علیہ السلام، رضی اللہ تعالیٰ اور رحمۃ اللہ علیہ

الف عین

لائبریرین
میں یہ پوچھنے حاضر ہوا ہوں کہ اس کا جواز قرآن یا حدیث میں کہاں ہے کہ نبیوں کو علیہ السلام، صحابہ کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بزرگانَ دین کو رحمۃ اللہ علیہ پکارا جائے؟ عشرہ مبشرہ کے لئے تو رضی اللہ تعالیٰ کا جواز قرآن کریم میں ہی مل جاتا ہے، لیکن باقی صحابہ کا؟ اس کی تاریخ اور ماخذ کا کوئی حوالہ؟
 
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
Tahir ul Qadri اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے
 
استادِ محترم نے اسلامی تعلیمات کے ذیلی عنوان کے تحت ایک سوال قارئین کی نظر کیا ہے۔ چونکہ وہاں تک راقم کی رسائی ممکن نہیں، لہٰذا یہیں پر استاد محترم کے سوال پر کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔
اس ناچیز کی ناقص رائے میں ، عشرہ مبشرہ کا تذکرہ قرآن میں موجود نہیں بلکہ حدیث میں ہے، لہٰذا یہ بات ثابت نہیں کہ صرف عشرہ مبشرہ کے ساتھ ہی رضی اللہ عنہ کی تخصیص کی جائے بلکہ یہ لقب تمام صحابہ کے لیے مخصوص ہے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمایئے میرے والد صاحب کے ایک مضمون ’’ اسلام میں حفظِ مراتب کے اصول‘‘ سے ایک اقتباس۔

انسانوں کے درمیان باہمی رشتے اللہ پاک کے بنائے ہوئے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں ماں باپ، حقیقی بھائی بہن وغیرہ قریبی رشتوں کا ذکر فرمایا ہے، آپسی تعلقات میں ان رشتوں ناتوں کی وجہ سے افراد کے مراتب قائم ہوئے ہیں۔ اور ہر ایک کے مرتبے کا سلوک اور لقب اس کو دیا جاتا ہے۔ یہ تعامل اور عرف کی حیثیت سے اب تک جاری ہے۔ مثال کے طور پر باپ کو قبلہ گاہی اور بیٹے کو نور چشم عام طور پر لکھا اور کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی کم علمی کی وجہ سے باپ کو نور چشم اور بیٹے کے لیے قبلہ گاہی کے القاب کہے تو لوگ اسے پاگل سمجھنے میں حق جانب ہوں گے۔
۱۔ اللہ تعالیٰ : انسانی رشتوں کی طرح ایمانی تعلقات کے بھی مراتب مقرر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے جل جلالہ اور تعالیٰ وغیرہ کے القاب ہم استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد یہ ارشادِ الٰہی ہے۔ تعالیٰ اللہ عما یصفون۔ یعنی یہ لوگ جو کچھ بھی خدا کے اوصاف بیان کرتے ہیں۔ اس کی ذاتِ پاک ان اوصاف سے بھی بلند و برتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ تعالیٰ کا استعمال اللہ کی کامل حمد سے انسان کی عاجزی کا ثبوت ہے اور بس۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ کے آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ پاک کے ساتھ مسلمان صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی بنیاد یہ ارشادِ الٰہی ہے۔
یا ایھا الذین اٰمنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیما۔ اے ایمان والوتم بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجو۔ اس کی تعمیل میں مسلمان پڑھتے ہیں
اللھم صل علیٰ محمدو بارک وسلّم
اور اسی کا اختصار ہے، صلی اللہ علیہ وسلّم۔

