نیرنگ خیال

لائبریرین
آج سید عاطف علی اور مریم افتخار کو جانے کیونکر یہ شبہ ہوا کہ میں اصلاً لاہوری ہو۔۔۔۔ ویسے تو جتنی مدت مجھے لاہور ہو چکی۔۔۔ اس بات کو ماننے میں کوئی عار نہیں۔۔۔ لیکن چونکہ بقیہ خاندان ابھی تک صادق آباد ہی ہے۔۔۔ اسی حوالے سے مجھے پانچ برس پرانی تحریر بھی یاد آگئی جو احمد بھائی کے کسی تحریر کے جواب میں لکھی تھی۔۔۔۔ کیا اتفاق ہے کہ چند دن بعد اس تحریر کو پاانچ برس ہو جائیں گے۔۔۔۔ اب مجھے چونکہ محفل میں یہ چھوٹی سی تحریر مل نہیں رہی ۔۔۔ اس لیے نیا دھاگا بنا لیا ہے۔۔۔

باعث تحریر:
محمداحمد بھائی نے آج ایک شخص سے ملاقات کروائی ہے۔ کہ وہ جانے کیا کیا کرتا پھرتا ہے اور کیسی کیسی مصنوعات استعمال کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم آپ کی ملاقات ایک عام آدمی سے کرواتے ہیں۔ یہ عام آدمی بے حد عام اور معمولی ہے اور ہمارے اردگرد اکثریت اسی عام آدمی کی ہے۔ اپنی اسی عمومیت کے زیر اکثر وہ نظرانداز ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کے معمولات بیان کے قابل نہیں ہوتے۔

احمد بھائی کی فیس بکی پوسٹ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک آدمی صبح سویرے اذان کی آواز پر اپنی چارپائی سے اٹھتا ہے ۔ نماز قرآن سے فارغ ہو کر لسی پیتا ہے۔ دیسی گھی میں بنا پراٹھا، گھی شکر کے ساتھ کھا کر شکر ادا کرتا ہے ۔ کپڑے بدل کر کھیتوں کا رخ کرتا ہے۔ فصلوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ ٹیوب ویل چلاتا ہے۔ فصلوں کو پانی دیتے دیتے وہ خود بھی اسی ٹیوب ویل کی ہودی میں نہا لیتا ہے ۔ کیکر کی چھاؤں تلے ایک چارپائی بچھاتا ہے اس پر بیٹھا رہتا ہے، یا لیٹ جاتا ہے۔ سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چارپائی کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ کھیتوں میں لگے ایک آدھے آم کے درخت سے کچھ آم توڑ کر پانی کے کھال میں پھینک دیتا ہے۔ ٹھنڈے ہونے پر وہی کھا لیتا ہے۔ دودھ کے اند رپانی ڈال کر کچی لسی بنا کر پی لیتا ہے اور ظہر کے بعد سستانے کو اسی چارپائی پر لیٹ جاتا ہے۔ شام کو گھر واپسی کی راہ ایک دو دریائی تربوز خرید لیتا ہے۔ گھر واپسی پر بزرگوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر وہ دوستوں کی محفل میں آ بیٹھتا ہے۔ دوستی، رشتے، آمدن ، دشمنیاں، حکایتیں اور کبڈی کے مقابلے زیر گفتگو رہتے ہیں۔ عشاء کی اذانوں کے ساتھ ہی مجلس برخاست ہوتی ہے۔ آج موسم بہتر ہے یہ کہہ کروہ صحن کے عین درمیان میں چارپائی گھسیٹ لیتا ہے ۔ دوپہر کو نیلا دکھائی دینے والا آسمان اب سیاہ ہے۔ چمکتے تاروں کو دیکھتے دیکھتے وہ کہیں نیند کی وادیوں میں چلا جاتا ہے۔

فیس بک پر اسی پوسٹ پر لگائی گئی پانچ برس پرانی تصویر۔۔۔۔
470483600_10164481104716978_7241962459749963504_n.jpg

عام آدمی
از قلم نیرنگ خیال
۳۰ مئی ۲۰۲۰
 
آخری تدوین:
کیا خوبصورت عکاسی کی ہے نین بھائی!

