طالبان کے تحت آج ان علاقوں کی صورتحال

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
واہ جی واہ! ابھی دھماکے کو چوبیس گھنٹے بھی پورے نہیں ہوئے اور لوگوں پر یہ وحی بھی نازل ہو گئی کہ اس کا ذمہ دار طالبان کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا بات ہے جی ہمارے "پہنچے ہوئے" لوگوں کی۔ :-P
کم از کم تھوڑی بہت تحقیق تو کر لینی چاہیے۔ یا پولیس کی تحقیقات کے پورے ہونے کا ہی انتظار کر لینا چاہیے۔ :mad:

رمضان توقیر کو تو گرفتار کیا گیا جبکہ نام نہاد جہادیوں کو چھوڑا گیا اور وہ ہی ایک مخصوص مسلک کی نسل کشی کررہے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
واہ جی واہ! ابھی دھماکے کو چوبیس گھنٹے بھی پورے نہیں ہوئے اور لوگوں پر یہ وحی بھی نازل ہو گئی کہ اس کا ذمہ دار طالبان کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا بات ہے جی ہمارے "پہنچے ہوئے" لوگوں کی۔ :-P
کم از کم تھوڑی بہت تحقیق تو کر لینی چاہیے۔ یا پولیس کی تحقیقات کے پورے ہونے کا ہی انتظار کر لینا چاہیے۔ :mad:

بھائی جی، اب تو سالہا سال گذر گئے ہیں اور ہزاروں معصوموں کو طالبان موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں اور ہر دفعہ ایسے قتل عام میں کہ جس میں "حکومتی اہلکاروں" کو قتل کیا جائے۔۔۔۔۔ تو ایسے تمام تر واقعات میں طالبان ہی ملوث ہوتی ہے۔ [دیگر جرائم پیشہ گروہ لوٹ مار کرتے ہیں لیکن :

۱۔ حکومتی اہلکاروں کے خون کے پیاسے صرف اور صرف طالبان ہیں۔
۲۔ اور خود کش حملے کی تعلیم و تربیت دینے والے اور اپنے مدارس میں معصوم بچوں تک کو خود کش حملوں کی برین واشنگ کرنے والے صرف اور صرف طالبان ہیں۔
۳۔ اور اپنی اس جنگی جنون میں ہسپتالوں تک میں بغیر معصوموں کی کوئی پرواہ کرتے ہوئے بم دھماکے کرنے والے کوئی چھوٹے موٹے جرائم پیشہ گروہ نہیں بلکہ صرف اور صرف طالبان ہیں۔

اور یہ لیں طالبان کے ان ظالم ملاووں کا کھلا اقرارِ قتل عام:
http://jang.com.pk/jang/aug2008-daily/19-08-2008/up62.gif

//////////////////////

اور بھائی جی، اب جبکہ طالبان نے کھل کر اس قتل عام کو قبول بھی کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔ تو پھر بھی آپ کو کس چیز نے روکا ہوا ہے کہ آپ انکی مذمت نہ کریں؟
پہلے آپکا عذر تھا کہ یہ حملہ طالبان نے نہیں کیا، مگر اب یہ عذر بھی ختم ہوا۔ مگر پھر بھی آپکی طرف سے مذمت نہیں۔۔۔۔ بلکہ صرف یہ ایک واقعہ ہی کیا طالبان تو سینکڑوں ایسے معصوموں کے قتل میں ملوث ہے مگر آپ نے کبھی نہ کبھی ماضی میں اس قتل عام پر طالبان کی مذمت کی اور نہ ہی آج طالبان کی مذمت کریں گے اور مستقبل کا صرف اللہ کو علم ہے۔

///////////////////////////

بی بی سی کی رپورٹ سے کچھ اقتباسات:
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے سے پہلے ہسپتال کے سامنے نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اہل تشیع سے تعلق رکھنے والےایک شخص کو ہلاک کیا تھا جس کی لاش کو پولیس اہلکار شعبۂ حادثات میں لےگئے۔




اس واقعے کے بعد اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد ہسپتال کے احاطے میں جمع ہوگئے اور اسی دوران وہاں زوردار دھماکہ ہوا۔

پولیس اور دیگر حکومتی اہلکاروں کے قتل عام کے علاوہ طالبان کی ایک اور خصلت دوسرے تمام مسلکوں کے معصوم شہریوں کا یونہی قتل عام کرنا بھی ہے [اور یہ وہ خصلت ہے جو کسی دوسرے بڑے سے بڑے جرم پیشہ گروہ میں بھی موجود نہیں]
کیا ان سینکڑوں واقعات کے باوجود آپ اس بات میں شکوک پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان ایسے واقعات میں ملوث نہیں ہوتی؟
بھائی جی، اگر آپ اس قتل و غارت گری کی مذمت نہیں کر سکتے تو کم از کم طالبان کی حمایت سے ہی باز آ جائیں اور انکا دفاع کرنے کی بجائے خاموشی ہی اختیار کر لیں۔ مگر میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ آپ کا قلم طالبان کی مذمت میں تو کیا اٹھتا، مگر حمایت میں فورا اٹھتا ہے اور آپ ہر ممکن طریقے سے طالبان کو پاک صاف فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
لیکن ایک چھوٹا سا اضافہ یا وضاحت کر دوں اگرچہ سرسری طور پر پہلے بھی کر چکا ہوں کہ یہاں پاکستانی طالبان کی مذمت کی جا رہی ہے افغان طالبان سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے رویوں میں بہت بڑا فرق ہے۔۔۔وسلام
 
میرا خیال ہے کہ یہاں ہر طرح کے طالبان کی مذمت کی جارہی ہے۔
بلکہ درست طور پر شیعہ سنی تفریق کی مذمت کی جارہی ہے
مگر یہ تو مسئلہ کا ظاہری رخ ہیں‌مسئلہ کی جڑ نہیں۔
یہ طالبان، یہ دھشت گرد مذہبی تنظیمیں یہ اپس میں‌لڑتے لوگ نہ عراق میں‌پہلے تھے نہ پاکستان میں‌اور نہ افغانستان میں۔
یہ سب خطہ میں‌سپرپاور کی موجودگی سے ہیں۔ اور اسکے جانے کے بعد ہی ختم ہوسکیں گے ۔اللہ کرے کہ یہ سب ختم ہوجائے۔
 

طالوت

محفلین
میرا خیال ہے کہ یہاں ہر طرح کے طالبان کی مذمت کی جارہی ہے۔

نہ جی ! افغان طالبان کا تو میں دفاع کروں گا ۔۔۔ افغانستان ان کا ملک ہے وہ اس کے نوے فیصد سے زائد علاقے پر حکومت کرتے تھے ۔۔۔ اور ان پر یہ جو غیر منصفانہ جنگ مسلط کی گئی اس کے لیئے وہ حق بجانب ہیں کہ اپنا دفاع کریں مریں اور ماریں۔۔۔۔
اب بات ہے پاکستان کی آپ نے کہا سنی شیعہ تفریق ختم کی جائے ۔۔ یہ ایک لطیفہ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں ۔۔ سنی شیعہ اختلاف کی تاریخ بہت پرانی اور خون خرابے سے بھر پور ہے جو یہ کہتے ہیں کہ چند سال پہلے یہ سب نہیں ہوتا تھا تو ان کی تاریخ سے ناواقفیت ہے جو انھیں یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے ۔۔۔ پہلے یہ شدت نہ تھی لیکن خون خرابہ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے اور جاری رہے گا اس کی وجہ سبھی جانتے ہیں اسے جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا کہ اس کے ثبوتوں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔۔۔ اختلاف سطحی نہیں بنیادی ہے اور بڑا تکلیف دہ ہے۔۔۔
لہذا کم از کم مجھے تو اس کا کوئی حل نظر نہیں اتا ماسوائے اس کے کہ ان کو امام بارگاہوں ، اور مسجدوں میں محدود کیا جائے اور ایسے تمام افراد کا خاتمہ کر دیا جائے بغیر کسی مسلکی جانبداری کے ۔۔۔۔۔۔۔وسلام
 

