عربی شاعری مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
شرف الدین محمد بن سعید البوصیری کے مشہور و معروف 'قصیدۂ بُردہ' سے ایک بیت:
فَمَا لِعَيْنَيْكَ أِنْ قُلْتَ اكْفُفَا هَمَتَا

وَمَا لِقَلْبِكَ إِنْ قُلْتَ اسْتَفِقْ يَهِمِ
تمہاری چشموں کو کیا ہو گیا ہے کہ جب تم اُن سے کہتے ہو 'رُک جاؤ' تو وہ سیل کی مانند بہنے لگتی ہیں؛ اور تمہارے قلب کو کیا ہوا ہے کہ جب تم کہتے ہو 'باآرام ہو جاؤ' تو وہ [مزید] دیوانہ و بے تاب ہو جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اَلَمْ تَنْظُرْ اِلَی عَيْنِي وَدَمْعِي
تَرَی فِي الْبَحْرِ اَصْدافُ الَّآلِي
(سعدی شیرازی)

کیا تم میری چشم اور میرے اشکوں پر نظر نہیں کرتے؟ کیا تم [میری چشم کے] بحر میں [اشکوں کے] صدف اور دُر نہیں دیکھتے؟
 

حسان خان

لائبریرین
خفِّفِ السَّيْرَ واتَّئِدْ يا حادي
إنّما أنْتَ سائِقٌ بِفُؤادي
(إبن الفارض)
اے ساربانِ حُدی خواں! حرَکت کو کم کر دو اور آہستہ تر ہو جاؤ کہ تم میرے دل کو لیے چل رہے ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز شاعر زنده می‌مانَد به گیتی نام شاهان را
فروغ از رودکی دارد چراغِ دُودهٔ سامان
(ابنِ یمین فریُومَدی)

دنیا میں پادشاہوں کا نام شاعر کے باعث زندہ رہتا ہے؛ آلِ سامان کے چراغ میں روشنی رُودکی سے ہے۔
"لو لا جرير والفرزدق لم يدم
ذكر جميل من بني مروان
وتری ثناء الروذكي مخلدا‌ً
من كل ما جمعت بنو سامان
وملوك غسان تفانوا غيرما
قد قاله حسان في غسان"
(ابراهیم بن یحییٰ الغزّي)
سالِ وفات: ۵۲۴ھ/۱۱۳۰ء


اگر جَرِیر اور فَرَزدَق نہ ہوتے تو آلِ مروان کی یادِ نیک دیر تک پایدار نہ رہتی۔
اور دیکھو، رُودکی کی مدح سامانیوں کی یکجا کی گئی ہر چیز سے زیادہ جاودانی رہی۔
شاہانِ غسّان بھی فنا ہو گئے اور صرف حسّان کے اُن کے بارے میں کہے گئے سُخن باقی رہے۔

ماخذ:
رودکی و ادبیاتِ عرب: مجموعهٔ مقاله‌ها، تاج‌الدین نورالدین مردانی (از تاجیکستان)
 

حسان خان

لائبریرین
فَلَمْ أَرَ كالأَيَّامِ لِلْمَرْءِ وَاعِظاً
وَلاَ كَصُروُفِ الدَّهْرِ لِلْمَرْءِ هَادِيَا
(نامعلوم)

"برای مرد مثلِ روزگار پندآموزی بِه ندیدم،
و نه از حوادثِ دهر برای مرد ره‌نمای (بهتری)."