بس خاص اور عام کے اس تضاد سے ذہن میں راحیل صاحب کا ایک شعر بھی آگیا:
پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا
ہائے ری گردشِ ایام کہ اب کے تو نے
شکوۂِ گردشِ ایام بھی رہنے نہ دیا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک آدمی صبح سویرے اذان کی آواز پر اپنی چارپائی سے اٹھتا ہے ۔ نماز قرآن سے فارغ ہو کر لسی پیتا ہے۔ دیسی گھی میں بنا پراٹھا، گھی شکر کے ساتھ کھا کر شکر ادا کرتا ہے ۔ کپڑے بدل کر کھیتوں کا رخ کرتا ہے۔ فصلوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ ٹیوب ویل چلاتا ہے۔ فصلوں کو پانی دیتے دیتے وہ خود بھی اسی ٹیوب ویل کی حودی میں نہا لیتا ہے ۔ کیکر کی چھاؤں تلے ایک چارپائی بچھاتا ہے اس پر بیٹھا رہتا ہے، یا لیٹ جاتا ہے۔ سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چارپائی کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ کھیتوں میں لگے ایک آدھے آم کے درخت سے کچھ آم توڑ کر پانی کے کھال میں پھینک دیتا ہے۔ ٹھنڈے ہونے پر وہی کھا لیتا ہے۔ دودھ کے اند رپانی ڈال کر کچی لسی بنا کر پی لیتا ہے اور ظہر کے بعد سستانے کو اسی چارپائی پر لیٹ جاتا ہے۔ شام کو گھر واپسی کی راہ ایک دو دریائی تربوز خرید لیتا ہے۔ گھر واپسی پر بزرگوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر وہ دوستوں کی محفل میں آ بیٹھتا ہے۔ دوستی، رشتے، آمدن ، دشمنیاں، حکایتیں اور کبڈی کے مقابلے زیر گفتگو رہتے ہیں۔ عشاء کی اذانوں کے ساتھ ہی مجلس برخاست ہوتی ہے۔ آج موسم بہتر ہے یہ کہہ کروہ صحن کے عین درمیان میں چارپائی گھسیٹ لیتا ہے ۔ دوپہر کو نیلا دکھائی دینے والا آسمان اب سیاہ ہے۔ چمکتے تاروں کو دیکھتے دیکھتے وہ کہیں نیند کی وادیوں میں چلا جاتا ہے۔​
دلکش و دلپذیر! بہت خوبصورت عکاسی کی ہے نین بھائی۔ یعنی ایک سادہ سے آدمی کی سادہ سی عکاسی! ہر سطر سے زندگی ٹپک رہی ہے ۔
اور تصویر کے کیا کہنے! بخدا ٹیوب ویل کےپانی کی ٹھنڈک مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہورہی ہے۔
آپ نے یہ تصویر لگا کر میرے بچپن کی بہت ساری یادیں تازہ کردیں۔ ۱۹۴۷ میں دہلی سے ہجرت کے بعد میرا ددھیال توکراچی اور حیدرآباد کی طرف نکل آیا تھا لیکن ننھیالی رشتہ دار پنجاب کے مختلف علاقوں میں جابسے ۔ لاہور ، ملتان ، شجاع آباد ، بہاولپور ، گوجرانوالہ اور نجانے کن کن علاقوں میں ۔ مجھے اپنے بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں امی کے ساتھ کئی بار ان رشتے داروں کی طرف جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت ریل گاڑی کا سفر بہت پرلطف اور مزیدار ہوا کرتا تھا۔ خاص طور پر ملتان ، شجاع آباد اور بہاولپور سے بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں کہ وہاں میرے ہم عمر کزن ہوا کرتے تھے۔ شجاع آباد میں ایک ماموں کے گھر سے ذرا دور آم کے باغات تھے اور ان سے پرے ایک نہر گزرتی تھی ۔ نہر کو جانے کا راستہ ان باغوں سے ہو کر گزرتا تھا ۔ دستور یہ تھا کہ اگر آپ کسی کے باغ سے گزر رہے ہوں تو درخت پر لگے آم نہیں توڑ سکتے لیکن اگر کوئی آم پک کر زمین پر گرگیا ہو تو اسےکوئی بھی ا ٹھا کر بلا جھجک کھاسکتا ہے ۔ ایسے آم کو ٹپکا کہا جاتا ہے۔ چانچہ روز سہ پہر کو جب ذرادھوپ کی شدت کم ہوجاتی تو میں اور دوسرے لڑکے نہر پر نہانے کے لیے جایا کرتے تھے ۔ اورآتے جاتے روزانہ ہم ٹپکے کے درجنوں آم کھالیا کرتے تھے۔ راستے میں اسی طرح کی ایک ہودی ہوا کرتی تھی کہ جس کی آپ نے تصویر لگائی اور لڑکے اسے ٹیوب ویل کہتے تھے ۔ واپسی میں ہم سب اسی ہودی میں ہاتھ منہ دھو کر قتلِ آم کے آثار مٹادیا کرتے تھے تاکہ گھر میں ڈانٹ نہ پڑے۔
نہ ہاتھ پر کوئی دھبا ، نہ منہ پر کوئی داغ ۔۔۔۔ وغیرہ ۔۔۔۔:)
جتنے میٹھے آم ایک گرمی کی چھٹیوں میں شجاع آباد میں کھائے شاید زندگی میں کبھی نہیں کھائے۔
اب سوچتا ہوں تو فیصلہ نہیں کرپاتا کہ ٹپکے کے وہ آم میٹھے ہوتےتھے یا زندگی خود بہت میٹھی ہوا کرتی تھی اُن دنوں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فصلوں کو پانی دیتے دیتے وہ خود بھی اسی ٹیوب ویل کی حودی میں نہا لیتا ہے ۔
نین بھائی ، آپ کےمراسلے میں لفظ ہودی دیکھ کر مزا آیا ۔ یہ لفظ تو اب بول چال میں شاید متروک ہوچلا ہے کہ ہودیاں بھی متروک ہوتی جارہی ہیں ۔ کہیں کہیں کچھ تحریروں میں شاید باقی ہے۔ دہلی والوں میں ہر ایسی چھوٹی تالاب نما چار دیواری کو ہودی کہا جاتا ہے کہ جس میں نل یا دستی نلکا لگا ہو یا جس میں کسی بھی طرح پانی ذخیرہ کیا جاتا ہو۔ یہ ہودی دراصل حوضی ( حوض کی تصغیر) کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔حوضی کو متروک ہوئے زمانہ ہوا۔ یعنی ح اور ض کے عربی تلفظ ہندوستان میں رفتہ رفتہ ہندی کے" ہ" اور" د" بن گئے ۔ اس معدوم ہوتے ہوئے لفظ کو زندہ رکھنے پر ایک نعرہ آپ کے لیے:
نین بھائی زندہ باد!
:):) :)
 

