عامر چیمہ شہید کے لئے ایک کالم

سیفی

محفلین
نبیل بھیا۔۔۔۔۔
موضوع سے اس لئے دور ہوتے جا رہے ہیں کہ بات سے بات نکل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصرَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کاروکاری، ونی، اور اس طرح کی دوسری لغویات پر پہلے سے فتاویٰ موجود ہیں اور ان میں بلحاظِ جرم سزائیں بھی درج ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب اگر مفتی حضرات نے چپ توڑ کر ان سزاؤں پر عملدرآمد کی ٹھانی تو تجدید پسند شور مچا دیں‌گے کہ یہ لوگوں کے ذاتی معاملات میں طالبان کدھر سے آگئے :wink: اسلئے اس بات کو جانے دیں۔۔۔۔۔مفتی حضرات اس معاملے میں خاموش نہیں۔۔۔انھوں‌ نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر پاکستان کی حکومت اسلامی نہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ محراب سے ملا ، مسجد سے نمازی، کعبہ سے حاجی اور دارالافتاء سے مفتی کو بھی نکال باہر کر دیا جائے یا انھی کہا جائے کہ بھائی ریٹائر منٹ کی زندگی گزارو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں فتوے دینے کی۔۔۔۔۔۔۔کونسے اسلامی ملک میں ہو۔۔۔۔۔

اور مزید۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اسلامی ملک ہوتا تو مفتی حضرات کو عام لوگوں کے لئے ہدایت جاری کرنے کی ضرورت نہ پیش آتی کہ وہ گستاخِ رسول کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ حکومت کو حکم جاری کرتے کہ ۔۔۔۔۔۔۔گستاخِ رسول کو نشانِ عبرت بنائیں۔
 

زیک

مسافر
سیفی نے کہا:
مگر جس علاقے سے ہمارا تعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں بندے کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے جائیں ۔۔۔تو پھر بھی ممکن ہے کہ وہ صلح کرلے۔۔۔۔یا معاف کردے۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی کسی کو گالی دے اور وہ آگے سے چپ کر جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہر علاقے کی اپنی روایات ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسی کے سیاق و سباق میں بات کی تھی۔۔۔۔

معاف کیجیئے مگر کہیں یہ علاقے کے تنزل کی وجوہات میں سے تو نہیں؟

اس کی مثال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک صحابی جن کا نام ابھی ذہن میں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔کو مکہ کے مشرکین نے سول پر چڑھایا۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے پوچھا کہ اگر تم یہ کہ دو کہ تمہاری جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ ہوں تو تم کو آزاد کردیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکا جواب ۔۔۔۔۔۔تھا۔۔۔۔۔۔کہ مجھے یہ گوارا بھی نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ پر ایک کانٹا بھی چبھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاہے میں سولی ہی کیوں نہ چڑھ جاؤں۔۔۔

اس مثال اور عامر چیمہ کے مبینہ کرتوت میں بہت فرق ہے۔

مجھے ہولوکاسٹ کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات نہیں ۔۔۔۔۔۔ سوائے بلاگز اور فورمز پر بحث دیکھنے کے سوا۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا سوال یہ تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہولو کاسٹ کے انکاری (ایک شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرے تو اسلام میں اس کی کوئی سزا نہیں۔۔۔۔۔کیونکہ وہ اپنی رائے میں آزاد ہے) کو اپنی علیحدہ رائے رکھنے کا حق نہیں۔۔۔

کیا کسی مسئلہ پر دوسری رائے رکھنے کی سزا قید و بند ہونی چاہئے۔۔۔۔کہ اس سے نفرت پھیلتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے صرف یہ بتائیں۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اگر ہولوکاسٹ کے قتلِ عام (اور ظلم۔۔۔۔۔اگر ہوا میری معلومات نہیں اس بارے) پر دوسری رائے بیان کرنے سے نفرت پھیلتی ہے تو کیا ہماری جانوں سے محبوب ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک سے نفرت نہیں پھیلتی۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے آپ صرف اس بات کا مجھے جواب دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ہم اپنی بحث کو آگے لے جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر شروع کی باتوں پر ہی اتفاق نہ ہو تو اگلی بحث بے سود ہی ٹھہرے گی۔۔۔۔۔

اگر آپ کو ہولوکاسٹ کا علم نہیں ہے تو پھر آپ ہر دفعہ قوسین میں یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اگر ہوا تھا وغیرہ۔ اس سے آپ کا اس پر شک ظاہر ہوتا ہے۔

دوسرے میرا خیال تھا کہ میں آپ کے سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ میری پچھلی پوسٹ پھر سے پڑھیں۔

ایک دفعہ پھر: ہولوکاسٹ سے انکار کی سزا نہیں ہونی چاہیئے۔ مگر اگر اسے آسٹریا کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ میں اس سے پھر بھی اتفاق نہیں کرتا۔ آپ کو تو tradition اور history کی influence کا خیال ہونا چاہیئے۔

