طویل نظم- شکوہ بنامِ محبوب

میں نے ہر سانس کو تیری ہی امانت سمجھا
اس امانت میں خیانت بھی تو کر سکتا تھا
دل میں اک تیری ہی چاہت کو بسائے رکھا
میں کسی اور کی چاہت بھی تو کر سکتا تھا

تو سمجھتا ہے تجھے بھول چکا ہوں میں بھی
تیری خوش فہمی، مری جان!مبارک ہو تجھے
جس کو لے کر تُو ہواؤں میں اُڑا پھرتا ہے
چاہتِ نوَ کا وہ پیمان مبارک ہو تجھے

تجھ کو لاحق ہو کبھی عارضہءِ ہجر و فراق
چھوڑ جائے جو تِرا یار تجھے، تو پوچھوں
میری حالت پہ یوں دل کھول کے ہنسنے والے
تجھ کو بھی پیار ہواللہ کرے، تو پوچھوں

تیری ہر ایک نشانی تو جلا ڈالی ہے
تیری یادوں کو مگر دل سے نکالوں کیسے؟
جتنا بہلاؤں اسے اور تڑپتا جائے
مجھ کو بتلا دے میں اس دل کو سنبھالوں کیسے؟

تُو نہیں ہے تو میسر ہے بہت کچھ لیکن
پھر بھی بے نور ہے بے کیف ہر اک منظر ہے
کیا کہوں دل میں چھپا رکھے ہیں ارماں کتنے؟
تُو نہ سمجھے گا وہ شورش جو مرے اندر ہے

پیار کو کھیل سمجھتے ہو تو سمجھو لیکن
ہاں مرے دل کو کھلونا تو نہ سمجھا ہوتا
کھیلنا ہی تھا چلو شوق سے کھیلے ہوتے
اُوب جانے پہ کھلونا تو نہ توڑا ہوتا

پہلے پہلے ہی مروت نہ جتائی ہوتی
بھول جانا تھا تو پھر دھیان میں لائے کیوں تھے؟
راہ مشکل تھی تو آغازِ سفر مت کرتے
لوٹ جانا تھا تو بتلاؤ کہ آئے کیوں تھے؟

میں نے سوچا تھا مرے دل کا جہاں مہکے گا
اسلیئے تجھ سے ترے قرب کی ضیاء مانگی تھی
تُو نے بدلے میں مجھے درد و الم دے ڈالے
کیا خطا کی تھی اگر تجھ سے وفا مانگی تھی ؟

دل کے زخموں کا کبھی تُو نے مداوا نہ کیا
دل کا ہر زخم کئی بار دکھایا تجھ کو
کاٹ کھاتا ہے مجھے درد بتایا تجھ کو
پھر بھی اے دشمنِ جاں رحم نہ آیا تجھ کو

آہ و زاری سے مری دل نہ پسیجا تیرا
میں تو سنتا تھا کہ پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
اتنی جلدی تو نہ موسم بھی بدلتے دیکھے
جتنی جلدی سے یہاں لوگ بدل جاتے ہیں

(ملک عدنان احمد)
 
Top