آفس میں بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ چپراسی ڈاک کا بنڈل ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا ۔سب سے پہلی نظر فرائڈے اسپیشل پر پڑی ،مشمولات دیکھنے کے بعد" حاصل مطالعہ "کالم کے تحت اس مضمون پر نگاہ ٹک گئی ،پڑھا تو بہت اچھا لگا اسی وقت سوچا محفل میں اسے شیر کروں گا اور احباب کو بھی بھیجوں گا ۔میں نے اسی وقت اسے اسکین کر لیا اور خود کے لئے تراش کر رکھ لیا کہ اپنے مطالعہ کے ٹبیل پر لگاونگا تاکہ بار بارنظر پڑتی رہے اور یہی بہانے مطالعہ کا شوق پیدا ہو ۔آتے ہی محفلین کے لئے شیر کر رہا ہوں ۔۔۔ پسند آئے تو دعاوں میں یاد رکھئے گا۔اس اقتباس کے اخیر میں ماہنامہ القاسم کے قلم و قرطاس نمبر کا حوالہ دیا گیا ہے اگر کوئی صاحب اس کی پی ڈی ایف مہیا کرا سکیں یا یونیکوڈ تو کیا ہی بہتر ہو ۔
علم

علمی ذوق کی پہچان
از:پروفیسر محسن عثمانی ندوی
سابق صدر شعبہ عربی،انگلش اینڈ فارن لنگویجز یونیورسٹی، حیدرآباد،انڈیا
انسان کے علمی ذوق اور طالب علمانہ شوق کی پہچان یہ ہے کہ کتابوں کی حیثیت اُس کے نزدیک تمام سامانِ آرائش اور آسائش سے بڑھ کر ہو۔ معروف اسکالر البیرونی کی نگاہ کبھی کتاب سے ہٹی نہیں اور اس کی زندگی میں دو راتوں کے سوا کوئی رات ایسی نہیں گزری جس میں اس نے کتابوں کا مطالعہ نہ کیا ہو۔
کارل مارکس نے جس زمانے میں اپنی انقلابی کتاب ’’داس کیپٹال‘‘ لکھی تھی‘ وہ پہلا شخص ہوتا تھا جو لندن کی لائبریری میں داخل ہوتا تھا اور سب سے آخر میں باہر نکلتا تھا، اور ایک بار تو یہ واقعہ پیش آیا کہ لائبریری کا ملازم سرشام باہر سے دروازہ بند کرکے چلا گیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ کارل مارکس ابھی لائبریری میں مطالعہ میں مشغول ہے۔ اس نے دوسری صبح لائبریری کھولی تو دیکھا کہ مارکس کتاب کے مطالعہ میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کے استغراق کا عالم یہ تھا کہ رات کے گزر جانے کی بھی اس کو خبر نہیں ہوسکی۔
ارسطو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رات کے قریب اپنے ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے ہاتھ میں پتھر رکھتا، اور جب نیند کا جھونکا آتا اور پتھر ہاتھ سے نیچے رکھی ہوئی پیتل کی تھالی میں گر جاتا تو وہ اس آواز سے چونک جاتا اور غنودگی کو ختم کرکے پھر سے پڑھنا شروع کردیتا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص نیند کا مقابلہ نہ کرسکے وہ اسکالر نہیں بن سکتا۔
میکالے مسلسل پانچ پانچ دن تک پڑھنے کا عادی تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک استاد تھے پروفیسر حبیب، انہوں نے بغیر سوئے ہوئے مسلسل تیرہ دن پڑھنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
انسان کا دانشورانہ مزاج کبھی کسی ماحول میں کتاب پڑھ لینے سے نہیں بنتا ہے‘ علمی ذوق کا مطلب یہ ہے کہ ہر حالت میں، صحت اور بیماری میں، حالتِ اقامت میں اور حالتِ مسافرت میں‘ کتابوں کے مطالعہ کا سفر جاری رہے۔