بات صرف نفرت پھیلانے کی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ یہ قوانین اس وقت بنائے گئے جب ابھی تازہ تازہ genocide ہوا تھا اور عوام نے اس کے خلاف کچھ نہ کیا تھا بلکہ الٹا حکومت کے ساتھ تھی۔ لہذا existential threat کی بھی بات تھی۔ ہولوکاسٹ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ابھی بھی لوگ موجود ہیں جنہوں نے اسے دیکھا یا جن کے والدین نے دیکھا۔ میں خود کئی لوگوں کو جانتا ہوں جن کے والدین یا دیگر رشتہ‌دار مارے گئے یا بڑی مشکل سے بوقت جان بچا سکے۔ اس جانی خطرے کو شاید وہ لوگ آج بھی محسوس کرتے ہوں۔

اس کے مقابلے میں حضرت محمد کی گستاخی پر ہم جتنے بھی دکھی ہوں ہماری ذات یا ہماری امت یا ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ویسے چاہے ہولوکاسٹ کا انکار ہو یا حضرت محمد کی شان میں گستاخی میرے خیال میں دونوں کو ایسے لینا چاہیئے جیسے بھونکتے کتے کو: نظرانداز کر دیں مگر دھیان رکھیں کہ اگر کتا بھونکنے سے کاٹنے پر اتر آئے تو اس کا کچھ کر سکیں۔

امید ہے بات آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی۔
 

زیک

مسافر
سیفی نے کہا:
ہر معاشرے میں قانون کی تعبیر کا اختیار اور اس پر فیصلہ سنانے اور فیصلہ پر عملدرآمد کے طریقے مختلف ہیں۔۔۔۔۔۔۔

امریکی اور برطانوی‌ معاشروں میں قانون کی تعبیر کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی ایک چور اور ڈاکو اور قاتل کے لئے سزا منظور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب عدالت کا کام یہ ہے کہ جب اس کے پاس جرائم کے کیسز آئیں گے تو وہ پارلیمنٹ کے قوانین کی روشنی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ سنائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔اب کسی معاملے میں قانونی پیچیدگی آئے تو قانون کی تعبیر بھی یہ پارلیمنٹ ہی کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی نظامِ حکومت میں عدالت کا کام فیصلہ سنانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔فیصلہ پر عملدرآمد محکمہ قضا (یعنی پولیس) کا کام ہے۔۔۔۔۔۔ اور اگر فیصلہ پر عملدرآمد پولیس کے دائرہ کار سے باہر ہو تو اسلامی فوج یا کسی اور ادارے کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی۔۔۔۔

اب قانون تو شریعت اسلامیہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جو تین یا چار سو لوگوں کی بحث سے نہیں بنا ہوا بلکہ رب کائنات کا اتارا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔اگر اس کی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے تو اس کی تعبیر کرنے کا اختیار فقہائے امت اور مفتیانِ کرام کو ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جو عدالت کے لئے اصول و ضوابط اور قوانین ترتیب دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب دونوں معاشروں کا جائزہ لیں تو اسلامی معاشرے کا ایک مفتی۔۔۔۔دوسرے معاشروں کی عدالت سے بالا درجہ کا حامل ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔آپ کسی معاملے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں تو عدالت نے فیصلہ دیا ہے اور یہاں تو جی مفتی صاحب ہی آپڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

جیسے نیوی کا کیپٹن آرمی کے کیپٹن سے درجہ میں بڑا ہوتا ہے۔۔۔۔یہی معاشروں میں اداروں کے اختیارات اور فرائض کا تضاد ہے براہِ کرم اسے ملحوظِ خاطر رکھیں۔۔۔۔۔۔

اب آپ نے لکھا کہ انھوں نے عوام کے ہاتھ میں دے دیا کہ اس فتویٰ پر عملدرآمد کروائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں آپ مکمل دوسری بحث شروع کر رہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ جو اسلام میں طریقہ آپ نے بتایا ہے وہ کبھی بھی اس طرح نہیں رہا۔ اس کے جو حصے رہے بھی وہ تاریخی وجوہات سے اور ان کا اسلام سے کوئی ضروری تعلق نظر نہیں آتا۔

دوسرے اگر کچھ فرائض مثلاً قتل عوام کے حوالے کر دیا جائے تو پھر mob rule ہی بچ جاتا ہے۔

تیسرے علماء کو فیصلے کا حق خدا نے نہیں عوام نے دیا ہے۔ پرانے وقتوں کے کچھ علماء اپنے کردار کی وجہ سے مشہور ہوئے اور عوام نے ان کے فتوے مانے۔ آج ایسی صورتحال نہیں ہے۔

باتیں اور بھی بہت ہیں مگر بات پھر traditionalism اور historical context وغیرہ پر چلی جائے گی۔ اس لئے فی‌الحال بس کرتا ہوں۔
 

زیک

مسافر
سیفی نے کہا:
نبیل نے کہا:
ذرا خبریں چیک کر لیں۔ عامر چیمہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم مکمل ہو گیا ہے اور اس دوران پاکستانی پیتھالوجسٹ بھی موجود تھے۔ کافی جانچ پھٹک کے بعد بھی تشدد یا قتل کا کوئی نشان نہیں ملا ہے۔ عامر چیمہ کی موت خود کشی سے ہی ہوئی تھی۔ بہرحال اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ہمیں ایک شہید چاہیے تھا سو وہ مل گیا ہے۔ مذہبی لیڈر تو پوسٹ مارٹم سے پہلے ہی اس کی رپورٹ کو مسترد کر چکے ہیں کہ اس طرح ان کا مکر سامنے آ جائے گا۔

