نیرنگ خیال
لائبریرین
آج سید عاطف علی اور مریم افتخار کو جانے کیونکر یہ شبہ ہوا کہ میں اصلاً لاہوری ہو۔۔۔۔ ویسے تو جتنی مدت مجھے لاہور ہو چکی۔۔۔ اس بات کو ماننے میں کوئی عار نہیں۔۔۔ لیکن چونکہ بقیہ خاندان ابھی تک صادق آباد ہی ہے۔۔۔ اسی حوالے سے مجھے پانچ برس پرانی تحریر بھی یاد آگئی جو احمد بھائی کے کسی تحریر کے جواب میں لکھی تھی۔۔۔۔ کیا اتفاق ہے کہ چند دن بعد اس تحریر کو پاانچ برس ہو جائیں گے۔۔۔۔ اب مجھے چونکہ محفل میں یہ چھوٹی سی تحریر مل نہیں رہی ۔۔۔ اس لیے نیا دھاگا بنا لیا ہے۔۔۔
باعث تحریر:
محمداحمد بھائی نے آج ایک شخص سے ملاقات کروائی ہے۔ کہ وہ جانے کیا کیا کرتا پھرتا ہے اور کیسی کیسی مصنوعات استعمال کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم آپ کی ملاقات ایک عام آدمی سے کرواتے ہیں۔ یہ عام آدمی بے حد عام اور معمولی ہے اور ہمارے اردگرد اکثریت اسی عام آدمی کی ہے۔ اپنی اسی عمومیت کے زیر اکثر وہ نظرانداز ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کے معمولات بیان کے قابل نہیں ہوتے۔
احمد بھائی کی فیس بکی پوسٹ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک آدمی صبح سویرے اذان کی آواز پر اپنی چارپائی سے اٹھتا ہے ۔ نماز قرآن سے فارغ ہو کر لسی پیتا ہے۔ دیسی گھی میں بنا پراٹھا، گھی شکر کے ساتھ کھا کر شکر ادا کرتا ہے ۔ کپڑے بدل کر کھیتوں کا رخ کرتا ہے۔ فصلوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ ٹیوب ویل چلاتا ہے۔ فصلوں کو پانی دیتے دیتے وہ خود بھی اسی ٹیوب ویل کی ہودی میں نہا لیتا ہے ۔ کیکر کی چھاؤں تلے ایک چارپائی بچھاتا ہے اس پر بیٹھا رہتا ہے، یا لیٹ جاتا ہے۔ سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چارپائی کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ کھیتوں میں لگے ایک آدھے آم کے درخت سے کچھ آم توڑ کر پانی کے کھال میں پھینک دیتا ہے۔ ٹھنڈے ہونے پر وہی کھا لیتا ہے۔ دودھ کے اند رپانی ڈال کر کچی لسی بنا کر پی لیتا ہے اور ظہر کے بعد سستانے کو اسی چارپائی پر لیٹ جاتا ہے۔ شام کو گھر واپسی کی راہ ایک دو دریائی تربوز خرید لیتا ہے۔ گھر واپسی پر بزرگوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر وہ دوستوں کی محفل میں آ بیٹھتا ہے۔ دوستی، رشتے، آمدن ، دشمنیاں، حکایتیں اور کبڈی کے مقابلے زیر گفتگو رہتے ہیں۔ عشاء کی اذانوں کے ساتھ ہی مجلس برخاست ہوتی ہے۔ آج موسم بہتر ہے یہ کہہ کروہ صحن کے عین درمیان میں چارپائی گھسیٹ لیتا ہے ۔ دوپہر کو نیلا دکھائی دینے والا آسمان اب سیاہ ہے۔ چمکتے تاروں کو دیکھتے دیکھتے وہ کہیں نیند کی وادیوں میں چلا جاتا ہے۔
عام آدمی
از قلم نیرنگ خیال
۳۰ مئی ۲۰۲۰
باعث تحریر:
محمداحمد بھائی نے آج ایک شخص سے ملاقات کروائی ہے۔ کہ وہ جانے کیا کیا کرتا پھرتا ہے اور کیسی کیسی مصنوعات استعمال کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم آپ کی ملاقات ایک عام آدمی سے کرواتے ہیں۔ یہ عام آدمی بے حد عام اور معمولی ہے اور ہمارے اردگرد اکثریت اسی عام آدمی کی ہے۔ اپنی اسی عمومیت کے زیر اکثر وہ نظرانداز ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کے معمولات بیان کے قابل نہیں ہوتے۔
احمد بھائی کی فیس بکی پوسٹ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک آدمی صبح سویرے اذان کی آواز پر اپنی چارپائی سے اٹھتا ہے ۔ نماز قرآن سے فارغ ہو کر لسی پیتا ہے۔ دیسی گھی میں بنا پراٹھا، گھی شکر کے ساتھ کھا کر شکر ادا کرتا ہے ۔ کپڑے بدل کر کھیتوں کا رخ کرتا ہے۔ فصلوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ ٹیوب ویل چلاتا ہے۔ فصلوں کو پانی دیتے دیتے وہ خود بھی اسی ٹیوب ویل کی ہودی میں نہا لیتا ہے ۔ کیکر کی چھاؤں تلے ایک چارپائی بچھاتا ہے اس پر بیٹھا رہتا ہے، یا لیٹ جاتا ہے۔ سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چارپائی کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ کھیتوں میں لگے ایک آدھے آم کے درخت سے کچھ آم توڑ کر پانی کے کھال میں پھینک دیتا ہے۔ ٹھنڈے ہونے پر وہی کھا لیتا ہے۔ دودھ کے اند رپانی ڈال کر کچی لسی بنا کر پی لیتا ہے اور ظہر کے بعد سستانے کو اسی چارپائی پر لیٹ جاتا ہے۔ شام کو گھر واپسی کی راہ ایک دو دریائی تربوز خرید لیتا ہے۔ گھر واپسی پر بزرگوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر وہ دوستوں کی محفل میں آ بیٹھتا ہے۔ دوستی، رشتے، آمدن ، دشمنیاں، حکایتیں اور کبڈی کے مقابلے زیر گفتگو رہتے ہیں۔ عشاء کی اذانوں کے ساتھ ہی مجلس برخاست ہوتی ہے۔ آج موسم بہتر ہے یہ کہہ کروہ صحن کے عین درمیان میں چارپائی گھسیٹ لیتا ہے ۔ دوپہر کو نیلا دکھائی دینے والا آسمان اب سیاہ ہے۔ چمکتے تاروں کو دیکھتے دیکھتے وہ کہیں نیند کی وادیوں میں چلا جاتا ہے۔
فیس بک پر اسی پوسٹ پر لگائی گئی پانچ برس پرانی تصویر۔۔۔۔

عام آدمی
از قلم نیرنگ خیال
۳۰ مئی ۲۰۲۰
آخری تدوین: