طبیعت آج پھر گھبرا رہی ہے

سید ذیشان

محفلین
مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔:laugh:

اصل میں اس غزل کا مطلع اس طرح تھا:

طبیعت آج پھر گھبرا رہی ہے
مِری بیگم یہاں پر آ رہی ہے

لیکن اس کو تبدیل کر دیا۔ اب جب آپ نے ذکر چھیڑ دیا ہے تو سچ پر اور پردہ نہیں رکھ سکتا :D
 
اصل میں اس غزل کا مطلع اس طرح تھا:

طبیعت آج پھر گھبرا رہی ہے
میری بیگم یہاں پر آ رہی ہے

لیکن اس کو تبدیل کر دیا۔ اب جب آپ نے ذکر چھیڑ دیا ہے تو سچ پر اور پردہ نہیں رکھ سکتا :D
مطلب بیگم کو خنجر سے تشبہہ دے دی آپ نے۔۔۔:p
یہ تو کمال کر دیا۔۔۔:D
 
اسی پر ایک اور کوشش:

یہ حریت روایت کے رسن میں
خِراماں میری جانب آ رہی ہے

یا

ہے حریت روایت کے رسن میں
سنہرے خواب کیوں دکھلا رہی ہے

مجھے حسان خان کی یہ رائے بہتر لگی:
یہ حریت روایت کے رسن میں​
سنہرے خواب کیوں دکھلا رہی ہے​
۔۔۔۔۔۔۔۔
 
لفظیات کے حوالے سے ایک باریک سی بات ہے، احباب کے علم میں رہی ہو گی۔

ح ر ر ۔۔۔۔
عربی لغت کے مطابق
حُرِیَّت (حُ رِی یَت)، حَرُورَت (حَ رُو رَت)، حَرُورَیَّت (حَ رُو رِی یَت) کے معانی ہیں ’’آزادی‘‘
حُر (رائے مشدد کے ساتھ): آزاد مرد، (مؤنث: حُرَّہ)، جمع: اَحرار
اور
حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) خالص ہونا، حُرِّیَّت القوم (قوم کے اَشراف)۔ فلان مِن حُرِّیَّتِ قومِہٖ‘‘ فلان شخص اپنی قوم کے اشراف میں سے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(مصباح اللغات)

اردو میں حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) :اسم، مؤنث: کے معانی آزادی، خودمختاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(فرہنگِ تلفظ)

ان دونوں کی رعایت سے:
حُرِیَّت (حُ رِی یَت)، حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) کو ’’آزادی‘‘ کے معانی میں درست مانتا ہوں۔
حُرِّیَت (حُر رِ یَت) البتہ محلِ نظر ہے۔

زیرِ نظر شعر میں لفظ حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) اپنی پوری لفظی اور معنوی صحت کے ساتھ آیا ہے،
لہٰذا اس پر کوئی اعتراض بنتا نہیں ہے۔ ذاتی پسند ناپسند بالکل مختلف بات ہے۔

جناب الف عین، جناب zeesh ، جناب کاشف عمران، جناب حسان خان
 
جیسا کہ ابتدا ہی میں ذکر کیا تھا کہ یہ (سراسر) میری ذاتی رائے ہے۔ لہٰذا مثال کے باب میں معذرت خواہ ہوں۔ آج سے کم و بیش پندرہ برس قبل میرے ایک استاد نے جو ہمیں عربی علمِ صرف پڑھاتے تھے بتایا تھا کہ ایک عربی محاورے کے مطابق مولوی اور صَرفی (علمِ صرف کا ماہر) کبھی اچھا شعر نہیں کہہ سکتے۔ میں خود بھی اس بات کا مشاہدہ کر چکا تھا۔ میں نے اس کے اسباب و علل پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ دراصل وہ لوگ اکثر شعریت کو باطن نہیں بلکہ خارج میں تلاش کرتے ہیں لہٰذا نامراد رہتے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن میں شعریت کی تلاش تقطیع دانوں اور زبان و بیا ن کے علماء کی کتابوں کی بجائے امامانِ شعر و سخن کے کلام میں کرتا ہوں۔ جو شعر کیٹس 20 برس کی عمر میں کہہ گیا عظیم انگریزی دان ڈاکٹر جانسن ہزار برس کی عمر میں بھی نہ کہہ پاتا۔​