نبیل بھیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو سمجھدار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے پاکستانی حکومت کے کارناموں کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس امریکی اٹارنی جنرل کا بیان تو پڑھا ہوگا۔۔۔۔جس نے کہا تھا کہ یہ چند ڈالر کے لئے اپنی؟؟؟؟؟؟؟ بیچ دیتے ہیں۔۔۔۔

بہت سارے کیسز میں ہمارے حکومتی افراد نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح کا تعاون کیا ہے۔۔۔۔ساری زندگی یہ کہتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے کوئی پاکستانی امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میڈیا دکھاتا رہا کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔لوگ کہاں پر ہیں۔۔۔۔۔

حیرت ہے کہ آپ نے بھی اس بات پر یقین کر لیا کہ دو پاکستانی افسروں کی موجودگی میں کیا گیا پوسٹ مارٹم ٹھیک ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیفی: کیا آپ اس بات کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ عامر چیمہ کو تشدد سے مارا گیا؟ کوئی حقائق ہو سکتے ہیں جو آپ کی رائے بدل دیں؟ پاکستانی یا جرمن حکومت کیا کرے تو آپ مطمئن ہو جائیں گے کہ وہ اس معاملے میں سچ کہہ رہے ہیں؟

اس سوال سے جواب کے بغیر بحث بیکار ہے کیونکہ اگر آپ کے beliefs اس معاملے میں falsifiable ہی نہیں ہیں تو بحث لاحاصل ہے۔
 

زیک

مسافر
سیفی نے کہا:
مختصرَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کاروکاری، ونی، اور اس طرح کی دوسری لغویات پر پہلے سے فتاویٰ موجود ہیں اور ان میں بلحاظِ جرم سزائیں بھی درج ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی مگر گستاخئ رسول کا بھی یہ پہلا فتوٰی نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس معاملے میں تو ہر کیس پر فتوے حاضر مگر جن مسائل کا نبیل نے ذکر کیا ان میں ایسی کوئی activity نہیں؟
 

زیک

مسافر
یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ میں نے عامر چیمہ کیس میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی۔ چونکہ وہ حراست میں مرا ہے اس لئے اس معاملے کی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیق ہونی چاہیئے۔ میری libertarian سائڈ یہی کہتی ہے۔

یہاں بحث سیفی اور اس کے کالم‌نگار کے حقائق کے حوالے سے کر رہا ہوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
زکریا، آج آٹوپسی کی رپورٹ آ گئی ہے اور اس کے مطابق عامر چیمہ کی موت خود کشی سے ہی ہوئی تھی۔ عامر چیمہ کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے دوران دو پاکستانی پیتھالوجسٹ بھی موجود تھے اور کافی دیر تک معائنہ کیا گیا تھا۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ پوسٹ مارٹم ہونے سے پہلے ہی پاکستان میں verdict دے دیا گیا ہے؟
 

زیک

مسافر
زکریا نے کہا:
سیفی کیا آپ میں اظہر الحق کی روح سرایت کر گئی ہے؟

سوچا کہ اپنے اس جملے کی وضاحت کر دوں۔ اظہر الحق محفل کے پرانے رکن ہیں جو آج کل غائب ہیں۔ اظہر “۔۔۔۔۔“ کا بہت استعمال کرتے تھے۔
 

رضوان

محفلین
سیفی آج ابھی تک آئے نہیں۔
صرف ویژن اور زاویہ نظر کا فرق ہے پھر پاکستان میں جو میڈیا کا کردار ہے ہر طرف ایک ہی بات ایک ہی زاویہ سے زیرِ بحث ہوتا ہے۔ پھر ہمارے سرکاری اداروں کی ساکھ اتنی عمدہ ہے کہ وہ اگر کہہ دیں کہ آج ہفتہ ہے تو عوام کہیں گے کہ Satureday اور علماء (جو اب ایک طبقہ ہیں ) حلق کی گہرائی سے کہ “ الیوم السبت “ بس سر پھٹول شروع ۔
ہم (ہم لفظ کا مطلب ہم ہے جو ہم میں سے نہیں انکا مسئلہ نہیں ہے ) سب کو غصہ تو گدھے پر ہے مگر نکالتے بیچارے کمہار پر ہیں۔
عامر چیمہ اور اس کے اہلِ خاندان سے کسی کو واسطہ نہیں کہ ایک اکلوتا بیٹا جسے کتنی محنتوں سے پڑھایا لکھایا گیا۔ اس پالے پوسے پوت کو کچھ نام نہاد علماء اپنی سیاست اور دکانداری کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ یہ لوگ لہک لہک کر وعظ کرتے ہوئے سوچتے کیوں نہیں کہ ان کے اپنے سپوت یہ کام کیوں نہیں کرتے جس میں اگلے جہاں کا نفع ہے؟ صرف منبر کی جانشینی سے کیوں غرض ہے جہاں دونوں جہانوں کا فائدہ ہے؟؟؟
اپنے ڈاکٹر بیٹے اور انجینیر بیٹوں سے فتوؤں کی تعمیل کیوں نہیں کراتے “ ایں سعادت بزورِ بازو نیست “
 