محمد سعد

محفلین
بھائی جی، اب تو سالہا سال گذر گئے ہیں اور ہزاروں معصوموں کو طالبان موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں اور ہر دفعہ ایسے قتل عام میں کہ جس میں "حکومتی اہلکاروں" کو قتل کیا جائے۔۔۔۔۔ تو ایسے تمام تر واقعات میں طالبان ہی ملوث ہوتی ہے۔ [دیگر جرائم پیشہ گروہ لوٹ مار کرتے ہیں لیکن :

۱۔ حکومتی اہلکاروں کے خون کے پیاسے صرف اور صرف طالبان ہیں۔
۲۔ اور خود کش حملے کی تعلیم و تربیت دینے والے اور اپنے مدارس میں معصوم بچوں تک کو خود کش حملوں کی برین واشنگ کرنے والے صرف اور صرف طالبان ہیں۔
۳۔ اور اپنی اس جنگی جنون میں ہسپتالوں تک میں بغیر معصوموں کی کوئی پرواہ کرتے ہوئے بم دھماکے کرنے والے کوئی چھوٹے موٹے جرائم پیشہ گروہ نہیں بلکہ صرف اور صرف طالبان ہیں۔

اور یہ لیں طالبان کے ان ظالم ملاووں کا کھلا اقرارِ قتل عام:
http://jang.com.pk/jang/aug2008-daily/19-08-2008/up62.gif

//////////////////////

اور بھائی جی، اب جبکہ طالبان نے کھل کر اس قتل عام کو قبول بھی کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔ تو پھر بھی آپ کو کس چیز نے روکا ہوا ہے کہ آپ انکی مذمت نہ کریں؟
پہلے آپکا عذر تھا کہ یہ حملہ طالبان نے نہیں کیا، مگر اب یہ عذر بھی ختم ہوا۔ مگر پھر بھی آپکی طرف سے مذمت نہیں۔۔۔۔ بلکہ صرف یہ ایک واقعہ ہی کیا طالبان تو سینکڑوں ایسے معصوموں کے قتل میں ملوث ہے مگر آپ نے کبھی نہ کبھی ماضی میں اس قتل عام پر طالبان کی مذمت کی اور نہ ہی آج طالبان کی مذمت کریں گے اور مستقبل کا صرف اللہ کو علم ہے۔

///////////////////////////

بی بی سی کی رپورٹ سے کچھ اقتباسات:


پولیس اور دیگر حکومتی اہلکاروں کے قتل عام کے علاوہ طالبان کی ایک اور خصلت دوسرے تمام مسلکوں کے معصوم شہریوں کا یونہی قتل عام کرنا بھی ہے [اور یہ وہ خصلت ہے جو کسی دوسرے بڑے سے بڑے جرم پیشہ گروہ میں بھی موجود نہیں]
کیا ان سینکڑوں واقعات کے باوجود آپ اس بات میں شکوک پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان ایسے واقعات میں ملوث نہیں ہوتی؟
بھائی جی، اگر آپ اس قتل و غارت گری کی مذمت نہیں کر سکتے تو کم از کم طالبان کی حمایت سے ہی باز آ جائیں اور انکا دفاع کرنے کی بجائے خاموشی ہی اختیار کر لیں۔ مگر میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ آپ کا قلم طالبان کی مذمت میں تو کیا اٹھتا، مگر حمایت میں فورا اٹھتا ہے اور آپ ہر ممکن طریقے سے طالبان کو پاک صاف فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔

باجی جی، پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اس رویے کی مخالفت کی ہے کہ ابھی دھماکہ ہوا نہیں ہوتا کہ اسے خودکش قرار دے کر طالبان کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں پر اور کئی دوسرے شہروں میں شیعہ سنی کے اختلافات کافی طویل عرصے سے چل رہے ہیں جب طالبان اتنے عام نہیں ہوئے تھے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ پہلے تحقیقات ہو لینے دیں اور پھر بعد میں تبصرے کریں۔ امید ہے کہ بات سمجھ میں آ گئی ہوگی۔
 

محمد سعد

محفلین
لیکن ایک چھوٹا سا اضافہ یا وضاحت کر دوں اگرچہ سرسری طور پر پہلے بھی کر چکا ہوں کہ یہاں پاکستانی طالبان کی مذمت کی جا رہی ہے افغان طالبان سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے رویوں میں بہت بڑا فرق ہے۔۔۔وسلام

چند دن پہلے ہی خبر پڑھی تھی کہ شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں دس طالبان مارے گئے جن کے بارے میں پتا چلا کہ ان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ عالمِ کفر مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنے کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کر رہا ہے۔ یعنی پہلے سادہ لوح لوگوں کے درمیان گھس کر ان کو حکومت کے خلاف ورغلایا جاتا ہے اور پھر حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اس دہشت گردی کو ختم کرو۔ اس سلسلے میں مشتاق احمد قریشی نے ایک کالم بھی لکھا تھا۔ اگر کہیں تو نقل کر دوں گا۔
 

طالوت

محفلین
چند دن پہلے ہی خبر پڑھی تھی کہ شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں دس طالبان مارے گئے جن کے بارے میں پتا چلا کہ ان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ عالمِ کفر مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنے کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کر رہا ہے۔ یعنی پہلے سادہ لوح لوگوں کے درمیان گھس کر ان کو حکومت کے خلاف ورغلایا جاتا ہے اور پھر حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اس دہشت گردی کو ختم کرو۔ اس سلسلے میں مشتاق احمد قریشی نے ایک کالم بھی لکھا تھا۔ اگر کہیں تو نقل کر دوں گا۔

جی ضرور اگر لنک ہی دے دیں تو کافی ہو گا کیونکہ یہ خبر میرے لیئے نئی ہے ۔۔ تاہم میں پھر بھی دہرا دوں کہ پاکستان میں طالبان کی کوئی جگہ نہیں بنتی ۔۔۔ یہاں کی غالب اکثریت مسلمان ہے اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتی ہے اسلیئے کسی ایک مسلک کا اسلام یہاں نہیں چل سکتا پہلے تمام مسلک ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دے لیں (جو کہ کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ اس سے پہلے ہمیں یہ مسلکی گند ایک دفعہ باہر پھینکنا ہوگا) ۔۔۔تو پھر نفاذ اسلام کی کوشش کی جا سکتی ہے اگر چہ پاکستان کے قوانین خلاف اسلام نہیں اگر صرف ان پر عمل در آمد ہی کروا لیا جائے تو ہمارے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔۔۔
البتہ افغانستان کے طالبان کا کردار اور ان کی حکومت افغانیوں کے لیئے نعمت سے کم نہیں تھی اور وہ پاکستانی طالبان کی طرح درندے ثابت نہیں ہوئے تھے ۔۔۔ کیونکہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ پاکستانی طالبان جرائم پیشہ افراد پر مشتمل قوت کا نام ہے ۔۔۔ وسلام
 
طالبان مخالفت میں شاید کچھ لوگ کافی frenzies ہو رہے ہیں اور ان کا رویہ بڑا دلچسپ ہے۔

1۔پاکستان کو چھوڑئیے اگر طالبان افغانستان میں بھی امریکا کے خلاف جنگ لڑیں تو وہ دہشت گرد(حالانکہ یہ تو ان کا وطن ہے جہاں کئی سالوں تک ان کی حکومت برقرار رہی امریکا اور کرزئی تو غاصب ہیں لیکن جناب دہشت گرد تو طالبان ہی ہیں۔(

