طالبان کے تحت آج ان علاقوں کی صورتحال

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
طالبان کی جانب سے 28 افراد کے قتل کے بعد جنڈولہ ميں حاجی ترکستان کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئ مگر وہ بچ نکلنے ميں کامياب ہو گئے جس کے بعد انکے اور کميٹی کے ديگر ارکان کے گھروں کو آگ لگا دی گئ۔ علاقے ميں طالبان کی بھڑتی ہوئ قوت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے فوری بعد طالبان نے ٹنک کے علاقے کا گھيراؤ کر کے بھٹانی قبيلے کے افراد کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے ديا۔ بدھ کی رات تک بھٹانی قبيلے کا ايک گاؤں مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے اور دوسرے گاؤں کو رات نو بجے تک علاقہ چھوڑنے کا وقت ديا گيا ہے۔
محترم ساجد صاحب نے ایک غلطی کی طرف کیا ہے براہ کرم بھٹائی کو تبدیل کریں‌اور رب کائنات کے مقدس نام کو ٹھیک کریں۔ باقی جو آپ کا کام کریں‌ہم نے ووئس آف امریکہ اس لئے سننا چھوڑا کہ ان کی کافی خبریں غلط ہوتی تھیں اور روانہ امریکی اداریہ سن کر کان پک گئے تھے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
امن کميٹی کے 28 ارکان کی ہلاکت کے افسوس ناک واقعے کے ضمن ميں کچھ نقاط نہايت اہم ہيں۔

اس واقعے کا سب سے اہم پہلو يہ ہے کہ مرنے والے بے گناہ امريکی نہيں بلکہ پاکستانی شہری تھے۔ ليکن اس سے بھی زيادہ اہميت کی بات يہ ہے کہ وہ ايسی کميٹی کے ايما پر وہاں گئے تھے جو حکومت پاکستان نے تشکيل دی تھی۔

اب تک اس واقعے کی جو تفصيلات موصول ہوئ ہيں اس کے مطابق بدھ کے روز حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ امن کميٹی کے 28 افراد کی لاشيں جنوبی وزيرستان کے قريب قبائلی علاقے سے ملی ہيں۔ ڈسٹرک آفيسر برکت الللہ مروت کے مطابق پير کے روز جنڈولہ کے مقام پر بيت الللہ محسود کی فورسز کی جانب سے امن کميٹی کے ممبران پر حملہ کيا گيا۔ قبائلی عمائدين کے مطابق اس حملے کا مقصد بيت الللہ محسود کی جانب سے اس علاقے ميں کسی بھی حکومتی گروپ کے اثرورسوخ کو روکنا ہے۔ قبائلی علاقے کے رہنما مرزا جہادی کے مطابق "يہ کاروائ قبائلی علاقوں کے ليے ايک پيغام ہے کہ جو بھی حکومت کا ساتھ دے گا اس کا یہی انجام ہو گا"۔

مقامی اخبار کو طالبان کی جانب سے جاری کردہ بيان کے مطابق "ان کميٹی ممبران کی موت کی وجہ ان کی جانب سے حکومت پاکستان کی حمايت ہے"۔

يہ نقطہ بہت اہم ہے کہ طالبان کے ترجمان کے مطابق ہر وہ شخص جو حکومت پاکستان کی نمايندگی کر رہا ہے، وہ دشمن تصور کيا جائے گا اور اس کی سزا موت ہے۔ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے ليے يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ان عناصر کی حمايت کرے جو نا صرف يہ کہ دانستہ پاکستان کے شہريوں کو قتل بھی کر رہے ہيں اور پاکستان کے نظام حکومت کو بھی ماننے سے انکاری ہيں۔

ڈيرہ اسماعيل خان کے ايک اخبار نويس سيلاب محسود کو طالبان کے ترجمان مولوی عمر کا جو پيغام موصول ہوا ہے اس کے مطابق ان 28 لوگوں کو طالبان کی قائم کردہ عدالت کی جانب سے سزا کا مستحق قرار ديا گيا تھا۔ مولوی عمر کی جانب سے جو مزيد تفصيلات موصول ہوئ ہيں اس کے مطابق يہ 28 افراد ان 30 افراد پر مشتمل امن کميٹی کے ممبر تھے جنھيں پير کے روز جنڈولہ کے قريب اغوا کيا گيا تھا۔ اس کے بعد انھيں 50 ميل دور رگزئ کے مقام پر لے جايا گيا جو بيت الللہ محسود کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ يہاں پر ان افراد پر طالبان کی عدالت ميں مقدمہ چلايا گيا اور انھيں سزا دی گئ۔ اس گروپ کے دو ارکان ابھی تک لاپتہ ہيں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے جو امن کميٹی بنائ گئ تھی اس ميں 200 سے 300 کے قريب ممبران شامل تھے اور ان کی قيادت حاجی ترکستان کر رہے تھے جن کا تعلق بھٹانی قبيلے سے ہے جو روايتی طور پر محسود قبيلے کے مخالف رہے ہيں۔

طالبان کی جانب سے 28 افراد کے قتل کے بعد جنڈولہ ميں حاجی ترکستان کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئ مگر وہ بچ نکلنے ميں کامياب ہو گئے جس کے بعد انکے اور کميٹی کے ديگر ارکان کے گھروں کو آگ لگا دی گئ۔ علاقے ميں طالبان کی بھڑتی ہوئ قوت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے فوری بعد طالبان نے ٹنک کے علاقے کا گھيراؤ کر کے بھٹانی قبيلے کے افراد کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے ديا۔ بدھ کی رات تک بھٹانی قبيلے کا ايک گاؤں مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے اور دوسرے گاؤں کو رات نو بجے تک علاقہ چھوڑنے کا وقت ديا گيا ہے۔

امن کميٹی کے ممبران کا قتل طالبان کی جانب سے شروع کی جانے والی انھی کاروائيوں کا تسلسل ہے جن کے آغاز ميں اورکزئ ايجنسی ميں 6 افراد کو مجرم قرار دے کر سر عام قتل کر ديا گيا۔




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov


جنڈولہ واقعے کے متعلق یہ تفصیلی معلومات فراہم کرنے کا شکریہ فواد صاحب۔

افسوس کہ پاک حکومت و قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ بات چیت و امن کے نام پر طالبان کے دہشت گرد قاتلوں کو تو رہا کیا جا رہا ہے، مگر جواب میں وہ اُن تمام لوگوں کا خون خرابہ کرتے پھر رہے ہیں جو طالبان کی بالادستی کی بجائے قانون کی بالادستی دیکھنا چاہتے ہیں۔

افسوس کہ ہمارے بھائیوں نے طالبان کے لیے یہ "خون خرابہ" حلال کر دیا ہے اور انہیں آنکھ کا شہتیر بھی نہیں نظر آ رہا۔
قبائلی علاقے کے رہنما مرزا جہادی کے مطابق "يہ کاروائ قبائلی علاقوں کے ليے ايک پيغام ہے کہ جو بھی حکومت کا ساتھ دے گا اس کا یہی انجام ہو گا"۔

مقامی اخبار کو طالبان کی جانب سے جاری کردہ بيان کے مطابق "ان کميٹی ممبران کی موت کی وجہ ان کی جانب سے حکومت پاکستان کی حمايت ہے"۔