میں نے مرد کے لیے زمانے جیسا خوب کوئی نصیحت آموز نہیں دیکھا،
اور نہ مرد کے لیے حوادثِ دہر سے بہتر کوئی رہنما دیکھا۔

ماخذ:
رودکی و ادبیاتِ عرب: مجموعهٔ مقاله‌ها، تاج‌الدین نورالدین مردانی (از تاجیکستان)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
إنِّي لَمُسْتَتِرٌ مِنْ عَيْنِ جِيرانِي
واللهُ يَعْلَمُ إسْرارِي وَإعْلانِي
(سعدی شیرازی)

میں اپنے ہمسایوں کی چشم سے یقیناً پوشیدہ ہوں، [لیکن] خدا میرے پنہاں و آشکار کو جانتا ہے۔

× یہ عربی بیت 'گلستان' میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
أَلَيْسَ الصَّدْرُ أنْعَمَ مِنْ حَرِيرٍ
فكَيْفَ القَلْبُ أصْلَبُ مِنْ حَدِيدِ
(سعدی شیرازی)
کیا [تمہارا] سینہ ریشم سے زیادہ لطیف و نرم نہیں ہے؟۔۔۔ پس کیسے [تمہارا] دل آہن سے زیادہ سخت ہے؟
× یہ بیت سعدی شیرازی کے ایک عربی قصیدے سے ماخوذ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آه مِنَ العِشْقِ وَحَالَاتِهِ
أحْرَقَ قَلْبِي بِحَرَارَاتِهِ
(نامعلوم)
عشق اور اُس کے حالات سے فریاد! کہ اُس نے اپنی سوزشوں سے میرے دل کو جلا ڈالا۔

× شاعر کا نام معلوم نہیں، لیکن میں نے اِس بیت کو دیارِ آلِ عثمان سے تعلق رکھنے والے شاعر 'شیخ غالب' کی ایک تُرکی ترجیع بند میں دیکھا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
أبَداً تَسْتَرِدُّ مَ‍ا تَهَبُ الدُّن‍
‍یَا فَيَا لَيْتَ جُودَها کانَ بُخْلا
(المُتَنَبّی)
دنیا، جو چیز بھی عطا کرتی ہے، ہمیشہ اُسے واپس لے لیتی ہے۔ پس اے کاش وہ اپنی عطا میں بخیل ہوتی!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
وَإِذَا أَدْنَيْتَ مِنها بَصَلاً
غَلبَ المِسْكُ على رِيحِ البَصَلْ
(بَشار بن بُرد)

اور جب تم [میری محبوبہ] کے نزدیک پیاز لے کر جاؤ، تو بُوئے پیاز پر بُوئے مُشک غالب آ جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
يَقُولُ أُناسُ لَو وَصَفتَ لَنا الهَوى
لَعَلَّ الَّذي لا يَعرِفُ الحُبَّ يَعرِفُ
فَقُلتُ لَقَد ذُقتُ الهَوى ثُمَّ ذُقتُهُ
فَوَاللَهِ ما أَدري الهَوى كَيفَ يُوصَفُ
(أحمد شوقي)

مردُم کہتے ہیں: کاش تم ہمارے لیے عشق کی توصیف کر دو، کہ شاید جو شخص عشق سے ناواقف ہے، عشق کو جان جائے۔ میں نے کہا: میں نے عشق کو بارہا چکھا ہے، لیکن اِس کے باوجود خدا کی قسم، میں نہیں جانتا کہ عشق کی کیسے توصیف کی جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«اَندَرِین» سرزمینِ «شام» کے ایک رُومی-بازَنطینی قریے کا نام تھا، کہ جو اپنے تاک‌زاروں اور عالی‌کیفیت شراب کے لیے مشہور تھا۔ دورِ جاہلیت کے عرب شاعر «عَمرو بن کُلثوم تغلِبی» نے اپنے مُعَلّقہ کا آغاز جس بیت سے کیا ہے اُس میں شہرِ «اندَرِین» اور اُس کی شراب کا ذِکر آیا ہے:

أَلاَ هُبِّي بِصَحْنِكِ فَاصْبَحِيْنَا

وَلاَ تُبْقِي خُمُوْرَ الأَنْدَرِيْنَا
(عمرو بن کلثوم)