2۔یہی امریکا اگر پاکستانی علاقوں میں بمباری کرے تو بھی امریکا جائز (کیوں کہ ان طالبان کو کیا ضرورت ہے امریکا سے جنگ لڑنے کی کیوں وہ آسانی سے ہتھیار ڈال کر مر نہیں جاتے یا امریکا کی شہریت کا حلف اٹھا نہیں لیتے(

3۔یہی امریکا طرح طرح سے پاکستان میں مداخلت کررہا ہے۔آٹھ سالوں تک ایک غاصب کے ذریعے اس ملک پر حکومت کی اور اس غاصب نے یہاں کے لوگوں کو امریکا کے ہاتھوں بیچ ڈالا، عورتوں کی عزتیں امریکا کے ہاتھ نیلام کر دئیں۔پر امن قبائلی علاقے جہنم بن گئے لیکن قصور وار تو جناب طالبان ہی ہیں‌ وہ کیوں امریکا سے لڑتے‌ ہیں اور مشرف کی طرح کچھ ڈالروں میں بک کیوں نہیں‌جاتے

4۔انfrenziesلوگوں کا رویہ واقعتا بڑا دلچسپ ہے ان کے نزدیک ظلم وہ ہے جو طالبان کرتے ہیں اور خون اس fluid کا نام ہے جو آج کل صرف طالبان کے ہاتھوں بہ رہا ہے چنانچہ اس فارمولے کے تحت لال مسجد، لال مسجد والوں کے خون میں‌نہا کر مزید سرخ ہو گئی لیکن چوں کہ اولا تو بقول بعض کہ وہ اپنی حرکتوں کے باعث مباح الدم ہو چکے تھے اس لیے لال مسجد والوں کا خون جائز تھا اور بقول بعض ان میں تو خون تھا ہی نہیں کیونکہ خون تو اس fluid کا نام ہے جو آج کل صرف طالبان کے ہاتھوں بہ رہا ہے۔

5۔مقامی قبائلی امریکا کی آمد نامسعود سے پہلے اپنے اپنے علاقوں میں پر امن طور پر رہے رہے تھے کہ اچانک ان کے علاقوں میں ٹینک داخل ہو گئے اور غاصب نے سینہ تان کر تان لگائی کہ ہم نے امریکی پٹھو گیری میں وہ کر دیکھایا جوانگریز بھی نہ کر سکے اور پھر آسمان سے اس علاقے میں آگ بر سنی شروع ہو گئی مدرسوں پر بمباری ،شادی بیاہ کی تقاریب پر بمباری ، گھروں پر بمباری قبائلی امریکیوں کے ہاتھوں بھی مارے جائیں پاکستانی فوج بھی ان پر چڑھائی کرے لیکن لیکن روکیے جناب اتنی فرصت کس کہ پاس کہ وہ اتنا سوچے شارٹ کٹ یہی ٹھیک ہے کہ قصور وار تو طالبان ہی ہیں وہ کیوں امریکا سے لڑتے ہیں کیا وہ جانتے نہیں کہ امریکا مک ڈونلڈ بنا رہا ہے جینز بنا رہا ہے ہوائی جہاز بنا رہا ہے کمپیوٹر بنا رہا ہے امریکی کلچر بنا رہا ہے جس کہ طفیل اب ننگی عورت کو دیکھنا آسان ہپو گیا ہے پھر ایسی ایسی گنیں بنا رہا ہے جو ساٹھ ہزار گولیاں ایک منٹ میں فائر کرتی ہیں اور ساتھ امریکا کی فخریہ پیشکش ہے کہ ایسے کچھ ہتھیاروں کی عملی نمائیش کے مواقع وہ طالبانوں کے ملک میں باکل فری کررہا ہے انہیں تو اس پر خوش ہونا چاہیے۔

6۔ ساتھ ساتھ یہ جو ملک کہ طول و عرض میں خودکش حملے ہو رہے ہیں یہ بھی طالبان کا ہی حربہ ہے دراصل یہ حربہ ایجاد ہی ان کا کردوہ ہے جب ظالم فلسطینیوں (یہ ایک دوسرے ظالمان ہیں پتہ نہیں کن مدرسوں کے پڑھے ہوئے( نے اسرائیلیوں‌کے اوپر حملے شروع کیے تو چونکہ وہ نہتے تھے لہذا طالبان نے ان کو پہلے خودکش حملوں کی راہ دکھائی اور اب وہ خود یہ حملے کر رہے ہیں اور کن پر کر رہے ہیں کبھی پولس پر اور کبھی فوج پر کیوں کہ انکا خیال ہے کہ پاکستان فوج امریکی جنگ لڑ رہی ہے لہکن اس سے ہر گز یہ مطلب نہ نکا لیے کہ یہ خودکش حملے امریکی حملوں کا رد عمل ہے اور اس سے پہلے اس ملک میں امن و سکوں تھا یا اس میں کوئی بیرونی ایجنسی بھی ملوث ہو سکتی ہےیہ تو بس منتقم مزاج طالبان کا ایک کھیل ہے اور شاید اس سے پہلے 90 کی دہائی میں جو جگہ جگہ خاص طور پر کراچی میں بسوں، عوامی مقامات پر بم دھماکے ہو رہے تھے غالب خیال یہی ہے کہ یہ حملے را نے نہیں بلکہ طالبان نے کروائے تھے کیونکہ را ، موساد، خاد، سی آئی اے تو پاکستان کی سب سے بڑھ کر ہمدرد ہیں

7۔ اور جو کچھ کرم ایجنسی ( پارا چنار وغیرہ( میں ہو رہا ہے اس کی وضاحت بی بی سی نے حال میں ہی کی ہے اس کی کچھ اور تفصیل بھی میرے پاس موجود ہے اس کے لیے اب انتظار کیجئے

کرم ایجنسی میں فسادات کیوں؟
پاکستان کے قبائلی علاقے کُرم ایجنسی میں شیعہ سُنی فسادات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے مگر حکومت اس سے روکنے میں بظاہر نا کام نظر آرہی ہے۔

باوثوق سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کُرم ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ اعظم خان گزشتہ دس روز سے فسادات روکنے کےلیے مرکزی حکومت سے گن شپ ہیلی کاپٹر مہیا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم حکام بالا کا کہنا ہے کہ باجوڑ ایجنسی میں طالبان کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے گن شپ ہیلی کاپٹر پولٹیکل انتظامیہ کو فراہم نہیں کیے جا سکتے۔

سات اگست کو ایک ٹریکٹر کے جلائے جانے کے بعد شیعہ سنی فسادات میں اب تک سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پچھتر افراد ہلاک اور دو سو ایک زخمی ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بقول ان کے لوئر کُرم میں سُنیوں کے گاؤں کو جلائے جانے کے دوران جن افراد کو ہلاک کیاگیا ہے ان کی لاشیں اب بھی جگہ جگہ پڑی ہیں۔

تازہ جھڑپیں سات اگست کو لوئر کُرم میں اس وقت شروع ہوئیں جب حکومتی ذرائع کے مطابق صدر مقام پاڑہ چنار سے تقریباً چار ہزار شیعوں پر مشتمل ایک لشکر نے سُنیوں کے گھروں پر حملہ کر کے ان میں موجود سامان کو لوٹ کر کئی گاؤں کو نذرِ آتش کردیا۔

اس لشکر نے منڈا، اسماعیل، حیدر خان، گالہ، مندری اور مدوخیل کلی اورمخیزئی کے چار چھوٹے چھوٹے دیہات کو آگ لگا دی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان تمام گاؤں میں تقریباً دو سو مکانات کو نذرِ آتش کردیا گیا ہے۔

