جگر عشق کو بے نقاب ہونا تھا - جگر مُراد آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(جگر مراد آبادی)

عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا

مست جام شراب ہونا تھا
بے خود اضطراب ہونا تھا

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھ ہی کو خراب ہونا تھا

آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے
ہوچکا جو عتاب ہونا تھا

کوچہء عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا

مست جام شراب خاک ہوئے
غرق جام شراب ہونا تھا

دل کہ جس پر ہیں نقش رنگا رنگ
اس کو سادا کتاب ہونا تھا

ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا
آخرش کامیاب ہونا تھا

ہائے وہ لمحہ سکوں کہ جسے
محشر اضطراب ہونا تھا

نگہ ِ یار خود تڑپ اٹھتی
شرطِ اول خراب ہونا تھا

کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں
کرم بے حساب ہونا تھا

کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی
موجِ صد اضطراب ہونا تھا

ہوچکا روز اولیں ہی جگر
جس کو جتنا خراب ہونا تھا
 
Top