سیما علی

لائبریرین
ایک آدمی صبح سویرے اذان کی آواز پر اپنی چارپائی سے اٹھتا ہے ۔ نماز قرآن سے فارغ ہو کر لسی پیتا ہے۔ دیسی گھی میں بنا پراٹھا، گھی شکر کے ساتھ کھا کر شکر ادا کرتا ہے ۔ کپڑے بدل کر کھیتوں کا رخ کرتا ہے۔ فصلوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ ٹیوب ویل چلاتا ہے۔ فصلوں کو پانی دیتے دیتے وہ خود بھی اسی ٹیوب ویل کی حودی میں نہا لیتا ہے ۔ کیکر کی چھاؤں تلے ایک چارپائی بچھاتا ہے اس پر بیٹھا رہتا ہے، یا لیٹ جاتا ہے۔ سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چارپائی کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ کھیتوں میں لگے ایک آدھے آم کے درخت سے کچھ آم توڑ کر پانی کے کھال میں پھینک دیتا ہے۔ ٹھنڈے ہونے پر وہی کھا لیتا ہے۔ دودھ کے اند رپانی ڈال کر کچی لسی بنا کر پی لیتا ہے اور ظہر کے بعد سستانے کو اسی چارپائی پر لیٹ جاتا ہے۔ شام کو گھر واپسی کی راہ ایک دو دریائی تربوز خرید لیتا ہے۔ گھر واپسی پر بزرگوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر وہ دوستوں کی محفل میں آ بیٹھتا ہے۔ دوستی، رشتے، آمدن ، دشمنیاں، حکایتیں اور کبڈی کے مقابلے زیر گفتگو رہتے ہیں۔ عشاء کی اذانوں کے ساتھ ہی مجلس برخاست ہوتی ہے۔ آج موسم بہتر ہے یہ کہہ کروہ صحن کے عین درمیان میں چارپائی گھسیٹ لیتا ہے ۔ دوپہر کو نیلا دکھائی دینے والا آسمان اب سیاہ ہے۔ چمکتے تاروں کو دیکھتے دیکھتے وہ کہیں نیند کی وادیوں میں چلا جاتا
بہت ہی خاص کہنا ہے ہمیں اک عام کے بارے
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ہمارے
نین بھیا ایک عام آدمی میں ایک بہت ہی خاص آدمی ہیں اللہ نظرِ بد سے محفوظ رکھے اور جسطرح آسانیاں بانٹتے ہیں ایسا آسانیاں بانٹنے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے
بہت خوبصورت انسان اور بہت دل آفرین اندازِ تحریر ہم تو آپکی فیس بکی یادوں میں ساتھ ساتھ ہیں
ہماری آپکی اگرچہ تفصیلی گفتگو بہت زیادہ نہیں رہی مگر جتنی ہے اُس میں ہم آپکو جانتے ہیں اور مانتے ہیں دوسرے آپ اپنے لفظوں میں نظر آتے ہیں ۔صادق آباد شجاع آباد ہم نے دیکھے ہوئے ہیں اس علاقے سے زیادہ پیارے اور محبت کرنے والے لوگ ہمیں زندگی میں نہیں ملے ۔خوش رہیے شاد و آباد رہیے آمین
ہے دیکھنے میں عام سا

نہ مہ جبینوں سے ربط ہے
نہ شہرتوں کا خبط ہے
رانجھا ہے نا قیس ہے
نہ انشاء ہے نا فیض ہے
وہ پیکر اخلاص ہے
وفا، دعا اور آس ہے
وہ شخص خود شناس ہے
تم ہی کرو یہ فیصلہ
وہ آدمی ہے عام سا
یا پھر بہت ہی خاص ہے
 
