عباس نے کہا ___ جیلانی بانو

الف عین

لائبریرین
(جیلانی بانو کا مراسلہ مدیر تعمیر نو، ممبئی کے نام)


ظہیر صاحب آداب!
کل آپ سے فون پر بات ہوئی تھی !
’’عباس نے کہا ‘‘ یہ افسانہ میں نے ۲۰۰۴ء میں لکھا تھا۔
کیوں لکھا ____؟اس آگ ، نفرت اور غصہ کو کم کرنے کے لیے جو بُش کے خلاف میرے دل میں بھڑک رہی تھی۔
بش نے عراق کے ا سکول، میوزیم تاریخی لائبریری تباہ کیا۔ حضرت علی کے مزار کے آس پاس بمباری کیا۔ شیدا درگاہ جلا ڈالے۔ ہم ٹی۔ وی پر ان ہزاروں زخمی ہونے والے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ ہمدردی کا ڈھونگ رچانے امریکی فوج ان کی مدد کو پہنچ گئی تھی۔ منتظر الزیدی نے ۱۴ دسمبر کو بش پر جوتا پھینکا۔
لیکن اس افسانے کا عباس آج سے پانچ برس پہلے بش کے منھ پر لات مارنے کو کھڑا ہو گیا تھا۔
پاکستان کا ایک ادبی رسالہ اس افسانے کو شایع کرنے کی جرأت نہیں کر سکا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے میرے افسانوں کی جو کتاب شایع ہوئی ہے۔ اس کے پبلشر نے بھی اس افسانے کو کتاب میں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
لیکن یہ افسانہ ہندوستان کے ایک اہم ادبی رسالے میں شامل ہے۔ اور میں چاہتی ہوں یہ افسانہ میں پھر آج آپ کو سناؤں۔ اس لیے تحریر نو میں اسے شامل کر لیجیے۔
جیلانی بانو )
 

الف عین

لائبریرین
’’ نمسکار___‘‘ اب آپ آ کاش سے سماچار سنئے __آج کے مکھیہ سماچار___
عراق میں یدھ کی تیاریاں زوروں پر ہیں __
اس یدھ کو ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیے امریکہ نے ساری دنیا کے ٹی۔ وی چینلس سے کئی ملین ڈالر کے کنٹریکٹ کیے ہیں۔ ٹی۔ وی چینلس کی ان کمپنیوں نے یہ شرط رکھی ہے کہ عراق کی تباہی اور بربادی کے ایسے مناظر دکھائے جائیں جو اس سے پہلے کسی جنگ میں نہیں دکھائے گئے __اور عراق کے شہروں پر ان ہولناک ہتھیاروں کے برسنے کے سین بھی ہوں ، جنھیں چھپا دینے کے الزام میں عراق کو برباد کرنے کا پلان بنایا گیا ہے ___
اس لیے آج ساری دنیا میں ہل چل مچ گئی ہے __لوگ اپنے کام پر نہیں گئے __بچے ا سکول نہیں گئے __عورتوں نے ساسبہو والے سیریل نہیں دیکھے ___کارٹون نیٹ ورک اور ’پوگو‘ کی بجائے سب عراق پر بمباری کے بعد انسانوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے اور جلتے ہوئے شہروں کا تماشہ دیکھتے رہے ___