قیصرانی

لائبریرین
رضوان نے کہا:
سیفی آج ابھی تک آئے نہیں۔
صرف ویژن اور زاویہ نظر کا فرق ہے پھر پاکستان میں جو میڈیا کا کردار ہے ہر طرف ایک ہی بات ایک ہی زاویہ سے زیرِ بحث ہوتا ہے۔ پھر ہمارے سرکاری اداروں کی ساکھ اتنی عمدہ ہے کہ وہ اگر کہہ دیں کہ آج ہفتہ ہے تو عوام کہیں گے کہ Satureday اور علماء (جو اب ایک طبقہ ہیں ) حلق کی گہرائی سے کہ “ الیوم السبت “ بس سر پھٹول شروع ۔
ہم (ہم لفظ کا مطلب ہم ہے جو ہم میں سے نہیں انکا مسئلہ نہیں ہے ) سب کو غصہ تو گدھے پر ہے مگر نکالتے بیچارے کمہار پر ہیں۔
عامر چیمہ اور اس کے اہلِ خاندان سے کسی کو واسطہ نہیں کہ ایک اکلوتا بیٹا جسے کتنی محنتوں سے پڑھایا لکھایا گیا۔ اس پالے پوسے پوت کو کچھ نام نہاد علماء اپنی سیاست اور دکانداری کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ یہ لوگ لہک لہک کر وعظ کرتے ہوئے سوچتے کیوں نہیں کہ ان کے اپنے سپوت یہ کام کیوں نہیں کرتے جس میں اگلے جہاں کا نفع ہے؟ صرف منبر کی جانشینی سے کیوں غرض ہے جہاں دونوں جہانوں کا فائدہ ہے؟؟؟
اپنے ڈاکٹر بیٹے اور انجینیر بیٹوں سے فتوؤں کی تعمیل کیوں نہیں کراتے “ ایں سعادت بزورِ بازو نیست “
دیکھئے ان نام نہاد مولوی کا سارا رعب گھر سے باہر چلتا ہے۔ گھر میں تو سب ان کی قابلیت جانتے ہیں، اس لئے جو ان کی بات کو صحیفہءآسمانی سمجھے گا، وہی اس پر عمل کرے گا۔
بے بی ہاتھی
 

سیفی

محفلین
زکریا بھائی۔۔۔۔۔۔

آپ نے لکھا ہے کہ بھونکتے کتے کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔۔۔۔۔۔اور جب کاٹنے پر آئے تو اسکا علاج کرنا چاہئے۔۔۔۔

بہت اچھا لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں خود اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اس وقت ہم مسلمان دنیا میں اسلئے مار کھا رہے ہیں کہ نہ تو ہم نے دین کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں داخل کیا ہے اور نہ ہی ہم نے دنیاوی ترقی حاصل کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک معاشی اور فوجی طاقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے مقابلے میں کمزور کی آہ و فغاں بے سود ہی ہوا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور طاقت کا مقابلہ طاقت ہی کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کئے ہم ان لوگوں سے اگر مقابلہ کرتے ہیں جان بوجھ کر تو یہ ایک قسم کی خودکشی ہی کہلاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسباب کی اہمیت سے انکار تو کوئی موٹی عقل والا بھی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض حالات میں ۔۔۔۔۔۔قواعد و ضوابط تبدیل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔وہاں عقل کی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر دل کی بات غالب آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور جنوں والے۔۔۔۔۔۔۔۔اہلِ عقل کی ہر دلیل کو رد کر کے اپنا عمل دکھاتے ہیں اور کامیاب ٹھہرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ بہت سارے مواقع پر عقل کی ڈائریکشنز کے برخلاف اہلِ جنوں نے محاذ جیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا آج بھی ان کو کامیاب کہتی ہے۔۔۔۔

جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا تو اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ ان بتوں کو میں نے نہیں توڑا ۔۔۔۔۔۔۔ تو شاید ان کو آگ میں نہ ڈالا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عقل کی دلیل تو یہی ہوتی اس وقت بھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر مصلحت اختیار کر لی جائے اور جب اپنے ماننے والے زیادہ ہو جائیں اور طاقت پکڑ لیں تو پھر ان مشرکوں‌سے ٹکر لی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ابراہیم علیہ السلام نے وہ راستہ اختیار کیا جس کو رہتی دنیا کامیاب کہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اقبال کو بھی کہنا پڑا
بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑا عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

پھر دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔حضرت زکریا علیہ السلام کو آروں سے چیر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام کو ذبح کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔
آگے آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جانوں کے نذرانے پیش کئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ اپنے ستر اہلِ بیت کے ساتھ کربلا میں دادِ شجاعت دے کر شہید ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔بظاہر تو یزید کا لشکر کامیاب ٹھہرتا ہے اور حسینی لشکر ناکام ہو کر کٹ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر قیامت تک یہ ثابت ہے کہ اصل میں حسینی لشکر کامیاب ہوا اور یزید ناکام۔۔۔۔۔۔