آخری تدوین:
ایک آدمی صبح سویرے اذان کی آواز پر اپنی چارپائی سے اٹھتا ہے ۔ نماز قرآن سے فارغ ہو کر لسی پیتا ہے۔ دیسی گھی میں بنا پراٹھا، گھی شکر کے ساتھ کھا کر شکر ادا کرتا ہے ۔ کپڑے بدل کر کھیتوں کا رخ کرتا ہے۔ فصلوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ ٹیوب ویل چلاتا ہے۔ فصلوں کو پانی دیتے دیتے وہ خود بھی اسی ٹیوب ویل کی حودی میں نہا لیتا ہے ۔ کیکر کی چھاؤں تلے ایک چارپائی بچھاتا ہے اس پر بیٹھا رہتا ہے، یا لیٹ جاتا ہے۔ سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چارپائی کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ کھیتوں میں لگے ایک آدھے آم کے درخت سے کچھ آم توڑ کر پانی کے کھال میں پھینک دیتا ہے۔ ٹھنڈے ہونے پر وہی کھا لیتا ہے۔ دودھ کے اند رپانی ڈال کر کچی لسی بنا کر پی لیتا ہے اور ظہر کے بعد سستانے کو اسی چارپائی پر لیٹ جاتا ہے۔ شام کو گھر واپسی کی راہ ایک دو دریائی تربوز خرید لیتا ہے۔ گھر واپسی پر بزرگوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر وہ دوستوں کی محفل میں آ بیٹھتا ہے۔ دوستی، رشتے، آمدن ، دشمنیاں، حکایتیں اور کبڈی کے مقابلے زیر گفتگو رہتے ہیں۔ عشاء کی اذانوں کے ساتھ ہی مجلس برخاست ہوتی ہے۔ آج موسم بہتر ہے یہ کہہ کروہ صحن کے عین درمیان میں چارپائی گھسیٹ لیتا ہے ۔ دوپہر کو نیلا دکھائی دینے والا آسمان اب سیاہ ہے۔ چمکتے تاروں کو دیکھتے دیکھتے وہ کہیں نیند کی وادیوں میں چلا جاتا ہے۔
سر نیرنگ خیال صاحب! بہت خوبصورت تحریر ہے دعا ہے اپنے ملک کا ہر آدمی ایسا عام آدمی بن جائے۔
آپ نے جس عام آدمی کا ذکر کیا ہے وہ عام ہے لیکن خواص میں سے عام۔ اسے یہ ساری نعمتیں میسر ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا۔
اپنے ملک کے زیادہ تر عام آدمی ایسے ہیں جو سارا دن مزدوری کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ان کی عزتِ نفس ہر وقت کچلی جارہی ہوتی ہے۔نہ ہی انہیں یہ نعمتیں اس طرح میسر ہوتی ہیں اور روزگار اور پیٹ بھرنےکی فکر نہ ہی ان کو نیلا آسمان اوررات کے چمکتے تارے دیکھنے کی فرصت دیتی ہے۔ ٹھکرائے ہوئے اور تھکن سے چور چارپائی پر لیٹتے ہیں تو ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں رہتا۔

large_uMGfF74JdCuUy8UfyL8BYybT6-41xR00Y45nywGzMFQ.JPG
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا خوبصورت عکاسی کی ہے نین بھائی!