اس دوران سُنیوں نے تین شیعہ دیہات چار دیوار، جلمئی اور سیدان پر قبضہ کرکے سامان کولوٹنے کے بعد اس سے نذرِ آتش کردیا ہے۔

اگرچہ اس لڑائی میں دونوں طرف سے عام قبائل ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں لیکن جنگ میں شدت لانے اور اس سے مزید بھڑکانے میں شیعہ اور سُنی مسلک کےماننے والے نظریاتی اور حربی لحاظ سے تربیت یافتہ دو مخالف گروپوں کا ہمیشہ سے بہت بڑا کردار رہا ہے۔

ان دو گروپوں میں سُنی طالبان جنگجؤ اور شیعہ مہدی ملیشاء شامل ہے۔

کُرم ایجنسی میں اگرچہ سنی اور شیعہ فسادات مغل بادشاہ بابر کے دور ، انگریزوں اور پاکستان کے قیام کے بعد وقتا فوقتاً ہوتے آ رہے ہیں لیکن پاکستان میں طالبانائزیشن کے ظہور نے فرقہ ورانہ فسادات کو ایک نئی جہت دی ہے۔

حالیہ فسادات نو نومبر دوہزار سات سے اس وقت شروع ہوگئے جب علاقے میں نو وارد طالبان نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک سپاہی امجد حسین کو ضلع ہنگو کے دوآبہ کے علاقے سے مبینہ طور پر اغواء کرکے ان کا سرقلم کردیا۔

مقتول کی لاش کے پاس جو خط ملا تھا اس پرطالبان کی جانب سے لکھا گیا تھا کہ انہوں نے سپاہی کو جاسوس سمجھ کر قتل کردیا ہے۔ اس انداز سے قتل کرنے کے عمل نے کُرم ایجنسی میں موجود شیعہ آبادی کو مشتعل کردیا اور انہوں نے سُنیوں پر حملہ کر دیا۔

اگلے دن لوئر کُرم میں سنیوں نے پندرہ شیعوں کو ہلاک کردیا اور یوں فسادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔اس دوران تقریباً دو سو سُنی خاندانوں نے شیعہ اکثریتی صدر مقام پاڑہ چنار سے نقل مکانی کی جبکہ جواب میں سُنیوں نے پاڑہ چنار جانے والی واحد اہم شاہراہ کو بند کردیا۔

اس راستے کے بند ہونے سے شیعوں کے آمد ورفت کے تمام راستے بند ہوگئے، بازار میں خوردنی اشیا اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت پیدا ہوگئی۔ ہسپتال میں ادویات ختم ہوگئیں اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے افغان حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہسپتال کو کئی ملین روپے کی ادویات فراہم کیں۔

اس کے علاوہ پاڑہ چنار کے لوگ افغانستان سے ہوتے ہوئے پشاور آتے جبکہ تورخم بارڈر کے ذریعے افغانستا ن سے گزرتے ہوئے واپس پاڑہ چنار پہنچتے تاہم اس دوران طالبان کے خلاف آپریشن میں مصروف اتحادی افواج نے پاڑہ چنار جانے والے افراد کو مشکوک سمجھ کر ان پرحملہ کردیا جس میں بعض افراد ہلاک بھی ہوئے۔

شیعہ اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والا اعتدال پسند طبقہ خود کو طالبان اور مہدی ملیشاء کی ہاتھوں میں یرغمال پاتے ہیں۔ ان میں درجنوں افراد نے بات چیت کے دوران بتایا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ کا حصہ بن رہے ہیں۔

اس طبقے کا خیال ہے کہ اس میں بیرونی ہاتھ نظر آرہا ہے۔ تاہم ان کے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اس وقت سرکاری اعداد شمار کے مطابق ایک ہزار کے قریب طالبان جنگجو علاقے میں جاری فسادات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں صرف ایک سو بیس کے قریب جنگجؤوں کا تعلق کُرم ایجنسی سے بتایا جاتا ہے جبکہ باقی تمام کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے جو طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے دست راست حکیم اللہ کے زیر کمان لڑ رہے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان کے مدمقابل شیعہ مہدی ملیشاء ہے جن کے تربیت یافتہ جنگجؤوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق سات سو ہے جن میں امامیہ سٹو ڈنٹس آرگنائزیشن کے تین سو نوجوان بھی شامل ہیں۔اس گروپ کی سربراہی کالعدم تحریکِ جعفریہ پاکستان کے مقامی رہنماء عا بد حسین الحسینی کر رہے ہیں۔

تاہم امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس بات کی تردید کرتی ہے کہ ان کی مسلح تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کارکن کرم ایجنسی کے فسادات میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ایک فلاحی اور سیاسی تنظیم ہے جو محض سیاسی جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گھمبیر صورتحال میں پولٹیکل انتظامیہ کیا کر رہی ہے۔ پولٹیکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عارضی جنگ بندی کےلیے مؤثر طریقہ فوج کی اضافی نفری کی تعیناتی اور فریقن کے مورچوں پرگن شپ ہیلی کاپٹر کی فائرنگ ہے تاہم ان کے بقول بار بار کے رابطے کے باوجود مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں جاری آپریشن کی وجہ سے اضافی گن شپ ہیلی کاپٹر دستیاب نہیں ہیں۔

تاہم ان تمام حکومتی وضاحتوں کے باوجود حالات دن بدن خرابی کی طرف جارہے ہیں اور مبصرین کے بقول حکومت کو خاموشی توڑ کر کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔دو روز قبل پشاور میں مشیرِ داخلہ رحمان ملک نےجنگ بندی کے لیے فریقین کو بہتر گھنٹے کا وقت دیا تھا جس پر کافی تنقید کی گئی کہ ان کے اس بیان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت فریقین کو تین دنوں تک مزید لڑنے کی اجازت دے رہی ہے۔

مشیرِ داخلہ کے اعلان کے بعد دو دنوں میں چالیس کے قریب افراد ہلاک اور پچاس گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے اور مقامی لوگ سوال کرتے ہیں کہ مشیرِ داخلہ کی جانب سے حالات کی سنگینی کی حقیقت تسلیم کیے جانے کے بعد ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائے
۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080817_kurram_analysis_ra.shtml
میری اس پوسٹ سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ طالبان برے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں ایک سوال میرے ضمیر کو تنگ کر رہا ہے کہ پھر یہ امریکا ، مشرف، مہدی ملیشاء شیعہ سنی دونوں فرقہ واری کیا ہیں۔
 

طالوت

محفلین
شکریہ ابن حسن کرم ایجنسی کے حوالے سے یہ وہ تصویر کے دونوں رخ ہیں جو آپ نے پیش کیئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
 

محمد سعد

محفلین
جی ضرور اگر لنک ہی دے دیں تو کافی ہو گا کیونکہ یہ خبر میرے لیئے نئی ہے ۔۔

خبر کا کوئی آن لائن ذریعہ تو نہیں ملا البتہ کالم کا ربط مل گیا ہے۔
http://urdunews.net/search_details.asp?nid=296909
ویسے لوگوں کی سہولت کے لیے یہاں پر نقل بھی کر دیتا ہوں۔

خبر تو اہم ہے
مشتاق احمد قریشی

گزشتہ دنوں سنگل کالم کی خبر اندرونی صفحات پر غیر اہم خبر کے طور پر شائع ہوئی۔ خبر تھی شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز سے مقابلہ میں دس طالبان ہلاک، تفصیل میں درج تھا کہ جب دس طالبان کی میتوں کو سپرد خاک کرنے کے لیے غسل دیا گیا تو معلوم ہوا کہ دس کے دس مسلمان نہیں تھے۔ بظاہر تو خبر بہت چھوٹی سی ہے لیکن بڑی اہم اور خوفناک ہے۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیرستان اور تمام قبائلی علاقوں میں طالبان کے نام پر کون لوگ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ بھارت جس کا افغانستان میں ہر طرح کا عمل دخل قائم ہوچکا ہے وہ امریکہ اور اسرائیل کا آلہ کار ہی نہیں بلکہ خود بھی پاکستان اور مسلم دشمنی میں کسی طرح کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ بھارت کے تربیت یافتہ فوجی یا غیر فوجی افراد کو داڑھی اور سر کے بال بڑھا کر طالبان کا روپ دینا کون سا مشکل کام ہے۔ جہاں تک قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کی خدمات حاصل کرنے کا معاملہ ہے تو وہاں غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور افراد کی کمی نہیں۔ پھر اسلام اور دین پر جان دینا تو ویسے ہی ان کے لیے فخر کا کام ہے اگر حکومت یا سیکیورٹی فورسز کے خلاف لڑنا ہو اور وہ بھی طالبان کی مدد کرنے کے لیے دُہرے ثواب کا معاملہ بن جاتا ہے جن لوگوں کو طالبان کا رنگ و روپ دے کر ہمارے قبائلی علاقوں میں بھیجا جاتا ہوگا ان کو پوری تیاری کرائی جاتی ہوگی ۔ نماز، روزے کی پریکٹس بھی کرائی جاتی ہوگی کچھ قرآنی آیات بھی سکھائی جاتی ہوں گی تاکہ کسی کمزوری کی وجہ سے ان کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔
دشمنان اسلام جنہوں نے بظاہر تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے لیکن درحقیقت انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا میدان گرم کر رکھا ہے اور اس جنگ میں تمام کلیسائی قوتیں بے دریغ سرمایہ کاری کر رہی ہیں تب ہی تو ان قبائل میں ہونے والے جرگوں میں جب کسی کے خلاف کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو سزا کے طور پر، دس بیس لاکھ سے کم جرمانہ نہیں ہوتا بلکہ پچاس ساٹھ لاکھ تک کی رقوم جرمانہ کی جاتی ہیں۔ آخر ایسے پسماندہ اور غربت کے شکار لوگوں کے پاس اتنی بڑی بڑی رقوم کہاں سے آتی ہوں گی۔ یقیناً ان کے پاس اتنا سرمایہ ہوتا ہوگا تب ہی تو ان کے اپنے لوگ جو جرگے میں شریک ہوتے ہیں، ان کو معلوم ہوتا ہوگا کہ ملزم یا مجرم کی مالی حالت کیا ہے؟کیا ہمارے حکام اورسیکیورٹی فورسز نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ ان پسماندہ اور دور دراز کے دشوار گزار علاقوں میں اتنا سرمایہ کہاں سے اور کیسے آرہا ہے؟
سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ بھی ہے کہ آج کل سوات اور اس کے گردونواح میں طالبان کی جو مہم چل رہی ہے، جس میں وہ نہ صرف سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں بلکہ لڑکیوں کے اسکولوں کو آگ لگا کر ختم کیا جا رہا ہے۔ ان تمام کارروائیوں کا پس منظر سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ نہ تو یہ لڑکیوں کے اسکول اچانک وجود میں آئے ہیں، نہ ہی ان میں پڑھنے والی بچیاں ہی اچانک گھروں سے نکل کر ان اسکولوں میں آگئی تھیں۔ یہ تمام کے تمام اسکول تو برسوں سے لڑکیوں کی تعلیم و تدریس میں مشغول تھے اور آج ان کو جلانے والے بھی اگر واقعی ان ہی علاقوں کے رہنے، بسنے والے ہیں تو پھر انہوں نے آج سے پہلے کیوں ان اسکولوں پر اعتراض نہیں کیا۔ کیوں انہیں برسوں پہلے بننے دیا۔ یقیناً اب تک ہزاروں بلکہ لاکھوں بچیاں کسی نہ کسی سطح پر فارغ التحصیل ہو چکی ہوں گی۔ اب اچانک ہی ان اسکولوں میں کیا خرابی پیدا ہوگئی کہ انہیں آگ لگا کر خاک کر دیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔جبکہ تمام مقامی لوگ برسوں سے اپنی بچیوں کو ان ہی اسکولوں سے زیور تعلیم سے آراستہ کرا رہے ہیں۔ اب ان میں ایسی کیا خرابی آگئی کہ انہیں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ان تمام کارروائیوں میں ملوث اور طالبان کو بدنام اور رسوا کرنے والے یقیناً طالبان نہیں ہیں کیونکہ طالبان تو خود طالب علم ہیں۔وہ تو خود مدرسوں کے طلبا رہے ہیں مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طالبان کی آڑ میں وطن دشمن قوتیں اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ دشمن کے پاس نہ افرادی قوت کی کمی ہے، نہ سرمائے کی ویسے بھی امریکہ افغانستان میں بے دریغ اپنے ڈالر لٹا رہا ہے۔خود افغانستان کا حال بھی دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے، وہاں بھی طالبان اور القاعدہ کے نام پر ہم کس کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کون لوگ زیادہ مارے جا رہے ہیں۔ افغان یا اتحادی فوجی۔یہ تو نظام فطرت ہے بلکہ نظام قدرت ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے اگر کوئی راہ چلتے یا میرے گھر آکر مجھے گالیاں دے، پتھر یا تھپڑ مارے تو میں کتنا اور کب تک برداشت کرسکوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ میرا ردعمل فوری اور سامنے والے سے کہیں زیادہ شدید ہو۔ میرے خیال میں افغانستان اور وطن عزیز کے قبائلی علاقوں میں کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ طالبان کی آڑ میں یا سرمایہ کاری کرکے ضرورت مندوں کے منہ میں سونے کا تر نوالہ ٹھونس کر انہیں اپنے آگے لگا کر یہ مہم جوئی کی اور کرائی جا رہی ہے۔
ظالم مارے بھی اور رونے بھی نہ دے کا معاملہ ہے کہ وہ ہمارے علاقوں میں داخل ہوکر ہمارے علاقوں کو،بستیوں کو تہس نہس کر رہے ہیں اور ہم پر ہی دہشت گردی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کا منہ بند کرنے کے لیے، انہیں بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فنڈ فراہم کر رہے ہیں، یعنی چور سے کہیں چوری کر اور شاہ سے کہیں کہ تیرا گھر لٹا۔ پہلے خود اپنے زرخریدوں اور اپنے تربیت یافتہ افراد سے ملک کے طول عرض میں دہشت گردی کے واقعات کو جنم دیتے ہیں پھر اس کی سرکوبی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ دراصل دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ کی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے۔ جیسا کہ 9/11کے موقع پر امریکی صدر کے منہ سے جذباتی طور پر ہی سہی لیکن حقیقت بیان ہوگئی تھی کہ انہوں نے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیاہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ واقعی امریکہ اور اس کے تمام حواری خصوصاً اسرائیل اور بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان، ایران اور عراق میں اس کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان چونکہ بھارت اور افغانستان کے درمیان واقع ہے اس لیے اسے دونوں اطراف سے شورش اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اب دیکھنا اور سمجھنا یہ ہے کہ ان نام نہاد طالبان کے پس پشت کون کون کھڑا ہے کیونکہ اب تک یہی ہو رہا ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ہی ڈانٹ رہا ہے۔ ہمارا ہی نقصان ہو رہا ہے اور ہم ہی مورد الزام ٹھہرائے جا رہے ہیں اور اب تو ہماری پوزیشن سانپ کے منہ میں چھچھوندر جیسی ہوگئی ہے کہ نہ اگلتے بنتی ہے، نہ نگلتے۔ دہشت گردی کے خلاف اس مہم جوئی سے اگر ہم جان چھڑانا بھی چاہیں تو چھڑا نہیں سکتے کیونکہ ہم تو کمبل کو چھوڑنے کو تیار ہیں لیکن کمبل ہمیں چھوڑ نہیں رہا۔
اللہ وطن عزیز کی حفاظت اور عالم اسلام کو مضبوطی اور قوت عطا فرمائے وہ اپنے دشمنوں سے اللہ کی تائید و نصرت کے ساتھ اپنا دفاع کرنے کے قابل بن سکیں۔ اللہ ہماری جان دشمنوں سے چھڑائے اور ہماری حفاظت و سلامتی فرمائے۔ آمین!
 