اور اس سے قبل طالبان نے اپنے اس "خون خرابہ" کے لیے اتنا جھوٹ بولا کہ امن کمیٹی کے اراکین لوٹ مار کر رہے تھے اس لیے طالبان نے انہیں پکڑ کر قتل کر دیا،

پھر ہمارے بھائیوں نے طالبان کو یہ سب جھوٹ بولنا اور جھوٹ بول کر قتل عام و خون خرابہ کرنا حلال کر دیا ہے۔


امن کمیٹی کے معصوم لوگوں کے گلے کاٹ دینا صرف اس لیے کہ وہ قانون کی بالادستی چاہتے تھے اور اپنے علاقے میں طالبان کی جبری یلغار کو امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے؟


///////////////////////////

باقی فواد صاحب،

جو اراکین آپکی اس پوسٹ پر اعتراضات کر رہے ہیں، انہوں نے ایک بھی کام کی بات اور دلیل پیش نہیں کی ہے اور خاہ مخواہ کے اعتراضات ہیں۔
آپکی پوسٹ کسی حوالے سے غیر متلقہ نہیں ہے اور انسان جب بھی اپنی بات اپنے دعوے کو بے بنیاد اور لغو باتوں کی بجائے مکمل ثبوتوں کے ساتھ پیش کرتا ہے تو پوسٹیں طویل ہو ہی جایا کرتی ہیں۔

اگر ان حضرات کو آپکے پیش کردہ یہ ثبوت ہضم نہیں ہوتے تو وہ براہ مہربانی غیر ضروری اعتراضات کرنے کی بجائے اپنی سکرین کو سکرول ڈاون کر لیں۔

ان پیش کردہ رپورٹ میں بہت سے گناہوں کو کچا چٹھا کھولا گیا ہے [خصوصی طور پر پاکستان کے جنرل حمید گل جیسے جنریلوں کا کہ جنہوں نے پاکستان کے مفادات کے نام پر پاک فوج اور طالبان جیسی ظالم قوم کو زبردستی افغان شہریوں پر مسلط کر کے انہیں اپنے مفادات کے لیے قربانی کا بکرا بنا دیا۔


////////////////////
 

مہوش علی

لائبریرین
جنگ اخبار کا کل کا ایک اور اداریہ جو کتنا کھل کر قتل و خون خرابہ کو پیش کر رہا ہے مگر قوم بیدار ہونے کو تیار نہیں

صوبہ سرحد کے بعض قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں عسکریت پسند عناصر نے جس طرح کھلے بندوں حکومتی اختیار کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے اس کے بعد معاملات کو ٹالنے یا نیم دلانہ فیصلے کرنے کا زیادہ وقت نہیں رہا ہے۔
ماضی کی غلطیاں دہرانے، سیاسی نعرے بازی سے کام لینے اور بے تدبیریوں کی بھی گنجائش نظر نہیں آتی۔ مسائل کو سابقہ حکومت کا ورثہ کہہ کر ان کی ذمہ داریوں سے اپنا دامن بچانے کی حکمت عملی پچھلے چھ عشروں میں کئی المیوں کا باعث بن چکی ہے۔
عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں بھی ایکدم شروع نہیں ہوئیں۔ نہ یہ دو چار یا آٹھ دس سال کی بات ہے۔ 1990ء کی دہائی کے وسط میں نفاذ شریعت کے نام پر مسلح افراد پورے ضلع سوات پر کئی روز تک اپنا مکمل کنٹرول قائم کرنے کی مشق کرچکے ہیں۔ اس وقت بھی ان کے وسائل، جدید اسلحے، کھانے پینے کے انتظام اور افغانستان سے آنے والی کمک پر عام لوگوں کو خاصی حیرت ہوئی تھی۔ انتہا پسند عناصر نے ایک رکن صوبائی اسمبلی کو قتل کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس صورتحال کی وجہ افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے وقت جہاد کے نام پر دنیا بھر کے عسکریت پسندوں کو جمع کرنے کے بعد بحالی کے اقدامات کئے بغیر انہیں بے یار و مدد گار چھوڑنا ہو یا کوئی اور وجہ ہو۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ مسئلہ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف بعض علاقوں میں موجود رہا ہے اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ پشاور کے نواحی علاقوں تک میں کئی بستیوں کے مکین نقل مکانی کرچکے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کو بھی بعض حلقے غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے سنگین خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ عسکریت پسند عناصر جنڈولہ پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں درجنوں مکانات نذر آتش کرکے اور حکومت کے حامی قبائلی زعماء کو قتل کرکے از خود واپس جا چکے ہیں۔ امن کمیٹی کے 30/مغوی ارکان میں سے 28 کی لاشیں کڑی وام اور سورغر سے مل چکی ہیں جبکہ دو ارکان تا دم تحریر لاپتہ ہیں۔ سوات میں کبل، مٹہ، شاہ ڈھیرئی، کالا کوٹ سمیت متعدد مقامات پر سیکورٹی فورسز اور پولیس کی چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جن میں فریقین کا جانی نقصان ہو رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مٹہ میں منگل اور بدھ کی شب دس گرلز اسکولوں کو نذر آتش کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ 21/مئی کو ضلع سوات میں مقامی طالبان سے کئے گئے 16/نکاتی معاہدے کے بعد امید تھی کہ علاقے میں امن و امان بحال ہوجائے گا اور فاقہ کشی کے شکار عوام کاروباری سرگرمیوں کے ذریعے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے قابل ہوسکیں گے۔ مگر اب صورتحال کا اندازہ مولانا فضل اللہ کے ترجمان کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان کے اختیار کو چیلنج کیا گیا تو پوری وادی سوات کو خون سے نہلا دیا جائے گا۔ صوبہ سرحد کے دوسرے بندو بستی علاقوں کی بستیوں میں دھمکی آمیز خطوط کے ذریعے حجاموں، وڈیو ٹیپ کا کاروبار کرنے والے دکانداروں، اسکولوں کا انتظام چلانے والوں اور دوسرے افراد کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہو رہے ہیں۔

مکمل کالم
 

ساجداقبال

محفلین
میں‌ نے پہلے بھی پوچھا تھا اور پھر پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپکے پاس اس کا کوئی حل ہے؟ اگر ہاں تو پیش کریں۔
قوم بیدار ہو کر کیا کرے؟ ڈنڈے لیکر طالبان کے پیچھے پڑ جائے؟ قوم کو سب پتہ ہے کہ کیسے فوج نے پہلے گند پھیلایا اور ابھی اسی گند کو صاف کرتے ہوئے پھر قوم کو ہی ذلیل کیا جا رہا ہے۔ کیا حمیدگل و ضیاالحق ۔۔۔ جنرل گریسی سے مشرف تک ساروں کے کرتوت ایک ہی جیسے ہیں۔
جواد صاحب بتائیں کہ امریکہ اس کیلیے کیا حل تجویز کرتا ہے؟ صرف بمباریاں‌ اور قتل و غارتگری؟؟؟ کیا کوئی پُرامن حل ہے انکے پاس؟
اگر جنگ ہی حل ہے تو وہ تو ہو رہی ہے۔ بجائے ایک یا دوسرے فریق کی مظلومیت کا رونا رونے کے انتظار کریں بیٹھ کر کہ کون جیتتا ہے۔ آپکا یہ خیال ہے کہ بیت اللہ وہ مولوی عمر کو پکڑ/مار کر یہ جنگ ختم ہو جائیگی؟ امریکہ پاکستان کو تو بڑی دہائیاں‌ دیتا ہے، اپنا یہ حال ہے کہ کابل سے باہر نہ کرزئی جاتا ہے اور نہ کوئی امریکی جنرل۔
مہوش میں‌ آپکو مشورہ دونگا کہ آپ امریکہ کی بجائے پاکستان کے مفادات کو ذہن میں رکھ کر سوچیں۔ ممکن ہے ہمارے دشمن ایک ہوں لیکن مفادات الگ۔
 
