عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
کیوں کوئی زیست کا مزا پائے
عشق کرکے ہی کیوں نہ مرجائے

جانے وہ کون لوگ تھے خوش ہیں
دل لگا کرکے ہم تو پچھتائے

جب تلک زندگی میسر ہے
تب تلک خیر جی لِیا جائے

کیا خبر کُچھ سکون پائیں گے
روزِ محشر کو ہم سے گھبرائے

دیکھ جن کو زمانہ کھائے رشک
زخم ایسے نصیب میں آئے

کیا مثال اُن کی دیجئے صاحب
جن کے پہلو میں چاند شرمائے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کتنا مغرور ہو گیا ہُوں مَیں
تُجھ سے ہی دُور ہو گیا ہُوں مَیں

یاد تیری تھی میری عادت، پر
اب تو مجبور ہو گیا ہُوں مَیں

تُم ہی مُجھ کو سمیٹ پاؤ گے
اسقدر چُور ہو گیا ہُوں مَیں

خاکساری مرا مقدر تھی
اور غیور ہو گیا ہُوں میں

میری مٹی کو بھی جِلا بخشو
دیکھ لو طُور ہو گیا ہُوں مَیں

ظاہرا مَیں تھا ناتواں لیکن
آج مقدور ہو گیا ہُوں مَیں

صاحب ایسا بھی کیا ہُوا مُجھ کو
یہ جو مغرور ہو گیا ہُوں مَیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ایک بُت کو خُدا بنانا ہے
اپنا ایمان آزمانا ہے

عشق میں ہو چکے ہیں رُسوا لیک
ہم نے کُچھ نام کر دِکھانا ہے

خُود بھی جلتے ہیں رات بھر تنہا
اُن رقیبوں کو بھی جلانا ہے

یہ نئے طرز کے معالج ہیں
روگ ہم کو کوئی پرانا ہے

ساری دُنیا سے دُشمنی کرلوں
تُم نے اپنا جو دوست جانا ہے

وہ مِری جان چاہتے ہیں کیا
جان جن کو جناب مانا ہے

ہے کوئی غم گسار کب اپنا
ہم نے صاحب کسے رُلانا ہے
 

عظیم

محفلین
آج کس موڑ پر کھڑا ہُوں مَیں
اپنے سائے سے بھی جُدا ہُوں مَیں

اُس کی جانب ہے لوٹنا مُجھ کو
جس کی جانب کو چل پڑا ہُوں مَیں

تُو نے کب مُجھ سے کُچھ اچھائی کی
اے زمانے اگر بُرا ہُوں مَیں

کیوں گراتے ہو اپنی نظروں سے
اپنے قدموں میں آ گِرا ہُوں مَیں

اِس مری بیخودی کے کیا کہنے
مے کشوں سے بھی لڑ کھڑا ہُوں مَیں

واہ اُس شوخ کا وفا کرنا
اپنے قد سے نہیں بڑا ہُوں مَیں

کوئی ہنس کر خرید لے مُجھ کو
صاحب اتنا کہاں کھرا ہُوں مَیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بابا ایک ماہ کے لئے کسی کام سے گئے ہیں کوئی اُن کی جگہ میری غلطیوں کی نشاندہی فرما دے ۔ دعائیں دوں گا ۔
 

عظیم

محفلین
صاحب ایسا بھی اب ہُوا کیا ہے
اس کے کہنے میں کُچھ بُرا کیا ہے

ہے لگا روگ مجھ کو عشقے کا
جانتا ہُوں مری دوا کیا ہے

میرے آگے ہے دُنیا داری کیا
میرے آگے یہ دین سا کیا ہے

اب تلک جو نہ مانگ پایا میں
آخر اِس دل کی وہ دعا کیا ہے

تیرا بیمار کیا شفا جانے
تیرا اچھا بھلا بھلا کیا ہے

یہ تغافل پھر اُس پہ یاد آنا
آخرش آپ کی رضا کیا ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جانتا ہُوں مری سزا کیا ہے
اِس تری زلف کے سوا کیا ہے

جب بھی مانگا ہے تُجھ کو مانگا ہے
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

یہ تو بتلائیے کہ میرے میں
کیا ہے میرا جناب کا کیا ہے

کُچھ تو اپنی طرف سے کہہ دوں مَیں
جان پاؤں ترا کہا کیا ہے

لوگ وحدت تلاش کرتے ہیں
مُجھ کو ڈر ہے کہ اب رہا کیا ہے

اللہ اللہ یہ آگہی ہے کیا
اور اُس پر یہ ماجرا کیا ہے

صاحب ایسا بھی کیسا پاگل پن
اتنا کُچھ کہہ گئے کہا کیا ہے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
عظیم صاحب۔
کافی بات تو ہو چکی ہے ۔ غُیُور ۔کو فُعُول کے وزن پر آنا چاہیے۔ یا مشدد نہیں ۔ذرا اس کو دوبارہ دیکھیں۔
ظاہرا مَیں تھا ناتواں لیکن
آج مقدور ہو گیا ہُوں مَیں

ظاہراً ۔کا استعمال ا چھا نہیں بہ ظاہر(یا بظاہر) ہو تو اچھا ہو۔ اور مقدور سے اچھی طرح بیٹھ نہیں رہا۔ نہ تخیل کی رعایت سے اور نا ہی لفظی سطح پر۔
یاد تیری تھی میری عادت، پر
مصرع میں "پر" کچھ اچھا نہیں اس سے بہتر ترکیب ہو سکتی ہے۔مثلاً میری عادت تھی تیری یاد کبھی۔وغیرہ ۔۔۔اسی طرح مطلع بھی کچھ زیادہ چست ہونا چاہیے۔
 

عظیم

محفلین
آپ سے دُور ہو گیا ہُوں مَیں
کتنا مغرور ہو گیا ہُوں مَیں

آپ کی یاد میری عادت تھی
اب تو مجبور ہو گیا ہُوں میں

اِس طرف بھی نگاہ کیجے گا
دیکھئے طُور ہو گیا ہُوں مَیں

آپ ہی اب سمیٹ پائیں گے
اسقدر چُور ہو گیا ہُوں مَیں

یہ بتاتی ہے آپ کی دُوری
آپ سے دُور ہو گیا ہُوں مَیں

جانے کس سے ہے واسطہ صاحب
یہ جو مغرور ہو گیا ہُوں مَیں
 

عظیم

محفلین
ہوئی مدت ذرا سا چین پائے
نہ جانے کیوں سکونِ قلب آئے

اگر تُم نے ستانے کو چُنا ہے
تو کہہ ڈالو زمانہ مت ستائے

خُدا جانے یہ میری بیخودی ہے
خُدا جانے خُدا کی یاد آئے

مری فریاد ہی کیوں سن نہ پائے
کہ نوحے کیا نہیں تُم کو سنائے

ہمیں آئیں نہ خُوشیاں راس صاحب
تو یہ غم کیوں کہ اُن کا راس آئے

جسے ہو آزمانا ضبط میرا
وہ پہلے صبر اپنا آزمائے

یہ وہ قصے ہیں صاحب جو سنے ناں
یہ وہ باتیں ہیں صاحب جو بتائے

کسی کو کیا کسی پر رحم آئے
زمانے کیا نہیں فتنے اُٹھائے

بھلا کیونکر رہے یُوں چُپ بھی صاحب
کوئی کیوں اور آ کر کُچھ سنائے

زباں پر جب بھی اُن کا نام آئے
جُھکے سر کو معلم آ جُھکائے
 
آخری تدوین:
Top