا نہ رہے گا۔ اس نے بوتل ایک کونے میں رکھ دی۔ دروازے کی کنڈی چڑھا دی اور پھر ------ بوتل میں پانی کی سطح ابھر رہی تھی۔

اس روز کور کو بوتل سے پانی پیتا دیکھ کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ خوشی اس کے دل میں یوں چھلک رہی تھی، جیسے سوڈے کی بوتل میں جھاگ اچھلتی ہے۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ فرحت اور ہاجرہ دونوں کو اپنی مسرت میں شریک کر لے۔ محلے کے ہر دروازے کو جا کر کھٹکھٹائے ور انہیں اپنا راز بتائے اور پھر ان کو اپنے ساتھ علی احمد کے کمرے میں لے آئے تاکہ وہاں وہ سب کور کو بوتل سے پانی پیتے دیکھیں۔

اماں کو بتانا بیکار تھا۔ اماں تو نصیحتیں کرنے کے سوا کچھ جانتی ہی نہ تھی۔ ایلی کوئی بات بھی کرتا، وہ جواب میں نصیحت فرما دیتی، کہا کرتی تھی کوئی برا کرتا ہے تو کرنے دو لیکن تم اس کے ساتھ برائی نہ کرو۔ اس پر ایلی محسوس کرتا۔ جیسے اماں عیسائی ہو جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا پیش کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہونہہ اماں تو خوامخواہ بنتی تھیں۔ اس کے علاوہ جب سے اس کے یہاں بچہ ہوا تھا، ایلی کی اس کے متعلق رائے بدل چکی تھی۔ اس لیے وہ خاموش رہا۔ اس نے بوتل کے پانی کا راز کسی کو نہ بتایا۔ البتہ اس روز کے بعد اسے بوتل بھرنے کی کوفت سے نجات مل گئی۔

اس سے پہلے وہ کور کی آمد کی خبر سن کر گھبرا جایا کرتا تھا۔ اب اسے بوتل بھرنے کے لیے جانا پڑے گا۔ چلچلاتی دھوپ میں کنوئیں کا بھاری چکر دھکیلنا پڑے گا۔ لیکن اب جونہی وہ گھر میں داخل ہوتی، ایلی کا جی چاہتا کہ وہ جلدی پانی مانگے اور ایلی بوتل میں نفرت کا زہر بھر کر لا دے۔ اب اسے کنوئیں کا چکر چلانے اور بوتل بھرنے میں کوفت کی بجائے مسرت ہوتی اور پھر جب چوگان میں بیٹھ کر وہ منہ میں تھوک اکٹھا کرتا تو اس کا چہرہ خوشی سے لال ہو جاتا، پھر ڈیوڑھی کی طرف بھاگتا اور بالآخر بوتل اٹھائے خوشی خوشی علی احمد کے کمرے کی طرف چل پڑتا۔ اس خوشی میں یہ قطعی طور پر بھول جاتا کہ علی احمد کے کمرے میں کھانس کر داخل ہونا چاہیے اور وہاں جانے سے پہلے سر جھکا لینا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

انوکھے جذبات

اس زمانے میں وہ محبت کے اولین جذبات سے واقف ہو رہا تھا۔ اس کے دل میں نئے انوکھے جذبات ابھر رہے تھے۔ اسے بلا وجہ سکول کے دو ایک لڑکے اچھے لگنے لگے تھے۔ حالانکہ اچھا لگنے کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوتی۔ پھر بھی وہ اسے اچھے لگتے تھے۔ مثلاً اس کے ہم جماعتوں میں ایشور لال، پرکاش اور گھنشام تھے۔ مثلاً اسے گھنشام کا چپ چاپ کھڑا ہونا۔ وہ ایک عجیب انداز سے کھڑا ہوتا تھا۔اس کی ایک ٹانگ سیدھی ہوتی، دوسری یوں خمیدہ رہتی جیسے ازلی طور پر اس میں سیدھا ہونے کی صلاحیت ہی نہ ہو۔ ہونٹ یوں آپس میں چٹکی سی بنائے رہتے جیسے ابھی کوئی بات کرنے والے ہوں، مگر ہونٹوں پر آئی ہوئی وہ بات ہونٹوں میں دبی رہتی۔