کیا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ اگر مصلحت سے کام لیتے اور کہتے کہ جب میرے پاس بہت سی فوج جمع ہو جائے گی اور بہت سا اسلحہ اکٹھا ہو جائے گا تو پھر میں یزیدی فوجوں سے لڑوں گا تو کیا امت کے لئے پھر کوئی درس قائم ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب مختلف حالات تھے موجودہ واقعہ سے۔۔۔۔ میں صرف یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ زندگی میں عموما تو اسباب کو دیکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقت کا توازن نظر میں رکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔طویل المدتی پلان بنائے جاتے ہیں۔۔۔۔لیکن کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب عقل کی دلیلوں کو ایک طرف رکھ کر صرف دل اور جنوں کی بات ہی مشعلِ راہ بنتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلئے یہ کہنا کہ ہر واقعے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہر سانحے پر۔۔۔۔۔۔ٹھنڈے دل و دماغ سے ہی سوچ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی اوقات کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدمقابل کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ہی کوئی ردعمل ظاہر کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ یاد رکھئے کہ سود و زیاں کی باتیں کبھی کبھی بے سود ٹھہرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی آتشِ نمرود میں بے خطر کود جانے کا ایک اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممکن ہے کہ کہیں اگر ایک ماں کے بے حرمتی ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ بیٹے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیاری کرکے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوچ سمجھ کر ۔۔۔۔پلان بنا کر اپنا بدلہ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کس کو پتا کہ ماں کو اپنے اس لعل کی ادا ہی پسند آئی ہو جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشکبار آنکھوں‌ سے ، نہتا ہی دشمن پر جا پڑا ہو ۔۔۔۔۔اور نتیجتا۔۔۔۔۔حرمتِ مادر پر گردن کٹا بیٹھا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


xxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxx
زکریا برادر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی باقی باتوں کے جوابات پھر انشاء اللہ۔۔۔۔اب سوموار کو ملاقات ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔اتوار کو میری ننھی سی پیاری سی بھانجی آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سارا دن اس سے کھیلنے میں گزر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔
 

سیفی

محفلین
نبیل نے کہا:
زکریا، آج آٹوپسی کی رپورٹ آ گئی ہے اور اس کے مطابق عامر چیمہ کی موت خود کشی سے ہی ہوئی تھی۔ عامر چیمہ کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے دوران دو پاکستانی پیتھالوجسٹ بھی موجود تھے اور کافی دیر تک معائنہ کیا گیا تھا۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ پوسٹ مارٹم ہونے سے پہلے ہی پاکستان میں verdict دے دیا گیا ہے؟

نبیل بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کسی بندے کو کہیں سے بار بار دھوکہ ملے تو پھر اس پر اعتبار بالکل ہی اٹھ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہندکو میں کہتے ہیں ۔۔۔“ہن توں قرآن دے کپڑے وی پا کے آ تے تیرے تے اعتبار کوئی نئیں“
(اگر اب تم غلافِ قرآن کے کپڑے بھی پہن کر آؤ تو تمہاری بات پر اعتبار نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔“) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ یہ بات کہنا دونوں طرح سے غلط ہے

بعینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب یورپ کی رپورٹوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان پر۔۔۔۔۔پاکستانی حکومتی اداروں کی تصدیق ہمارے لئے شک وشبہ ہی پیدا کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ متذکرہ قسم کے واقعہ میں ہمیشہ سے اہلِ یورپ اپنے دشمنوں کی بے حرمتی اور ستم کرتے آرہے ہیں۔۔۔۔۔اور ہماری حکومتی مشینری ان کے عمل کو درست ثابت کرتی آرہی ہے۔۔۔

آپ بھی ہماری جگہ ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔اس رپورٹ اور اس پر پاکستانی تصدیق کو اسیطرح شک کی نگاہ سے دیکھتے۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے گستاخ کی سزا ہے اسی طرح کسی بھی پیغمبر کی گستاخی کے سزا کا عالمی قانون ہی مسلہ کا حل ہے۔ اور یہی تہذیبی تصادم کا واحد حل ہے۔
عامر چیمہ شہید نے بالکل صحیح کام کیا ہے ۔اس کی شہادت کے لیے ہمیں کسی سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔
 
عامر کا ایک معمولی کارنامہ

عامر نے آئیندہ کے لیے توہینِ رسالت ﷺ کرنے والے بدمعاشوں پر واضح کردیا ہے کہ اس طرح کی کوئی قبیح حرکت ان کے لیے کتنی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہ عامر کا ایک معمولی کارنامہ ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
عامر کا ایک معمولی کارنامہ

شارق مستقیم نے کہا:
عامر نے آئیندہ کے لیے توہینِ رسالت ﷺ کرنے والے بدمعاشوں پر واضح کردیا ہے کہ اس طرح کی کوئی قبیح حرکت ان کے لیے کتنی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہ عامر کا ایک معمولی کارنامہ ہے۔
شارق بھیا، ان لوگوں کے اخلاقی معیا رکچھ اور ہیں۔ اگر ہم انہیں دلیل اور ٹھنڈے دل سے ایک بار سمجھائیں تو بہتر رہے گا۔ ورنہ اس طرح تو تشدد برائے تشدد شروع ہو جائے گا۔
 