اس یدھ کے بعد عراق کی تعمیر نو کے ٹھیکے حاصل کرنے کی دوڑساری دنیا کے بازاروں اور امریکہ کی تجارتی منڈیوں میں شروع ہو چکی ہے۔
امریکی گورنمنٹ ساری دنیا کی مارکیٹ سے ٹنڈر طلب کر رہی ہے __تیل کے چشمے کون جلائے گا __؟ تیل کے ان چشموں کی آگ بجھانے کا کنٹریکٹ کسے ملے گا __ ؟ ائیر پورٹ اور بندر گا ہوں کو کیسے تباہ کیا جائے گا ___؟ ان ٹھیکوں کے حقدار صرف وہی ملک ہوں گے جو عراق کو تباہ کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیں گے۔
اس یدھ کی تازہ جان کاری کے لیے اب ہم عراق چلتے ہیں اور عراق میں ہمارے سنواداتا احمدؔ سے بات کرتے ہیں ____احمد___؟ عراق یدھ کے بارے میں آپ ہمارے درشکوں کو کچھ بتائیں گے ___؟
’’ اس یدھ سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکہ کے شیئر بازاروں میں بڑی چہل پہل نظر آ رہی ہے __جو ملک اس یدھ کے خلاف کچھ نہ کہیں گے وہ بھی اپنے ٹنڈر بھر سکتے ہیں اور جو ملک اس یدھ کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت کریں گے امریکی میزائلس کا رخ ان کی طرف موڑ دیا جائے گا۔
اس یدھ سے امریکہ اور اس کا ساتھ دینے والے ملکوں کو لاکھوں ڈالر کی آمدنی کی سمبھاؤنا ہے۔ ‘‘
اس جان کاری کے لیے دھنیہ واد !

اب آپ سی۔ این۔ این سے وصول ہو نے والا ایک وشیش چتر دیکھئے ___
سعودی عرب، کویت اور ایران کے ملکوں کے شا ہوں نے اس یدھ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایسے شاندار محل بنائے ہیں جن پے کسی میزائل کا اثر نہیں ہوتا۔ ان محلوں میں دنیا کی ہر آسائش ہے۔ تمام شاہ اور شاہ بچے ٹی۔ وی سیٹ کے سامنے بیٹھے ہیں اور عراق کی مقدس مذہبی عمارتوں ، میوزیم، لائبریری اور کربلا پر بمباری کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ ان شا ہوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ اس یدھ کے خلاف کچھ نہ بولیں گے مگر اس یدھ میں لڑنے والے بہادر سپاہیوں کے سر پر دستارِ فضیلت رکھیں گے ____اس کے لیے ان جاں باز سپاہیوں کو حضور کے آگے سر جھکانے کی ضرورت نہیں ہو گی ____حضور کے آگے ان سپاہیوں کے صرف سر لائے جائیں گے _____آپ جانتے ہیں کہ ہمیشہ بادشاہوں نے اس طرح فنکاروں ، ا دیبوں اور سپاہیوں کو نوازا ہے ___
اب ہم تازہ جان کاری کے لیے آپ کو نجیب اشرف کی طرف لے سے ہر طرف آگ اور دھواں پھیلاہوا ہے۔ لوگوں کے رونے چلانے کی آوازیں ہمارے درشک سن رہے ہوں گے __
ہمارے سامنے سے بے شمار انسان ، روتے ہوئے بچے ، زخمی عورتیں پناہ ڈھونڈنے کے لیے ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں ___آپ ان کی آوازیں سن سکتے ہیں ___
’’ یا علی __یا مولیٰ علی مشکل کشا __یہیں اپنے پاس بلا لو ___حضرت علی کے سایے میں چھپا لو__میرے مولا__میری مدد کرو__ کوئی ہے __؟کوئی ہے ___؟ میرے بچے کو بچا لو ___‘‘
ایک لنگڑا بوڑھا آدمی چھوٹے سے بچے کی انگلی تھامے ، بمباری سے بچنے کے لیے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ دونوں ڈر کے مارے زور زور سے رو رہے ہیں ___بوڑھا زور زور سے چلا رہا ہے ___
’’ مولیٰ علی ____مشکل کشا ___مجھے اپنے پاس بلا لو ___میرے بچے کو اپنے سایے میں چھپا لو__‘‘
’’ رک جائیے حضرت ___آپ حضرت علی کی مزار کی طرف مت جائیے __‘‘
میں اس بوڑھے آدمی کو روک کر کہنا چاہتا ہوں ___مگر اسے یہ بات کیسے سناؤوں کہ حضرت علی کے مزار کی دیواریں بم کے دھماکوں سے ٹوٹ رہی ہیں ___ہر مشکل وقت پر مولیٰ علی مشکل کشا کو پکارنے والا کوئی بھی انسان اس بات پر یقین نہیں کرے گا۔ وہاں امریکی میزائل آگ برسا رہے ہیں ___
آئیے ___اب ہم آپ کو اس میٹنگ میں لے چلتے ہیں جو جارج بش نے اپنے مشیروں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنے کو بلائی ہے۔ مگر اس دستور زباں بندی میں سب چپ چاپ بیٹھے ہیں اور زمین سے آسمان تک صرف بش کی آواز گونج رہی ہے ___