پھر وہ پرکاش تھا۔ پرکاش کا پھولا پھولا چہرہ اور اس کے رخسار پر وہ سیاہ تل اسے بڑا اچھا معلوم ہوتا تھا اور ایشور لال کا وہ قہقہہ۔ اس کا بے تکلف انداز۔ اس کا لمبا سا منہ اور میلے دانت اسے بڑے اچھے لگتے تھے۔ ایلی صبح شام ایشور لال کے ساتھ رہتا تھا اور شوق سے اس کی باتیں سنتا رہتا۔ حالانکہ ایشور لال کے دانت بڑے بھدے اور زرد تھے اور اس کے منہ سے بُو آتی تھی مگر وہ بُو کتنی اچھی لگتی تھی۔ اسے ایشور لال کا بولے جانا بولے جانا، اونچی آواز میں شور مچانا، اس کی پھٹی پھٹی آواز سنکر ایلی محسوس کرتا جیسے اس پر ہپناٹزم کر دیا گیا ہو۔ وہ کیفیت کس قدر پُر لذت محسوس ہوتی تھی۔

روز شام کے وقت ایلی اس طرف نکل جاتا جس طرف گھنشام کا گھر تھا اور گھنٹوں گلیوں اور بازاروں میں اس امید پر آوارہ پھرتا کہ گھنشام کسی کام کے لیے باہر نکلے اور پھر۔ پھر اسے دیکھ کر رک جائے۔ کھڑا ہو جائے اسی طرح جس طرح سکول کے برآمدے میں کھڑا رہتا ہے۔ ایک ٹانگ سیدھی اور دوسری میں خم، پھر وہ دونوں پاؤں ملا لیتا اور پنجوں کے بل کھڑا ہو کر ایڑیاں اٹھا لیتا اور پھر پنجوں پر جھولنے لگتا۔ ایلی کو یوں لگتا جیسے کوئی ننھا سا فرشتہ فضا میں تیر رہا ہو۔ اس کے ہونٹ کلی سے بنے رہتے تھے۔ نہ جانے ہونٹ کیوں کلی سے بن جاتے تھے۔ جیسے اس نے کوئی بڑی شگفتہ بات سنی ہو یا کہنے والا ہو۔

بیٹھے بٹھائے ایلی کے دل میں اضطراب سا پیدا ہو جاتا۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ ایشور لال کی باتیں سنے یا گھنشام کے سامنے کھڑا ہو اور فضا میں کوئی پیارا سا فرشتہ جھول رہا ہو یا پرکاش کا گول چہرہ اس کی نگاہوں میں سما جاتا اور وہ بے تاب ہو کر اٹھ بیٹھتا اور باہر گلی میں جا کر ٹہلنے لگتا۔ لیکن گلی میں ٹہلنا بھی تو مشکل ہوا جا رہا تھا۔ وہاں ٹہلتا تو پڑوس والے گھر سے زاہدہ اور عابدہ کی آوازیں کان میں پڑتیں۔ کس قدر سریلی آوازیں تھیں۔ دل میں تیر کی طرح چبھ جاتی تھیں اور پھر اندر جا کر ڈولنے لگتیں جیسے دل میں کوئی فرشتہ پنجوں کے بل کھڑا جھول رہا ہو۔ آوازوں میں کیسا جادو تھا۔ کیوں؟ شکلیں تو بالکل سیدھی سادی تھیں۔ رنگ بھی کالا تھا اور ان میں کچھ بھی تو جاذب نظر نہ تھا، لیکن آوازیں ایلی کو بیتاب کر دیتی تھیں۔ تیکھی سریلی اور لوچدار آوازیں۔

