ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
عمر بھر میں نے محبت کی کمائی کے سوا
نہ کیا کچھ بھی ترے در کی گدائی کے سوا
جب کبھی دیدۂ احساس نے دیکھا ہے کہیں
کچھ نہیں پایا تری جلوہ نمائی کے سوا
اور کیا کرتا میں رقاصۂ ہستی تجھے نذر
پاس کچھ تھا ہی نہیں نغمہ سرائی کے سوا
چاہے جس طور چلے دشتِ تمنا میں کوئی
حاصلِ کار نہیں آبلہ پائی کے سوا
اپنے کشکولِ محبت سے نہیں عار مجھے
ممکن اِس میں نہیں کچھ غم کی سمائی کے سوا
سرِ قرطاس رواں ہو تو گرہ کھولے کوئی
زیبِ خامہ نہیں کچھ عقدہ کشائی کے سوا
عشق الزام به لب اور مرے پاس ظہیؔر
کچھ صفائی نہیں اس دل کی صفائی کے سوا
۲۰۲۰ ء