عروضی اصطلاحات

الف عین

لائبریرین
یہ کلیہ بھی کلی طور پر درست نہیں۔ رنگ کے مشتقات کی مثال میں دے چکا ہوں۔ بطور فعل رنگنا سے مشتق الفاظ مین یہ ن معلنہ نہیں، غنہ ہے۔ جب کہ بطور اسم معلنہ نون ہوتا ہے۔
 
لفظ ”جنگلی“ کے نون کی تحقیق:
”جنگلی“ بروزن ”کنگلی“ یعنی فعلن (نوراللغات ”جنگل“ کے تحت)



اسی طرح وہاں ”جنگلا“ بھی فعلن کے وزن پر بتایا گیا ہے۔

اس نون کی وجہ سے یہ بہت لچکدار لفظ ہے، فاعلن اور فعلن دونوں صورتوں میں حسب ضرورت ڈھل سکتا ہے۔
استشہاد:
’’مگر جنگلی درندوں کا بھی اِک قانون ہوتا ہے‘‘
جو اِس قانون کو توڑے ہمیشہ خود ہی روتا ہے​

 
اس تاگے میں اشعار جو نقل کئے جاتے ہیں، ان کا مقام ’’حوالے‘‘ یا ’’سند‘‘ کا ہوتا ہے۔
مناسب یہی ہو گا کہ احباب اولاً تو شعر کا پورا معلوم حوالہ لکھیں کہ کس شاعر کی کس کتاب کی کس نظم غزل میں سے لیا گیا ہے ۔ اگر ایسا مشکل ہو تو شعر کے ساتھ کم از کم شاعر کا نام ضرور لکھا کریں۔
آداب عرض ہے۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے
جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے

مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے

مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز
کہ اَز فنائے ہست سے ہی چلنا کیوں محال ہے

ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے
جو دورِیاں ہیں درمیاں، فقط یہ اک خیال ہے

نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے
عروجِ ذات میرا تیرے ساتھ کا کمال ہے

تری طلب کی جستجو میں جو اسیر ہوگئی
تجھے علم کہ کس پڑاؤ اوج یا زوال ہے

تو بحربے کنار ، خامشی ترا سلیقہ ہے
میں موج ہُوں رواں کہ شور نے کیا نڈھال ہے


 
اگر
نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے۔
اس مصرع میں " کہ" خامخواہ بھرتی کیا ہے۔

ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے​
اس مین آئینہء جمال ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر
نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے۔
اس مصرع میں " کہ" خامخواہ بھرتی کیا ہے۔

ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے​
اس مین آئینہء جمال ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے

آئنہ اور آئینہ دونوں مستعمل ہیں اور میں نے بنا کسرہ اضافت کے استعمال کے زیر کا استعمال دیکھا ہے خاص کر ابن انشاء کی شاعری میں ۔

یہاں ۔۔۔۔۔۔ہوں آئنہِ جمال۔۔۔۔۔۔بنا کسرہ کے زیر کے ساتھ ہے ۔۔۔۔

یہ نثر کریں تو بنتا ہے کہ خضر علیہ سلام کی نگاہ ہے یا مسیح علیہ سلام کا معجزہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اس صورت میں'' کہ '' استعمال کیا ۔۔۔

آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس میں ''کہ '' ہٹا کے ''یا'' کردوں مجھے ''کہ'' اضافی لگ نہیں رہا ہے

شاعری میں کسرہ اضافی کے بنا دو حروف کو اکٹھا جوڑ استعمال نہیں کرسکتے؟ جبکہ اس کا استعمال دیکھا بھی ہو
 
سعدی بہنا اس بارے تو ہم سب کے بڑے استاد گرامی ، الف عین صاحب بتا سکتے ہیں، میرے خیال میں تو آئنہِ جمال اور معجزہِ مسیح درست نہیں، دونوں میں حمزہ کی اضافت ہونی چاہیے
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ شاہ نصیر دہلو ی کی غزل ہے

میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا
بیٹھا ہوں سرِ خاک پہ جم، اٹھ نہیں سکتا
اے اشکِ رواں! ساتھ لے اب آہِ جگر کو
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا
سقفِ فلکِ کہنہ میں کیا خاک لگاؤں
اے ضعفِ دل اس آہ کا تھم اٹھ نہیں سکتا
سر معرکۂ عشق میں آساں نہیں دینا
گاڑے ہے جہاں شمع قدم، اٹھ نہیں سکتا
دل پر ہے مرے خیمۂ ہر آبلہ استاد
کیا کیجے کہ یہ لشکرِ غم اٹھ نہیں سکتا
ہر جا متجلیٰ ہے وہ پر، پردۂ غفلت
اے معتکفِ دیر و حرم! اٹھ نہیں سکتا
یوں اشک زمیں پر ہیں کہ منزل کو پہنچ کر
جوں قافلۂ ملکِ عدم اٹھ نہیں سکتا
رو رو کے لکھا خط جو اسے میں نے تو بولا
اک حرف سرِ کاغذِ نم اٹھ نہیں سکتا
ہر دم لبِ فوّارہ سے جاری یہ سخن ہے
پانی نہ ذرا جس میں ہو دم اٹھ نہیں سکتا
میں اٹھ کے کدھر جاؤں، ٹھکانا نہیں کوئی
میرا ترے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا
مہندی تو سراسر نہیں پاؤں میں لگی ہے
تُو بہرِ عیادت جو صنم اٹھ نہیں سکتا
بیمار ترا صورتِ تصویرِ نہالی
بستر سے ترے سر کی قسم، اٹھ نہیں سکتا
میں شاہ سوار آج ہوں میدانِ سخن میں
رستم کا مرے آگے قدم اٹھ نہیں سکتا
کیا نیزہ ہلاوے گا کوئی اب کہ کسی سے
یاں توسنِ رہوارِ قلم اٹھ نہیں سکتا
جوں غنچہ نصیرؔ اس بتِ گل رو کی جو ہے یاد
یاں سر ہو گریباں سے بہم، اٹھ نہیں سکتا
شاہ محمد نصیر الدین دہلوی

اس غزل کے افاعیل ہیں مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔۔۔اس میں جو سرخ نشان ہیں وہاں کسرہ کا استعمال وزن کو متاثر نہیں کرتا جبکہ جو سبز ہیں وہاں کسرہ کا استعمال وزن کو متاثر کرتے بحر متعین کر رہا ہے ۔۔۔۔ اب آپ بتایے میں نے اردو کی بہت سی غزلیں دیکھی ہیں جس میں اضافت کا استعمال وزن کو متاثر نہیں کرتا اور ہم متاثر کرنے کے لیے بھی کسرہ کا استعمال کرتے ہیں​
 

نور وجدان

لائبریرین
حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی

یہ جون ایلیا کے دو اشعار ہیں جس میں انہوں نے امید ِ ناز کی ترکیب دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔میں صرف اس وجہ سے پوسٹ کرہی ہوں مجھے اس کی وجہ چاہیے تاکہ اس کو مناسب طور استعمال کر سکوں
 

الف عین

لائبریرین
میں سمجھ نہیں سکا کہ بحث کیا ہے۔ شہنشہ میں اٍضافت کا زیر ہی آئے گا اور غنچہء دل میں ہمزہ۔ لیکن معجزہ مسیح اور معجزہء مسیح کے اوزان میں بہت فرق ہے۔ یہاں نور کی غزل میں استعمال غلط ہے۔
البتہ سعید سے متفق ہوں کہ بحر بدلنے سے روانی بہتر ہو سکتی ہے۔ بھرتی کے الفاظ سے بچنا چاہئے۔ ناصر کی غزل ہی دیکھ لو، بھرتی کے الفاظ نہیں ہے اور کیا رواں اور مترنم زمین ہے اس کی۔ اس غزل کے بارے میں بعد میں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
کسرہ لگنے سے وزن میں تبدیلی ہوتی جیسے۔۔۔لاسٹ پوسٹ میں

نگاہ ء لطف
221
جبکہ نگاہ ِ لطف ۔۔۔۔۔۔اضافت کے ساتھ 212 یعنی مرار کے وزن پر رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور نگاہ میں ''ہ'' جو کہ صوتیت میں اضافہ کر رہا ہے مگر اضافت سے تو صوتیت کہیں بھی متاثر ہوتی ہے وزن میں کہیں فرق پڑتا ہے اور کہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زیر کا استعمال ۔۔۔۔۔ وزن میں کمی بیشی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس اصول کا اطلاق کیسے ہوتا ہے میں یہ جاننا چاہ رہی ہوں
 