محمد سعد

محفلین
۔۔۔ کیونکہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ پاکستانی طالبان جرائم پیشہ افراد پر مشتمل قوت کا نام ہے ۔۔۔ وسلام

ویسے میرا مشاہدہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ میں نے اپنے اب تک کے مشاہدات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستانی طالبان کی اکثریت مخلص مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ بھی افغان طالبان کی طرح اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن چونکہ ایسی کوشش عالمی طاقتوں کے مفاد میں نہیں لہٰذا ان کوششوں کو ناکام کرنے کے لیے کبھی وہ مشرف جیسے لوگوں کے ذریعے ان پر جنگ مسلط کروا دیتے ہیں تو کبھی ان کے درمیان اپنے ایجنٹ داخل کر کے ان کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں (جیسا کہ حالیہ خبر سے صاف ظاہر ہوتا ہے)۔ اور ساتھ ساتھ ان کے خلاف پوری طاقت سے جھوٹا پراپیگنڈا بھی کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ پوری دنیا ان کے خلاف ہو جائے اور ان کا خاتمہ کرنا آسان ہو جائے۔
 
محمد سعد آپ کا پیش کردہ کالم پڑھ کر یاد آیا کہ آج ہی (21 اگست 2008(جنگ میں اس حوالے سے ایک خبر چھپی ہے
1335.gif

سرحدی علاقوں میں کون کون سے گروہ طالبان کے نام پر کیا کیا ادھم مچا رہے ہیں اس بارے میں مکمل تحقیقات کی اشد ضرورت ہے ورنہ خوامخواہ میں طالبان کو بدنام کرنے کا جو کھیل کچھ لوگ کھیل رہے ہیں وہ بھی انتہا پسندی کی ہی ایک شکل ہے
 

زیک

مسافر
سعد جو قوتیں اگر ایسے طالبان بھیج سکتی ہیں وہ کیا ان کے ختنے نہیں کرا سکتیں؟ عجیب بکواس لاجک ہے آپ کا۔

اب دیکھ لیں کیا کارنامہ کیا ہے آپ کے چہیتے طالبان نے واہ کینٹ میں۔ جاہل کتے!!!
 

مہوش علی

لائبریرین
افغانی طالبان اور گرلز کالجز وغیرہ کے متعلق بعد میں۔ انشاء اللہ۔

از ابن حسن:
۔انfrenziesلوگوں کا رویہ واقعتا بڑا دلچسپ ہے ان کے نزدیک ظلم وہ ہے جو طالبان کرتے ہیں اور خون اس fluid کا نام ہے جو آج کل صرف طالبان کے ہاتھوں بہ رہا ہے چنانچہ اس فارمولے کے تحت لال مسجد، لال مسجد والوں کے خون میں‌نہا کر مزید سرخ ہو گئی لیکن چوں کہ اولا تو بقول بعض کہ وہ اپنی حرکتوں کے باعث مباح الدم ہو چکے تھے اس لیے لال مسجد والوں کا خون جائز تھا اور بقول بعض ان میں تو خون تھا ہی نہیں کیونکہ خون تو اس fluid کا نام ہے جو آج کل صرف طالبان کے ہاتھوں بہ رہا ہے۔

کمال بات یہ ہے کہ لال مسجد آپریشن سے کہیں پہلے جب لال مسجد اور طالبان اپنے مدارس میں اپنے بچوں کو کھل کر خود کش حملوں کی تعلیم سالوں سے دیے جا رہی ہے وہ آپ کو کبھی نظر نہیں آیا۔
اسی دہشت گردی کی تعلیم اور برین واشنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ اس لال مسجد اور طالبانی مدارس نے ایسے دہشت گرد ظالم خود کش حملہ آور پیدا کیے ہیں کہ جن کی رگوں میں خون نہیں بلکہ دوسرے معصوموں کے لیے صرف اور صرف زہر بھرا ہوا ہے۔

اور بے گناہ انسانی جان لینا کا عذاب بہت بڑا ہے۔ اگر حکومت وقت ان زہریلے ناگوں کو یونہی کھلا چھوڑ دے گی تو ان تمام بے گناہ انسانی جانوں کی ذمہ دار ان ناگوں سے زیادہ قرار پائے گی۔

رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو کچھ اسباق دیے۔ مثلا:

1۔ مرنے والوں کی لاشوں کا کچلا نہ کیا جائے [ ۔۔۔ مگر اگر کوئی برہنہ کر کے چوک پر لٹکا دے، یا ہاتھ پاوں و سر کاٹ کر دور جہالت کے ابو جہل کی سنت پر عمل کرے تو؟؟؟؟]

2۔ ہسپتالوں پر حملہ ۔۔۔۔۔یہود و ہنود بھی یہ ظلم و ستم دیکھ کر شرما جائیں۔

3۔ جنازہ لے جانے والوں پر حملہ۔۔۔۔۔ یہ سنت بھی ادا کی جا چکی۔

اسی لیے علی ابن ابی طالب نے فتنے کے ڈر سے ہی تمام کے تمام خوارج کو قتل کروایا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اُن کا فتنہ اس سے کہیں زیادہ معصوموں کے خون بہنے کا باعث بن جاتا۔ کیا خوارج کی رگوں میں خون کی بجائے Fluid دوڑ رہا تھا؟ [خوارج کی رگوں میں زہر کا Fluid دوڑ رہا تھا اور انہیں ایسا برین واش کر دیا گیا تھا کہ "ابن ملجم" نے اسلام کی فتح اس میں جانی کہ وہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے "خود کش حملے" کا بانی بن کر علی ابن ابی طالب کو شہید کر دے۔

[جی ہاں، آجکل جتنے خود کش حملے ہو رہے ہیں، وہ سب کے سب ابن ملجم خارجی کی سنت پر عمل کر رہے ہیں]۔
 
]کمال بات یہ ہے کہ لال مسجد آپریشن سے کہیں پہلے جب لال مسجد اور طالبان اپنے مدارس میں اپنے بچوں کو کھل کر خود کش حملوں کی تعلیم سالوں سے دیے جا رہی ہے وہ آپ کو کبھی نظر نہیں آیا۔
اسی دہشت گردی کی تعلیم اور برین واشنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ اس لال مسجد اور طالبانی مدارس نے ایسے دہشت گرد ظالم خود کش حملہ آور پیدا کیے ہیں کہ جن کی رگوں میں خون نہیں بلکہ دوسرے معصوموں کے لیے صرف اور صرف زہر بھرا ہوا ہے۔
اوپر آپ نے بالخصوص لال مسجد کے حوالے سے بات کی ہے کوئی ایک حوالہ صرف کوئی ایک حوالہ کہ کوئی خودکش حملہ ہوا ہو اور اس کی ذمہ داری لال مسجد والوں نے قبول کی ہو یا حکومتی سطح پر ان پر عائد کی گئی۔ حوالہ عطا کیجئے اور شکریہ کا موقعہ عنایت کیجئے،

وہ تمام باتیں جو اس مسئلے کے حقیقی حل کی جاتی ہیں آپ ان کو محض جذباتی کہ کر رد کر دیتی ہیں اور خود بعض گروہوں کے معاملات میں آپ کا رویہ محض سطحی جذباتیت پرمبنی ہے۔