يہ نکتہ بہت اہم ہے کہ طالبان کے ترجمان کے مطابق ہر وہ شخص جو حکومت پاکستان کی نمايندگی کر رہا ہے، وہ دشمن تصور کيا جائے گا اور اس کی سزا موت ہے۔ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے ليے يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ان عناصر کی حمايت کرے جو نا صرف يہ کہ دانستہ پاکستان کے شہريوں کو قتل بھی کر رہے ہيں اور پاکستان کے نظام حکومت کو بھی ماننے سے انکاری ہيں۔

نرم بات:
1۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان روس کے خلاف جنگ میں "مجاہدین"‌ کا ساتھ دیتا تھا۔ اس کے نتیجے میں ان "مجاہدین" ‌کے درمیان ایسے لوگ آ کر شامل ہوگئے جو صرف اپنے علاقائی اور ذاتی فائیدہ کی جنگ لڑرہے تھے یا دنیا بھر میں دہشت گردی کے خواہش مند تھے۔

آج یہ طالبان ہر پاکستانی کو قابل قتل تصور کرتے ہیں، چاہے وہ فوجی ہو یا نہ ہو۔ یہی بنیادی وجہ ہے خود کش حملوں کے پیچھے کہ معصوم پاکستانی عوام کو قتل کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔

اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ ہر پاکستانی اپنی حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہے جس سے پاکستانی فوج کا کاروبار چلتا ہے لہذا ہر پاکستانی واجب القتل ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امن کمیٹی کے 28 ممبران کا قتل ہے، جو کسی جنگ یا "جہاد"‌ میں لڑتے ہوئے نہیں بلکہ "امن" کرتے ہوئے "شہید" کئے گئے ہیں۔

یہاں‌بہت سے دوست اس طالبانی "جہاد" کی حمایت کرتے ہیں جو حالت امن میں امن کمیٹی کے سفیروں کے قتل کو "جہاد"‌ کہتا ہے۔ بنا بات چیت کئے قتل بنیادی طور پر "نظریاتی اختلاف کی سزا موت" کا فلسفہ ہے، جہاد نہیں۔ اگر پاکستان کے ہندوستان سے اختلافات ہیں تو کیا ہندوستان، پاکستانی سفارتکاروں‌کو قتل کرکے واپس روانہ کردے؟

انتہائی طنزیہ جملہ:
جو بھائی اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی جنگ پاکستان اور پاکستانی سے نہیں ہے اور اگلی امن کمیٹی میں شامل ہو کر طالبان کے ساتھ "امن" ("جہاد" نہیں ) کرتے ہوئے "شہید" ہونے کے بارے میں‌ سنجیدگی سے غور کریں۔
 

ساجداقبال

محفلین
يہ نکتہ بہت اہم ہے کہ طالبان کے ترجمان کے مطابق ہر وہ شخص جو حکومت پاکستان کی نمايندگی کر رہا ہے، وہ دشمن تصور کيا جائے گا اور اس کی سزا موت ہے۔ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے ليے يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ان عناصر کی حمايت کرے جو نا صرف يہ کہ دانستہ پاکستان کے شہريوں کو قتل بھی کر رہے ہيں اور پاکستان کے نظام حکومت کو بھی ماننے سے انکاری ہيں۔

نرم بات:
1۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان روس کے خلاف جنگ میں "مجاہدین"‌ کا ساتھ دیتا تھا۔ اس کے نتیجے میں ان "مجاہدین" ‌کے درمیان ایسے لوگ آ کر شامل ہوگئے جو صرف اپنے علاقائی اور ذاتی فائیدہ کی جنگ لڑرہے تھے یا دنیا بھر میں دہشت گردی کے خواہش مند تھے۔

آج یہ طالبان ہر پاکستانی کو قابل قتل تصور کرتے ہیں، چاہے وہ فوجی ہو یا نہ ہو۔ یہی بنیادی وجہ ہے خود کش حملوں کے پیچھے کہ معصوم پاکستانی عوام کو قتل کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔

اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ ہر پاکستانی اپنی حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہے جس سے پاکستانی فوج کا کاروبار چلتا ہے لہذا ہر پاکستانی واجب القتل ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امن کمیٹی کے 28 ممبران کا قتل ہے، جو کسی جنگ یا "جہاد"‌ میں لڑتے ہوئے نہیں بلکہ "امن" کرتے ہوئے "شہید" کئے گئے ہیں۔

یہاں‌بہت سے دوست اس طالبانی "جہاد" کی حمایت کرتے ہیں جو حالت امن میں امن کمیٹی کے سفیروں کے قتل کو "جہاد"‌ کہتا ہے۔ بنا بات چیت کئے قتل بنیادی طور پر "نظریاتی اختلاف کی سزا موت" کا فلسفہ ہے، جہاد نہیں۔ اگر پاکستان کے ہندوستان سے اختلافات ہیں تو کیا ہندوستان، پاکستانی سفارتکاروں‌کو قتل کرکے واپس روانہ کردے؟

انتہائی طنزیہ جملہ:
جو بھائی اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی جنگ پاکستان اور پاکستانی سے نہیں ہے اور اگلی امن کمیٹی میں شامل ہو کر طالبان کے ساتھ "امن" ("جہاد" نہیں ) کرتے ہوئے "شہید" ہونے کے بارے میں‌ سنجیدگی سے غور کریں۔
آپ نے کوئی حل تو بتایا نہیں۔ وہی باتیں‌ جو سالوں سے کہی جا رہی ہیں، دہرائی ہیں؟ میرا سوال ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟؟؟
 
یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، اس کا کوئی ایسا حل نہیں کہ تمام لوگوں‌کو مار دیا جائے یا تباہ کردیا جائے۔ اس کا حل یہی ہے کہ ان طالبان زدہ علاقوں میں تعلیم عام کی جائے، ان معصوم لوگوں کو "خوانین" سے آزادی دلائی جائے۔ تاکہ علم کی روشنی، اتصالات و مواصلات کی فراہمی ، امن و امان کی بالا دستی قائم ہو۔ اور یہ آہستہ آہستہ ہورہا ہے۔ جوں جوں سڑک ان علاقوں تک جائے گی، تعلیم پھیلے گی ، خاص طور پر خواتین میں ، صورتحال بہتر ہوتی جائے گی۔ لہذا صبر سے محنت سے ان علاقوں میں تعلیم بڑھانا ان امراض کا اصل علاج ہے۔ تاکہ مناسب تعلیم یافتہ لوگ اپنے علاقوں کے نمائندہ ہوں۔ اپنے عوام کے لئے بہتر وسائیل کے لئے کوشاں ہوں۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا تو بتا دیا۔ مرض ذہنوں میں ہے اور اس کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ جنوبی وزیرستان یونیورسٹی آف ماڈرن سائینسز کا خواب دیکھئے، پاکستان کے قیام کے وقت صرف ایک پنجاب یونیورسٹی تھی، لیکن عوام میں علم کی چاہ تھی۔ ان قبائیلی علاقوں میں کونسا ایسا گاؤں ہے جو بجلی ، پانی، سڑک، تعلیم، کاروبار، بنک، ٹیلی فون نہیں مانگتا؟ اور اس ترقی کی راہ میں کون مزاحم ہے؟ کیا افغانستان میں ہونے والی جنگ کا علاج پاکستانی علاقوں میں امن وفود کا قتل؟ بجلی کے کھمبوں کی تباہی؟ مواصلاتی نطام کی تباہی؟ لڑکیوں‌کے اسکولوں کی تباہی؟ پلوں کو اڑانا ؟ اور پاکستانی شہروں میں خود کش حملہ ہیں؟

ان بربادیوں کا اصل علاج ہے ان بااثر خوانیں کی حکومت میں شراکت، باقی پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کی حمایت، جو آج ترقی، تعلیم اور عام آدمی کے بہتر ہونے کے خلاف ہیں۔ آخر سندھ اور پنجاب کے با اثر افراد حکومت میں شامل ہوئے۔ اسی طرح سرحد اور بلوچستان کے بااثر افراد کا حکومت میں شامل ہونا اور باقی پاکستان کے مفاد کا ساتھ دینا ضروری ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
یہ تو لانگ ٹرم پالیسی ہوئی جس پر شاید ہی عمل ہو۔ فی الوقت جو عسکریت پھیلی ہوئی ہے اس کا کیا علاج ہے؟
 
پاکستان پر طالبان کی حکومت یا طالبان پر پاکستان کی حکومت - فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ کہ مذہب کے نام پر موجود حکومتی اور دفاعی انفراسٹرکچر کو تباہ کرکے طالبان کے حوالے کرنا ہے یا طالبان کو صوبہ سرحد سے نکالنا ہے؟ کیا تمام پختون طالبان ہیں یا طالبان نے اس دشوار گزار علاقہ میں لوگوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
 
پاکستانی مفاد یا امریکی مفاد
پاکستانی میں جو جنگ اس وقت قبائلی علاقہ جات اور سوات وغیرہ میں جاری ہے اس جنگ کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن کی طرف سے شاید ہم نے آنکھیں‌ پوری طرح سے بند کی ہوئی ہیں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ امریکی مفادات کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں، امریکی ایڈونچر کے لیے اپنے ملک کا امن و سکون سب کچھ داو پر لگا دینا کیا عقلمندی ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے کیوں آخر کیوں یہ ساری خراب حالت 11/9 کے بعد ہوئی پہلے ہم نے طالبان کی پیٹھ میں خنجر گھونپاجن علاقوں میں انگریز داخل نہ ہوئے اور مذاکرات کرتے رہے وہاں امریکی ڈالروں کے چکر میں ہم گھس گئے اور اب بیٹھے رو رہے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔اس موضوع پر بات کرتے ہیں پہلے ایک وضاحت ایک بات جو یہاں نظر انداز کی جارہی ہے وہ یہ کہ یہ تمام حملے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے کیے جارہے ہیں نہ کہ افغان طالبان کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان ایک دوسری تنظیم ہے اس کا لیڈر بیت اللہ محسود ہے اس کے ترجمان حاجی عمر اس تنظیم کے ماتحت کئی قبائلی قبیلے کام کر رہے ہیں اس تنظم کی ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ ہیں‌تاہم یہ اپمے فیصلوں میں خود مختار ہےمزید تفصیلات کے لیے دیکھیے ڈان کی یہ رپورٹ
http://www.dawn.com/2008/01/29/top18.htm
سوات میں مولوی فضل اللہ کا ہولڈ ہے یہ صوفی محمد (تحریک نفاذ شریعت محمدی) کے داماد ہیں اور انکی گرفتاری کے بعد اب اس علاقے کا کنٹرول ان کے پاس ہے ان کا تعلق پاکستانی طالبان سے بتایا جاتا ہے تاہم یہ اپنے معاملات میں کافی خودمختار بھی ہیں۔
اب ہم اس سارے معاملے کو خالصتا پاکستان کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
بی بی سی یہ یہ رپورٹ دیکھیے
"گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ کی سربراہی میں ’دہشت گردی’ کے خلاف شروع کی جانے والی نام نہاد عالمی جنگ میں عراق اور افغانستان کے بعد اگر کسی ملک نے سب سے بڑا نقصان اٹھایا ہے تو وہ شاید پاکستان ہی ہے۔گزشتہ ساڑھے چھ سال میں ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناطے پاکستان نے وہی بم دھماکے، خودکش حملے، مبینہ شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونےوالی شدید لڑائی، معصوم شہریوں کی ہلاکتیں اور نقل مکانی سمیت وہ سب کچھ دیکھا ہے جو مقبوضہ عراق اور افغانستان میں روز کا معمول بن چکاہے۔

ان ساڑھے چھ سال کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھر کرسامنے آئے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ان مبینہ غیر ملکیوں کو پناہ دے رکھی ہے جو سرحد پار افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو فورسز پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔پاکستان نے سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں اور سرحد پار’دہشت گردی‘ کو روکنے کے لیے ستمبر دوہزار چھ میں شمالی وزیرستان میں طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا جسے امریکہ اور افغان حکومت نے’دہشت گردوں‘ کے ساتھ معاہدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

اس معاہدہ کے بعد افغان، امریکی اور نیٹو حکام کے علاوہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان الزامات میں مزید شدت آئی کہ قبائلی علاقوں سے طالبان جنگجو کی آمد میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں وہاں پر مبینہ شدت پسندی گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔

لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ستمبر دو ہزارسات میں اس معاہدے کے ٹوٹنے اور پاکستان کے اندر طالبان کی کاروائیوں میں اضافہ کے بعد ان الزامات میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ، افغان حکومت اور نیٹو فورسز نے مبینہ شدت پسندوں سے نمٹنے میں پاکستان کے کردار پر شک ظاہر کرتے ہوئے ایک ایسی پالیسی وضع کی جس سے افغانستان میں جاری مزاحمت کا رخ پاکستان کی طرف کیا گیا جس کے نتیجہ میں پاکستانی طالبان بھی ایسی ہی کارروائیوں پر مصروف ہوگئے اور ان کا افغان طالبان کے ساتھ عسکری تعاون ایک حد تک ختم ہوگیا۔

مرکز اور صوبہ سرحد میں قائم ہونے والی نئی حکومتوں کے اس اعلان نے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے امریکہ کو بظاہر اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستانی طالبان دوبارہ افغانستان کا رخ کرسکتے ہیں جس سے وہاں طالبان کی کمزور ہونے والی قوت میں پھر سے جان پڑ سکتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ طالبان کے ترجمان مولوی عمر نے بھی یہ واضح اعلان کردیا ہے کہ اگرمذاکرات کامیاب ہوگئے تو وہ پاکستان کے اندر اپنی سرگرمیاں ختم کرنے پر تیار ہوسکتے ہیں تاہم وہ افغانستان میں اپنا ’جہاد‘ جاری رکھیں گے۔