بس خاص اور عام کے اس تضاد سے ذہن میں راحیل صاحب کا ایک شعر بھی آگیا:
پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا
ہائے ری گردشِ ایام کہ اب کے تو نے
شکوۂِ گردشِ ایام بھی رہنے نہ دیا
راحیل بھائی کے کیا کہنے مریم پتر۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
دلکش و دلپذیر! بہت خوبصورت عکاسی کی ہے نین بھائی۔ یعنی ایک سادہ سے آدمی کی سادہ سی عکاسی! ہر سطر سے زندگی ٹپک رہی ہے ۔
اور تصویر کے کیا کہنے! بخدا ٹیوب ویل کےپانی کی ٹھنڈک مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہورہی ہے۔
آپ نے یہ تصویر لگا کر میرے بچپن کی بہت ساری یادیں تازہ کردیں۔ ۱۹۴۷ میں دہلی سے ہجرت کے بعد میرا ددھیال توکراچی اور حیدرآباد کی طرف نکل آیا تھا لیکن ننھیالی رشتہ دار پنجاب کے مختلف علاقوں میں جابسے ۔ لاہور ، ملتان ، شجاع آباد ، بہاولپور ، گوجرانوالہ اور نجانے کن کن علاقوں میں ۔ مجھے اپنے بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں امی کے ساتھ کئی بار ان رشتے داروں کی طرف جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت ریل گاڑی کا سفر بہت پرلطف اور مزیدار ہوا کرتا تھا۔ خاص طور پر ملتان ، شجاع آباد اور بہاولپور سے بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں کہ وہاں میرے ہم عمر کزن ہوا کرتے تھے۔ شجاع آباد میں ایک ماموں کے گھر سے ذرا دور آم کے باغات تھے اور ان سے پرے ایک نہر گزرتی تھی ۔ نہر کو جانے کا راستہ ان باغوں سے ہو کر گزرتا تھا ۔ دستور یہ تھا کہ اگر آپ کسی کے باغ سے گزر رہے ہوں تو درخت پر لگے آم نہیں توڑ سکتے لیکن اگر کوئی آم پک کر زمین پر گرگیا ہو تو اسےکوئی بھی ا ٹھا کر بلا جھجک کھاسکتا ہے ۔ ایسے آم کو ٹپکا کہا جاتا ہے۔ چانچہ روز سہ پہر کو جب ذرادھوپ کی شدت کم ہوجاتی تو میں اور دوسرے لڑکے نہر پر نہانے کے لیے جایا کرتے تھے ۔ اورآتے جاتے روزانہ ہم ٹپکے کے درجنوں آم کھالیا کرتے تھے۔ راستے میں اسی طرح کی ایک ہودی ہوا کرتی تھی کہ جس کی آپ نے تصویر لگائی اور لڑکے اسے ٹیوب ویل کہتے تھے ۔ واپسی میں ہم سب اسی ہودی میں ہاتھ منہ دھو کر قتلِ آم کے آثار مٹادیا کرتے تھے تاکہ گھر میں ڈانٹ نہ پڑے۔
نہ ہاتھ پر کوئی دھبا ، نہ منہ پر کوئی داغ ۔۔۔۔ وغیرہ ۔۔۔۔:)
جتنے میٹھے آم ایک گرمی کی چھٹیوں میں شجاع آباد میں کھائے شاید زندگی میں کبھی نہیں کھائے۔
