عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

بہت خوب۔ اس غزل نما میں بھی وہی بات ہے کہ الفاظ کے غیر فصیح استعمال اور نشست کی وجہ سے مفہوم اور مدعا چھپ رہا ہے یا کم رنگ ہو رہا ہے۔ کہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محض کوئی موٹا لفظ استعمال کرنے کی غرض سے پورا شعر کہا گیا ہے اور خیال یا نہیں پایا جاتا یا ہے تو چندان خاص نہیں!
اس مصرعے میں: کروں گا اُس سے کہ جس کو کلام بھیجوں گا، سلام کرنا درست نہیں ہے۔ جبکہ اگلے مصرعے میں اسی نا معلوم "کروں گا اس سے" کے اعتبار سے بھیجنا لکھا گیا ہے۔ مزید اساتذہ دقت و درستگی فرمائیں گے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مہدی نقوی حجاز، آپ کے ہجر والے اعتراض پر میں حیران تھا لیکن واقعی وہاں تلفظ غلط ہورہا ہے ۔۔۔ یہاں اس غزل کے بارے میں، میں جو لکھ رہا ہوں، اسے ایک طالب علم کی گزارشات سے زیادہ کچھ نہ سمجھا جائے، حالانکہ میں نے استاد بننے کی پوری کوشش کی ہے۔۔۔ (جملہ معترضہ)
ایک گزارش اور ہے کہ دل پر نہ لیا جائے، یعنی کسی بات سے دکھ ہو تو پہلے ہی معذرت کرلیتا ہوں۔۔۔ مجھے لکھتے وقت بعض اوقات احساس نہیں رہتا کہ کتنی کڑوی بات کہہ جاتا ہوں اور وہاں جہاں اس کے کہنے کا کوئی مقام بھی نہیں ہوتا۔۔۔
میں جانتا ہوں حقیقت مرا خدا جانے
تُو جان کر بھی نہ جانے مری بلا جانے
۔۔ مطلع غلط نہیں ہے، لیکن اچھوتا یا متاثر کن نہیں کہاجاسکتا، جو آجکل غزل کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔۔۔
کڑک سی گونج اُٹھی ہے جو آسمانوں میں
کہیں پہ ٹوٹ گری ہے مری صدا جانے
۔۔۔ دونوں مصرعے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے پا رہے۔۔۔ ۔شعر کا کوئی تاثر قائم نہیں ہوتا کیونکہ اسے نثر کرکے ہی پڑھ لیں تو "جانے " کے لفظ کا کوئی مفہوم نہیں نکلتا۔۔۔ یہاں شاید کرتے تو شعر پھر بھی اچھا نہ ہوتا، لیکن اس سے بہتر ہوتا۔۔ تاہم صدا کے ٹوٹ گرنے سے کڑک کا پیدا ہونا ایک ایسا مضمون تھا جسے اس سے بہتر انداز بیان کی ضرورت تھی۔۔
ہجر کی رات کٹے گی خدا خدا کر کے
ہوس میں یار کی بیٹھا وہ شخص کیا جانے
۔۔ مکمل شعر ہی کوئی تاثر نہیں رکھتا۔۔۔ ہوس میں بیٹھنے والا شخص ایک برا شخص کہا جاسکتا ہے، اس کی رات دیر سے کٹے یا جلدی، اس سے قاری کو کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔۔۔ ہجر کا تلفظ واقعی غلط ہے۔۔
غرور خاک میں مل جائے گا ترا اُس دن
جب اپنے آپ کو اچھا مجھے برا جانے
۔۔۔ بات مکمل طور پر بیان ہورہی ہے ۔۔۔ شعر بن رہا ہے لیکن روایتی سی بات ہے ، ندرت بیان نہیں۔۔
میں وہ نہیں ہوں جو بیٹھا رہوں ترے پیچھے
تُو وہ نہیں جسے مظہر جہاں مرا جانے
۔۔۔ آپ جو کہنا چاہتے ہیں، یہ شعر نہیں بتا پا رہا۔۔ اور مکمل طور پر بیان کی کمزوری اور اظہار کی خرابی کی علامت محسوس ہوتا ہے۔۔ کوئی خاص بات نہیں جس کی تعریف کی جائے۔۔
نسیمِ بادِ بہاری سے کیا گلہ گلشن
خزاں وہ رقص کرے جو نہیں ہوا جانے
۔۔۔ یہاں بھی وہی رائے ہے جو اوپر کے شعر میں بیان کی ہے۔۔۔
خیالِ خام میں وہ پختگی کہاں ہو گی
جہاں سلام کرے جس کو جگ بھلا جانے
۔۔۔ پہلا مصرع برا نہیں، لیکن دوسرے میں اگر "جہاں" سے مراد دنیا ہے تو غلط ہے کیونکہ جس طرح استعمال کیا گیا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ "جہاں" سے "جس جگہ" مراد ہے، حالانکہ میرا خیال ہے، آپ یہ نہیں کہنا چاہتے۔۔۔
خدا کے واسطے مجھ کو عظیم کہنے دو
میں وہ نہیں جسے دنیا غزل سرا جانے
۔۔۔ پہلا مصرع جو کہہ رہا ہے، دوسرا اس کی تفصیل بیان نہیں کرتا۔۔۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔۔۔ خدا کے واسطے مجھ کو عظیم کہنے دو۔۔۔ اس سے لگتا ہے کہ آپ جو کہنا چاہتے ہیں آپ اس کی تفصیل اگلے مصرعے میں بیان کریں گے لیکن آپ نے وہ نہیں کیا۔۔۔ آپ نے کہا: میں وہ نہیں جسے دنیا غزل سرا جانے ۔۔۔ یہ آپ نے اپنے بارے میں بیان کیا ۔۔ مصرعے نہیں ملے، شعر نہیں بنا۔۔۔ مقطع بے کار ہوگیا۔۔
 