یہی خوف ہے جس نے رچرڈ باوچر اور نیگرو پونٹے کو شیڈول سے ہٹ کر خیبر سے لے کر کراچی تک دورہ کرنے پر مجبور کردیا۔ مگر حکمران اتحاد میں شامل سیاستدانوں آصف زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، اسفندیار ولی خان، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں بظاہر وہ سب کچھ شاید ہاتھ نہیں آیا جو ایک زمانہ میں’فرد‘ واحد انہیں دے سکتا تھا۔(http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080403_pak_taliban_sen.shtml)

نئی حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بھی یہی ہے کہ وہ پس پردہ ہونے والے مذاکرات میں طالبان کو کس طرح اس بات پر قائل کرسکتی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ افغانستان میں بھی لڑنے کے لیے سرحد پار نہیں کریں گے۔ "

اس رپورٹ کا غور سے پڑھیے اور بتائے اگر مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہو جاتا ہے اور امن کے عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے ان مقامی طالبان کو اس بات پر راضی رکھ کر کہ امریکی مفادات کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال نہیں ہوگی باڑجوڑ، ڈومہ ڈلا ار مہمند ایجنسی جیسے واقعات نہیں ہوں گئے پھر ان مقامی طالبان کو ان کے کلچر کے مطابق وہ زندگی گزارنے کاحق دیا جائے جو وہ صدیوں سے گزار رہے ہیں تو اس میں کیا پاکستان کا بھلا نہیں ہے؟ 11/9 سے پہلے کا پاکستان چاہے کتنا برا کیوں نہ ہو اتنا غیر محفوظ کبھی نہیں تھا ایسا ہی ایک کامیاب امن معاہدہ جنگ کی آگ میں جلتے ہوئےوانا میں کیا گیا تھا آئیے اس کے بارے میں بھی پڑھتے ہیں‌
بی بی سی
"پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے بازار میں طالبان کا دفتر قائم ہے جس کے سامنے انہوں نے ناکہ لگا رکھا ہے، وہاں موجود مسلح طالبان بازار میں داخل ہونے والی ہرگاڑی پر نظر رکھتے ہیں۔
علاقے کے لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے طالبان کے دفتر سے رجوع کرتے ہیں جہاں پر فریقین سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مسئلے کو قبائلی روایات کے ذریعہ حل کرواناچاہتے ہیں یا شریعت کے تحت۔ یہ ہے آج کا وانا جہاں ایک سال قبل یعنی پندرہ اپریل دوہزار سات کو طالبان اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔

معاہدے سے پہلے وانا میں مقامی طالبان سربراہ مولوی نذیر کی سربراہی میں وزیر قبیلے نے سکیورٹی فورسز کی معاونت سے وہاں موجود ازبک جنگجؤوں کیخلاف آپریشن کیا تھا، جس کے بعد حکومت طالبان امن معاہدہ عمل میں آیا۔

میں جب وانا پہنچا تو کافی تگ و دو کے بعد مولوی نذیر سے ملاقات ہوئی۔ مگر انہوں نے ایف سی آر کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا اور میرے سوالات کے جواب میں الٹا مجھ سے پوچھا: ’آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں۔وانا اور آس پاس کے علاقوں میں مکمل طور پر امن ہے۔ ایک قبائلی مشر ملک محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب سے طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے یہاں پر قتل، اغواء اور دیگر چھوٹے موٹے جرائم کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔

ان کے بقول کئی کئی مہینوں تک بند رہنے والے تمام راستے کھل گئے ہیں جبکہ تاجر اور زمیندار بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

تاہم طالبان کے علاوہ مقامی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے سابق ایم این اے مولانا نور محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد علاقے میں سو فیصد امن لوٹ آیا ہے مگر مبینہ امریکی حملوں سے امن کے اس عمل کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔‘

ان کے بقول’نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعد اگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔‘

ایک سرکاری اہلکار کے مطابق وانا بازار میں ٹریفک کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی پر دو ہزار تک جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ صرف طالبان اور سرکاری اہلکاروں کو اپنے گاڑی کے شیشے سیاہ رکھنے کی اجازت ہے۔قتل اور اغواء کی وارداتوں کو روکنا، قیمتوں کا کنٹرول اورافغانستان کو آٹے کی سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ داری بھی طالبان نے لے رکھی ہے۔ اہلکار کے مطابق طالبان کی تقریباً اٹھائیس گاڑیاں دن رات علاقے کا گشت کرتی ہیں اور اس دوران ہر مشکوک شخص سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں طالبان نےایک خود کش بمبار کو گرفتار کر کے اسے اپنے مرکز جسے موسیٰ قلعہ کا نام دیا گیا ہے میں قید کر لیا ہے۔

ایک برس قبل یہ تمام ریاستی ذمہ داریاں پولٹیکل انتظامیہ نے سنبھال رکھی تھیں۔ اب وانا میں فوج سمیت تمام سرکاری اہلکار اپنے اپنے دفاتر اور بیرکوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں نے وانا میں وہ منظر بھی دیکھا کہ کل تک ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن فوجی اور طالبان آج سڑک پر قافلوں کی صورت میں جاتے ہوئے اوور ٹیک کرنے کے لیے بڑے آرام سے ایک دوسرے کی گاڑیوں کے لیے راستہ خالی کردیتے ہیں۔

البتہ فروری اور مارچ میں غیر ملکیوں کے دو مشکوک ٹھکانوں پر مبینہ میزائل حملوں کے نتیجہ میں بیس سے زائد غیر ملکیوں کی ہلاکت کے بعد یہ امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ طالبان نے ردعمل کے طور پر پاکستانی فوج پر خودکش حملہ کیا تھا جسکی ذمہ داری انہوں نے بعد میں قبول بھی کرلی۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں حملے امریکہ نے بغیر پائلٹ طیاروں سے کیے تھے جس میں بقول ان کے ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔طالبان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں مگر میں نے وانا میں دو دن کے قیام کے دوران لڑکیوں کو برقعوں میں سکول جاتے ہوئے اور لڑکوں کو یونیفارم میں ملبوس فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا۔

دو سال قبل پڑوسی ایجنسی شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے فٹ بال کھلاڑیوں کو پکڑ کر انہیں سزائیں دی تھیں۔افغانستان میں بھی طالبان نے اپنی دور حکومت میں ایک پاکستانی ٹیم کو گرفتار کر لیا تھا اور سر منڈھوانے کے بعد انہیں واپس چھوڑ دیا تھا۔

