عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

ابن رضا

لائبریرین
غزل غیر مقفی ہے اور مطلع کافی حد تک ناچیر کے اس شعر سے مماثل ہے

عجب سی کشمکش میں ہوں، عجب سی الجھنوں میں ہوں
میں اپنے دوستوں میں ہوں کہ اپنے دشمنوں میں ہوں؟
 

عظیم

محفلین

کوئی دیوانہ مر چلا آخر
نام دُنیا میں کر چلا آخر

وقت جو بدنصیب پر آیا
جاتے جاتے گزر چلا آخر

تیر اُس نیمکش نگاہوں کا
میرے دل میں اتر چلا آخر

تُم سدھارو گیا کیا اِسے لوگو
یہ بگڑتا سدھر چلا آخر

بیٹھ ہنستے رہو جہاں والو
موت اپنی ہی مر چلا آخر

بھر نہ پائی ہماری جھولی کیا
غم کا پیمانہ بھر چلا آخر

آنے والا نہیں سکوں صاحب
آتے آتے مکر چلا آخر


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



اک تماشا لگانے والا ہُوں
خود کو زندہ جلانے والا ہُوں

تُم سناؤ گے کیا رقیبو اب
شعر ایسے سنانے والا ہُوں

آزماتے رہو یقیں میرا
میں تمہیں آزمانے والا ہُوں

میری بے تابیوں کو سمجھو کیا
یار کو یاد آنے والا ہُوں

اے جہانِ خراب میں تُجھ سے
اور بھی دُور جانے والا ہُوں

شیخ صاحب جو کر رہے ہیں واعظ
اِن کو جھوٹا بتانے والا ہُوں

کیا مرا نقد جانتے ہو آپ
اپنی قیمت لگانے والا ہُوں

چاہتیں اُن کی اور مُجھ سے بات
اِک حقیقت چُھپانے والا ہُوں

تُم جسے سجدہ کر رہے ہو شیخ
میں اُسے بُت بتانے والا ہُوں

خُود ہی اپنی تلاش میں ہُوں میں
خود کو ہی ڈھونڈ لانے والا ہُوں




 

عظیم

محفلین
بابا کام پر نہیں جانا ہوتا تو آج ان کو دکھا دیتا کہ پاگل پن کسے کہتے ہیں اور جنون کس بلا کا نام ہے ۔

دعا کیجئے گا میری خاطر ۔
 
غزل غیر مقفی ہے اور مطلع کافی حد تک ناچیر کے اس شعر سے مماثل ہے

عجب سی کشمکش میں ہوں، عجب سی الجھنوں میں ہوں
میں اپنے دوستوں میں ہوں کہ اپنے دشمنوں میں ہوں؟

غیر مردف سے تو ہم مانوس ہیں، غیر مقفی (وہ بھی غزل) شاید میں بات پا نہیں سکا۔
مزمل شیخ بسمل سے پوچھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ عظیم کی زیرِ نظر غزل کے قافیے کا صورتِ حال کیا ہے۔


سوچتا تھا کہ دشمنوں میں ہُوں
اب کھلا راز دوستوں میں ہُوں

وائے آوارگی مری یارب
محفلوں میں بھی خلوتوں میں ہُوں

پھر رہا وارثوں کو ڈھونڈا اور
حیف اپنے ہی وارثوں میں ہُوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
غیر مردف سے تو ہم مانوس ہیں، غیر مقفی (وہ بھی غزل) شاید میں بات پا نہیں سکا۔
مزمل شیخ بسمل سے پوچھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ عظیم کی زیرِ نظر غزل کے قافیے کا صورتِ حال کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر مردف کی اصطلاح میرے لیے نئی ہے استادِ محترم ۔ ذرا سمجھا دیجیے۔

دوسری بات یہ کہ غیر مقفی میں نے اس لیے کہا کہ مطلع کے قوافی میں اور دیگر ابیات میں حرفِ روی کا اتحاد مجھے نظر نہیں آیا جیسے دشمن اور دوست دونوں میں(آخری اصلی حرف) حرفِ روی ن اور ت ہیں ۔ اس بابت آپ کیا فرماتے ہیں۔ آپنی رائے سے مستفید فرمائیے۔
 
غیر مردف کی اصطلاح میرے لیے نئی ہے استادِ محترم ۔ ذرا سمجھا دیجیے۔

دوسری بات یہ کہ غیر مقفی میں نے اس لیے کہا کہ مطلع میں اور دیگر ابیات میں حرفِ روی کا اتحاد مجھے نظر نہیں آیا جیسے دشمن اور دوست دونوں میں حرفِ روی ن اور ت ہیں ۔ اس بابت آپ کیا فرماتے ہیں۔ آپنی رائے سے مستفید فرمائیے۔
قافیے کے نقائص اور خواص میرے لئے ہمیشہ گورکھ دھندا رہے ہیں۔ اسی لئے شیخ صاحب کو زحمت دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ قافیے کے بغیر بیت مکمل نہیں ہوتا، چاہے قافیہ ناقص ہی ہو۔ ردیف اضافی چیز ہے، اگر اختیار کر لی تو اسے نبھانا لازم ہو گیا۔ اختیار نہ کی تو بیت، شعر، غزل "غیر مردف" ہے، کوئی قباحت نہیں۔ عظیم کی یہ غزل غیرمردف بھی تو نہیں۔

مثال: کلامِ اقبال کا غیر مردف نمونہ
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
۔۔۔
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب
 

عظیم

محفلین
اللہ بهلا کرے بزرگو - آپ تو پہلے ہی میری کسی بات سے ناراض تهے یا ہیں - اللہ بہتر جاننے والا ہے - جس نے اتنا سکها دیا وہ آگے بهی رہنمائی فرمائے گا -
 
تیر اُس نیمکش نگاہوں کا
میرے دل میں اتر چلا آخر
یہاں نگہ کا نیم کش ہونا بیان ہو رہا ہے، تیر کا ہونا چاہئے۔
اُس ۔۔ مراد "اُس کی؟" ۔۔ اضافت کو ہر جگہ حک نہیں کیا جا سکتا، اس سے الجھن ہوتی ہے۔
نیم کش تیر اُن نگاہوں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو دیکھئے گا۔
 
غیر مردف سے تو ہم مانوس ہیں، غیر مقفی (وہ بھی غزل) شاید میں بات پا نہیں سکا۔
مزمل شیخ بسمل سے پوچھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ عظیم کی زیرِ نظر غزل کے قافیے کا صورتِ حال کیا ہے۔




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غیر مقفی تو نہیں ہوتی کوئی غزل۔ ہاں اس غزل میں قوافی درست نہیں ہیں۔ کیونکہ دوست اور دشمن آپس میں ہم قافیہ الفاظ نہیں تو انہیں قافیہ کرنا ممکن نہیں۔ جمع میں "وں" زائد ہے جو کہ در اصل ردیف کا حصہ ہے ۔ اس مد میں اسے غیر مقفی کہا ہے ابن رضا صاحب نے۔ یعنی اس غزل میں کوئی قافیہ ہی نہیں موجود رہا۔
 
Top