مطالعہ دراصل دوسروں کے تجربات سے استفادے اور تاریخ کی برگزیدہ شخصیتوں سے ملاقات اور ان کی گفتگو سننے کا نام ہے۔ سوانح عمریوں سے اور خاص طور پر خودنوشت سوانح سے اور سفرناموں سے ایک قاری بہت کارآمد معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان کو اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے جنہیں وہ دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان میں اچھے اور برے کی پرکھ اور تنقید کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان میں فنِ تخلیق کی استعداد پیدا ہوسکتی ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان حیات اور کائنات کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔کتابوں کے مطالعہ سے انسان آفاق و انفس کی نشانیوں کو بہتر طور پر جان سکتا ہے‘ اس سے وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے اور علم کے اظہار کے مؤثر طریقے دریافت کرتا ہے، اور حیوانِ ناہق کے درجہ سے نکل کر حیوانِِ ناطق کے مرتبے تک پہنچتا ہے۔
ایک انسان جب کتب خانے میں داخل ہوتا ہے اور کتابوں سے بھری ہوئی الماریوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے تو دراصل وہ ایسے شہر علم میں کھڑا ہوتا ہے جہاں تاریخ کے ہر دور کے عقلاء اور علماء اور اہلِ علم اور اہلِ ادب کی روحیں موجود ہوتی ہیں۔
اس شہر میں اس کی ملاقات امام غزالیؒ، امام رازیؒ‘ شیکسپئر‘ برنارڈ شا‘ افلاطون‘ ارسطو‘ ابن رشد سے لے کر دورِ جدید کے تمام اہلِ علم اور اہلِ قلم سے ہوسکتی ہے۔ کتب خانے میں بیٹھ کر شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ’’حجتہ اللہ البالغۃ‘‘ کا مطالعہ دراصل شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے براہِ راست ملاقات اور استفادہ کا بدل ہے۔ کتاب وہ واسطہ ہے جس کے ذریعے انسان ’’حاضرات‘‘ کے عمل کے بغیر اسلاف کی روحوں سے مل سکتا ہے۔
کتاب مصنف کی شخصیت کی بہت بڑی عکاس ہوتی ہے۔ مصنفِ کتاب سے شخصی ملاقات کم اہم ہے‘ اس کی کتاب کا مطالعہ زیادہ اہم ہے۔ شخصی ملاقات سے انسان چہرے کے خدوخال دیکھ سکتا ہے، کتاب کے مطالعہ سے انسان مصنفِ کتاب کے فکر و خیال کو زیادہ سمجھ سکتا ہے، اور انسانی شخصیت میں خدوخال کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی فکر و خیال کی اہمیت ہے۔ کتنے مصنف ہیں جن کو ان کے قریبی رشتہ دار اور شب و روز کے ساتھ رہنے والے بھی پورے طور پر نہیں جانتے، کیونکہ وہ صرف اس کے اسم سے اور جسم سے واقف ہیں، اس کے علم سے واقف نہیں ہیں، اس کے افکار و خیالات سے واقف نہیں ہیں۔ شخصیت کی تشکیل میں سب سے اہم چیز افکار و خیالات اور ان کا طریق اظہار ہے۔ دور جاہلیت کے ایک عربی شاعر نے کتنی سچی اور اچھی بات کہی ہے…
لسان الفتی نصف و نصف فؤادہ
و لم یبق الا صورۃ اللحم و الدم
یعنی انسانی شخصیت میں آدھی چیز زبان یعنی طریقِ اظہار ہے، باقی نصف حصہ اس کا دل یعنی اس کے افکار و خیالات ہوتے ہیں‘ اس کے بعد گوشت پوست اور خوان کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔
(ماہنامہ القاسم کے قلم و قرطاس نمبر سے انتخاب)
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں
میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا
(سعد اللہ شاہ)

بہت اعلیٰ مضموں ہے اصلاحی بھائی۔۔۔ شراکت پر شکریہ۔۔۔ :)
 
Top