عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
بہت اچھے جناب..اس نا چیز کی طرف سے داد قبول کریں..اساتذه اصلاح كریں گے محمد یعقوب آسی صاحب اور دوسرے اساتذه كو بهی ٹیگ کیا کریں

شکریہ جناب
میرے لئے تو سبھی استاد ہیں جناب اب کس کس کو تکلیف دوں ؟
جب محترم جناب الف عین صاحب اکتا جائیں گے تو کسی اور کو ٹیگ کر دیا کرونگا
دعائیں
 
اس کو نکھاریئے عظیم شہزاد صاحب! آپ میں بہت صلاحیت ہے اور فکری پختگی بھی جھلک رہی ہے۔ اوزان کے معاملے میں بھی آپ کامیاب دکھائی دے رہے ہیں، تاہم دیگر فنی حوالوں سے مزید توجہ دینی ہو گی۔ چند ایک سامنے سامنے کی باتیں دیکھ لیجئے:

اُس ستم گر سے کوئی پوچھے تو
راز کیا ہے مرے ستانے میں
یہاں ’’مرے‘‘ کو ’’مجھے‘‘ میں بدل کر دیکھئے۔

دفن دنیا نے مجھ کو کر ڈالا
وقت لیکن تھا موت آنے میں
بات سمجھ میں آ رہی ہے لیکن لفظیات کی سطح وہ نہیں جو ہونی چاہئے۔

ڈھونڈتا ہوں میں داستانِ غم
اب خوشی کے ہر اک فسانے میں
’”داستانِ الم‘‘ کی صوتیت شاید بہتر رہے گی۔

بعد میرے عظیم آئیں گے
میرے اُجڑے وہ آستانے میں
’’وہ‘‘ بہت دور چلا گیا، اس کو تعقیدِ لفظی کہتے ہیں۔

جناب الف عین بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں۔ مزید بات چیت پھر سہی۔
 

عظیم

محفلین
اس کو نکھاریئے عظیم شہزاد صاحب! آپ میں بہت صلاحیت ہے اور فکری پختگی بھی جھلک رہی ہے۔ اوزان کے معاملے میں بھی آپ کامیاب دکھائی دے رہے ہیں، تاہم دیگر فنی حوالوں سے مزید توجہ دینی ہو گی۔ چند ایک سامنے سامنے کی باتیں دیکھ لیجئے:


یہاں ’’مرے‘‘ کو ’’مجھے‘‘ میں بدل کر دیکھئے۔


بات سمجھ میں آ رہی ہے لیکن لفظیات کی سطح وہ نہیں جو ہونی چاہئے۔


’”داستانِ الم‘‘ کی صوتیت شاید بہتر رہے گی۔


’’وہ‘‘ بہت دور چلا گیا، اس کو تعقیدِ لفظی کہتے ہیں۔

جناب الف عین بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں۔ مزید بات چیت پھر سہی۔


اللہ آپ پر اپنی رحمتوں کے سائے ہمیشہ قائم رکھے
آمین



جب سے آیا ہوں قید خانے میں
محو رہتا ہوں دن بتانے میں

اُس ستم گر سے کوئی پوچھے تو
راز کیا ہے مجھے ستانے میں

ظلم حد سے گزر بھی جانے دے
کچھ مزاہ ہو لہو بہانے میں

تنکا تنکا بکھیرنے والے
عمر لگتی ہے گھر بسانے میں

دفن دنیا نے کر دیا لیکن
وقت باقی تھا موت آنے میں

بے مروت ہو بے وفا تم ہو
تم سا دیکھا نہ اِس زمانے میں

لب پہ میرے جو سرد نالے ہیں
گونج اُٹھیں گے ہر ترانے میں

کون ہجراں میں جاں سے جاتا ہے
وصل درکار جاں سے جانے میں

کیا رقیبوں کی چال پنہاں تھی ؟
میرے دلبر نہ تیرے آنے میں

ڈھونڈتا ہوں میں داستانِ الم
اب خوشی کے ہر اک فسانے میں

شان محلوں کی وہ بھُلا دیں گے
آکے میرے غریب خانے میں

بعد میرے عظیم آئیں گے
وہ مرے اُجڑے آستانے میں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
دفن دنیا نے کر دیا لیکن
وقت باقی تھا موت آنے میں
اس کو یوں کہیں تو بہتر ہو
کر دیا مجھ کو دفن دنیا نے
ابھی مدت تھی موت آنے میں

اور

کون ہجراں میں جاں سے جاتا ہے
وصل درکار جاں سے جانے میں
۔۔درکار کے ساتھ ’ہے‘ کی ضرورت ہے ورنہ بات مکمل نہیں لگتی
چاہے وصل
بہتر ہو شاید

کیا رقیبوں کی چال پنہاں تھی ؟
میرے دلبر نہ تیرے آنے میں
۔یہ دلبر بھرتی کا ہے، اس کی جگہ کچھ اور کہیں۔
علی خاں کا مشورہ بھی درست ہے۔
باقی اشعار مجھے درست محسوس ہو رہے ہیں فی الحال
 