عظیم

محفلین
راز کوئی مری تحریر میں آ بیٹھا ہے
جب سے تُو دل سے نکل ذہن میں جا بیٹھا ہے

بات کرتا ہوں تمہاری تو زمانہ سمجھے
میری باتوں میں تخیل کا خدا بیٹھا ہے

اے مرے دل تجھے کافر کے سوا کیا بولوں ؟
کس کی دہلیز پہ تُو سر کو جھکا بیٹھا ہے

ہائے محروم نہ مجھ سا بھی جہاں میں ہوگا
میرا محرم مرے سینے سے لگا بیٹھا ہے

اُن سے ملتا ہوں تو شرماتی ہیں نظریں میری
جن سے سنتا ہوں کہ قلبوں میں خدا بیٹھا ہے

تجھ کو تنقید کے جز اور نہ کوئی ناقد
کام ہوگا جو مرے مان کو کھا بیٹھا ہے

جھک کے بیٹھو نہ عظیم اُن کی ہے محفل عالی
وہ یہ سمجھیں گے کہ سائل ہے، گدا بیٹھا ہے
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مداخلت بے جا ۔۔۔ لیکن شاید آپ کے کچھ کام آئے۔۔۔
راز کوئی مری تحریر میں آ بیٹھا ہے
جب سے تُو دل سے نکل ذہن میں جا بیٹھا ہے
۔۔۔ افسوس ! ذہن میں تو جا بیٹھا لیکن محبوب دل سے نکل گیا، اسی سے شعر کا تاثر خراب ہوا ہے، اس کے علاوہ نکل کے بعد "کر" یا "کے" کی کمی محسوس ہوتی ہے، کہیں کہیں اس کے بغیر استعمال میں حرج نہیں ہوتا، یہاں اسقاط اچھا نہیں لگا۔۔
بات کرتا ہوں تمہاری تو زمانہ سمجھے
میری باتوں میں تخیل کا خدا بیٹھا ہے
۔۔۔ پہلا مصرع تو یوں بہتر ہوسکتا ہے کہ: بات کرتا ہوں تمہاری تو سمجھتا ہے جہاں ۔۔ لیکن خدا کے بیٹھنے اور اٹھنے والی بات ہمیں اچھی نہیں لگی۔۔۔ کسی اور کو لگے تو لگے۔۔۔
اے مرے دل تجھے کافر کے سوا کیا بولوں ؟
کس کی دہلیز پہ تُو سر کو جھکا بیٹھا ہے
۔۔۔ "کیا کہوں" کا مقام تھا۔۔۔ لیکن یوں بھی کیجئے کہ:
اے مرے دل تجھے کافر ہی سمجھنا ہوگا