زیک

مسافر
عامر کا ایک معمولی کارنامہ

شارق مستقیم نے کہا:
عامر نے آئیندہ کے لیے توہینِ رسالت ﷺ کرنے والے بدمعاشوں پر واضح کردیا ہے کہ اس طرح کی کوئی قبیح حرکت ان کے لیے کتنی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہ عامر کا ایک معمولی کارنامہ ہے۔

اس سے زیادہ ان پر شاید یہ واضح ہوا ہے کہ مسلمان کتنے جذباتی، بیوقوف، fanatic وغیرہ وغیرہ ہو سکتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
عامر کا ایک معمولی کارنامہ

شارق مستقیم نے کہا:
عامر نے آئیندہ کے لیے توہینِ رسالت ﷺ کرنے والے بدمعاشوں پر واضح کردیا ہے کہ اس طرح کی کوئی قبیح حرکت ان کے لیے کتنی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہ عامر کا ایک معمولی کارنامہ ہے۔
دیکھیں عامر نے اپنی اس موت سے کیا پیغام دیا؟ جس کو مارنے گیا وہ ابھی بھی زندہ ہے۔ اس ایڈیٹر کی تعریفیں ہو رہی ہیں، اور عامرکو کیا ملا؟ اگروہ اس سلسلے میں ایڈیٹر سے مل کر ٹھنڈے دل سے بات کرتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ اسے مسلمان بنانے میں بھی کامیاب ہو جاتا؟
یہ صرف ایک مثال ہے ممکنات کی۔ ہونے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
 

سیفی

محفلین
قیصرانی بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ایڈیٹر کی تعریفیں ہوں یا تنقید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یورپ کو پیغام مل چکا ہے کہ ہم اپنے بچے کٹوانے پر چپ رہ سکتے ہیں۔۔۔۔ہم لاکھوں مسلمان افغانستان اور عراق میں ذبح کروانے پر بھی خاموش رہ سکتے ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کوئی انگلی اٹھائے تو ہم مصلحتوں کی چادر اتار پھینکتے ہیں۔۔۔۔۔۔

جنگ کے ایک بہت اچھے لبرل کالم نویس “جاوید چودھری“ کا کالم بھی پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ مقام ہے جہاں لبرل ازم اور ملاازم ایک ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادارتی صفحہ