اب آپ وانا میں اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے موسیقی بھی سن سکتے ہیں البتہ بازار میں سرعام موسیقی بجانے پر پابندی ہے۔ تین دن قبل طالبان نے پمفلٹ کےذریعے تمام دکانداروں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ دکانوں سے تصاویر اتار لیں ۔"
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080415_wana_agreement_kakar.shtml
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان امن معاہدوں کے حق میں کون ہے اور مخالف کون
ان امن معاہدوں کے حق میں پاکستانی حکومت، پاکستان طالبان ، پاکستانی عوام،قبائلی عوام اور ساتھ ہی یہ بات دلچسپ ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین بھی ہے ملاحظہ کیجے
بی بی سی
برطانیہ کاموقف
"برطانوی وزیرخارجہ ڈیوِڈ ملی بینڈ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی برطانیہ کے لیے اس لیے اہم ہے کہ ان کے ملک میں دہشتگردی کے خلاف ستّر فی صد تحقیقات کی کڑیاں پاکستان جا کر ملتی ہیں۔

برطانوی وزیرخارجہ پاکستان کے دو روزہ دورے پر گزشتہ روز پشاور پہنچے تھے جہاں انہوں نے صوبہ سرحد کے گورنر اور وزیر اعلی سمیت دیگر اہم راہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ تشدد ترک کرنے پر آمادہ ہوں، ان کو قومی دھارے میں شریک کرنا ضروری ہے۔۔۔۔۔"
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080420_miliband_pak_sen.shtml
یورپی یونین کا موقف
"یورپی یونین کے خصوصی نمائندہ برائے امورِ خارجہ اور سکیورٹی پالیسیز خاویئر سولانہ نے کہا ہے کہ یورپی یونین حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستانی عسکریت پسندوں سے مفاہمت کے عمل کی حمایت کرتا ہے اور اگر افغانستان کی حکومت چاہے تو وہ بھی افغان طالبان سے بات کرسکتی ہے لیکن یورپی یونین القاعدہ کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں کی حامی نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بات منگل کو دفتر خارجہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔۔۔۔۔"
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080422_pak_solana_as.shtml
اب آپ بتائیے ان مذاکرات سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہے اور مذاکرات ہونے چاہیں یا نہیں اس کا فیصلہ پاکستانی عوام اور حکومت کو کرنا ہے اس سلسلے میں پاکستانی صحافیوں کا بھی موقف میں پیش کرنا چاہتا ہوںلیکن بعد میں
چلتے چلتے ایک سروے۔ دیکھیے پاکستانی عوام کی خواہش کیا ہے اور یہ امریکی خواہش سے کس متضاد ہے
"As many as 44 per cent of Pakistanis think the United States poses the greatest threat to their personal safety. India is next at 14 per cent. By contrast, a mere six per cent feel Al Qaeda is a threat, with four per cent the Afghan Taliban and eight per cent the Pakistani Taliban.

Half of all Pakistanis want their government to negotiate and not fight Al Qaeda, with less than a third saying military action by the Pakistani government against Al Qaeda is called for.

For Pakistani Taliban, 58 per cent favour negotiations to 19 per cent for military action."
یہ سروے دو امریکی تھنک ٹینک کے کروائے ہوئے ہیں پوری خبر دیکھیے
http://www.dawn.com/2008/06/21/top6.htm
ساتھ ہی ایک اور اہم بات کہ شاید اب افغان طالبان کو پاکستان کو بطور پناہ گاہ استعمال کرنے میں اتنا انٹرسٹ نہ ہو کیوں اب وہ افغانستان میں کافی مضبوط ہو چکے ہیں دیکھیئے
"Significantly, the Taliban no longer need to retreat to the sanctuary of Pakistan's tribal areas when attacked by NATO - they now have secure bases deep in Khost.

This is the first time the Taliban have acquired such a tactical edge. The anti-Soviet mujahideen were in a similar position in 1988, a year before the Soviet withdrawal from Afghanistan, which it had invaded in 1979. "
http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/JF28Df01.html
اب ہماری حکومت کو کرنا صرف اتنا ہے کہ امن مذاکرات کا عمل آگئے بڑھائیں‌طالبان کو ان کے کلچر کے مطابق جینے کی آزادی دیں اور اپنی بعض شرائط پر جیو اور جینے دو کے اصول پر رکھیں ساتھ ہی اپنی سرحدوں کی حفاظت کے سخت اقدامات کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سیاست کے سیکشن میں متحرک محترم اراکین سے درخواست ہے کہ وہ بی بی سی کی یہ خبر پڑھیں۔

پتا نہیں کیوں ہمارے قومی اردو اخبارات حالات کو صحیح طور پر عوام کے سامنے پیش نہیں کرتے۔ بس ایک چھوٹی سی خبر لگا دیتے ہیں جس سے بات سلجھنے اور سمجھ میں آنے کے بجائے، مزید الجھ جاتی ہے اور بہت زیادہ غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔

مثال کے طور ایک مذہبی جماعت کے اڈے پر بم دھماکہ ہوا جس سے کئی افراد مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ ابتک اخبارات پڑھنے کے بعد کم از کم مجھے یہ لگ رہا تھا کہ یہ حکومت کی کاروائِی ہے۔ مگر بی بی سی کی یہ تفصیلی خبر پڑھ کر پتا چلا کہ یہ "اصلاح" کے نام پر اٹھنے والے دو "طالبانی اسلام گروہوں" کی جنگ کا نتیجہ ہے۔

////////////////////

میں نے پہلے ایک لسٹ پیش کی تھی کہ کسی بھی گروہ کو "اصلاح" کے نام پر قانون سے بالاتر کر دینا کسقدر فتنے کا باعث بنے گا۔ جب ان گروہوں کی مخالفت کی بجائے ہمت افزائی اور حمایت کی جائے گی اور حکومت کو بے بس کر دیا جائے گا اور یوں یہ گروہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر کر لیں گے تو پھر یہ گروہ اپنے علاوہ باقی سب کا خون کرنے لگ جائیں گے۔

اس سے قبل یہ حملے امریکہ، حکومت پاکستان کے سفیروں اور دیگر عہدے داران، پاک فوج کے جوانوں، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں، عیسائیوں، جماعت اسلامی، اہل تشیع، بریلویوں ، سیکولر طبقے وغیرہ کو قتل کر رہے تھے، ۔۔۔۔۔ مگر جیسے ہی انہیں ان سے فرصت ملے گی تو یہ گروہ سینکڑوں ازبکوں کو خون کو خاک میں ملائیں گے، ۔۔۔۔ پھر اگلے مرحلے میں آپس میں ایک دوسرے پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پھریں گے۔

بی بی سی کی اس خبر کو پھر پڑھیں۔۔۔۔۔ اور دیکھیں کیسے اسلام کے نام پر ایک دوسرے کا قتل ہو رہا ہے اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
میرا دل کافی چاہتا ہے کہ خود سے ان باتوں کی تحقیق کیلیے قبائلی علاقوں میں‌جاؤں لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھے ہی حلال نہ کر دیں۔ :grin: ۔ ۔۔
ویسے خیبر کے ٹرک ڈرائیور کمانڈر منگل باغ‌ کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ شروع میں وہاں کے لوگوں نے اس دو دفعہ پکڑ کر ایف سی کے حوالے کیا لیکن انہوں‌ نے دونوں بار اسے چھوڑ دیا۔ میرے خیال میں‌ ہم جن معاملات پر الجھ رہے ہیں اور حد سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں۔