سعدی بہنا۔
یہ کس شہنشہِ والا کا صدقہ بٹتا ہے ۔۔۔​
اس طرح کے الفاظ نگاہ یا نگہ ۔۔ راہ یا رہ یا شاہ اور شہ میں زیر کی اضافت لگ سکتی ہے لیکن ہمزہ کی نہیں ۔ یہ الفاظ الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ کے بعد انڈیپنڈنٹ آواز رکھنے والے اضافی اور اکلوتے " ہ" والے ہیں۔ جبکہ
لیکن دوسری طرف ۔ آپ ذرا حلقہ، روضہ، کعبہ، نقرہ، سایہ وغیرہ جیسے الفاظ میں زیر کی اضافت لگا کر دکھائیں
 

ابن رضا

لائبریرین
وزن کے حوالے سے میں نے تو سن رکھا ہے کہ کسی بھی ترکیب میں کسرہِ اضافت یا ہمزا باہم متبادل استعمال ہوتے ہیں ان کے استعمال سے وزن میں ہر دو صورتوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
مجھے ایک اور اصول پوچھنا ہے جیسے

کیا کیجے کہ یہ لشکرِ غم اٹھ نہیں سکتا

یہاں : لش۔۔۔ک۔۔۔ر(رے) ہم نے اضافت یا ہمزہ کا استعمال کیا مگر اس کو بجائے مرار کے وزن پر باندھنے کے112 پر باندھا اس کی وجہ ؟
جیسے
میں نعرہ ِ مستانہ

نع۔را۔۔۔ہے ۔۔۔یوں ہونا چاہیے
اس کا اوزن یوں باندھاگیا ہے :نع۔ر۔ہ۔۔۔۔
اس کا اصول کیا ہے؟

غنچہِ دل
اس میں بھی ۔غن۔چ۔ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں باندھا گیا ۔۔۔
اس میں غن :چا: اے۔۔۔۔۔۔۔یوں کیوں نہ باندھا گیا

یا جون نے
حالت ِ حال کو اس طرح باندھا ہے: حا۔۔۔۔ل۔۔۔۔ت۔۔۔۔ یعنی 112 کے وزن پر ۔۔۔۔۔اس کی صوتیت دوسری طرح بنتی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
کسرہ لگنے سے وزن میں تبدیلی ہوتی جیسے۔۔۔لاسٹ پوسٹ میں

نگاہ ء لطف
221
جبکہ نگاہ ِ لطف ۔۔۔۔۔۔اضافت کے ساتھ 212 یعنی مرار کے وزن پر رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور نگاہ میں ''ہ'' جو کہ صوتیت میں اضافہ کر رہا ہے مگر اضافت سے تو صوتیت کہیں بھی متاثر ہوتی ہے وزن میں کہیں فرق پڑتا ہے اور کہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زیر کا استعمال ۔۔۔۔۔ وزن میں کمی بیشی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس اصول کا اطلاق کیسے ہوتا ہے میں یہ جاننا چاہ رہی ہوں

نور بہنا، شائد آپ عروض سائٹ کی بنیاد پر وزن کی یہ تبدیلیاں بتا رہی ہیں۔ جبکہ عروض سائٹ پر اضافت کے لئے ہمزہ کا استعمال غلط ہے۔اضافت ظاہر کرنے کے لئے صف زیر ہا پھر اضافت والے ہمزہ (ٔ) کا استعمال جائز ہے۔ ء کے لگانے سے نتائج unstable ہونگے اور ان پر بھروسہ نہیں کیا سکتا۔ :)

عروض سائٹ کی documentation پر مزید کام ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیرغلط رزلٹ کی وجہ سے غلط نتائج اخذ کرنے کا امکان کافی بڑھ جاتا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جیسےہم اخفا میں حرکت کی مدد سے حرف گرا دیتے ہیں ویسے ہی اشبا میں اس کے برعکس حرکت کو الف ے ی بدل کر حرف بڑھا لیتے ہیں۔

ہر دو صورتوں میں ہم بحر کی ضرورت کے مطابق اخفا یا اشبا کرتے ہیں۔ جیسے اگر ہم نے فاعلن کے برابر لفظ لانا ہے تو لشکرِ کو لش ک رے شمار کریں گے اگر ہم نے 112 کے برابر لفظ لانا ہے تو لشکرِ کو لش ک رِ باندھیں گے
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے ایک اور اصول پوچھنا ہے جیسے