کس کی دہلیز پہ تو سر کو جھکا بیٹھا ہے ۔۔۔
۔۔۔ پھر بھی کوئی اچھا شعر اس لیے نہیں کہا جائے گا کہ دوسرے مصرعے میں کچھ حروف کا اسقاط ہے جس سے نغمگی پیدا نہیں ہو رہی ، پھر مضمون بھی پرانا ہے ۔۔۔ فراز: تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا ۔۔۔ دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں؟
ہائے محروم نہ مجھ سا بھی جہاں میں ہوگا
میرا محرم مرے سینے سے لگا بیٹھا ہے
۔۔۔ محرم کے سینے سے لگ بیٹھنے سے محرومیت لازم نہیں آتی۔۔۔ یہ تو مقام شکر ہے، تاہم کسی نامحرم کی طلب تھی تو اس کا اظہار اس شعر میں موجود نہیں ہے۔۔۔ محروم اور محرم کے الفاظ سے کھیلنا چاہتے تھے تو یہ کھیل بھی بے معنی ہے۔۔ کھیلنے والے تو کھیل کر جا بھی چکے:
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے۔۔۔ ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا (شاعر نامعلوم)

اُن سے ملتا ہوں تو شرماتی ہیں نظریں میری
جن سے سنتا ہوں کہ قلبوں میں خدا بیٹھا ہے
۔۔۔ پہلا مصرع وزن سے گر گیا، یوں کریں: ان سے ملنے سے ہی جھکتی ہیں نگاہیں میری ۔۔ پھر دوسرے مصرعے میں قلبوں کا استعمال غلط ہے، جب ایک عربی جمع : قلوب موجود ہے ۔۔۔ قرآن: الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔۔۔ یوں کیجئے: جن سے سنتا ہوں کہ دل میں بھی خدا بیٹھا ہے ۔۔ شعر کی صورت ہوئی:
ان سے ملنے سے ہی جھکتی ہیں نگاہیں میری ۔۔۔ جن سے سنتا ہوں کہ دل میں بھی خدا بیٹھا ہے ۔۔۔ بہت اچھا شعر نہیں کہاجاسکتا۔۔

تجھ کو تنقید کے جز اور نہ کوئی ناقد
کام ہوگا جو مرے مان کو کھا بیٹھا ہے
۔۔۔ پہلا اور دوسرا مصرع ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں نہ سمجھ میں آتے ہیں کہ شاعر کی کیا مراد ہے ۔۔
جھک کے بیٹھو نہ عظیم اُن کی ہے محفل عالی
وہ یہ سمجھیں گے کہ سائل ہے، گدا بیٹھا ہے
۔۔ محفل کا عالی ہونا غیر فصیح ہے ، کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔۔ اکڑ کے بیٹھنا اچھی بات نہیں ہے، بہتر ہے اس سے توبہ کی جائے۔۔۔شعراء کو خاکساری کی تعلیم دینی چاہئے ۔۔۔ ۔
خاکِ پا یار کی اٹھا کر چل ۔۔۔ اُس کی بستی میں سر جھکا کر چل(خاکسار)
اوراگر شاہی کی دینی ہے توعاجزی میں شاہی کی دیجئے۔۔۔ اقبال:
کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے؟
 

الف عین

لائبریرین
عشق اور یہ آہ و زاری اصل میں دو ایک ہیں

ایک سی اِن کی بیماری اصل میں دو ایک ہیں

//پہلی بات، ردیف کا محاورہ درست نہیں۔ ’دونوں‘ ۔ مطلع میں بی اری کا تلفظ ’بماری‘ تقطیع ہو رتا ہے۔ جو غلط ہے۔