ہمارے سنواداتا کے ایک سوال کے جواب میں ایک امریکی فوجی کمانڈر نے کہا۔
’’ ہم امریکی ایک کلچرڈ قوم کے نمائندے ہیں ___ہم عراق کے قوم کو کوئی تکلیف پہنچانا نہیں چاہتے اسی لیے ہم نے عراق کے ا سکولوں ، تاریخی لائبریری ، میوزیم ، مقدس مزاروں کو آگ لگائی ہے جہاں اسلام کی تاریخ اور تہذیب کو کتابوں اور میوزیم میں محفوظ رکھا گیا ہے __
’’ اب امام حسین ، حضرت علی ___اور یزید کے دور والے قصے ، اپنے اسلاف کے کارنامے پڑھنے سے عراق کے بچے محروم ہو جائیں گے۔ پھر عراق میں حسین، علی، عباس جیسے بچے کی پیدائش کا کوئی ڈر نہیں رہے گا___‘‘
’’ تو کیا آپ سارے عراق میں آگ لگانے والے ہیں __؟
’’ نہیں ___ہم نے تیل کے چشمے ، ائیر پورٹ ، سر کاری عمارتوں اور قومی شاہراہوں کو تباہ نہیں کیا ہے۔ ‘‘
دھنیہ واد آپ کی اس جان کاری کے لیے __

اب ہم اپنے عراق کے سنواداتا ندیم سے بات کریں گے __
’’ ندیم __بمباری سے تباہ ہونے والے شہروں میں امریکی فوج کوئی امدادی کا م کر ر ہی ہے ___؟