الا [اے ساقی]! بیدار ہوؤ اور اُٹھو، اور اپنے قدَحِ بُزُرگ کے ساتھ ہم کو شرابِ صُبح‌گاہی دو، اور «اَندَرین» کی شرابوں کو بچائے مت رکھو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مَنْ يَهُنْ يَسْهُلِ الهَوَانُ عَلَيهِ
ما لِجُرْحٍ بمَیِّتٍ إيلامُ
(المُتَنَبّي)
جو شخص ذلیل و خوار بن جائے، اُس پر ذلّتیں آسان ہو جاتی ہیں [اور وہ اُنہیں آسانی سے تحمّل کر لیتا ہے]؛ مُردہ شخص کو زخم سے کوئی درد نہیں پہنچتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
وَلَمَّا رَأَیْتُ الْجَهْلَ فِي النَّاسِ فَاشِياً
تَجَاهَلْتُ حَتَّیٰ ظُنَّ أَنِّيَ جَاهِلٌ
(أبو العلاء المَعَرّي)


"هنگامی که جهل و نادانی را در میانِ مردُم رایج دیدم، خود را چنان به نادانی زدم که گمان برده شد که من هم نادانم."
(فارسی مترجم: محمد تقی جعفری)

اور جب میں نے جہل و نادانی کو مردُم کے درمیان رائج دیکھا تو میں نے جہالت کا اِس قدر تظاہُر کیا کہ [مردُم] کو گمان ہوا کہ میں [بھی] نادان ہوں۔
× تظاہُر = دِکھاوا
 

حسان خان

لائبریرین
صِفَةُ الطُلُولِ بَلاغَةُ القِدْمِ
فاجْعَلْ صِفاتِكَ لابْنَةِ الكَرْمِ

(أبو نواس)

فارسی ترجمہ:
توصیفِ اطلال و دمنِ معشوق، هنرِ شاعرانِ پیشین بود / تو به توصیفِ دخترِ رز بپرداز.
(مترجم: محمدرضا شفیعی کدکَنی)

اردو ترجمہ:
[معشوق کے] ویرانوں وَ خرابوں کی توصیف شاعرانِ سابق کا ہُنر تھا۔۔۔ پس تم دُخترِ انگور کی توصیف کرو۔
× ویرانہ/خرابہ = کھنڈر

وزن: متفاعلن متفاعلن متفا

× مصرعِ اول میں 'القِدْمِ' کی بجائے 'القُدْمِ' بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بَسَطْتَ بِسَاطَ الْحُسْنِ لِلْبَيْعِ وَالشَّرَی
وَأَهْلُ الْوَفَا شَوْقًا إِلَيْكَ مُمَایِلُ

(محمد فضولی بغدادی)
تم نے [بازار میں] خرید و فروخت کے لیے [اپنے] حُسن کی بِساط بِچھائی ہے۔۔۔ اور اہلِ وفا بہ اشتیاق تمہاری جانب مُڑتے اور آتے ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
فلَمْ أرَ بَدراً ضاحِكاً قبلَ وجْهِها
ولم تَرَ قَبْلي مَيّتاً يَتَكَلّمُ
میں نے اس کے چہرے سے پہلے کبھی چودھویں رات کے چاند کو ہنستا نہیں دیکھا
اور اس نے مجھ سے پہلے کسی مردہ کو بات کرتے

متنبی
 
لسان الفتي نصف ونصف فؤادہ
فلم یبق الا صورۃ اللحم والدمٖ


آدمی کی زبان اس کا نصف ہے اور نصف ہی اس کا دل یے، سو گوشت پوست اور خون تو صرف صورت ہی صورت ہے۔
زہیر بن سلمی
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی کی ایک تُرکی نعتیہ غزل کا مطلع عربی میں ہے:
أَشْرَقَتْ مِنْ فَلَكِ الْبَهْجَةِ شَمْسٌ وَبِهَا
مَلَأَ الْعَالَمُ نُوراً وَسُرُوراً وَبَهَا

(محمد فضولی بغدادی)
شادمانی و خُرّمی و زیبائی کے فلک سے ایک خورشید طلوع ہوا اور اُس کے سبب عالَم نور و سُرور و درَخشندگی سے پُر ہو گیا۔
 
Top