عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

درد دل کی دوا تمہاری یاد
ہم کو دے گی شفا تمہاری یاد

جان جائے گی اس گهڑی جس میں
ہم سے ہو گی جدا تمہاری یاد

خود سے اب تک نہ مل سکے لیکن
تم سے دے گی ملا تمہاری یاد

لوگ پوچهیں گے ایک دن ہم سے
جان پیاری ہے یا تمہاری یاد

قیس کہنا وہ یاد ہے اس کا
ہم کو آئے گی کیا تمہاری یاد

 

عظیم

محفلین
کیا کہا کب کیوں کہا کس نے کہا کچه جان لیں
اس سے پہلے گر ہو ممکن ہم اسے پہچان لیں

اپنی کم نظری کا شکوہ کیوں کریں ہم غیر سے
کیوں نہ اپنے آپ کو غافل یا مشرک مان لیں

چل کے دیکهیں اس سفر پر کیا ہمارے رہبرو
جس سفر کے سب مسافر ایک خیمہ تان لیں

ہم سے کیا پوچهو اب ان کی عقل ہے ان کا شعور
ان سے پوچهو جو حقیقت در حقیقت جان لیں

قیس کب آتے ہیں تیری بزم میں اب او صنم
تو سمجهتا ہے وہ تجه سے تیری جهوٹی شان لیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
میرے کمرے میں اک اداسی ہے
غم کی چهائی ہوئی گهٹا سی ہے

تجه کو جانا تو پهر ہوا احساس
کتنی مشکل یہ خود شناسی ہے

اب تو صحرا نشین کہتے ہیں
میرے دل کی زمین پیاسی ہے

تیرے ناموں سے اک مری پہچاں
مجه پہ یارب کسی بلا سی ہے

کچه نہ کہنے کی ٹهان رکهی تهی
پر طبیعت یہ اب خفا سی ہے

مجه سے رکهیں جناب کچه دوری
دل میں تهوڑی بهی گر انا سی ہے

میں نہ جاوں گا چهوڑ کر دنیا
مجه سے دنیا نہ کچه جدا سی ہے

عہد حاضر میں مجه سے ماضی کی
دست بستہ کوئی خطا سی ہے

ان کی محفل میں حکم کا چرچا
میری جهولی میں التجا سی ہے

جهک کے ملئے نہ عاشقوں سے آپ
ان کی ہستی نہ اس خدا سی ہے

کوئی آتا ہے قیس ملنے کیا
پهر سے بدلی ہوئی ہوا سی ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ظلم خود پر ہی ڈهائے جاتے ہیں
خود ہی خود کو مٹائے جاتے ہیں

زکر کربل نہ اس طرح کیجئے
یوں تو فتنے اٹهائے جاتے ہیں

آو دیکهو تو کس طرح سے لوگ
ہم سے تم کو چرائے جاتے ہیں

اپنی حالت پہ رحم آتا ہے
پهر بهی آنسو بہائے جاتے ہیں

دل میں رہ کر ہی وہ ہمارا دل
لمحہ لمحہ دکهائے جاتے ہیں

ٹوٹ جاتا ہے روح سے رشتہ
جسم مر کر بتائے جاتے ہیں

ان سے کہہ دو نہ اب ہمیں روکیں
اس کے در سے بلائے جاتے ہیں

رفتہ رفتہ تری نظر کے تیر
ہم کو ذخمی بنائے جاتے ہیں

جو کمایا تها عشق میں ہم نے
تیرے در پر لٹائے جاتے ہیں

کس کی خوشیاں ہیں ناچتیں گهر میں
کس کے ماتم منائے جاتے ہیں

کیا وہ بهٹکے گا منزلوں سے اب
جس کو رستے اٹهائے جاتے ہیں

تم سے پہلے بهی اس گلستاں میں
قیس ! غنچے جلائے جاتے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

پهر غلاموں پہ ستم ان کے کرم کرتے ہیں
ہم سے مظلوم شکایت سے بہت ڈرتے ہیں

زکر اس حسن کی دیوی کا چلو کرتے ہیں
جس پہ دنیا میں سنا ہے کہ سبهی مرتے ہیں

ہم ترے نام سا رکهتے ہیں کئی ناموں کو
اور پهر ان سے ترا زکر سدا کرتے ہیں

ہم اگر شام کی غفلت سے کبهی بچ جائیں
سر کو اپنے ترے دربار پہ لا دهرتے ہیں

باعث فخر سمجهتے ہیں مٹانا ہم کو
مٹهیوں میں وہ مگر خاک شفا بهرتے ہیں

قیس ہم اس کی محبت میں بهلا کر دنیا
روز اک خواب کی دہلیز پہ سر دهرتے ہیں

 

الف عین

لائبریرین
خوب۔ یہ دو اشعار ذرا واضح نہیں
ہم اگر شام کی غفلت سے کبهی بچ جائیں
سر کو اپنے ترے دربار پہ لا دهرتے ہیں

باعث فخر سمجهتے ہیں مٹانا ہم کو
مٹهیوں میں وہ مگر خاک شفا بهرتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
دل میں رہ کر ہی وہ ہمارا دل
لمحہ لمحہ دکهائے جاتے ہیں
یہاں دُکھائے ہے نا؟ پیش لگانا روری ہے۔ ورنہ دِکھائے پڑھا جا سکتا ہے