’’ہاں ___آپ کو یاد ہو گا کھاڑی یدھ میں سمندر میں تیل پھیل جانے سے سمندر کے پرندے بیمار ہو گئے تھے ___اور اس کے لیے ساری امریکن قوم دکھی ہو گئی تھی ___ان کی صحت کے لیے امریکن گورنمنٹ نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے میزائلز کا رخ عراق کے شہروں اور میوزیم کی طر ف کر دیں۔ سمندر کے پرندوں کو پریشان نہ کریں۔ ‘‘
ہمارے ایک سوال کے جواب میں ایک امریکی فوج کے کمانڈر نے کہا۔
ہمارے میزائلز کا رخ ان احمق عراقی بچوں کی طرف ہو گا جو اپنی ماؤں سے پوچھ رہے ہیں۔ ’’ مستقبل کسے کہتے ہیں ___؟ ‘‘
’’ ندیم! کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ عراق میں روتے ہوئے بچے کسے پکار رہے ہیں ___کیا ان کی مدد کو کوئی آنے والا ہے ____؟
’’ شاید آپ کو یاد ہو گا کہ جب علی کا بیٹا ، محمد کا نواسہ یزید کے آگے سینہ سپر ہو گیا تھا تو کچھ ساتھیوں نے اسے ہمت دلائی تھی۔ ان کے ساتھ آنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر وہ اپنی عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر کربلا کے میدان تک پہنچنے کی ہمت نہ کر سکے ___اور __اور پھر __؟ ٹھہریے ___رک جائیے __وہاں دور مجھے کچھ نظر آ رہا ہے __
’’ ندیم ___اس وقت تم کہاں ہو اور کیا وہاں امن کی کوشش کرنے کے لیے کسی ملک سے کوئی منسٹر آنے والا ہے ____؟‘‘
’’ میں اس وقت دریائے فرات کے کنارے کھڑا ہوں ___عراق کے آسمان پر میزائلز منڈ لا رہے ہیں۔ ہر طرف آگ اور دھواں پھیلا ہوا ہے __بہت دور __عرب کی کھاڑی کے کنارے ایک عرب شہزادہ اس لڑائی کی فلم بندی کر رہ ہے ___
میں اس کے پاس جا کر پوچھتا ہوں ___
’’ اے عرب کے نوجوان شہزادے ___! آج پھر کربلا کے میدان میں یزید کی فوجیں گھس آئی ہیں ___تم نے تو حسین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا ____آگے کیوں نہیں بڑھتے __؟
حضرت علی کے مزار پر بم برسانے والوں کا راستہ کیوں نہیں روکتے __؟ وہ عرب شہزاد ہ گردن جھکا کر کہتا ہے __
’’ ہمیں حسین اور ان کے اصول بہت عزیز ہیں۔ ان کی طرف بڑھنے والے جھوٹ اور ظلم کے ہر ہاتھ کو میں توڑ دینا چاہتا ہوں __مگر پھر ان ظالموں کے ہاتھ ہماری طرف نہ اٹھ جائیں ___میرا باپ عرب کا کنگ ہے __وہ اپنے سر پر سجے ہوئے تاج کو نہیں اتار سکتا۔ فرعون اور شداد___یزید اور بش __سب اپنے مشن کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ میں بھی ان ظالموں کے خلاف ہاتھ اٹھانا چاہتا ہوں۔ مگر انھوں نے میرے ہاتھ باندھ دیے ہیں __‘‘
اب ہمارے درشک عرب شہزادے کے پھیلے ہوئے ہاتھ ٹی۔ وی ا سکرین پر دیکھ سکتے ہیں جن میں ڈالر سے بھری ہوئی تھیلیاں لٹک رہی ہیں __
’’ آئیے __اب ہم آپ کو ایک ایسی خندق کے پاس لے چلتے ہیں جو امریکن فوج نے عوام کی حفاطت کے لیے بنوائی ہے __اندر جانے والوں کی لمبی قطاریں ہیں __
جانے کون سی منزلوں ، کون س وادیوں سے گزر کر عراق کے عوام کا یہ قافلہ سخت جان ، ان قدموں تک پہنچا ہے۔ یہ اب ان کی آخری پناہ گاہ ہے __
وہ دیکھئے __خندق کی طرف بھاگتے ہوئے لوگوں کا ہجوم ہے __
بچارے __موت سے بچ کر کسی کی پناہ چاہتے ہیں ___عراق کے وہ جیالے عوام، جنھوں نے حق اور سچائی کی ہر لڑائی جیتی اور موت انھیں مار نہ سکی ___
ایک امریکی فوجی انھیں حکم دے رہا ہے ___
’’ جلدی جلدی آؤ اور ہماری پناہ گا ہوں میں چھپ جاؤ۔
بوڑھوں ، بچوں اور زخمی سپاہیوں کو باہر ہی چھوڑ دو __اندر جانے سے پہلے اپنے چہرے پر ما سک چڑھا لو __پھر تم کچھ نہ دیکھ سکو گے ___کچھ نہ سن سکو گے ___
یہ خندقیں ان عراقی نوجوانوں کے لیے بنائی گئی ہیں جو بش کے حکم پر سر جھکا دیتے ہیں۔ ‘‘
’’ میرا نمبر کون سا ہے ___؟ خندق کے اندر جانے سے پہلے ایک عراقی نوجوان پوچھ رہا ہے۔ ‘‘
’’ تو آنے والا امریکی میزائل تمہیں بتا دے گا۔ ‘‘
’’ نو جوانو___خندق کے اندر چھپ جانے سے پہلے نیند لانے والی وہ دوا کھالو جو آج عرب کے ہر نوجوان کو کھلائی جا رہی ہے۔ پھر وہ امریکی لیڈروں سے سوال کرنا چھوڑدیتے ہیں۔
خندق کے اندر جانے والے نوجوانو ___! اپنے وصیت نامے ہمیں دے دو ___
اندر جانے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے کل زندہ رہنا ہے __