مہوش آپکو ایوارڈ جیتنے پر مبارکاں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جواد صاحب بتائیں کہ امریکہ اس کیلیے کیا حل تجویز کرتا ہے؟ صرف بمباریاں‌ اور قتل و غارتگری؟؟؟ کیا کوئی پُرامن حل ہے انکے پاس؟

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ اس عوامی تاثر کے برعکس امريکی حکومت نے کبھی بھی يہ نہيں کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے فاٹا ميں درپيش مسائل کا حل صرف فوجی کاروائ ہے۔ امريکی حکومت نے ہميشہ يہ واضح کيا ہے کہ يہ ايک پيچيدہ مسلہ ہے جس کے حل کے ليے ايک ايسی پاليسی کی ضرورت ہے جس کے تحت دہشت گردی کی وجوہات پر قابو پايا جا سکے۔

اس حوالے سے امريکی حکومت نے فاٹا کے علاقے کی امداد کے ليے ايک مربوط پروگرام تشکيل ديا ہے جس کا مقصد اس علاقے ميں لوگوں کی بنيادی ضروريات پوری کرنے کے علاوہ منتظمين کو ايسی سہوليات فراہم کرنا ہے جس کے ذريعے لوگوں کی معاشی اور معاشرتی زندگيوں ميں انقلابی تبديلياں لائ جا سکيں۔ صرف اسی صورت ميں ان علاقوں کو دہشت گردوں کی آمجگاہ بننے سے روکا جا سکتا ہے۔

امريکی حکومت نے ايف – ڈی – ايس (فاٹا ڈيويليپمنٹ سٹريٹجی) کے نام سے وسيع بنيادوں پر ايک منصوبے کی منظوری دی ہے جس کے تحت حکومت پاکستان کے اشتراک سے اس علاقے ميں اگلے پانچ سالوں ميں 750 ملين ڈالرز خرچ کيے جائيں گے۔ ايف – ڈی – ايس کے تحت تمام امداد اور منصوبوں کا محور اس علاقے کے لوگوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے علاوہ مقامی انتظاميہ کو فعال بنانا ہے تا کہ مستقل بنيادوں پر معاشی اور معاشرتی نظام زندگی بہتر کيا جا سکے۔

اس ضمن ميں سال 2007 سے 2011 کے درميانی عرصے ميں امريکی حکومت کی جانب سے 100 ملين ڈالرز تعليم اور صحت کے شعبے کے ليے مختص کيے گئے ہيں۔ اسی طرح کئ ذيلی منصوبوں پر بھی کام شروع کيا جا چکا ہے جن کا مقصد مقامی اساتذہ کی تربيت، شرح خواندگی ميں اضافہ، صاف پانی کی فراہمی، بيماريوں کی روک تھام اور تجارت ميں اضافے کے پروگرام شامل ہيں۔

فاٹا کے علاقے ميں تعميری منصوبوں پر خاص توجہ دی گئ ہے اور اب تک امريکی حکومت کی امداد سے 800 کلوميٹر سڑک اور قريب 800 کے قريب بجلی اور آب پاشی کے چھوٹے منصوبے پايہ تکميل تک پہنچ چکے ہيں۔

ميں نے جان بوجھ کر ان منصوبوں اور امداد کے اس حصے کا ذکر نہيں کيا جس کا مقصد علاقے ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيت ميں اضافہ کرنا ہے کيونکہ ميرا مقصد آپ کو يہ باور کروانا ہے کہ امريکہ اس علاقے ميں صرف طاقت اور فوج کے استعمال کو مسلئے کا واحد حل نہيں سمجھتا۔ ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ تعليم، صحت اور معاشی بہبود کے منصوبوں کے علاوہ امريکہ قانون کی بالا دستی اور منشيات کی روک تھام کے حوالے سے بھی حکومت پاکستان کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس ضمن ميں ايف – سی کے ہزاروں اہلکاروں کی تربيت اور فوجی سازوسامان کی فراہمی کے کئ منصوبے شامل ہيں۔

يہ تمام اعداد وشمار اور منصوبے اس بات کا واضح ثبوت ہيں کہ امريکہ اس بات کو تسليم کرتا ہے کہ محض طاقت کے استعمال سے اس علاقے ميں دہشت گردی کو شکست نہيں دی جا سکتی۔ اسی ليے ان علاقے کے لوگوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے ليے کئ قابل عمل منصوبے نہ صرف منظور کيے جا چکے ہيں بلکہ ان پر کام بھی جاری ہے تاکہ اس علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ کيا جا سکے جس کا بلواسطہ يا بلاواسطہ اثر ديگر علاقوں پر بھی پڑے گا۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ امريکی حکومت پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر اس علاقے کے لوگوں کی بہتری کے ليے شروع کیے جانے والے کئ منصوبوں کی تکميل کے ليے ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ ليکن کيا انتہا پسند اور دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے علاقے کے عام لوگوں کی بہبود کے حوالے سے کوئ ايک بھی منصوبہ منظر عام پر آيا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

ساجداقبال

محفلین
فاٹا کے علاقے ميں تعميری منصوبوں پر خاص توجہ دی گئ ہے اور اب تک امريکی حکومت کی امداد سے 800 کلوميٹر سڑک اور قريب 800 کے قريب بجلی اور آب پاشی کے چھوٹے منصوبے پايہ تکميل تک پہنچ چکے ہيں۔
کچھ وضاحت کرینگے کہ یہ سڑک یا سڑکیں کس علاقے میں بنائی گئی ہیں؟
 

محمد سعد

محفلین
یہ بات نہایت ہی عجیب ہے کہ یہاں موجود طالبان کے مخالفین ایک طرف تو غیر جانبداری اور معتدل مزاجی کا دعویٰ کرتے ہیں اور پھر بھی وہی سوالات اور اعتراضات بار بار دہراتے ہیں اکہ جن کے جوابات نہایت مفصل اور مدلل طریقے سے کئی بار پہلے ہی دیے جا چکے ہیں۔ حالانکہ غیر جانبداری اور معتدل مزاجی کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ لوگ کوئی نیا اعتراض کریں یا پھر یہ بات تسلیم کر لیں کہ طالبان کے متعلق ان کے نظریات درست نہیں ہیں۔ اور اگر یہ عمل ان کی طبیعت پر نہایت ہی گراں گزرتا ہے تو کم از کم خاموشی ہی اختیار کر لیں۔ بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ انہی چند نکات پر بار بار لگاتار اصرار کیا جائے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
آپکی بات بالکل بجا ہے کہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے لیکن کیا آپکے ذہن میں‌ اسکا کوئی حل بھی ہے؟
کرم ایجنسی والا مسئلہ خالص فرقہ واریت کی پیداوار ہے۔ میں‌ شکر کرتا ہوں‌ کہ اسمیں طالبان انوالو نہیں ورنہ تباہی کہیں زیادہ ہوتی۔ وہاں‌ صرف اہل تشیع نہیں، اہلسنت سے بھی زیادتی ہوئی۔ وجہ ظاہر ہے دونوں فرقوں‌ میں‌ شرپسندوں کی موجودگی۔ جنہوں‌ نے دس لاکھ لوگوں کی جان کو عذاب ڈالا ہوا ہے۔ اس مسئلے پر ہمیشہ سے ماضی کی حکومتوں نے کچھ نہیں‌ کیا۔ اور مزید خوفناک یہ کہ فرقہ واریت کے ایک اور بڑے گڑھ ہنگو میں‌ بھی طالبان کی آمد ہو چکی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ لوگ جامعہ حفصہ سے لیکر سوات، علاقہ غیر اور جہاں جہاں ایسے گروہوں کی اسلام اور اصلاح امت کے نام پر حمایت کرنے سے باز نہ آئیں گے، اسکا نتیجہ صرف اس صورت میں نکلے گا کہ حکومت کی رٹ [عملداری} کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے گی۔