اب سوچتا ہوں تو فیصلہ نہیں کرپاتا کہ ٹپکے کے وہ آم میٹھے ہوتےتھے یا زندگی خود بہت میٹھی ہوا کرتی تھی اُن دنوں!
نہاتے ہوئے کی تصاویر بھی لگا دیتا ہوں۔۔۔ ہوہوہوہہوہوو

آم میٹھے ہیں۔۔۔ پر زندگی بھی ان دنوں بہت میٹھی تھی۔۔۔۔ خوبصورت بھی۔۔۔ دلکش بھی۔۔۔۔۔ آپ نے کیسی دل موہ لینے والی یادیں تازہ کی ہیں۔۔۔۔۔ جامن کے درخت۔۔۔ آم کے پیڑ۔۔۔ ٹپکے کا مزا تو اب کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا۔۔۔۔ امرود۔۔۔۔ کیا کیا یاد کروا دیا۔۔۔۔ یہ چھوٹی سی ویڈیو دیکھیں۔۔۔ دیہاتی آدمی پکے ہوئے آم ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نین بھائی ، آپ کےمراسلے میں لفظ ہودی دیکھ کر مزا آیا ۔ یہ لفظ تو اب بول چال میں شاید متروک ہوچلا ہے کہ ہودیاں بھی متروک ہوتی جارہی ہیں ۔ کہیں کہیں کچھ تحریروں میں شاید باقی ہے۔ دہلی والوں میں ہر ایسی چھوٹی تالاب نما چار دیواری کو ہودی کہا جاتا ہے کہ جس میں نل یا دستی نلکا لگا ہو یا جس میں کسی بھی طرح پانی ذخیرہ کیا جاتا ہو۔ یہ ہودی دراصل حوضی ( حوض کی تصغیر) کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔حوضی کو متروک ہوئے زمانہ ہوا۔ یعنی ح اور ض کے عربی تلفظ ہندوستان میں رفتہ رفتہ ہندی کے" ہ" اور" د" بن گئے ۔ اس معدوم ہوتے ہوئے لفظ کو زندہ رکھنے پر ایک نعرہ آپ کے لیے:
نین بھائی زندہ باد!
:):) :)
یہ لفظ ہمارے علاقے میں ابھی تک عام استعمال میں ہے۔۔۔۔۔ آپ نے اس کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا۔۔۔۔ جزاک اللہ۔۔۔اور میری املا بھی الحمداللہ درست ہوئی۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت ہی خاص کہنا ہے ہمیں اک عام کے بارے
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ہمارے
نین بھیا ایک عام آدمی میں ایک بہت ہی خاص آدمی ہیں اللہ نظرِ بد سے محفوظ رکھے اور جسطرح آسانیاں بانٹتے ہیں ایسا آسانیاں بانٹنے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے
بہت خوبصورت انسان اور بہت دل آفرین اندازِ تحریر ہم تو آپکی فیس بکی یادوں میں ساتھ ساتھ ہیں
ہماری آپکی اگرچہ تفصیلی گفتگو بہت زیادہ نہیں رہی مگر جتنی ہے اُس میں ہم آپکو جانتے ہیں اور مانتے ہیں دوسرے آپ اپنے لفظوں میں نظر آتے ہیں ۔صادق آباد شجاع آباد ہم نے دیکھے ہوئے ہیں اس علاقے سے زیادہ پیارے اور محبت کرنے والے لوگ ہمیں زندگی میں نہیں ملے ۔خوش رہیے شاد و آباد رہیے آمین
ہے دیکھنے میں عام سا