عشق کا مقام,,,,,زیرو پوائنٹ…جاوید چودھری


عامر چیمہ کون تھا‘وہ جرمنی میں کیا کررہا تھا‘ وہ دن میں مذہب کا کتنا مطالعہ کرتا تھا‘ اس کی دماغی حالت کیا تھی‘ برلن کی پولیس نے اسے کیوں گرفتار کیا‘ اسے جرمنی کے بدنام ترین قید خانے موآبٹ جیل میں کیوں رکھا گیا‘ اس نے تین مئی 2006ء کو خود کشی کی یاوہ حقیقتاً جیل حکام کے ہاتھوں شہید ہوا‘ وہ غازی ہے‘ شہید ہے یا پھرمقتول‘ آئیے ہم یہ سارے سوال آنے والے وقت پر چھوڑ دیں‘ ہم ان کے جواب وقت کی تحقیق‘وقت کے وکیل اوروقت کی عدالت کے حوالے کردیں‘ہم اس کا فیصلہ مغرب کے ایماندار سکالرزاور محققین پر چھوڑدیں اورانتظار کریں آنے والا وقت عامر چیمہ کو کیا قرار دیتا ہے‘ وہ عامر چیمہ کے مقدمے کا کیا فیصلہ سناتا ہے لیکن ہم اس ریفرنڈم کو وقت کے حوالے نہیں کرسکتے جو مئی کے مہینے میں ہوا اوراس نے پوری دنیا کے ذہنوں کا دھارا بدل دیا‘ ہم اس ریفرنڈم کا فیصلہ ابھی اوراسی وقت سنائیں گے ‘یہ ریفرنڈم عامر چیمہ کے انتقال سے برپا ہوا اوراس نے پوری دنیا کے سیکولر ذہنوں کو جڑوں سے ہلادیا‘ اس نے دنیا پر عوام کے اصل جذبات آشکار کردیئے اوراس نے تہذیبوں کے تمام تصادم کھول کر رکھ دیئے۔ اس ریفرنڈم کا آغاز راولپنڈی کی ایک متوسط بستی ڈھوک کشمیریاں کی گلی نمبر 18سے ہوتا ہے‘ یہ ریفرنڈم اس کے بعد وزیرآباد کے قصبے ساروکی میں جاتا ہے اوراس کے بعد اس ریفرنڈم کا سلسلہ پورے عالم اسلام میں پھیل جاتا ہے اوراس کے بعدکرہ ارض پر بکھرے 62اسلامی ممالک کے ایک ارب 47کروڑ 62 لاکھ33ہزار4سو 70مسلمانوں تک نہ صرف عامر چیمہ کا نام پہنچتا ہے بلکہ وہ مسلمان اسے اپنے خیالات اورخواہشات کا ترجمان سمجھنے لگتے ہیں‘ میں اپنے خیالات اوررویوں میں ایک لبرل شخص ہوں‘ میری سوچ صدربش اورجناب پرویز مشرف سے ملتی جلتی ہے‘ میں بھی یہ سمجھتا ہوں مسلمانوں کو اعتدال پسند اورنرم ہونا چاہیے‘ میں بھی یہ یقین رکھتا ہوں انسانوں کے دل تلوار سے فتح نہیں کیے جاسکتے ‘لوگوں کو بدلنے کیلئے فوج اورجرنیلوں کی نہیں بلکہ اولیاء اورصوفیاء کی ضرورت ہوتی ہے‘ میں بھی یہ خیال کرتاہوں آپ جسم سے بم باندھ کر لوگوں کے جذبات اورخیالات کے دھارے نہیں بدل سکتے‘ میرا بھی یہی خیال ہے آج کے دور میں ایک دوسو لوگوں کے لشکر سے مغرب کی ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا‘ میں بھی یہ سمجھتا ہوں سر درد اور بخار کی ایک معمولی دوا ایجاد کرنے والا شخص نعرے لگانے اورجلوس نکالنے والے دس لاکھ لوگوں سے بہتر ہے لیکن جب عامر چیمہ کے ریفرنڈم کی باری آتی ہے تو میرے تمام لبرل خیالات جواب دے جاتے ہیں‘ میرے سارے فلسفوں کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اورمیں بھی دنیا کو حیرت سے دیکھنے لگتا ہوں۔ یہ ریفرنڈم کیا تھا اوراس کا آغاز کیسے ہوا؟عامر چیمہ نے تین مئی کو موآبٹ جیل میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آنکھیں بند کرلیں‘ چار مئی کے پاکستانی اخبارات میں عامر چیمہ کے انتقال کی چھوٹی سی خبر شائع ہوئی‘ اس کے بعد جوں جوں دن گزرتے گئے عامر چیمہ کا نام اورخبر بڑی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 13 مئی کو جب وزیرآباد کے قصبے ساروکی میں عامر چیمہ کا جنازہ ہوا تو عامر چیمہ نہ صرف پاکستان کے سارے میڈیا کی ہیڈ لائن تھا بلکہ دنیا بھر کے اخبارات‘ ریڈیوز اورٹیلی ویژن اس کے جنازے کی جھلکیاں دکھارہے تھے‘ عامر چیمہ کا جنازہ پنجاب کے پانچ بڑے جنازوں میں سے ایک تھا‘ گوجرانوالہ ڈویژن کی تاریخ میں پہلی بار کسی جگہ دو لاکھ لوگ اکٹھے ہوئے تھے‘ یہ ایک ایسے شخص کا جنازہ تھا جو تین مئی 2006ء تک ایک عام اورگمنام شخص تھا‘ اس گمنام اورعام شخص کو کس بات‘ کس ادا نے خاص بنا دیا‘ یہ ادا ‘یہ بات بنیادی طورپر اسلامی معاشرے اورمسلمانوں کی اساس ہے‘ یہ وہ خون ہے جو ہر مسلمان کی رگوں میں دوڑتا ہے‘ یہ محبت کا وہ دریا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا جب تک یہ لوگ آپ سے اپنی آل اولاد اورزمین جائیداد سے بڑھ کر محبت نہیں کرتے یہ مسلمان نہیں ہوسکتے‘ یہ وہ خیال‘ یہ وہ احساس ہے جو ہر مسلمان کے اندر روح کی گہرائی تک پیوست ہے‘ یہ وہ جذبہ ہے جو ایک مسلمان کو دوسرے شخص سے جدا کرتا ہے‘ یہ احساس‘ یہ جذبہ رسول اللہ کی محبت ہے اوریہ محبت جس دل پر دستک دے دیتی ہے‘ وہ شخص گمنامی سے نکل کر عامر چیمہ بن جاتا ہے‘ وہ غازی علم دین شہید ہوجاتا ہے‘ علامہ اقبال نے کہا تھا میں نے غازی علم دین شہید کے رشک میں جتنے آنسو بہائے ہیں وہ میری بخشش کیلئے کافی ہیں عامر چیمہ کا جنازہ اس محبت کا ایک چھوٹا سا ریفرنڈم تھا۔ ساروکی کے اس ریفرنڈم سے پہلے ایک ریفرنڈم گلی نمبر 18میں ہوا‘اس ریفرنڈم نے اس غیر معروف اورپسماندہ گلی کا مقدر بدل دیا‘ رسول اللہ کی محبت میں ڈوبے ہزاروں عقیدت مندوں نے اس گلی کو اپنا مرکز بنالیا‘ لوگ اس گلی میں قدم رکھنے سے پہلے وضو کرتے تھے‘ سفید کپڑے پہنتے تھے اورخوشبو لگاتے تھے‘لوگ با ادب ہوکر عامر چیمہ کے والد کے ہاتھ چومتے تھے ‘3مئی سے 15 مئی تک 12 دنوں میں ایک لاکھ لوگوں نے اس بوڑھے پروفیسر کے ہاتھ چومے‘ یہ سعادت اس ملک کے شاید ہی کسی شخص کو حاصل ہوئی ہو‘ لوگوں نے گلی نمبر 18 میں پھولوں اورگلدستوں کا انبار لگا دیا‘ عامر چیمہ کے گھر کے سامنے لوگوں نے اتنے پھول رکھے کہ جو بھی شخص اس گلی میں داخل ہوتا تھا اس کا پورا جسم مہکنے لگتا تھا‘ لوگوں کی اس آمد ورفت سے متاثر ہوکر پولیس کو گلی نمبر 18 میں باقاعدہ چوکی بنانا پڑ گئی‘ لوگ آتے تھے‘ عامر چیمہ کے گیٹ کے سامنے سرجھکا کر کھڑے ہوجاتے تھے اورگیٹ کو سلام کرکے واپس چلے جاتے تھے‘ عقیدت کی اس کشش میں اتنی شدت تھی کہ لبرل اوراعتدال پسند حکومت کے ارکان بھی خود کو گلی نمبر 18 سے دور نہ رکھ سکے‘ ان بارہ دنوں میں پنجاب اوروفاق کے 23 وزراء عامر چیمہ کے گھر گئے اورانہوں نے شہید کے والد کے ہاتھ چومے‘ ضلع راولپنڈی کی ساری انتظامیہ بار بار اس کے گھر گئی‘اخبارات میں عامر چیمہ کی تصویریں‘ اس کے لواحقین اور اس کے چاہنے والوں کے بیانات منوں کے حساب سے شائع ہوئے‘ عامر چیمہ نے مئی کے مہینے میں ریکارڈ کوریج حاصل کی‘ آج پاکستان کا بچہ بچہ نہ صرف اس کے نام سے واقف ہے بلکہ وہ اس پر فخر کرتا ہے‘ یہ کیا ہے؟ یہ مغرب اورمغربی سوچ کے خلاف ریفرنڈم ہے‘ یہ ریفرنڈم ثابت کرتا ہے مسلمان اورمغربی انسان کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ جسے مغرب آزادی اظہار کہتا ہے اسے مسلمان نہ صرف توہین سمجھتے ہیں بلکہ وہ توہین کا یہ داغ دھونے کیلئے جان تک دے دیتے ہیں‘ مجھے ایک بار ایک مغربی سکالر نے کہا ”ہمیں سمجھ نہیں آتی ایک مسلمان مغرب میں پیدا ہوتا ہے ‘اس کا سارا لائف سٹائل مغربی ہوتا ہے‘ اس میں سارے شرعی عیب بھی موجود ہوتے ہیں لیکن جب اسلام اوررسول اللہ کا ذکر آتا ہے تو اس مغربی مسلمان اورکٹڑ مولوی کے رد عمل میں کوئی فرق نہیں ہوتا؟ کیوں“ میں نے عرض کیا ” یہ وہ بنیادی بات ہے جسے مغرب کبھی نہیں سمجھ سکتا‘ یہ دلوں کے سودے ہوتے ہیں اوردلوں کے سودے کبھی بیوپاری کی سمجھ میں نہیں آسکتے‘نبی اکرم کی ذات ایمان کی وہ حساس رگ ہوتی ہے جو برف سے بنے مسلمان کو بھی آگ کا گولہ بنا دیتی ہے‘ مسلمان دنیا کے ہر مسئلے پر سمجھوتہ کرلیتا ہے لیکن وہ رسول اللہ کی ذات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا‘ عشق رسول وہ مقام ہے جہاں سے مومن کی زندگی کا آغاز ہوتاہے‘ جہاں موت سے بڑی سعادت اورفنا سے بڑی کوئی زندگی نہیں ہوتی‘ جہاں پہنچ کر انسان مرنے کے بعد زندہ ہوتا ہے“میں نے اس سے کہا ”دنیا میں لوگ مرنے کے بعد گمنام ہوجاتے ہیں لیکن عشق رسول میں آنے والی موت انسان کو ابد تک زندہ کردیتی ہے‘ یہ ایک ایسی آگ ہے جو انسان کو جلاتی نہیں‘ اسے بناتی ہے‘ اسے دوبارہ زندہ کرتی ہے اورتم اورتمہارے لوگ اس کیفیت‘اس سرور کو کبھی نہیں سمجھ سکتے‘ تم لوگوں نے زندگی میں محبت رسول کا ذائقہ چکھا ہی نہیں‘ تمہیں کیا پتہ رسول اللہ سے محبت کرنے والے شخص کے دل سے کون سی روشنی نکلتی ہے اوریہ روشنی کس طرح موت کے خوف کو مالٹے کے چھلکے کی طرح اتار کر دور پھینک دیتی ہے‘ یہ اسے سارے دکھوں سے آزاد کردیتی ہے“ ہم سب لوگ عامر چیمہ جیسے لوگوں کا مقام نہیں سمجھ سکتے۔

<a href="http://209.41.165.188/urdu/archive/details.asp?nid=110742">زیرو
پوائنٹ ۔۔۔ جاوید چودھری</a>
 
Top