جناب @کاشف کامران کا یہ ارشاد متعدد نکات پر توجہ کا طالب ہے۔

طوالت سے گریز کرتے ہوئے، صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ: شعریت اور زبان؛ شعر میں ان دونوں عناصر کو اعتبار دینا ہو گا۔ کسی ایک کو نظر انداز کر دیجئے، شعر اپنے منصب سے گر گیا۔ (دیگر فنیات یہاں مذکور نہیں ہیں، ان کی اپنی اہمیت ہے ان سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا)۔ کیٹس اور ڈاکٹر جانسن کا موازنہ شاید موزون نہیں، کہ ایک شاعر ہے اور دوسرا زبان دان۔ ہر زبان دان تو شاعر نہیں ہوتا، جب کہ ہر شاعر کو زبان میں کم از کم اتنا مضبوط ضرور ہونا چاہئے کہ وہ اس میں شعر کہہ سکے۔ اسی طرح خارج کی اپنی اہمیت ہے اور باطن کی اپنی ہے۔ ترجیحات اپنی اپنی!!۔

خوش رہئے گا۔


جناب الف عین، جناب zeesh ، جناب محمد وارث، جناب حسان خان
 
آپ کا اپنا کہنا ہے:
محمد اسامہ سَرسَری​
بحر کے اعتبار سے "غزل" بر وزنِ فصل ہی پڑھا جا سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے غلط ہے!​
یہ بات بھی تو زبان کی ہے نا!
’’غَزْل‘‘ زائے مجزوم کے ساتھ: سُوت کی اَٹّی۔ بہت معروف ہے، تاہم اس کو لفظ ’’غَزَل‘‘ (صنفِ شعر) کا مترادف نہیں کہا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا تھیسس یہ ہے کہ :
شعر میں آپ کو متعدد معاملات میں ایک مرکب توازن قائم کرنا ہوتا ہے، اس میں آپ جتنے کامیاب ہیں آپ کا شعر بھی اتنا کامیاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ذاتی پسند ناپسند بالکل مختلف بات ہے۔​

یہ جملہ میں نے اوپر ایک مقام پہ لکھا۔ اس کو وسیع تر تناظر میں دیکھئے اور ترجیح یا انتخاب کے معانی میں لیجئے تو بات یوں بنتی ہے کہ:
۔۔ الفاظ یا تراکیب جنہیں اپنی تحریر میں لانا مجھے یا آپ کو ’’اچھا لگتا ہے‘‘۔ عشقِ مجازی اور محبت کے لئے میرے ایک محترم ادبی بزرگ لفظ ’’تعلقِ خاطر‘‘ بولا کرتے ہیں۔
۔۔ جملے میں الفاظ، محاورات، ضرب الامثال وغیرہ کا استعمال میں اپنے ’’انداز‘‘ میں کرتا ہوں آپ اپنے انداز میں کرتے ہیں۔
۔۔ مصرعے میں لفظیات کا چناؤ اور ان کی نشست، یہاں بھی میرا اور آپ کا ’’طریقہ‘‘ مختلف ہو سکتا ہے۔
۔۔ فارسیت، عربیت اور مقامیت کے علاوہ علاقائی لہجوں اور الفاظ کو کام میں لانے یا نہ لانے کا ’’چناؤ‘‘ بھی انفرادی ترجیحات میں شامل ہے۔
۔۔ جملے کو گفتگو، اور مصرعے کو نثر کے قریب تر رکھنے کی ’’کوشش‘‘، کوئی کرتا ہے کوئی نہیں کرتا۔
۔۔ کوئی لمبے لمبے جملے یا طویل بحور کو پسند کرتا ہے، کوئی چھوٹے جملے لکھتا ہے یا نسبتاً مختصر بحور میں ’’لکھنا پسند کرتا‘‘ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ یہ طویل فہرست بنتی ہے، اس میں مزاج بھی شامل کر لیجئے۔ زبان کی صحت، فکری رویہ، موضوع یا سرنامہ، نفسِ مضمون وغیرہ کی اہمیت بہر حال مسلمہ ہے۔

میرا اندازہ ہے کہ یہ عوامل یا ترجیحات ہیں جن کا مشاہدہ اور تقابل کر کے تنقیدی ذہن والا ایک قاری کہتا ہے کہ: محمد یعقوب آسی، محمد وارث، الف عین، کاشف عمران، حسان خان میں فلاں فلاں فلاں فرق ہے، یا یہ لوگ ان مقامات پر الگ پہچانے جاتے ہیں یا نہیں پہچانے جاتے۔

یہی شے ’’اسلوب‘‘ ہے شاید؟ ۔۔ اہل الرائے کیا فرماتے ہیں؟۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عالی جناب اسلوب چیزے دیگر است
ملاحظہ فرمائیں:
الأسلوب الأدبي الأسلوب هو الطريقة التي يسلكها الأديب، للتعبير عما يجول في ذهنه من أفكار ومعان ،وما يختلج في قلبه من مشاعر وأحاسيس .
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جناب @کاشف کامران کا یہ ارشاد متعدد نکات پر توجہ کا طالب ہے۔