پھر دفعتاً اسے خیال آتا کہ قریب ہی وہ چٹی سفید نرس میز کے مقابل کھڑی آپ ہی آپ شرما رہی ہو گی، جیسے اس کی عادت تھی۔ مسکراتے ہوئے اس کے گالوں میں گڑھے پر جاتے تھے۔ لیکن وہ مسکراتی کیوں تھی۔ مسکرانے کی کوئی وجہ بھی تو معلوم نہ ہوتی تھی۔ زرد رنگ کے مرہموں کے مرتبانوں اور کڑوی دوائیوں کی بوتلوں کے درمیان کھڑے ہو کر مسکرانا۔ ایلی کے لیے یہ عقدہ ناقابلِ حل تھا۔ پھر اس کی چال۔ کس پھبن سے چلتی تھی۔ مسکراتی تو جیسے چراغ روشن ہو جایا کرتے۔ مگر وہ ایلی کو دیکھ کر قطعاً نہ مسکراتی تھی۔

ہاں اس روز جس روز اماں نے اسے بلایا تھا۔ جب ان کے گھر ننھا ہوا تھا اس روز ------ علی احمد بار بار نرس سے باتیں کرتے رہے تھے۔ نرس مسکراتی تھی اور منہ موڑ لیتی تھی پھر منہ موڑ کر مسکراتی تھی اور علی احمد گھوم پھر کر اس کے سامنے آ کھڑے ہوتے تھے۔

زاہدہ اور عابدہ کے خیال سے بچنے کی کوشش میں ایلی نرس کے خیال میں کھو جاتا مگر ڈسپنسری کی کھڑکی تک جانے کی اس میں ہمت نہ پڑتی۔ پھر اس کے خیالات کا رخ زاہدہ کے بھائی فرید کی طرف منعطف ہو جاتا۔ کتنا شوق تھا اسے نرس کو دیکھنے کا۔ فرید بھر پور جوان تھا۔ اس کا جسم کتنا بڑا تھا۔ موٹے موٹے ہاتھ، پھولی پھولی پنڈلیاں اور بھرے بھرے بازو۔ وہ نرس کے لیے ہر وقت مضطرب رہتا تھا۔ “ ایلی “ وہ اسے گلی میں دیکھ کر رک جاتا۔ “ ایلی ذرا جانا تو ہسپتال کی کھڑکی سے جھانکنا ہے یا چلی گئی۔ خدا کے لیے ابھی جاؤ۔ یار ہم تو مر گئے، تباہ ہو گئے۔ اس کے لیے۔“ اور پھر وہ مضطربانہ گلی میں گھومنے لگتا۔ بار بار جسم کھجاتا اور ڈسپنسری کی کھڑکی سے نرس اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر منہ موڑ لیتی اور اپنے کام میں لگ جاتی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو کہ باہر کون کھڑا ہے۔

نرس مسکراتی کیوں تھی۔ مسکرانے کے بعد منہ موڑ لیتی تھی۔ ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ پھر وہ ہسپتال کی طرف جاتا۔ کھڑکی میں سے دھڑکتے دل سے جھانکتا۔ کتنی سفید تھی وہ چٹی سفید، ایلی کو گورا رنگ بے حد پسند تھا۔ لیکن نرس اس کی طرف دیکھتی بھی نہ تھی۔ مسکراتی بھی تو اسے محسوس ہوتا جیسے وہ مسکراہٹ بالکل روکھی پھیکی ہو۔ نہ جانے ایلی کے روبرو نرس وہ مسکراہٹ کیوں نہ مسکراتی تھی جو وہ فرید کے سامنے مسکرایا کرتی تھی اور ایلی کو دیکھ کر وہ منہ بھی تو نہ موڑتی تھی۔ اس پر ایلی کو بے حد دکھ ہوتا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ کسی کونے میں جا کر رو دے، چیخیں مار مار کر روئے۔ مگر رونا بھی تو نہ آتا تھا اسے۔

اس روکھی مسکراہٹ والی نرس سے مایوس ہو کر وہ از سرِنو گھنشام کے خیال کی طرف متوجہ ہو جاتا اور ہسپتال کی کھڑکی کو چھوڑ کر بازار کی طرف چل پڑتا۔ شاید گھنشام کہیں بازار میں کھڑا ہو، شاید ایشور لال گلی میں کھیل رہا ہو، یا شاید پرکاش ---------------------