اب جتنے جرائم ان علاقوں میں ہوتے ہیں، طالبان کے یہ حمایتی حضرات فورا اس کا رخ دوسرے گروہوں کی جانب پھیرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ تو سوال یہی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ طالبان کی ان علاقوں میں آمد سے پہلے دن دھاڑے نہ یوں عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو اغوا کر لیا جاتا تھا، نہ سکول جلائے اور دھماکوں سے اڑائے جاتے تھے، نہ صدر الاسلام اور لشکر الاسلام [طالبان حمایت یافتہ] کے مابین لڑائیوں میں سینکڑوں لوگ قتل ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ [اور وہ سب کے سب جرائم جن کا اوپر اس تھریڈ میں ذکر ہو چکا ہے]۔ تو کیوں ایسا ہے کہ یہ طالبان کی آمد سے پہلے نہ تھا مگر آج ہے؟

/////////////

پاڑہ چنار [اپر کرم ایجنسی] کا مسئلہ

خیر سے عیسائیوں کو اغوا کیا گیا تو مغربی دنیا متحرک ہوئی اور انکے دباو پر نام کا ہی، لیکن ایک آپریشن تو کیا گیا۔

مگر اے اہل وطن، پاڑہ چنار میں دس لاکھ پاکستانی محصور ہیں۔ اور ایسے محصور ہیں کہ 15 پندرہ ماہ ہو چکے ہیں۔ اور جو کچھ وہاں ہو رہا ہے اس پر ہمارا میڈیا صرف ایک انتہائی مختصر سی خبر لگا کر نکل لیتا ہے۔ کہیں کوئی آواز اس ظلم پر سننے کو نہیں آتی۔ حکومت لال مسجد کے واقعے کے بعد اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ ان انتہا پسندوں کے ہاتھوں نفسیاتی طور پر مکمل طور پر شکست کھا چکی ہے۔ ہمارے میڈیا کا کردار اتنا منفی ہے کہ حکومت نے اگر پاڑہ چنار کا محاذ کھول کر انصاف کو قائم کرنا چاہا تو میڈیا منٹوں میں حکومت کو ظالم ثابت کر کے حکومت کو گرا دے گا۔

میں پہلے آپ لوگوں کی توجہ اس طرف دلا چکی ہوں کہ:

۱۔ پندرہ ماہ سے یہ دس لاکھ پاکستانی محاصرے میں ہیں۔

۲۔ پاکستان کا آٹا افغانستان تو جا سکتا ہے، مگر ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتا۔

۳۔ ہسپتالوں میں دوائیاں، مشینیں، آکسیجن سلنڈر۔۔۔۔ کچھ نہیں ہے۔ نومولود بچے صرف آکسیچن نہ ہونے کی وجہ سے روز مر رہے ہیں۔ [یاد ہے وہ دوہائیاں جو امریکہ کے خلاف دی جاتی تھیں جب عراق میں دوائیاں نہ ملنے سے بچے مر رہے تھے؟ مگر جب یہی کام طالبان کے تحت ہو رہا ہے تو ہمارا میڈیا چپ، ہمارے لوگ چپ، ۔۔۔۔ اور مغربی دنیا بھی چپ کہ جتنا مسلمان آپس میں لڑ کر مریں انہیں اس سے زیادہ سروکار نہیں۔

۴۔ بہت سے ضعیف لوگ جن کا آپریشن ملک کے مختلف ترقی یافتہ ہسپتالوں میں ممکن ہے، وہ سب کے سب اس لیے مر رہے ہیں کہ وہ ملک کے دوسرے حصوں تک نہیں جا سکتے۔

۵۔ سینکڑوں لوگ اور سینکڑوں طالبعلم جو کرم اپر ایجنسی سے کام کے لیے ملک کے دوسرے حصوں میں گئے ہوئے تھے، وہ پندرہ پندرہ ماہ سے اپنوں سے دور ہیں۔ کئی کے اس دوران ماں باپ مر گئے، کئی کے بیوی بچے مر گئے، مگر وہ اپنوں کی لاشیں تک نہ دیکھ سکے۔

۶۔ زیادہ ہی ہوا تو حکومت نے آفر کی کہ وہ ہیلی کاپٹر سروس شروع کر دیتی ہے۔۔۔ مگر بتائیں کہ یہ غریب لوگ جو محنت مزدوری کرنے دوسرے علاقوں میں گئے ہوئے ہیں، یہ کہاں سے ہیلی کاپٹر کے اخراجات اٹھائیں؟

اور کیا یہ حکومتِ وقت کے منہ پر طمانچہ نہیں کہ اسے اپنے ہی علاقے میں ، اپنے ہی شہریوں کو اُن کے گھروں تک پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کی سروس کی آفر کرنا پڑ رہی ہے؟

اگر حکومت کی عملداری ہوتی تو جو بھی شر پسند ہیں، چاہے اُن کا تعلق کسی سے ہو، انہیں پکڑ کر مارے اور اندر کرے، مگر کیا اسکا حل یہ ہے کہ دس لاکھ لوگ ایسے محصور ہوں کہ روزآنہ بے موت مرتے رہیں۔

ایسے میں وہ جو اپنوں سے دور نہیں رہ پاتے اور چلنے کی ٹھان لیتے ہیں، انکا کیا حشر ہوتا ہے؟؟؟ نہیں کوئی اس کا نوحہ بیان نہیں کرتا۔۔۔۔ہمارا میڈیا بس چپ ہے۔ ہم سب چپ ہیں اور ظلم و ستم کا بازار آس پاس گرم ہے۔

دیکھئیے ان کے بے دردی سے کٹے ہو سر اور لاشے جو کہ شاید آپ کو انصاف کے لیے پکار رہے ہیں۔

[FONT=Arial, Helvetica, sans-serif]
pict1.jpg

pict2.jpg

pict3.jpg

pict4.jpg

pict5.jpg

pict6.jpg

pict7.jpg

pict8.jpg

pict9.jpg

pict10.jpg

pict12.jpg

pict13.jpg




ان لوگوں کے لیے اگر کچھ اور نہ ہو سکے تو تو ایک دفعہ سورہ فاتحہ پڑھ دیں۔

اور ہمارے سائبر جہادی برادران دیکھ لیں اگر وہ ان فتنوں کی حمایت یوں ہی کرتے رہے تو ہر طرف کتنا ظلم و ستم پھیلتا ہی رہے گا اور کوئی اس ظلم و خون و غارت کی اصلاح کرنے والا نہ ہو گا۔



[/FONT]
 

محمد سعد

محفلین
مہوش باجی، سادہ سی بات ہے کہ جب امن معاہدوں کے کامیاب تجربات اتنی بار کیے جا چکے ہیں تو پھر جنگ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیوں بلاوجہ فساد پھیلایا جائے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top