عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

رات دن کیسے گزارا یاد ہے
حال کیا تُم کو ہمارا یاد ہے

اب تری آغوش میں بیٹھا ہے جو
یہ زمانے بھر کا مارا یاد ہے

جب کبھی تُم نے نگاہیں پھیر لیں
کسطرح تُم کو پکارا یاد ہے

کیا کسی سے اپنے بارے ہم کہیں
ایک بس چہرہ تمہارا یاد ہے

کیوں نکل آئے خود اپنے آپ سے
کب ہمیں کوئی ہمارا یاد ہے

در بدر بھٹکا کِیا اس دشت میں
آپ کا یہ بے سہارا یاد ہے

کس لئے مقطع میں کہتے ہو عظیم
نام ہے صاحب تمہارا یاد ہے





 

عظیم

محفلین


جانِ جاناں چلے بھی آؤ اَب
مت ہمیں اسطرح ستاؤ اَب

ہم نہیں داد رس کے طالب آپ
کیا ہے تنقید کر دِکھاؤ اَب

دیکھ لو یار کے ستائے ہیں
دشمنو تُم بھی مت ستاؤ اَب

آ بھی جاؤ کہ جان باقی ہے
آ بھی جاؤ کہ آ بھی جاؤ اَب

رو لئے جب جہان کے آنسو
آپ کہتے ہو مسکراؤ اَب

تُم سے کس واسطے رہیں ناراض
اے مری جان آ بتاؤ اَب

جل بجھے ہیں کسی تمنا میں
اپنی حسرت میں کیوں جلاؤ اَب

کُچھ تو اِس درد کا کرو چارہ
جانے والے کہ لوٹ آؤ اَب

ہو چکا ختم آپ کا گریہ
ساتھ صاحب کے گنگناؤ اَب





 

عظیم

محفلین


تُم نہ آئے تو خُون رو دوں گا
آج اپنا سُکون کھو دوں گا

اے مرے یار سُن رہے ہو نا
تُم نہ آئے تو خُون رو دوں گا

 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہم نہیں داد رس کے طالب آپ
مطلع ٹھیک ہے مگر دادرسی والا مصرع کمزور ہے۔
آ بھی جاؤ کہ آ بھی جاؤ اَب
کہ کا استعمال معنی کے لحاظ سے لطیف نہیں ۔
اے مری جان آ بتاؤ اَب
پہلے مصرع سے مطابقت اچھی نہیں ۔
باقی اچھی ہے ۔
 

عظیم

محفلین


مان لی ہار تُم نہیں آئے
تھے جو اغیار تُم نہیں آئے

ہم نے آخر کو ہو لِیا خاموش
بَرسرِ دار تُم نہیں آئے

کیا ہے نفرت ہمیں بتاؤ اور
کیوں نہیں پیار تُم نہیں آئے

اِک یقیں چاہئے تھا ہم کو وَر
ہَیں گنہگار تُم نہیں آئے

دُشمنی کی عظیم سے لیکن
کہہ دِیا یار تُم نہیں آئے




 

عظیم

محفلین

وقت اپنا بچا لیا ہوتا
ہم نے رب ہی منا لِیا ہوتا

مُجھ سے مُکھڑا جو یُوں چھپانا تھا
کوئی تُجھ سا دِکھا لِیا ہوتا

کتنا انمول ہُوں جو سمجھو تُم
وَجد کھاؤ چُرا لِیا ہوتا

غیر سمجھا مگر ہمیں تُم نے
پہلے اپنا بنا لِیا ہوتا

بھول جانا جو تجھ کو ممکن ہو
ہم نے کب کا بھلا لِیا ہوتا

بھیجتے ہو جو تُم رقیبوں کو
آپ آ کر جلا لِیا ہوتا

کب کہا آپ سے یہ صاحب نے
سب میں ہم کو بلا لِیا ہوتا






 

عظیم

محفلین

اک نئے امتحان میں ہُوں مَیں
آج اپنے گمان میں ہُوں مَیں

ڈھونڈتا پھر رہا ہُوں مَیں خُود کو
کیونکہ تیرے نشان میں ہُوں مَیں

ہر کسی در کا ہُوں میں ٹھکرایا
ایک تیری امان میں ہُوں مَیں

بھاگنا چاہتا ہُوں خُود سے دُور
جان اپنی کی جان میں ہُوں مَیں

خاک میری یہیں رکھو لوگو
مر مٹا آسمان میں ہُوں مَیں

آدمی کو تلاش کرتا ہُوں
ہائے کیسے جہان میں ہُوں مَیں

تُم رہو اپنے لامکاں میں گُم
دُور اپنے مکان میں ہُوں مَیں

کیوں کسی کو عظیم یاد آؤں
ہر کسی کے گمان میں ہُوں مَیں

ڈھونڈتا پھر رہا کسے صاحب
دیکھ تیرے بیان میں ہُوں مَیں

 