رنج و غم راحت رساں ہوتے ہیں قلبِ ناصَبُور

چین تیرا بے قراری اصل میں دو ایک ہیں

//مفہوم واضح نہیں


عہدِ غفلت میں ملے گی کیا آگاہی کی کرن

دِن ڈھلے ہو رات طاری اصل میں دو ایک ہیں

// آگاہی تقطیع میں نہیں آتا۔


کیا اذیت کیا سکوں کیا عیش و عسرت ہے یہاں

تیری منزل راہ ہماری اصل میں دو ایک ہیں

۔۔عسرت یا عشرت؟ ّہے یہاںّ بھرتی کا ہے۔ ’راہ ہماری‘ صوتی طور پر بھی درست نہیں، تقطیع میں بھی رہ آتا ہے۔


سال ہو لمحہ ہو کوئی قرب کا یا فرق کا

بعد اُس کے بس خماری اصل میں دو ایک ہیں

قرب اور فرق میں کیا کچھ تضاد ہے؟


کون بزمِ خود نمائی میں چراغاں کر سکا

راز دانی راز داری اصل میں دو ایک ہیں

//مفہوم؟


اہلِ ظاہر کے خیالوں پر ہنسی آئے ہمیں

بات اُن کی چپ ہماری اصل میں دو ایک ہیں

//اہل ظاہر ؟


زندگی برباد کر لیں کس لئے ہم عشق میں

جاں بری اور جاں نثاری اصل میں دو ایک ہیں

//جاں بری سے مراد؟


ہم عظیم اُس وجد میں ہیں مبتلا جس میں لگے

بے رخی اور غم گساری اصل میں دو ایک ہیں

//یہاں ردیف مکمل نہیں۔

مجموعی طور پر ایک ایسی غزل جس کی اصلاح بے مصرف ہے۔ مشق کے لئے سمجھ لو۔
 

الف عین

لائبریرین
حبیبِ حق کو میں ہر دم سلام بھیجوں گا

زباں پہ جب بھی وہ آئے گا نام ، بھیجوں گا

//اس غزل میں بھی ردیف اکثر درست نہیں۔ نام کس طرح بھیجا جاتا ہے۔ اپنا نام تو بھیجا جا سکتا ہے کسی مقابلے کے لئے۔ رسول اکرمؐ کے لئے ان کا نام آنے پر سلام بھیجنے کی بات ہو تو دوسرے کو پہلا مصرع کر دیں


کروں گا اُس سے کہ جس کو کلام بھیجوں گا

میں ہر کسی کو نہ اپنا سلام بھیجوں گا

//کلام؟ کیا اصلاح کے لئے بھیجو گے؟


گراں وہ ساعتِ موعودہ مجھ پہ کیوں ہوگی

میں جس میں موت کو اپنی پیام بھیجوں گا

//شعر درست ہے، لیکن موعودہ غلط۔ کوئی اور ساعت یا لمحہ کا ذکر کرو۔


صدا گئی تھی نہ جس پر مقامِ ہُو ہو گا

صدا تھی جس کی میں اُس کا مقام بھیجوں گا

//مقام کس طرح بھیجو گے؟


نشور گاہِ قیامت مَیں بُود کا عادی

فنا کو اپنی جو پائے قیام بھیجوں گا

//سمجھ میں نہیں آ سکا


نہیں قبول یہ مجھ کو کہ میں وہاں جاؤں

جہاں کہیں بھی میں اپنا پیام بھیجوں گا

//رشتے کے لئے؟


درود اُن پہ کہ جن تک مری خبر پہنچی

سلام اُن پہ کہ جن کو سلام بھیجوں گا

/اگر خبر نہیں پہنچی تو درود بھی موقوف؟؟ اس ٹکڑے کو بدل دو۔


عظیم جس کی وہ حرمت نہیں حرم جائے

یہ سوچتا ہے کہ قائم مقام بھیجوں گا

//واضح نہیں، یوں کہو تو شاید بات بن سکت

عظیم میری کہاں حیثیت، حرم جاؤں

یہ سوچتا ہوں کہ قائم مقام بھیجوں گا
 

الف عین

لائبریرین
میں جانتا ہوں حقیقت مرا خدا جانے
تُو جان کر بھی نہ جانے مری بلا جانے
//دوسرے مصرع میں ایک ’جانے‘ زائد ہے۔ پہلے مصرع میں ’یا‘ کی کمی ہے۔ مثلا
یہ سچ میں جانتا ہوں یا مرا خدا جانے