ہمارے درشک دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سامنے سے بار بار کالی چادر اوڑھے ایک عورت ادھر ادھر بھاگ رہی ہے ___رو رہی ہے ___چلا رہی ہے ___
اس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ رو رہا ہے __
پھر وہ عورت میری طرف دیکھ کر پوچھتی ہے ___
کون ہو تم__کیا نجف اشرف سے کوئی خبر لائے ___؟ مجھے سچ بتاؤ___
نجف اشرف پر تو کوئی بم نہیں گرا ہے ____؟ یا مولیٰ علی ___مشکل کشا___
حسین __ حسین__ عباس __تو کہاں ہے بیٹے ___!
مجھے پیاس لگی ہے ___ میرا بچہ پیاسا ہے __ارے کوئی ہے __؟
عباس کو بلاؤ ___وہ روز دریائے فرات سے اپنی مشک میں پانی لا کر پیاسوں کو پلاتا ہے ___آج پھر کربلا کی رات آ گئی ہے __وہ اپنے پیاسے بھائیوں کے لیے پانی لے کر کیوں نہیں آتا ___؟
ہمارا سنواد داتا اس عورت کے پاس جاتا ہے۔ مگر وہ روک دیتی ہے۔
ابھی چپ رہو __مجھے قبلہ کی طرف منھ کر کے دعا مانگنے دو __
’’ یا اللہ __میرا خاوند، میرا عباس __میرا گھر کہاں ہے ___!
انھیں اپنی حفظ و امان میں رکھیو ___‘‘
وہ عورت گھبرا کے ادھر اُدھر دیکھ رہی ہے۔
’’ اتنی آگ کس نے لگائی ہے۔ اس دھوئیں میں میرا قبلہ چھپ گیا ہے ___
میں اذان کی آواز کیسے سنوں گی ___ارے کافرو ___تم نے میزائل کی گھن گرج میں اذان کی آواز بھی گم کر دی ہے __‘‘
ہمارا سنواد داتا اس عورت کے پاس جاتا ہے۔ مگر وہ روک دیتی ہے
’’ ٹھہرو __مجھے قبلہ کی طرف منھ کر کے دعا مانگنے دو۔
’’ بی بی ! تم اپنا نام بتاؤ گی ___؟‘‘
’’ تم __؟ کون ہو __؟ عورت روتے ہوئے بچے کو اپنی کالی چادر میں چھپا کر دور ہٹ جاتی ہے۔
’’ میں ایک ٹی۔ وی چینل کا نیوز رپورٹر ندیم ہوں۔ بی بی __اپنا نام بتاؤ گی ہمیں ___؟‘‘
’’ تم کیا جانو میں کون ہوں ___؟ وہ عورت بڑے غرور کے ساتھ اپنا سر اونچاکر کے کہتی ہے۔
’’ میں اس زمین کی ماں ہوں جہاں غرور کا ہر شیشہ شکستہ ہوا ہے۔ ‘‘
پھر وہ اپنی گود کے بچے کا سر اونچا کر کے اس سے کہتی ہے۔
’’ دیکھ ___دیکھ میرے بیٹے __اوپر کی طرف دیکھ __تیرا بھائی عباس اب پانی کی مشک لے کر آئے گا __جب بھی دشمن ہمیں مارنے آئے ہیں۔ عباس اپنی مشک میں پانی بھر کے زخمیوں کو پلاتا ہے۔ ‘‘
وہ عورت آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چاروں طرف دہکنے والی آگ اور دھوئیں کے پار کچھ دیکھ رہی ہے ___پھر وہ اپنی گود میں روتے ہوئے پیاسے بچے سے کہتی ہے۔
’’ اوپر کی طرف دیکھو___وہ اب آ جائے گا __‘‘