عظیم

محفلین

اک قیامت ہے دل کا آ جانا
دیکھنا کام تھا بتا جانا

اپنی معصومیوں پہ آئے رشک
لوگ چاہا بُرا بھلا جانا

تھی ہمیں جاننے کی عادت ہم
جانتے جانتے خدا جانا

تُم جو رہتے ہو میرے دل میں آ
میرے دل سے نہیں رہا جانا

کہہ تو دیں حالِ دل مگر لوگو
تُم سے ہرگز نہیں سُنا جانا

اللہ اللہ ہماری بے تابی
اللہ اللہ یہ چین آ جانا

صاحب آئے ہو کس جہاں سے تُم
جاتے جاتے یہی بتا جانا



 

عظیم

محفلین

کب تلک کل پہ ٹال رکهئے گا
اب ہمارا خیال رکهئے گا

ہم سے مجنون دے سکیں آخر
کوئی ایسی مثال رکهئے گا

جب کسی سے وفا کی ہو امید
کیوں جفا کا سوال رکهئے گا

میری اوقات کیا زمانے میں
یونہی مجھ کو اچهال رکهئے گا

اپنے کوچے سے آخرش مجھ کو
آپ کب تک نکال رکهئے گا

ہجر کی آگ میں جلائیں کیوں
ایک دن کا وصال رکهئے گا

صاحب ان کا جمال دیکها ہے
آپ کیسا کمال رکهئے گا​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


تیرا بیمار کیا شِفا مانگے
تُجھ ہی مانگے اگر دُعا مانگے

بخشنے والا آج بخشے کیا
مانگنے والا آج کیا مانگے

کیا خبر ہے تمہیں جہاں والو !
ایک بچہ کوئی خُدا مانگے

تیرے دیدار کا یہ طالب آج
اپنی صورت کا دیکھنا مانگے

یہ نہیں عاشقوں کی مجبوری
مانگ زاہد اگر بقا مانگے

ہو کے شرمندہ اپنی نظروں میں
کیوں کوئی آپ سے حیا مانگے

دیکھنا اب عظیم صاحب سا
اک گنہگار کیا بَھلا مانگے


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

اک نہیں بار بار مرتے ہم
تُم پہ زار و قطار مرتے ہم

جان لیتے جو زندگی ہو تُم
کیونکہ بے اِختیار مرتے ہم

زندگی بھی ہزار نعمت ہے
مر بھی جاتے ہزار مرتے ہم

کیوں کسی شوخ کے لئے آخر
اے دلِ بے قرار مرتے ہم

مر چلے آپ پر جو تب سوچا
آپ کے جاں نثار مرتے ہم

تھی یہی موت اپنی قسمت میں
کیوں نہیں بار بار مرتے ہم

زندگی کی تلاش میں کھو کر
آخرش ہار ہار مرتے ہم

مر بھی جاتے جو تیرے ہجراں میں
کیا کبھی راز دار مرتے ہم

اپنے بس میں عظیم ہوتا تو
اِک نہیں بار بار مرتے ہم


 

عظیم

محفلین

صاحبِ سخت جان سے کہئے
کوئی قصہ زبان سے کہئے

وجد آتا ہے آپ کو بھی کیا
آپ کے اِس بیان سے کہئے

کیوں نہیں سُن سکے ہماری بات
کیا کسی آسمان سے کہئے

کیا خطا ہو گئی جو روٹھے ہیں
آپ اپنی ہی جان سے کہئے

اُڑ سکیں گے پرند لوگوں کے
آج اپنی اُڑان سے کہئے

کُچھ تو کہئے جناب ہم ایسے
آپ اس بے زبان سے کہئے

میری نادانیوں پہ ہنستے ہو
سبق سیکھا گمان سے کہئے

ہم بھی اب کان سے سنیں کیسے
آپ بھی کس زبان سے کہئے

آئیے آپ بھی چلے آئیں
اور کُچھ بدگمان سے کہئے

صاحب اتنا کہا کریں گے کیا
اب ذرا اِطمنان سے کہئے

آ بھی جائے کہ ہو چکیں صدیاں
اُس مرے ترجمان سے کہئے







 

عظیم

محفلین

سوچتا تھا کہ دشمنوں میں ہُوں
اب کھلا راز دوستوں میں ہُوں

وائے آوارگی مری یارب
محفلوں میں بھی خلوتوں میں ہُوں

پھر رہا وارثوں کو ڈھونڈا اور
حیف اپنے ہی وارثوں میں ہُوں

میرا رونا اگر جو چاہو دیکھ
ان گھٹاؤں میں بارشوں میں ہُوں

کیا رہا میرا ہونا اُس قابل
قلب کی ایسی حالتوں میں ہُوں

آؤ قبل اِس کے میں یقیں کر لوں
کفر کرتا ہُوں کافروں میں ہُوں

میرا باطن کنکھال ڈالو آج
وہم جاتا ہے ظاہروں میں ہُوں

کیا کہوں مَیں عظیم اپنوں سے
آج اپنے ہی غافلوں میں ہُوں

حیف گھرتا چلا بظاہر لیک
ہو نہ ہو اب کے باطنوں میں ہُوں

 
آخری تدوین:
Top