طوالت سے گریز کرتے ہوئے، صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ: شعریت اور زبان؛ شعر میں ان دونوں عناصر کو اعتبار دینا ہو گا۔ کسی ایک کو نظر انداز کر دیجئے، شعر اپنے منصب سے گر گیا۔ (دیگر فنیات یہاں مذکور نہیں ہیں، ان کی اپنی اہمیت ہے ان سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا)۔ کیٹس اور ڈاکٹر جانسن کا موازنہ شاید موزون نہیں، کہ ایک شاعر ہے اور دوسرا زبان دان۔ ہر زبان دان تو شاعر نہیں ہوتا، جب کہ ہر شاعر کو زبان میں کم از کم اتنا مضبوط ضرور ہونا چاہئے کہ وہ اس میں شعر کہہ سکے۔ اسی طرح خارج کی اپنی اہمیت ہے اور باطن کی اپنی ہے۔ ترجیحات اپنی اپنی!!۔

خوش رہئے گا۔


جناب الف عین، جناب zeesh ، جناب محمد وارث، جناب حسان خان
آپ نے گویا کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ چھوٹی سی تصحیح کی اجازت چاہوں گا۔ میں نے کیٹس اور ڈاکٹر جانسن کا موازنہ بطورِ شاعر کیا ہے۔ ڈاکٹر جانسن تمام عمر شعر کہتے رہے مگر کبھی کیٹس کی گرد کو بھی نہ پا سکے۔ یہ امر فی ذاتہٖ میرے موقف کے ایک حصے کی تائید ہے کہ آج ڈاکٹر جانسن کی شاعری،ان کی تمام تر علمی حیثیت اور عمر بھر کی شعری مشقت کے با وجود، کچھ مقام ہی نہیں رکھتی۔
 
عمدہ بات کی آپ نے جناب کاشف عمران صاحب ۔
فرق تو ہے نا، صاحب۔ آپ اپنے اردو شعراء کو لے لیجئے، فرق ہوتا ہے، شاعر شاعر میں فرق ہوتا ہے!

یہ فقیر تو ابھی دشتِ اردو میں بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کی حدیں کہاں کہاں تک ہیں اور کون سا نخلستان کتنا بڑا ہے۔
انگریزی ادب میں چند ایک نظموں کے مطالعے سے آگے نہیں بڑھ سکا، سو وہاں آپ کے مؤقف پر سکوتِ تائیدی!! ۔۔


اعتذار:
معذرت خواہ ہوں کہ پہلے بھی کاشف عمران کی بجائے کاشف کامران لکھ گیا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
لفظیات کے حوالے سے ایک باریک سی بات ہے، احباب کے علم میں رہی ہو گی۔

ح ر ر ۔۔۔ ۔
عربی لغت کے مطابق
حُرِیَّت (حُ رِی یَت)، حَرُورَت (حَ رُو رَت)، حَرُورَیَّت (حَ رُو رِی یَت) کے معانی ہیں ’’آزادی‘‘
حُر (رائے مشدد کے ساتھ): آزاد مرد، (مؤنث: حُرَّہ)، جمع: اَحرار
اور
حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) خالص ہونا، حُرِّیَّت القوم (قوم کے اَشراف)۔ فلان مِن حُرِّیَّتِ قومِہٖ‘‘ فلان شخص اپنی قوم کے اشراف میں سے ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔(مصباح اللغات)

اردو میں حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) :اسم، مؤنث: کے معانی آزادی، خودمختاری
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔(فرہنگِ تلفظ)

ان دونوں کی رعایت سے:
حُرِیَّت (حُ رِی یَت)، حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) کو ’’آزادی‘‘ کے معانی میں درست مانتا ہوں۔
حُرِّیَت (حُر رِ یَت) البتہ محلِ نظر ہے۔

زیرِ نظر شعر میں لفظ حُرِّیَّت (حُر رِی یَت) اپنی پوری لفظی اور معنوی صحت کے ساتھ آیا ہے،
لہٰذا اس پر کوئی اعتراض بنتا نہیں ہے۔ ذاتی پسند ناپسند بالکل مختلف بات ہے۔

جناب الف عین، جناب zeesh ، جناب کاشف عمران، جناب حسان خان
ایسے شاندار معلوماتی پیغام کانہایت شکریہ۔

میری ڈھٹائی کہہ لیں کہ "حُرِّیَّت" کو اس کے موجودہ ہجے کے مطا بق اردو میں ادا کرنا میں قطعی غیر مناسب سمجھوں گا۔خصوصًا جب اضافت بھی موجود نہ ہو(جوایک اضافی حرکت کی وجہ سے کئی مقاما ت پر ثقالت کو کم کر دیتی ہے) ۔کئی برس تجوید کی مشق کرنے کے سبب مجھے عربی لہجے پر مکمل عبور ہے۔ مگر "حُرِّیَّت" کو بتشدیدِ یاء کہنا اردو کلام کے لیے موزوں نہیں۔ اردو میں یہ لفظ ادا کرتے ہوئے جو 'ی' کی باریک سی آواز نکلتی ہے وہ دراصل "ر" کی "زیر" ہے۔ جب ایک لفظ کو اس کے اصل کے مطابق (کلام کا حسن قائم رکھتے ہوئے) ادا کرنا ممکن نہ ہو تو کیا اس کے ہجوں کی تہنید مناسب نہ ہو گی؟ موجودہ صورتِ حال میں میں تو اس لفظ سے احتراز ہی میں عافیت جا نوں گا۔
 