پس رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے مرتبے کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا جائے ، اور کہا جائے۔ مرتبہ الوہیت اور مرتبہ رسالت میں تمام مسلمان متفق ہیں۔ اور کوئی مسلمان اللہ کا لقب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور حضور اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کا لقب اللہ کے لیے گفتگو یا تحریر میں استعمال نہیں کرتا۔
۳۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین
اللہ رب العالمین کا دینِ اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپﷺ کے اصحابِ کرام اضی اللہ عنھم کے ذریعے امت تک پہنچا ہے ۔ یہ ایسے بزرگ حضرات تھے جن سے اللہ پاک راضی تھا، اور وہ اللہ پاک سے راضی تھے۔ ارشاد الٰہی ہے۔ رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ۔ ( اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ سورۃ البینہٰ۔۸)
اللہ سے راضی ہونے والے بزرگوں کا تعین بھی فرمادیا۔
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
﴿048:018﴾

ترجمہ: یعنی اللہ ان مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے، تمہارے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔
پس یہ مقام، رضائے الٰہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے مخصوص ہوگیا ، کیونکہ ان کے راضی برضائے الٰہی ہونے کی سند اللہ کی وحی نے دے دی۔ اسی لیے گروہِ اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے ہر فرد اس کا مستحق ہے کہ کہ اللہ کا دیا ہوا مرتبہ اور اس مرتبے کا لقب ان کے نام کے ساتھ کہا اور لکھا جائے اور یہیں سے یہ ثابت ہوگیا کہ کسی غیر صحابی کے لیے رضی اللہ عنہ کہنا یا لکھنا قرآن پاک کی صریح خلاف ورزی ہےاللہ پاک اس خلاف ورزی سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔(آمین)
۴۔ انبیائے کرام علیھم السلام
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل اللہ پاک نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائ انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجے۔ قرآنِ پاک میں اللہ رب العالمین نے انبیائے ماسبق پر سلام بھیجا۔
سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ
﴿037:079﴾
(یعنی) تمام جہان میں (کہ) نوح پر سلام ‏
سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ
﴿037:109﴾
کہ ابراہیم پر سلام ہو ‏
سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ
﴿037:120﴾

کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ‏
سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ
﴿037:130﴾

کہ الیاسین پر سلام ہے ‏
وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ
﴿037:181﴾

‏ اور پیغمبروں پر سلام ‏
اللہ پاک کے اس فرمان کے مطابق مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہر نبی کے نام کے ساتھ سلام کہا جائے اور لکھا جائے، چنانچہ سلام کہا اور لکھا جاتا ہے ۔
( اسلام میں حفظِ مراتب کے اصول از محمد اسمٰعیل آزاد)
وما علینا الا البلاغ المبین۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جواز تو ضرور ہے، لیکن یہ کہاں طے کیا گیا ہے کہ ہم اس طرح پکاریں گے۔ کہ اللہ کے ساتھ تعالیٰ (ویسے اصل سبحانہ و تعالیٰ ہے) لیکن میرے سوال میں یہ شامل نہیں تھا۔اور نبیوں کے ساتھ علیہ السلام اور صھابہ کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ۔ البتہ رحمت اللہ علیہ کا جواز اب تک نہیں ملا۔
یہ بحث اس طرح نکلی کہ مسجد میں بیان کرتے وقت عبد القادر جیلانی ؒ کے لئے مولوی ساحب نے رضی اللہ تعالیٰ استعمال کیا جس پر کچھ لوگوں نے بجا اعتراض کیا۔ لیکن اس پر یہ سوال اٹھا کہ ثبوت پیش کیا جائے کہ محض صحابہ کے لئے یہ لکھا جائے اور کسی نبی یا بزرگ کے لئے اسے استعمال نہیں کیا جائے!!
 

شمشاد

لائبریرین
سورۃ بینہ کی آیہ نمبر 7 اور 8

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں۔

جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ
ان کی جزا ان کے رب کے حضور دائمی رہائش کے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اﷲ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ لوگ اس سے راضی ہیں، یہ (مقام) اس شخص کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثابت ہوا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان کے لیے رضی اللہ عنہ کہنا بالکل صحیح ہے۔
 
Top