کڑک سی گونج اُٹھی ہے جو آسمانوں میں
کہیں پہ ٹوٹ گری ہے مری صدا جانے
/جانے کہیں نہیں، ’جانے کہاں‘ محاورہ ہوتا ہے۔ اس جگہ مگر کہاں کی ضرورت نہیں۔ جو شاعر کہنا چاہتا ہے، اس حساب سے یوں کہنا چاہئے کہ جانے وہ کیا شے ہے، مری صدا تو نہیں، جو ٹوٹ کر گری ہے۔

ہجر کی رات کٹے گی خدا خدا کر کے
ہوس میں یار کی بیٹھا وہ شخص کیا جانے
//ہجر کے تلفظ پہ بات ہو چکی
کٹیں گی ہجر میں راتیں خدا خدا کر کے
کیا جا سکتا ہے۔

غرور خاک میں مل جائے گا ترا اُس دن
جب اپنے آپ کو اچھا مجھے برا جانے
//درست

میں وہ نہیں ہوں جو بیٹھا رہوں ترے پیچھے
تُو وہ نہیں جسے مظہر جہاں مرا جانے
//مطلب واضح نہیں

نسیمِ بادِ بہاری سے کیا گلہ گلشن
خزاں وہ رقص کرے جو نہیں ہوا جانے
//پہلے مصرع میں ’گلشن‘ کی وجہ سے مفہوم مبہم ہو جاتا ہے۔

خیالِ خام میں وہ پختگی کہاں ہو گی
جہاں سلام کرے جس کو جگ بھلا جانے
/شعر بے ربط ہے۔ محاورے کے لحاظ سے دوسرا مصرع ’جسے سلام کرے‘ ہونا چاہئے۔
خدا کے واسطے مجھ کو عظیم کہنے دو
میں وہ نہیں جسے دنیا غزل سرا جانے
//مفہوم؟
 

الف عین

لائبریرین
راز کوئی مری تحریر میں آ بیٹھا ہے
جب سے تُو دل سے نکل ذہن میں جا بیٹھا ہے
//درست

بات کرتا ہوں تمہاری تو زمانہ سمجھے
میری باتوں میں تخیل کا خدا بیٹھا ہے
//بے ربط محسوس ہوتا ہے۔

اے مرے دل تجھے کافر کے سوا کیا بولوں ؟
کس کی دہلیز پہ تُو سر کو جھکا بیٹھا ہے
//بولوں؟ پکاروں کا محل ہے۔ اس کے علاوہ دل کا سر بھی ہوتا ہے؟
ہائے محروم نہ مجھ سا بھی جہاں میں ہوگا
میرا محرم مرے سینے سے لگا بیٹھا ہے
//اس میں محرومی کی کیا بات ہے یہ تو خوش قسمتی ہے، اگر محرم سے مراد شرعی محرم ہوں، ماں بہن ،بیٹی۔ ورنہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا مراد ہے۔

اُن سے ملتا ہوں تو شرماتی ہیں نظریں میری
جن سے سنتا ہوں کہ قلبوں میں خدا بیٹھا ہے
//’قلبوں‘ اچھا نہیں لگتا۔ ’ہر دل‘ کیا جا سکتا ہے۔ شعر مبہم ہے ویسے۔
تجھ کو تنقید کے جز اور نہ کوئی ناقد
کام ہوگا جو مرے مان کو کھا بیٹھا ہے
//یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

جھک کے بیٹھو نہ عظیم اُن کی ہے محفل عالی
وہ یہ سمجھیں گے کہ سائل ہے، گدا بیٹھا ہے
/درست
 