ایلی کے دل میں انوکھی بیداریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ جوں جوں اس کے دل میں نئی آرزوئیں تشکیل پائے جاتیں توں توں اس کے دل میں علی احمد کے کمرے سے نفرت بڑھتی جاتی اور اس کمرے میں جانے والیوں کے خلاف بغض شدید تر ہوتا جاتا اور اماں اور رفیقاں کے متعلق شبہات تقویت پکڑتے جاتے۔

اماں تو اب ننھے میں کھو چکی تھیں۔ صبح و شام، دن رات وہ ننھے کی دیکھ بھال میں وقت بسر کرتی اور باقیماندہ وقت باورچی خانے میں گزارتی۔ فرحت بھی ہر وقت ننھے کو کھلانے میں لگی رہتی تھی۔ رفیقاں اسے کھلاتی تو نہ تھی، مگر بڑے شوق سے دیکھتی۔ آتے ہی سیدھی ننھے کی طرف جا کر اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہتی “ یہ ننھا بال ہے۔ یہ مینڈھا سائیں ہے۔“ اور پھر باورچی خانے میں بیٹھ کر گھگھرے پر دھاگے سے بوٹیاں بنانے میں مصروف ہو جاتی۔

علی احمد اب بھی سارا دن حساب کتاب لکھنے میں وقت صرف کرتے تھے اور کور بھی مہینے میں صرف چار ایک مرتبہ آتی تھی۔ اب تو ایلی کو کور میں چنداں دلچسپی نہیں رہی تھی۔ وہ اس کی بوتل میں تھوکنے سے بھی اکتا چکا تھا۔ جب کبھی علی احمد اس سے پانی لانے کو کہتے تو وہ چپکے سے بوتل اٹھا کر باہر نکل آتا اور پھر گھڑے سے پانی بھر لیتا۔ پھر کچھ دیر گلی میں کھیلنے کے بعد بوتل اٹھا کر ابا کے کمرے کی طرف چل پڑتا اور کور سمجھتی کہ وہ پانی کنوئیں کا ہے۔ کور کو پانی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ وہ تو بند کمرے میں ربڑ کی گڑیا کی طرح چیں چیں کرتی اور جاتے وقت دو روپوں کے لیے علی احمد سے جھگڑا کرنے میں مصروف ہو جاتی۔ علی احمد کا بھی کور سے دل بھر چکا تھا کیونکہ اب وہ اس کے آنے پر بھی کام میں لگے رہتے تھے اور اس کے جانے سے پہلے ہی پھر سے لکھنے میں مصروف ہو جاتے۔ نہ جانے ان دنوں وہ کسے چٹھیاں لکھ رہے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ ایک چٹھی لکھ کر ایلی کو دیتے “ لو بھئی اسے لیٹر بکس میں ڈال آؤ۔“

پہلی مرتبہ جب ایلی نے لفافے کا پتہ پڑھا تو وہ حیران رہ گیا۔ استانی کے نام چٹھی اور وہ بھی شامکوٹ والی۔ کیا وہی جس نے شلوار کی جگہ چادر لپیٹ رکھی تھی؟ وہ تو شاید اس بات کو اہمیت نہ دیتا لیکن گلی میں فرید نے اسے پکڑ لیا “ ہوں استانی کو خط لکھا جا رہا ہے۔ کون ہے یہ استانی۔ دال میں‌ کچھ کالا ہے دوست۔“ اس وقت ایلی نے بھی محسوس کیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ دال کون تھی اور کالا کون تھا۔ استانی تو دال نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر فرید نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور عجیب سے نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ “ ایلی “ اس نے معنی خیز نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ایلی کے جسم میں جھنجھناہٹ دوڑ گئی۔ “ ایلی “ فرید نے اس پر بھرپور نگاہ ڈالی۔ ایلی کی ایڑیاں ہوا میں معلق ہو گئیں اور وہ فضا میں جھولنے لگا جیسے وہ کوئی ننھا فرشتہ ہو۔ وہ محسوس کرنے لگا جیسے وہ خود گھنشام ہو اور کوئی ایلی اس کی طرف دیکھ رہا ہو۔ اس کے جسم میں چیونٹیاں
 
Top