عظیم

محفلین
رسوا پھرے دنیا میں پرستار تمہارا
قابل ہے اِسی کے یہ خطا وار تمہارا

پائے گا رہائی تو گیا جان سےسمجھو
زندہ ہے اسیری میں گرفتار تمہارا

عاشق کو نہیں زیب یہ دیتا ،کرے شکوہ
منگتا نہیں دنیا کا طلب گار تمہارا

ہائے رے غلامی میں ہے اغیار کی لیکن
بدلے نہ بیاں سے یہ طرف دار تمہارا

واعظ تری باتوں سے تو لگتا ہے کہ شاید
مجھ سے کہیں ابتر ہوا کردار تمہارا

قربان ترے ناز پہ انداز پہ واری
جاوں جو ہو انکار بھی اقرار تمہارا

کہنا وہ سخن ساز تھا جھوٹا سرِ محشر
جس نے کِیا رہنا یہاں دشوار تمہارا

تم مجھ سے عظیم اُس کی سفارش پہ تلے ہو
جو مجھ سے زیادہ ہے گنہگار تمہارا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دفن دنیا نے کر دیا لیکن
وقت باقی تھا موت آنے میں
اس کو یوں کہیں تو بہتر ہو
کر دیا مجھ کو دفن دنیا نے
ابھی مدت تھی موت آنے میں

اور

کون ہجراں میں جاں سے جاتا ہے
وصل درکار جاں سے جانے میں
۔۔درکار کے ساتھ ’ہے‘ کی ضرورت ہے ورنہ بات مکمل نہیں لگتی
چاہے وصل
بہتر ہو شاید

کیا رقیبوں کی چال پنہاں تھی ؟
میرے دلبر نہ تیرے آنے میں
۔یہ دلبر بھرتی کا ہے، اس کی جگہ کچھ اور کہیں۔
علی خاں کا مشورہ بھی درست ہے۔
باقی اشعار مجھے درست محسوس ہو رہے ہیں فی الحال


جی بہتر ۔۔
بہت بہت شکریہ استادِ محترم
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
آمین
 

عظیم

محفلین
جب سے آیا ہوں قید خانے میں
محو رہتا ہوں دن بتانے میں

اُس ستم گر سے کوئی پوچھے تو
راز کیا ہے مجھے ستانے میں

ظلم حد سے گزر بھی جانے دے
کچھ مزاہ ہو لہو بہانے میں

تنکا تنکا بکھیرنے والے
عمر لگتی ہے گھر بسانے میں

کر دیا مجھ کو دفن دنیا نے
ابھی مدت تھی موت آنے میں

بے مروت ہو بے وفا تم ہو
تم سا دیکھا نہیں زمانے میں

لب پہ میرے جو سرد نالے ہیں
گونج اُٹھیں گے ہر ترانے میں

کون ہجراں میں جاں سے جاتا ہے
چا ہیئے وصل جاں سے جانے میں

کیا رقیبوں کی چال پنہاں تھی ؟
اِس دسمبر نہ تیرے آنے میں

ڈھونڈتا ہوں میں داستانِ الم
اب خوشی کے ہر اک فسانے میں

شان محلوں کی وہ بھُلا دیں گے
آکے میرے غریب خانے میں

بعد میرے عظیم آئیں گے
وہ مرے اُجڑے آستانے میں
 

الف عین

لائبریرین
رسوا پھرے دنیا میں پرستار تمہارا
قابل ہے اِسی کے یہ خطا وار تمہارا

÷÷درست

پائے گا رہائی تو گیا جان سےسمجھو
زندہ ہے اسیری میں گرفتار تمہارا

بہت خوب، پہلے مصرع کا صیغہ بدل دیں
مل جائے رہائی ۔۔۔ یا ’آزاد ہوا جب تو گیا۔۔۔‘ کیا جا سکتا ہے


عاشق کو نہیں زیب یہ دیتا ،کرے شکوہ
منگتا نہیں دنیا کا طلب گار تمہارا

÷÷یہ ’منگتا‘ لفظ پہلے تو میں غلط ہی سمجھتا تھا، پھر پتہ چلا کہ یہ لفظ احمد رضا بریلوی صاحب نے بہت برتا ہے۔ بہر حال یہ کوئی سند نہیں۔ پہلا مصرع بھی چست نہیں۔
عاشق کو نہیں زیب کہ کرتا پھرے شکوہ
بہتر ہوگا شاید


ہائے رے غلامی میں ہے اغیار کی لیکن
بدلے نہ بیاں سے یہ طرف دار تمہارا

÷÷واضح نہیں، ’ہائے رے‘ جیسے زوائد کی جگہ کچھ اور لایا جائے کہ شعر واضح بھی ہو جائے۔