نہ مہ جبینوں سے ربط ہے
نہ شہرتوں کا خبط ہے
رانجھا ہے نا قیس ہے
نہ انشاء ہے نا فیض ہے
وہ پیکر اخلاص ہے
وفا، دعا اور آس ہے
وہ شخص خود شناس ہے
تم ہی کرو یہ فیصلہ
وہ آدمی ہے عام سا
یا پھر بہت ہی خاص ہے
آپا آپ کی محبت پر جتنا بھی شکر الہی کروں کم ہے۔۔۔۔ یہی دعا ہے کہ اللہ سبحان و تعالی مجھے آپ کے حسن گماں جیسا بنا دے۔ آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سر نیرنگ خیال صاحب! بہت خوبصورت تحریر ہے دعا ہے اپنے ملک کا ہر آدمی ایسا عام آدمی بن جائے۔
آپ نے جس عام آدمی کا ذکر کیا ہے وہ عام ہے لیکن خواص میں سے عام۔ اسے یہ ساری نعمتیں میسر ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا۔
اپنے ملک کے زیادہ تر عام آدمی ایسے ہیں جو سارا دن مزدوری کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ان کی عزتِ نفس ہر وقت کچلی جارہی ہوتی ہے۔نہ ہی انہیں یہ نعمتیں اس طرح میسر ہوتی ہیں اور روزگار اور پیٹ بھرنےکی فکر نہ ہی ان کو نیلا آسمان اوررات کے چمکتے تارے دیکھنے کی فرصت دیتی ہے۔ ٹھکرائے ہوئے اور تھکن سے چور چارپائی پر لیٹتے ہیں تو ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں رہتا۔

large_uMGfF74JdCuUy8UfyL8BYybT6-41xR00Y45nywGzMFQ.JPG
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔۔۔۔
ویسے اصل میں اقبال یہ کہنا چاہتے تھے کہ
ہے تلخ بہت بندہ مزدور کی اوقات

توجہ اور پذیرائی پر سراپا سپاس ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپا آپ کی محبت پر جتنا بھی شکر الہی کروں کم ہے۔۔۔۔ یہی دعا ہے کہ اللہ سبحان و تعالی مجھے آپ کے حسن گماں جیسا بنا دے۔ آمین
💌💌💌💌💌
آمین الہی آمین!!
جیتے رہیے! پروردگار کے حضور دعا ہے کہ ہمارے ننھے زین ایشال اور رحاب کو ہمیشہ آپکی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے
سلامت رہیں اللہ اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین ۔
 
Top