مرنے والوں کی لاشوں کا کچلا نہ کیا جائے [ ۔۔۔ مگر اگر کوئی برہنہ کر کے چوک پر لٹکا دے، یا ہاتھ پاوں و سر کاٹ کر دور جہالت کے ابو جہل کی سنت پر عمل کرے تو؟؟؟؟]

2۔ ہسپتالوں پر حملہ ۔۔۔۔۔یہود و ہنود بھی یہ ظلم و ستم دیکھ کر شرما جائیں۔

3۔ جنازہ لے جانے والوں پر حملہ۔۔۔۔۔ یہ سنت بھی ادا کی جا چکی۔

کچلا؟؟؟ آپ شاید مثلہ کہنا چاہ رہی ہیں۔ جی ہاں بالکل نبی پاک نے اس سے منع کیا ہے اور ویسے جو کوئی بھی غلط کام کرے اسپتالوں پر حملہ کرے یا جنازوں پر حملہ کر وہ قابل مذمت ہے تاہم تاہم افغان طالبان نے کب اسپتالوں یا جنازوں پر حملہ کیا ہے؟؟ اور ساتھ اپنی فہرست میں یہ اضافہ کر لیجئے
1۔ جو کوئی معصوم لوگوں کے گھروں پر بمباری کرے وہ بھی قابل مذمت جیسا کہ آپ کا ممدوح امریکا
2۔ جو کوئی شادی بیاہ کی تقاریب پر حملہ کرے وہ بھی قبل مذمت جیسا کہ آپ کا مشفی امریکا
3۔ جو کوئی فرقہ واریت پھیلائے جیسا کہ پاکستانی طالبان یا مہدی ملیشاء وہ بھی قابل مذمت

براہ مہربانی تصویر کے دونوں رخ دیکھیے اور دیکھائے۔اور اب یہ بتائیے آپ کے فارمولے کے تحت امریکا اور مہدی ملیشاء دجال، شیطان اور ابو جہل کے پروکار ہیں یا نہیں۔ میرے خیال میں تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔
 
ابن ملجم" نے اسلام کی فتح اس میں جانی کہ وہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے "خود کش حملے" کا بانی بن کر علی ابن ابی طالب کو شہید کر دے
ویسے ابن ملجم نے کوئی خودکش حملہ نہیں کیا تھا سیدنا حضرت علی پر اس نے قاتلانہ حملہ کیا تھا بعد میں یہ قصاصا قتل کیا گیا۔ اسلامی تاریخ میں‌خودکش حملہ کا بانی تو ابو لولوہ فیروز نامی لعین ہے جس نے سیدنا حضرت عمر کو شہید کر کے خود خودکشی کر لی تھی (کذا فی الطبقات الکبریٰ لابن سعد(
اور اب ایسا ہی فتنہ ابو لولوہ فیروز کی معنوی اولاد مسلمانوں کے خلاف بر پا کر رہی ہے۔ ابولولوہ نے جس طرح اپنے وقت کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے خلاف سازش کی اور سربراہ مملکت کو شہید کر ڈالا اسی طرح طالبان کی اسلامی ریاست کے خلاف پہلے تو پڑوسی ممالک نے سازشیں کیں اور پھر دجال وقت امریکا نے حملہ کر کے اس ریاست کو ختم کر ڈالا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اوپر آپ نے بالخصوص لال مسجد کے حوالے سے بات کی ہے کوئی ایک حوالہ صرف کوئی ایک حوالہ کہ کوئی خودکش حملہ ہوا ہو اور اس کی ذمہ داری لال مسجد والوں نے قبول کی ہو یا حکومتی سطح پر ان پر عائد کی گئی۔ حوالہ عطا کیجئے اور شکریہ کا موقعہ عنایت کیجئے،

اگر یہ دہشت گرد خود کش حملہ آور ان انتہا پسند مدرسوں میں خون ریزی کی تبلیغ کرنے پر پیدا نہیں ہوئے ہیں تو پھر یقینا یہ آسمان سے یکایک نازل ہو گئے ہیں۔
غازی برادران کھل کر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ حکومت ان کے جرائم کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اپنے آپ کو ان انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنا دے ورنہ انکے خود کش حملہ بردار حملے کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
اب بھی اگر کوئی ان انتہا پسندوں کی حمایت کرے اور یہ جھوٹے دعوے کرے کہ:
1۔ یہ انتہا پسند مدارس exist نہیں کرتے کہ جہاں بچوں کو خود کش حملوں کے لیے برین واش کیا جاتا ہے۔
2۔ یہ لوگ طاقت کے زور پر خون ریزی کر کے پوری قوم کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں۔
3۔ اور غازی برادران اور طالبان کے ملا عمر اور القاعدہ کے الظہواری نے کبھی پاکستان کو خود کش دہشت گرد حملوں کی دھمکیاں نہیں دیں اور کبھی خون و غارت کی تبلیغ نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔

ایسے سب جھوٹے دعووں پر بس اللہ اور اسکے رسول [ص} کو ہی اپنا گواہ بنایا جا سکتا ہے، اور ہمارا کام تو صرف ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر اسے واضح کر دینا ہے۔ اب باقی کوئی مانتا ہے یا نہیں یہ معاملہ اللہ اور اس شخص کے اپنے درمیان ہے۔

کچلا؟؟؟ آپ شاید مثلہ کہنا چاہ رہی ہیں۔ جی ہاں بالکل نبی پاک نے اس سے منع کیا ہے اور ویسے جو کوئی بھی غلط کام کرے اسپتالوں پر حملہ کرے یا جنازوں پر حملہ کر وہ قابل مذمت ہے تاہم تاہم افغان طالبان نے کب اسپتالوں یا جنازوں پر حملہ کیا ہے؟؟ اور ساتھ اپنی فہرست میں یہ اضافہ کر لیجئے
1۔ جو کوئی معصوم لوگوں کے گھروں پر بمباری کرے وہ بھی قابل مذمت جیسا کہ آپ کا ممدوح امریکا
2۔ جو کوئی شادی بیاہ کی تقاریب پر حملہ کرے وہ بھی قبل مذمت جیسا کہ آپ کا مشفی امریکا
3۔ جو کوئی فرقہ واریت پھیلائے جیسا کہ پاکستانی طالبان یا مہدی ملیشاء وہ بھی قابل مذمت
براہ مہربانی تصویر کے دونوں رخ دیکھیے اور دیکھائے۔اور اب یہ بتائیے آپ کے فارمولے کے تحت امریکا اور مہدی ملیشاء دجال، شیطان اور ابو جہل کے پروکار ہیں یا نہیں۔ میرے خیال میں تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔
شکر ہے کہ آپ نے کسی حد تو یہ مانا کہ طالبان وحشی درندے ہیں جو انسانی لاشوں کا مثلہ کرنے اور انہیں برہنہ کر کے انکی بے حرمتی کرنے جیسے بھیانک جرائم میں مبتلا ہیں۔

اور جہاں تک انسانی جان پر ظلم و ستم کی بات ہے تو چاہے وہ طالبان ہو یا حکومت یا پھر مہدی ملیشیا یا پھر میری اپنی سگی بہن یا بھائی یا ماں باپ، ظلم صرف ظلم ہوتا ہے اور انسانیت سے انصاف سب سے پہلی شرط ہے۔

اگر مہدی ملیشیا نے قتل و غارت کیا ہے تو ان کی مذمت فرض ہے۔

مگر انتہا پسندی یہ ہے کہ انسان اپنی نفرت میں غلط اور صحیح کی تمیز کھو دے۔

کبھی انسان کو جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا ہوتی ہے اور کبھی ایک جنگ میں جارح و دفاع کرنے والے میں تمیز کرنا پڑتی ہے۔ سب کو ایک ڈنڈے سے ہانکنے کا نام ناانصافی و ظلم ہے۔