ٹوٹ جاتا ہے روح سے رشتہ
جسم مر کر بتائے جاتے ہیں
÷÷بتانا، سمجھ میں نہیں آیا

ان سے کہہ دو نہ اب ہمیں روکیں
اس کے در سے بلائے جاتے ہیں
وہ کون، اور کس کا در؟ یہ واضح نہیں
 

عظیم

محفلین
ترے عشق میں مر بهی جاوں تو کیا ہے
مری اس فنا میں ہی میری بقا ہے

تجهے مان اپنی خدائی پہ ہو گا
ترا کب خداوں سے پالا پڑا ہے

بڑے فخر سے سر جهکاتے ہو ملا
تمہیں علم نے کیا یہی کچه دیا ہے

اگر میرے بارے میں کوئی خبر ہو
مجهے تم بتانا کہ دنیا کا کیا ہے

گرجتے برستے رہے سر پہ بادل
مگر ابر رحمت نے دهوکا دیا ہے

خدایا مجهے بخش دینا کہ میں نے
ترے واسطے جگ کو دشمن کیا ہے

اسی سمت سے میری آتی ہے خوشبو
کہ جس سمت اس کا محافظ کهڑا ہے

لہحد تک مرے ساته چلیو کہ آ گے
مرے ساته چلنے کو میری فنا ہے

نہیں یاد کچه بهی سوائے غموں کے
مرا حافظہ اب خوشی سے خفا ہے

ادهر وعدہ ء وصل وہ بهول بیٹهے
ادهر خواہشوں کا جنازہ اٹها ہے

کہیں قیس تجه سا دیوانہ نہ دیکها
کوئی تجه سا اب تک نہ مجنوں ہوا ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کیا ضرورت تهیں راتوں کی تاریکیاں
خلوتوں میں اجالوں کی سرگوشیاں

کس لئے اس تخیل کو پرواز دی
کس لئے اب بڑها دی ہیں نزدیکیاں

سانس لینے کی فرصت کسے ہے یہاں
عمل پیرا ہیں آگے کی پالیسیاں

باندهئے رخت اب کارواں چل دیئے
منزل عشق پائیں نہ مدہوشیاں

کس طرح زکر اس کی انا کا کریں
تم کو کیسے دکهائیں وہ سب شوخیاں

اس جہاں میں نہیں قیس رسم جزا
بهوک ملتی ہے بانٹو اگر روٹیاں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اب تری آرزو کے نہ قابل ہوں میں
میرے خلوت نشیں تجه سے غافل ہوں میں

تم مٹا نہ سکو گے مجهے ظالمو
گر مٹا دو تو تم میں ہی شامل ہوں میں

حرف حق گونجتا ہی نہیں کان میں
حیف اپنی خودی کا ہی قاتل ہوں میں

ماتم ہجر رکهوں صف وصل پر
مکتب عشق میں ایک جاہل ہوں میں

تیری جهولی میں نفرت بهری ہے فقط
اور ریاض محبت کا حاصل ہوں میں

تجه کو تیرے سوا یاد کچه بهی نہیں
خود کو بهولا ہوا ایک غافل ہوں میں

میں کہاں قیس اس کی ہے عظمت کہاں
وہ در علم ہے اور سائل ہوں میں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دل کی لگی جاں کهینچ کے لائی
عشق نے ٹهوکر مار بهگائی

میں ہوں فقط اک خاک کا پتلا
مجه میں ہے تیری روح سمائی

عہد تغافل ، حسن گلستاں !
فصل بہاراں راس نہ آئی

شہر کے شہر اجاڑ پڑے ہیں
میں ہوں فقط اور میری دہائی

سوگ منایا شہر بتاں میں
شہر حرم میں عید منائی

خواب سحر کا ہوش میں لانا
یوں ہے کہ جیسے عقل گنوائی

ڈهونڈ رہا ہوں کس کو میں جگ میں
کس کی ہوس ہے جی کو لبهائی

ایک تو اس کی یاد کے جگنو
اس پہ ہے چاندی رات پہ چهائی

قیس وہ اس جهگڑے میں ہی گم ہیں
گر ہے خدا کیوں دے نہ دکهائی

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت سے اشعار ترسیل کی ناکامی کے شکار ہیں۔
نہ قابل، یا نا قابل؟ موخر الذکر کو کوتاہ باندھنا غلط ہے۔
مجموعی طور پر اچھی غزل نہیں جیسی تم کہہ سکتے ہو، بشرطیکہ تک بندی ہی نہ کرو۔
 

عظیم

محفلین
لاکه اس روح کو رکها ہے پیاسا لوگو
پهر بهی لگتا ہوں میں کربل میں ذرا سا لوگو

میں کسی اور کی باتوں کو نہ دہراوں گا
میں ہر اک حرف کو لکهوں گا جدا سا لوگو

اب کسی خواب کی تعبیر نہیں پوچهوں گا
اب کوئی خواب ہے مطلوب چهپا سا لوگو

خود سا مظلوم نہ محروم نہ تنہا دیکها
میرے حصے میں تسلی نہ دلاسا لوگو

میں کوئی حرف ندائی ہوں جو بهلاتے ہو
یا پهر اس عہد میں دکهتا ہوں وفا سا لوگو

آج پهرتا ہے زمانے میں وہ رسوا ہو کر
نام رکهتا تها جو دنیا میں خدا سا لوگو

کیا وہی قیس ہے محفل میں تمہاری دیکهو
کل جو بیٹها تها گناہوں میں گهرا سا لوگو

 
آخری تدوین:
Top