عظیم

محفلین
جہاں سے وہ اپنا نشاں پا رہے ہیں
وہیں ہم تمنا کو دفنا رہے ہیں

تمہیں کیا خبر ہے او رہبر ہمارے
کہ تجھ سے ہم آگے بڑهے جا رہے ہیں

یہ دنیا کسی قیس کی داستاں کو
نہ سمجھی کہ سمجهائے ہم جا رہے ہیں

تمہاری نظر میں نہیں جس کی قیمت
اسے جان دے کر خرید آ رہے ہیں

کہو منہ میں گر ہے زباں، کیا نہیں تها ؟
وہ سچ جس کو صدیوں سے دہرا رہے ہیں

خدایا ، ہم اپنی تباہی کا باعث
تری بارگاہ سے پرے ڈها رہے ہیں

کہانی تهی جس کی ہم اُس کی زباں سے
اُسی کے ہی کانوں کو سنوا رہے ہیں

چلے آو پیچھے ہمارے کہ اب ہم
ترے در سے اُٹھ کر چلے جارہے ہیں

تری بندگی سے اے دنیا ہمیں تو
یہ لگتا ہے دهوکا سا ہم کها رہے ہیں

کسی روز آنکهوں کو بهی شرم بخشو
کہ چہرے تو سب کے ہی شرما رہے ہیں

عظیم اپنی اوقات کیا ہے جو یوں ہم
آ ج اپنی فقیری پہ اترا رہے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
راز کوئی مری تحریر میں آ بیٹھا ہے
جب سے تُو دل سے نکل ذہن میں جا بیٹھا ہے
//درست

بات کرتا ہوں تمہاری تو زمانہ سمجھے
میری باتوں میں تخیل کا خدا بیٹھا ہے
//بے ربط محسوس ہوتا ہے۔

اے مرے دل تجھے کافر کے سوا کیا بولوں ؟
کس کی دہلیز پہ تُو سر کو جھکا بیٹھا ہے
//بولوں؟ پکاروں کا محل ہے۔ اس کے علاوہ دل کا سر بھی ہوتا ہے؟
ہائے محروم نہ مجھ سا بھی جہاں میں ہوگا
میرا محرم مرے سینے سے لگا بیٹھا ہے
//اس میں محرومی کی کیا بات ہے یہ تو خوش قسمتی ہے، اگر محرم سے مراد شرعی محرم ہوں، ماں بہن ،بیٹی۔ ورنہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا مراد ہے۔

اُن سے ملتا ہوں تو شرماتی ہیں نظریں میری
جن سے سنتا ہوں کہ قلبوں میں خدا بیٹھا ہے
//’قلبوں‘ اچھا نہیں لگتا۔ ’ہر دل‘ کیا جا سکتا ہے۔ شعر مبہم ہے ویسے۔
تجھ کو تنقید کے جز اور نہ کوئی ناقد
کام ہوگا جو مرے مان کو کھا بیٹھا ہے
//یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

جھک کے بیٹھو نہ عظیم اُن کی ہے محفل عالی
وہ یہ سمجھیں گے کہ سائل ہے، گدا بیٹھا ہے
/درست

بہت بہت شکریہ استاد محترم
جی بہتر .. دل کا سر نہیں ہوتا مگر میں سمجها کہ اگر وجود ہے تو اس کا سر بهی ہوگا، غلطی ہوئی

مجهہ سا محروم زمانے میں نہیں ہو سکتا
میرا محرم میرے سینے میں چهپا بیٹها ہے

جی بہتر ہر دل ٹهیک رہے گا

تجهہ کو تنقید ..... پهر سے کہنے کی کوشش کرونگا انشا اللہ

دعائیں
 

عظیم

محفلین
ہے مجھ کو یقیں ، تو جو نہیں، کچھ بهی نہیں ہے
بنجر ہیں فضائیں میں گواہ ، پاک زمیں ہے