الأسلوب الأدبي الأسلوب هو الطريقة التي يسلكها الأديب، للتعبير عما يجول في ذهنه من أفكار ومعان ،وما يختلج في قلبه من مشاعر وأحاسيس .

جناب فارقلیط رحمانی
اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے، درخواست گزار ہوں کہ اس عبارت کے مفاہیم کچھ کھول دیجئے۔ مجھ جیسے کئیوں کا بھلا ہو گا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
عمدہ بات کی آپ نے جناب کاشف عمران صاحب ۔
فرق تو ہے نا، صاحب۔ آپ اپنے اردو شعراء کو لے لیجئے، فرق ہوتا ہے، شاعر شاعر میں فرق ہوتا ہے!

یہ فقیر تو ابھی دشتِ اردو میں بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کی حدیں کہاں کہاں تک ہیں اور کون سا نخلستان کتنا بڑا ہے۔
انگریزی ادب میں چند ایک نظموں کے مطالعے سے آگے نہیں بڑھ سکا، سو وہاں آپ کے مؤقف پر سکوتِ تائیدی!! ۔۔


اعتذار:
معذرت خواہ ہوں کہ پہلے بھی کاشف عمران کی بجائے کاشف کامران لکھ گیا۔
معذرت کی کوئی بات نہیں۔ معنوی اعتبار سے "کامران" اچھا لگا!;)
 
وہ جو لفظ آپ نے استعمال کیا ہے نا! ۔۔۔ میں تو ویسے نہیں کہتا صاحب! اور میرے مقامی دوست بھی اس کو ویسے نہیں کہتے،
بلکہ ’’شوگر کوٹ‘‘ کر لیتے ہیں۔
’’مستقل مزاجی‘‘​

اپنی تو یہ صورت ہے کہ لفظ ’’تجوید‘‘ کے ہجے درست کر لیتے ہیں اور یہ پتہ ہے کہ اس میں جیم پر قلقلہ ہو گا۔ آگے چپ ہے!۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
عمدہ بات کی آپ نے جناب کاشف عمران صاحب ۔
فرق تو ہے نا، صاحب۔ آپ اپنے اردو شعراء کو لے لیجئے، فرق ہوتا ہے، شاعر شاعر میں فرق ہوتا ہے!

یہ فقیر تو ابھی دشتِ اردو میں بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کی حدیں کہاں کہاں تک ہیں اور کون سا نخلستان کتنا بڑا ہے۔
انگریزی ادب میں چند ایک نظموں کے مطالعے سے آگے نہیں بڑھ سکا، سو وہاں آپ کے مؤقف پر سکوتِ تائیدی!! ۔۔


اعتذار:
معذرت خواہ ہوں کہ پہلے بھی کاشف عمران کی بجائے کاشف کامران لکھ گیا۔
ڈاکٹر جانسن کی شاعری انٹرنیٹ پر جا بجا موجودہے۔ اک ذرا سی سرچ ماریں ہزاروں نہیں لاکھوں لنک ملیں گے۔ مزید ملاحظہ کیجےان کے بارے یہ لنک۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جناب فارقلیط رحمانی
اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے، درخواست گزار ہوں کہ اس عبارت کے مفاہیم کچھ کھول دیجئے۔ مجھ جیسے کئیوں کا بھلا ہو گا۔
محمد یعقوب آسی صاحب، یہ عبارت محض"الأسلوب الأدبي" کا لغا تی مطلب ہے۔

ویسے میری نہایت مختصر عربی دانی کے مطابق مفہوم کچھ یوں ہو گا:
عبارت: الأسلوب الأدبي الأسلوب هو الطريقة التي يسلكها الأديب، للتعبير عما يجول في ذهنه من أفكار ومعان ،وما يختلج في قلبه من مشاعر وأحاسيس .
مفہوم: اسلوبِ ادبی وہ راستہ ہے جسے ادیب اپنے ذہن میں پلنے والے افکار و معانی اور اپنے دل میں پنپتے احساسات کے اظہار کے لیے اپناتا ہے۔

میں اس لغاتی تشریح کی نسبت اس موضوع پر آپ کے گذشتہ مفصل بیان کو ہی ترجیح دوں گا۔
 
Top