واعظ تری باتوں سے تو لگتا ہے کہ شاید
مجھ سے کہیں ابتر ہوا کردار تمہارا

÷÷درست

قربان ترے ناز پہ انداز پہ واری
جاوں جو ہو انکار بھی اقرار تمہارا

÷÷جاؤں کا محل؟ کیا پہلے مصرع میں واری سے تعلق ہے؟ ناز کے بعد کاما لگا کر پہلا مصرع مکمل ہو جاتا ہے۔

کہنا وہ سخن ساز تھا جھوٹا سرِ محشر
جس نے کِیا رہنا یہاں دشوار تمہارا

۔۔شعر واضح نہیں۔ اس کی بھی روانی بہتر ی جا سکتی ہے۔

تم مجھ سے عظیم اُس کی سفارش پہ تلے ہو
جو مجھ سے زیادہ ہے گنہگار تمہارا
÷÷درست

 

عظیم

محفلین
عشق اور یہ آہ و زاری اصل میں دو ایک ہیں
ایک سی اِن کی بیماری اصل میں دو ایک ہیں

رنج و غم راحت رساں ہوتے ہیں قلبِ ناصَبُور
چین تیرا بے قراری اصل میں دو ایک ہیں

عہدِ غفلت میں ملے گی کیا آگاہی کی کرن
دِن ڈھلے ہو رات طاری اصل میں دو ایک ہیں

کیا اذیت کیا سکوں کیا عیش و عسرت ہے یہاں
تیری منزل راہ ہماری اصل میں دو ایک ہیں

سال ہو لمحہ ہو کوئی قرب کا یا فرق کا
بعد اُس کے بس خماری اصل میں دو ایک ہیں

کون بزمِ خود نمائی میں چراغاں کر سکا
راز دانی راز داری اصل میں دو ایک ہیں

اہلِ ظاہر کے خیالوں پر ہنسی آئے ہمیں
بات اُن کی چپ ہماری اصل میں دو ایک ہیں

زندگی برباد کر لیں کس لئے ہم عشق میں
جاں بری اور جاں نثاری اصل میں دو ایک ہیں

ہم عظیم اُس وجد میں ہیں مبتلا جس میں لگے
بے رخی اور غم گساری اصل میں دو ایک ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
میں جانتا ہوں حقیقت مرا خدا جانے
تُو جان کر بھی نہ جانے مری بلا جانے

کڑک سی گونج اُٹھی ہے جو آسمانوں میں
کہیں پہ ٹوٹ گری ہے مری صدا جانے

ہجر کی رات کٹے گی خدا خدا کر کے
ہوس میں یار کی بیٹھا وہ شخص کیا جانے

غرور خاک میں مل جائے گا ترا اُس دن
جب اپنے آپ کو اچھا مجھے برا جانے

میں وہ نہیں ہوں جو بیٹھا رہوں ترے پیچھے
تُو وہ نہیں جسے مظہر جہاں مرا جانے

نسیمِ بادِ بہاری سے کیا گلہ گلشن
خزاں وہ رقص کرے جو نہیں ہوا جانے

خیالِ خام میں وہ پختگی کہاں ہو گی
جہاں سلام کرے جس کو جگ بھلا جانے

خدا کے واسطے مجھ کو عظیم کہنے دو
میں وہ نہیں جسے دنیا غزل سرا جانے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
حبیبِ حق کو میں ہر دم سلام بھیجوں گا
زباں پہ جب بھی وہ آئے گا نام ، بھیجوں گا

کروں گا اُس سے کہ جس کو کلام بھیجوں گا
میں ہر کسی کو نہ اپنا سلام بھیجوں گا

گراں وہ ساعتِ موعودہ مجھ پہ کیوں ہوگی
میں جس میں موت کو اپنی پیام بھیجوں گا

صدا گئی تھی نہ جس پر مقامِ ہُو ہو گا
صدا تھی جس کی میں اُس کا مقام بھیجوں گا

نشور گاہِ قیامت مَیں بُود کا عادی
فنا کو اپنی جو پائے قیام بھیجوں گا

نہیں قبول یہ مجھ کو کہ میں وہاں جاؤں
جہاں کہیں بھی میں اپنا پیام بھیجوں گا

درود اُن پہ کہ جن تک مری خبر پہنچی
سلام اُن پہ کہ جن کو سلام بھیجوں گا

عظیم جس کی وہ حرمت نہیں حرم جائے
یہ سوچتا ہے کہ قائم مقام بھیجوں گا

 
آخری تدوین:
حضور غزل اچھی ہے۔ البتہ چند ایک خامیاں ہیں مکمل غزل میں۔ اکثر اشعار ایسے ہیں جن میں تعقید لفظی یا سہل ممتنع ہی کہہ لیں، کی وجہ سے مدعا اور مفہوم واضح نہیں ہو پا رہا۔ پھر ایک مصرعے کے وزن کے بارے میں مجھے اندیشہ ہے: ہجر کی رات کٹے گی خدا خدا کر کے۔ گمان غالب ہے کہ آپ ہجر کا تلفظ بر وزن شجر کرتے ہیں جبکہ ہجر کی ج ساکن ہے! باقی تفصیلی گفتگو اساتذہ فرمائیں گے!
 
Top