ہر ماں اپنے بچے کو ہمیشہ اوپر کی طرف دکھاتی ہے __کوئی وعدہ__ امید کا جگمگاتا ہوا چاند___امن کا پیغام لانے والی چڑیا __ہاتھوں میں پانی کی مشک اٹھائے دوڑتے ہوئے عباس ___بچہ اوپر کی طرف دیکھتا ہے۔ پھر قہر کی آگ برساتے ہوئے امریکی میزائل کی آواز سن کر ماں کی گود میں چھپ جاتا ہے ___
وہ عورت گھبرا کے ہمارے سنواد داتا ندیم سے پوچھ رہی ہے __
’’ کیا تم جانتے ہو میرا عباس آج پیاسوں کو پانی پلانے کیوں نہیں آیا ___!
کیا اہلِ کوفہ ہماری مدد کے لئے آ رہے ہیں ___ تم کیا خبر لائے ہو ___!
’’ خاتون محترم__ابھی ہمیں ایسی کوئی جان کاری نہیں ملی کہ ______کسی اور سے کوئی تمہارے لیے پانی لانے والا ہے۔
اچھا __؟ وہ عورت غصہ اور نفرت سے اپنا منھ پھیر لیتی ہے۔
’’ شاید تمہیں ابن زیاد نے بھیجا ہے __فرات کے کنارے بھوکے اور پیاسے زخمی عراقیوں کا تماشہ ساری دنیا کو دکھانے کے لیے آئے ہو ___؟ ہٹ جاؤ میرے سامنے سے ___اپنے کیمرے ہٹالو__
مجھے دیکھنے دو __وہ سب کہاں ہیں جنھوں نے اس لڑائی میں حسین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا ___؟
میرا عباس کہاں ہے ___عباس __عباس __ عباس __؟
ہمارے درشک سن رہے ہیں ___اس عورت کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی ہے ___سارے عرب میں ایران، کویت، افغانستان ، پاکستان تک ___دور دور تک پھیلے ہوئے ریت میدان اور تیل کے چشموں سے آگے __ہمیں تو اس پیاسی ماں کی پیاس بجھانے کے لیے کوئی اس طرف آتا دکھائی نہیں دیتا __
شاید وہ عورت نہیں جانتی کہ اب آسمان سے نہ کوئی کتاب اترے گی نہ کوئی رسول آئے گا ___
آئیے __اب ہم دریائے فرات کے کنارے بمباری سے تباہ ہونے والے ایک شہر کی طرف لے چلتے ہیں ___یہ پورا شہر تباہ ہو گیا ہے۔ ہر طرف آگ لگی ہے۔ لاشیں پڑی ہیں۔ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ اس کی جانکاری کے لیے ہم اپنے سنواد داتا منیش سے بات کرتے ہیں۔
منیش __ دریائے فرات کے کنارے شہر بغداد پر اتنی بمباری ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں آپ ہمارے درشکوں کو کچھ بتائیں گے __؟
’’ نمسکار ___دو دن تک مسلسل بمباری سے یہ پورا شہر تباہ ہو گیا ہے۔
اس وقت میں جہاں کھڑا ہوں وہاں ایک پورا بازار اور ا سکول ابھی تک جل رہا ہے __
یہاں ایک اسلامی تاریخ کا میوزیم تھا اور ایک لائبریری تھی __ایسا لگتا ہے کہ اسی جگہ کو تباہ کرنے کے لیے اتنی بمباری کی گئی ہے۔ کیوں کہ ابھی تک آگ بجھانے کے لیے فائر انجن بھی نہیں آئے ہیں ___