میں عہد جوانی میں بزرگی کا مسافر
پهرتا ہوں کہیں پر تو مرا پیر کہیں ہے

ملتے ہوئے شرمائیں گے ، اک دن مجهے ناصح
سمجهیں گے حساب ان کا ابهی، آج ،یہیں ہے

اے مالک و مختار مرے دل کے گواہ رہ
تا حشر مرے دل کا فقط تو ہی مکیں ہے

تم تک نہیں پہنچے گا یہ خط میرے رقیبو!
اس بار جو قاصد ہے مرا اس پہ یقیں ہے

کیا کیا نہ ترے غم میں سہی میں نے اذیت
پهر بهی مری ہستی کا نشاں عرش بریں ہے

کہہ دو نہ رقیبو کہ میں آزاد ہوں تم سے
اب تو میں جہاں ہوں مرا دلدار وہیں ہے

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جہاں سے وہ اپنا نشاں پا رہے ہیں

وہیں ہم تمنا کو دفنا رہے ہیں

//درست، اگرچہ واضح نہیں، یہ کہاں کا ذکر ہے؟


تمہیں کیا خبر ہے او رہبر ہمارے

کہ تجھ سے ہم آگے بڑهے جا رہے ہیں

//’او رہبر‘ درست نہیں۔ اس کی جگہ

تمہیں کچھ خبر بھی ہے اے رہنماؤ؟

کہ تم سے۔۔۔۔۔


یہ دنیا کسی قیس کی داستاں کو

نہ سمجھی کہ سمجهائے ہم جا رہے ہیں

//کیا کہنا چاہ رہے ہو، واضح نہیں ہوا۔ کیا یہ مراد ہے۔ داستان سمجھی نہیں، سنی یا سنائی جاتی ہے۔ دوسرا مصرع چست نہیں۔


تمہاری نظر میں نہیں جس کی قیمت

اسے جان دے کر خرید آ رہے ہیں

’خرید آنا’ محاورہ نہیں، خرید لانا ہوتا ہے۔ ویسے کیا شے، اس کی بھی کچھ وضاحت ہو جاتی


کہو منہ میں گر ہے زباں، کیا نہیں تها ؟

وہ سچ جس کو صدیوں سے دہرا رہے ہیں

//پہلا مصرع واضح نہیں۔


خدایا ، ہم اپنی تباہی کا باعث

تری بارگاہ سے پرے ڈها رہے ہیں

//یہ شعر بھی واضح نہیں


کہانی تهی جس کی ہم اُس کی زباں سے

اُسی کے ہی کانوں کو سنوا رہے ہیں

//یوں بہتر ہو۔

خود اس کے ہی کانوں کو۔۔۔۔


چلے آو پیچھے ہمارے کہ اب ہم

ترے در سے اُٹھ کر چلے جارہے ہیں

//درست


تری بندگی سے اے دنیا ہمیں تو

یہ لگتا ہے دهوکا سا ہم کها رہے ہیں

//’ہمیں تو‘ سے کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا تعلق دوسرے مصرع کے ’لگتا ہے‘ سے ہے؟ یوں واضح ہو گا۔

تری بندگی کر رہے ہیں جو دنیا!

یہ لگتا ہے۔۔۔


کسی روز آنکهوں کو بهی شرم بخشو

کہ چہرے تو سب کے ہی شرما رہے ہیں

//درست

عظیم اپنی اوقات کیا ہے جو یوں ہم

آ ج اپنی فقیری پہ اترا رہے ہیں

//آج وزن میں نہیں آتا۔ اس کی جگہ ’اب‘ کر دو۔
 

عظیم

محفلین


یہاں کب کسی کے نشاں رہ گئے ہیں
جو مٹ کر چلے ہیں وہ سب کہہ گئے ہیں

زمانے کی ساری خوشی تهی ہماری
زمانے کے سارے ستم سہہ گئے ہیں

کرو آج ماتم اے نوحہ گرو تم
سنا ہے تمہارے بهی کچه بہہ گئے ہیں

نہیں کوئی تیرے سوا اب ہمارا
ہمیں جاتے جاتے وہ کیا کہہ گئے ہیں

دیئے کچه امیدوں کے جلتے ہیں اب بهی
مگر حسرتوں کے مکاں ڈه گئے ہیں

عظیم اپنی منزل قریب آ گئی ہے
وہ دیکهو تو رہبر کہاں رہ گئے ہیں

 
آخری تدوین:
Top