کیا کیجے کہ یہ لشکرِ غم اٹھ نہیں سکتا

یہاں : لش۔۔۔ک۔۔۔ر(رے) ہم نے اضافت یا ہمزہ کا استعمال کیا مگر اس کو بجائے مرار کے وزن پر باندھنے کے112 پر باندھا اس کی وجہ ؟
جیسے
میں نعرہ ِ مستانہ

نع۔را۔۔۔ہے ۔۔۔یوں ہونا چاہیے
اس کا اوزن یوں باندھاگیا ہے :نع۔ر۔ہ۔۔۔۔
اس کا اصول کیا ہے؟

غنچہِ دل
اس میں بھی ۔غن۔چ۔ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں باندھا گیا ۔۔۔
اس میں غن :چا: اے۔۔۔۔۔۔۔یوں کیوں نہ باندھا گیا

یا جون نے
حالت ِ حال کو اس طرح باندھا ہے: حا۔۔۔۔ل۔۔۔۔ت۔۔۔۔ یعنی 112 کے وزن پر ۔۔۔۔۔اس کی صوتیت دوسری طرح بنتی ہے

اصولاً تو غنچۂ ، نعرہِ وغیرہ کا وزن 112 ہی ہونا چایئے کہ کل حروف ان میں 4 ہیں اور 112 بھی چار ہی بنتے ہیں۔ لیکن اضافت کی وجہ سے 'ے' کی آواز اضافی ہے، تو کل پانچ حروف ہوئے یعنی غن چَ ئے 212 (اس کو اشباع کہتے ہیں)۔ لیکن اس 'ے' کا گرانا یا نہ گرانا شاعر کی صوابدید پر ہے۔ اب شاعر اس کو 112 باندھے یا 212 دونوں صورتیں میں درست ہو گا۔
:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت دھواں دھار بحث ہورہی ہے یہاں تو ۔ لمبے لمبے مراسلے دیکھ کر پہلے تو یوں لگا جیسےکہ امیر حمزہ اور قیصر و کسریٰ کی باتیں ہورہی ہیں ۔ :) پھر پتہ چلا کہ صرف ہمزہ اور کسرہ کی بات ہے ۔ :):):) اس بارے میں اس فقیر کے دو سینٹ ( یا سوا دو روپے) یہ رہے:
جو الفاظ حرفِ صحیح پر ختم ہوں ان کی اضافت کسرہ یعنی زیر سے بنائی جاتی ہے ۔جیسے بزمِ اردو، حرفِ آخر ، آہِ نیم شب ، نگاہِ یار ۔ ( آہ اور نگاہ میں ’’ہ‘‘ صحیح حرف ہے )۔ وہ الفاظ جو مختفی ’’ہ‘‘ پر ختم ہوتے ہیں ان کی اضافت ہمزہ سے بنائی جاتی ہے ۔ جیسے جلسہء عام ، جلوہء یار وغیرہ۔ جو الفاظ حرفِ علت (ا، و، ی) پرختم ہوتے ہیں انکی اضافت ’’ئے ‘‘ کا اضافہ کرکے بنائی جاتی ہے ۔ جیسے شعرائے کرام ، کوئے ستم ، شوخیء نگاہ وغیرہ۔
عمومًا ہمزہ اور کسرہ سے بنائی گئی اضافی ترکیبیں ہم وزن ہوتی ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی اختلاف بھی ممکن ہے ۔ مثلًا گیسو اور عارض ہم وزن ہین لیکن گیسوئے شب اور عارضِ شب میں وزن کا اختلاف ممکن ہے ۔ اور اس اختلاف کا تعلق بحر اور تقطیع کے اصولوں سے ہوگا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس کا اصول یہ ہے کہ جہاں لفظ کئ آخر میں ’ہ‘ کا تلفظ محض الف کی آواز والا ہو، وہاں کسرہ آنا چاہئے۔ اور جہاں ’ہ‘ کی آواز بھینسنائی دیتی ہے، وہاں محض زیر اضافت۔ اردو میں ’تعرہ‘ کا تلفظ محض ’نعرا‘کیا جاتا ہے، اس لئے نعرہء مستانہ درست ہے۔ راہ، وجہ، شاہ یا اس کے متبادل الفاظ۔ ان سب میں ہ کی آواز ہے اور زیر اضافت استعمال ہو گا۔
 
Top