’’ منیش ___؟ کیا تمہیں وہاں کوئی زندہ انسان نظر آ رہا ہے جس سے معلوم ہو کہ میوزیم اور لائبریری پر بمباری کیوں کی گئی __؟
’’ نہیں ___ہمارے چاروں طرف ہر چیز جل چکی ہے۔ ٹوٹے ہوئے گھروں کے نیچے لاشیں پڑی ہیں۔ کچھ زخمی لوگ چلا رہے ہیں۔ امریکی فوج کی لاریاں ان زخمیوں کو اٹھا کر لے جا رہی ہیں۔ ‘‘
’’ ان زخمیوں کو کہاں لے جا رہے ہیں __؟‘‘
’’ یہ تو مجھے نہیں معلوم ____مگر جنگ شروع ہونے سے پہلے امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں نے عراق کے زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کے ٹھیکے لے لیے ہیں۔ ‘‘
’’ منیش ___دھنیہ واد اس جانکاری کے لیے ___‘‘
آئیے __اب ہم آگے چلتے ہیں __مگر __ذرا ٹھہریے __مجھے یہاں ایک بچے کے رونے کی آواز آ رہی ہے __
ہمارے درشک دیکھ رہے ہیں ___یہاں ہر طرف لاشیں پڑی ہیں __آئیے ___ اس جلے ہوئے گھر کے اندر چلتے ہیں ___اوہ__اتنی تباہی __ ؟ ذرا رک جائیے __
وہاں ایک دس گیارہ برس کا زخمی بچہ رو رہا ہے __اکیلا پڑا ہے __
مجھے اس لڑکے کے پاس جانے کے لیے لاشوں کو پھلانگنا پڑرہا ہے۔ چاروں طرف خون بہہ رہا ہے۔ میرے ساتھ ایک امریکی سپاہی بھی ہے وہ زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آئے ہیں ___
وہ بچہ زخموں سے تڑپ رہا ہے ___میرے پاس کھڑا ایک امریکی سپاہی مجھے بتاتا ہے۔
’’ اس لڑکے کا نام علی اسماعیل عباس ہے۔ اس لڑکے کے دونوں ہاتھ کٹ گئے ہیں ___
وہ زور زورسے رو رہا ہے۔ چلا رہا ہے __
’’ میرے ماں باپ کو بش نے مار ڈالا __میرے دونوں ہاتھ کٹ گئے ___اب میں پیاسے زخمیوں کو پانی کیسے پلاؤں گا __؟میری ماں میرا انتظار کر رہی ہو گی__‘‘
’’ تم ٹھیک ہو جاؤ گے عباس__‘‘ وہ فوجی بچے کو تسلی دے رہا ہے۔
’’ ہم تمہیں امریکہ بھیج رہے ہیں __وہاں تمہارا علاج ہو گا__تمہیں پھر ہاتھ مل جائیں گے __ ‘‘
’’نہیں ‘‘ عباس نے غصہ میں فوجی سے کہا۔
’’ مجھے امریکہ کے ہاتھ نہیں چاہئیں __‘‘ وہ نفرت سے پاؤں پٹکنے لگا۔
’’ میں امریکہ نہیں جاؤں گا۔ مجھے تو امریکہ سے لڑنا ہے۔ عراق کے پیاسے سپاہیوں کو پانی پلانا ہے۔ ‘‘
۔ ۔ ’’ مگر تمہارے ہاتھ کٹ گیے ہیں عباس___تم کیسے لڑو گے __؟‘‘
خون میں ڈوبا ہوا عباس لڑکھڑاتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور غصہ میں چلا کر بولا ___
’’ بش نے میرے ہاتھ کاٹ دیے ہیں __مگر میں اسے لات مار سکتا ہوں ___‘‘

عراق یدھ کے اس آخری سماچار کے ساتھ اب ہمیں آ گیا دیجیے __نمسکار __!‘‘ز ***
 
Top