عامر لیاقت، پابندی کی زد میں

فرقان احمد

محفلین
dr_amir.jpg

اسلام آباد ہائی کورٹ نے معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پر ٹی وی یا ریڈیو کے کسی بھی پروگرام میں شمولیت پر تاحکم ثانی پابندی عائد کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے یہ حکم عامر لیاقت کے خلاف دائر ایک درخواست پر سماعت کے بعد بدھ کو دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ’ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کسی ٹی وی ٹاک شو، ریڈیو پروگرام، حتیٰ کہ کسی اشتہار میں بھی ٹی وی پر نہیں آ سکتے۔‘

عدالت نے اپنے حکم میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، پیمرا کے حکام سے بھی کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کی طرف سے یا ان کی ایما پر اس عدالتی حکم کے بارے میں کوئی بھی مواد سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہو۔ عدالتی احکامات کے بعد پیمرا نے بھی اپنے حکم نامے میں پاکستانی نجی ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ عامر لیاقت حسین کو آن ایئر نہ کریں۔ خیال رہے کہ عامر لیاقت نے گذشتہ روز ہی سماجی رابطوں کی ویٹ سائٹ ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ وہ اب نجی ٹی وی چینل ’24‘ سے جلد پروگرام کریں گے۔عدالت میں دی گئی درخواست میں درخواست گزار شعیب رزاق نے موقف اختیار کیا تھا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ٹی وی ٹاک شوز میں مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے تلوار اور ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سوشل میڈیا کو بھی ذاتی مفاد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر عامر لیاقت حسین الیکٹرانک میڈیا کو نفرت انگیز تقاریر کے لیے استعمال کرتے ہیں اس لیے ان پر عمر بھر کے لیے پابندی عائد کی جائے۔‘

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین مذہبی سکالر نہ ہونے کے باوجود فتوے جاری کرتے ہیں جو کہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ بادی النظر میں درخِواست گزار کی طرف سے اُٹھائے گئے نکات درست ہیں۔ عدالت نے اس ضمن میں وفاقی حکومت اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی سے دس جنوری کو جواب طلب کیا ہے۔

بی بی سی اردو نیوز
 

زیک

مسافر
اگرچہ کافی جاہل آدمی ہے اور اسے میڈیا سے نکال دیا جانا چاہیئے لیکن عدالت یا حکومت کی طرف سے پابندی غلط ہے۔
 
کسی بھی قوم یا فرقے کے مذہبی جذبات بھڑکانا ، قانونی طور پر جرم ہونا چاہیے۔

مسلمان کو کیسا لگا جب ہندو اکثریت نے بابری مسجد گرادی؟

اس طرح جذبات بھڑکا کر ، لوگ سیاسی فائدے حاصل کرتے ہیں۔
 
یہ کہ ہم کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فتوے بازی کیا ہےِ اور اس کا حق کس کو ہے۔

کئی بادشاہتوںمیں قانون ساز یا فتوے بازی کا حق ، صرف اور صرف کچھ علماء کو تھا، ہندوستان کی مغلیہ حکومت کے دور میں کچھ ایسے مدارس وجود پذیر ہوئے جو طالب علموں کو مفتی کی ڈگری دیا کرتے تھے تاکہ یہ لوگ قاضی بن سکیں اور مذہبی قانون سے بنیادی واقفیت ہو۔ پھر روایت و رواج پڑ گیا کہ مفتی کی ڈگری والے ہر شخص کو قانون سازی کا ھق ہو گیا۔ اس لئے کہ باقی لوگ ان پڑھ تھے، مذہب سے سنی سنائی واقفیت تھی۔

آج پاکستان میں پاکستان کے آئین کے مطابق فتوی دینے ، یعنی قانون بنانے کا حق صرف ااور صرف ہاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس کو ہے۔ چاہے یہ شادی بیاہ کا معمال ہو، طلاق کا حق ہو یا ہندوستان اور افغانستان سے تعلقات کا معاملہ ہو ، قانون سازی یا فتوے بازی صرف اس ایک باڈی کا حق ہے۔

آپ دوسرے افراد سے ان کا مشورہ لے سکتے ہیں لیکن کسی بھی عدالت میں فیصلے صرف اور صرف پاکستان کے فتوے باز یا قانون ساز اسمبلی کے قوانین کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں۔ لہذا کسی قسم کے فتوے کی حیثیت صرف مشورے کی ہے نا کہ کسی قانون کی۔ بہت سے لوگ اپنے نظریات ، خیالات، مذہبیات کے تکے دوسرے افراد پر لاگو کرتے ہیں اور چسپاں کرتے ہیں اور ان کو مجبور کرتے ہیں کہک ان کے فرقے کی بات مانی جائے۔ لیکن یہ میرا خیال نہیۃں کہ پاکستان کے فتوے یا قانون صرف اور صرف پاکستانی اسمبلی کے پاس کئے ہوئے قوانین ہیں۔ ملاء ٹولہ اپنے اس حق کے جانے پر بہت افسوس و ملال کرتا ہے اور طرح طرح کے حیلے بہانوں سے اپنی روایات اور رواج کو زندہ رکھنے کے لئے اسلامی نظام کا نعرہ لگاتا رہتا ہے۔

جبکہ اصل اسلامی نظام یہ ہے کہ قانون سازی باہمی مشورے سے کی جائے اور اس قانون سازی میں مرد و عورت مساوی طور پر شریک ہوں۔ پاکستان کا آئین اللہ تعالی کے حکم کی بنیاد پر تمام پاکستان سے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ہی فتے بازی یا قانون سازی کا حق دیتا ہے۔


ریفرنس:
باہمی مشورے سے فیصلے کا حکم
42:38
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

قانون سازی (نیکی کا حکم اور بدی کی روک تھام کے لئے قانون سازی) کے لئے ایک جماعت کا حکم
3:104
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

قانون سازی کے لئے مردوں اور عورتوں کی شمولیت کا حکم
9:71
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَ۔ئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

نیک نمائندے چننا آپ کا کام ہے۔ اگر آپ غلطی کریں گے تو سزا بھی آپ کو ہی ملے گی ۔

والسلام
 
اگرچہ کافی جاہل آدمی ہے اور اسے میڈیا سے نکال دیا جانا چاہیئے لیکن عدالت یا حکومت کی طرف سے پابندی غلط ہے۔
جہالت کی صف میں یہ اکیلا نہیں ہے۔ اگر اسے پیمانہ بنا کر پابندیاں لگنا شروع ہو گئیں تو پاکستانی اینکر نظر ہی نہیں آئیں گے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اگرچہ کافی جاہل آدمی ہے اور اسے میڈیا سے نکال دیا جانا چاہیئے لیکن عدالت یا حکومت کی طرف سے پابندی غلط ہے۔
بہرحال یہ ایک اچھی خبر تو ہے ناں!
میرے دل میں تو ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔حالانکہ کافی عرصہ سے میں ٹی وی نہیں دیکھ رہی اور مجھے موصوف کی سرگرمیوں کا کوئی علم نہیں لیکن پہلے جو کبھی کبھی تھوڑا بہت جھلکیوں میں دیکھا۔۔۔۔وہ بھی کافی عبرت لئے تھا۔
آج کی صبح بھی خوبصورت آغاز لئے ہوئے ہے۔ فرقان !شکریہ!
 
Top