اور طالبان ایک وہ ظالم و خونخوار قوم ہے جس کی ہر ممکن کوشش تھی کہ ہر طرف قتل و غارت کر کے دوسروں پر قبضہ کر لے۔ اور جو کوئی انکی طاقت کو قبول نہ کرے اُسے ہر ہر صورت میں قتل کر دیا جائے۔ Co-Existance نامی کوئی چیز طالبانی لغت میں موجود نہیں۔

اور حکومت پاکستان، پاکستانی حکومت کے سپورٹر قبائل، مہدی ملیشیا، بریلوی مسلمان، پاکستانی عیسائی برادری۔۔۔۔ ان سب کے مقابل طالبان جارح ہونے کی گنہگار ہے اور قتل و غارت کی مجرم ہے اور اگر آج یہ لوگ انکا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی قوتیں مجتمع کر رہے ہیں تو یہ انکی دفاعی جنگ ہے۔ [اور جب یہ عارضی وقفہ ختم ہو تو آخر میں میں صرف اور صرف پاک آرمی کو پاک زمین پر بمع اسلحہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ کوئی طالبان نہیں اور نہ ہی کوئی اور ملیشیا چاہے وہ مہدی ملیشیا ہی کیوں نہ ہو بلکہ صرف اور صرف پاکستانی قانون کی بالادستی ہو۔مگر جب بھی ہم پاک فوج کی ان فاٹا علاقوں میں بالادستی کی بات کرتے ہیں تو بہت ادب کے ساتھ مگر طالبان کے حمایتی حضرات کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ پاک فوج کے مقابلے میں وحشی طالبان کو اور صرف اور صرف ان طالبان کی درندگی کو حکومت کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں]

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو امریکا ہی نے طالبان کی ناجائز ولادت کروا کر اسے افغانستان میں اسلحہ اور معصوم ملسمانوں کی خون ریزی کا لائسنس دے کر حکومت میں لایا تھا۔
اور اب طالبان امریکا کا یہ قرض ادا کر رہی ہے اور اپنی جاہلانہ اور وحشیانہ حرکتوں سے اسی اسلحے و قوت کے بل بوتے پر امریکا کو موقع دے رہی ہے کہ وہ آ کر اس خطے میں اپنے قدم جمائے۔ اور جب تک طالبان اپنی وحشی کاروائیوں کے ساتھ یہاں متحرک رہیں گے اس وقت تک امریکہ کو بھی اس خطے میں اپنے پنچے گاڑے رکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ امریکا کے پنجے اس خطے سے اکھاڑ دیے جائیں تو اسکے لیے سب سے پہلے طالبان کے فتنے کا مکمل قلع قمع کرنا ہو گا ورنہ خطے کو امریکہ سے نجات دلانا محال ہے۔

اور جس دن طالبان کے فتنے کا عراق میں موجود القاعدہ کے فتنے کی طرح قلع قمع ہو گیا [یا یہ اس حد تک کنٹرول میں آ گئے کہ ان کی تمام دہشت گردی کی تربیت دینے والے کیمپ تباہ ہو جائیں] اُس دن امریکہ کے پاس بھی خطے میں موجود رہنے کا کوئی جواز و بہانہ نہ ہو گا اور عراق کی طرح ادھر سے بھی اسے نکلنا پڑے گا۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ویسے ابن ملجم نے کوئی خودکش حملہ نہیں کیا تھا سیدنا حضرت علی پر اس نے قاتلانہ حملہ کیا تھا بعد میں یہ قصاصا قتل کیا گیا۔ اسلامی تاریخ میں‌خودکش حملہ کا بانی تو ابو لولوہ فیروز نامی لعین ہے جس نے سیدنا حضرت عمر کو شہید کر کے خود خودکشی کر لی تھی (کذا فی الطبقات الکبریٰ لابن سعد(

ابو لولو فیروز غیر مسلم تھا اور اسے اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

جبکہ ابن ملجم خارجی کلمہ گو مسلمان تھا اور اسلامی تاریخ میں یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے خوارج کی گمراہ کن برین واشنگ سے متاثر ہو کر سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ کی راہ کا مجاہد بننے کے لیے علی ابن ابی طالب پر خود کش/قاتلانہ حملہ کیا۔

خود کش حملے اور قاتلانہ حملے کرنے میں کوئی زیادہ فرق نہیں اور دونوں ہی اس نیت سے کیے جاتے ہیں کہ وہ اللہ کی راہ میں جان دے رہے ہیں۔

ابن ملجم کو کو یقین تھا کہ وہ کوفے کی بھری مسجد میں سب لوگوں کے سامنے علی ابن ابی طالب پر حملہ کرنے جا رہا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ وہ پکڑا جائے گا اور مارا جائے گا، مگر خوارج تعلیمات نے اسے اس گمراہ کن طریقے سے برین واش کیا کہ وہ سمجھتا تھا کہ علی ابن ابی طالب پر ایسا قاتلانہ حملہ کر کے [کہ جس میں چاہے اسکی جان ہی کیوں نہ چلی جائے] وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی فضیلت کا کام کرنے جا رہا ہے۔

تو اسلامی تاریخ میں اسلامی تعلیمات آ جانے کے بعد اور اسلامی شریعت مکمل ہو جانے کے بعد یہ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پہلا قاتلانہ خود کش حملہ تھا اور اُس دن جو اس سنت کی بنیاد ابن ملجم خارجی نے رکھی، اسی سنت پر آج طالبان قاتلانہ خود کش حملہ آور دل و جان سے عمل پیرا ہیں اور سمجھتے ہیں یوں کلمہ گو مسلمانوں پر خود کش حملے کر کے وہ اسلام کی بہت بڑی خدمت اور جہاد کر رہے ہیں۔

///////////////////////////////
از ابن حسن:
اور اب ایسا ہی فتنہ ابو لولوہ فیروز کی معنوی اولاد مسلمانوں کے خلاف بر پا کر رہی ہے۔ ابولولوہ نے جس طرح اپنے وقت کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے خلاف سازش کی اور سربراہ مملکت کو شہید کر ڈالا
ابو لولو فیروز غیر مسلم تھا اور اسکا اسلام اور اسلامی شریعت یا اسلامی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور اس نے جو حملہ کیا وہ اسکی ذاتی رنجش کی بنا پر تھا۔

تحقیق کے بعد مجھ پر صرف یہ بات ثابت ہے کہ ابو لولو پر دوسروں کی نسبت بھاری ٹیکس عائد تھا جس پر اُس نے خلیفہ وقت کے پاس آ کر شکایت کی مگر وہاں انکا جھگڑا ہو گیا اور ذاتی رنجش و غصے میں آ کر جھگڑے کے اگلے دن وہ خلیفہ وقت کو قتل کرنے کے لیے چل نکلا۔

از ابن حسن:
اسی طرح طالبان کی اسلامی ریاست کے خلاف پہلے تو پڑوسی ممالک نے سازشیں کیں اور پھر دجال وقت امریکا نے حملہ کر کے اس ریاست کو ختم کر ڈالا۔
اور اس سے قبل اسی دجال وقت امریکہ نے دہر کے یاجوج ماجوج طالبان و القاعدہ کو سازش کے تحت ناجائز طریقے سے جنم دیا، پھر اسلحہ و وسائل دے کر پالا پوسا بڑا کیا اور پھر لاکھون مسلمانوں کا قتل انکے ہاتھوں سے کرواتے ہوئے انہیں حکومت میں لائے اور پھر انکی وحشیانہ درندگیوں کو بہانہ بناتے ہوئے خود اس خطے میں آ کر اپنے پنجے گاڑ دیے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top